عالمی حکومت کا نظام کب نافذ ہوگا، یہ تو پورے یقین سے کوئی بھی نہیں کہہ سکتا۔ ہاں، اتنا ضرور ہے کہ چند بڑی حکومتوں نے مل کر اب اقوام متحدہ کی چھتری تلے گرین ورلڈ آرڈر کے نفاذ کی تیاری مکمل کرلی ہے۔ عالمگیر حکمرانی کے نظام کے تحت نافذ کیے جانے والے اس نظام یعنی ماحول دوست طریق کار کے لیے چند بڑی حکومتوں کو ایسے فیصلے بھی کرنے پڑیں گے جنہیں خود ان کے ممالک میں بھی پسند نہیں کیا جائے گا۔ دنیا بھر میں کاربن ڈایوکسائڈ کا اخراج ایک بڑا مسئلہ ہے۔ کوشش کی جارہی ہے کہ اس کے اخراج کو اس حد تک کنٹرول کیا جائے کہ اس سے ماحول کو مزید نقصان پہنچنے کا احتمال باقی نہ رہے۔
۲۰۱۲ء تک گرین ورلڈ آرڈر نافذ کرنے کی تیاریاں جاری ہیں۔ اس سلسلے میں کم از کم ۴۵ ہزار ارب ڈالر کی ضرورت پڑے گی جس کا اہتمام ترقی یافتہ دنیا کرے گی۔ اس نظام کے نفاذ کا بنیادی مقصد دنیا کو ماحول دوست انداز سے چلانا اور اختیارات سمیٹ کر چند ہاتھوں میں مرتکز کرنا ہے۔ بہت سے ممالک اور خطوں کی آزاد حیثیت اور اقتدار اعلیٰ اس نظام کے نفاذ سے خطرے میں پڑ جائیں گے۔ کئی معیشتیں تباہی سے دوچار ہوں گی۔ دسمبر ۲۰۰۹ء میں کوپن ہیگن میں ماحولیات سے متعلق کانفرنس ناکام رہی تھی جس کے باعث یہ خیال ظاہر کیا جارہا تھا کہ اب اس معاملے کو دبا دیا جائے گا اور ترقی یافتہ دنیا کوئی بھی قدم اٹھانے سے گریز کرے گی۔ یہ تصور بھی عام تھا کہ اب عالمی حدت میں اضافے سے متعلق غلغلہ ختم ہو جائے گا۔ مگر ایسا نہیں ہوا بلکہ ترقی یافتہ دنیا زیادہ مستعد ہوکر، کمر کس کر میدان میں نکل آئی ہے۔
عالمی ماحول کو نقصان سے بچانے کے لیے ترقی یافتہ ممالک ایک بار پھر مذاکرات کی راہ ہموار کر رہے ہیں۔ جون اور جولائی میں نئے مذاکرات متوقع ہیں۔ ۲۰۱۲ء میں برازیل کے دارالحکومت ریو ڈی جنیرو میں پائیدار ترقی کے بارے میں بین الاقوامی سربراہ کانفرنس منعقد ہوگی۔ اسی شہر میں ۲۰ سال قبل ارتھ سمٹ ہوئی تھی۔ پائیدار ترقی سے متعلق سربراہ کانفرنس در اصل ارتھ سمٹ کی بیسویں سالگرہ کے حوالے سے ہے۔ اس کانفرنس میں طے کیا جائے گا کہ دنیا کو مرکزی حیثیت میں کس طرح چلانا ہے۔ امریکی ٹی وی چینل فوکس نیوز کے جارج رسل کا کہنا ہے کہ گرین ورلڈ آرڈر کے نفاذ کی راہ میں سب سے بڑی مشکل فنڈنگ کی ہے۔ اس ورلڈ آرڈر کے نفاذ سے دنیا بھر میں غیر معمولی معاشی اور معاشرتی تبدیلیاں رونما ہوں گی۔ کئی ممالک کی معیشت اور معاشرت مکمل طور پر تبدیل ہوسکتی ہے۔ اس کے لیے اضافی ڈھانچے کی ضرورت پیش آئے گی۔ قومی اور عالمگیر سطح پر حکومتوں کو نیا ڈھانچا سمجھنا ہوگا۔ انہیں تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کے تناظر میں یہ سمجھنا ہوگا کہ کون سے مواقع پیدا ہو رہے ہیں اور کون سے پیدا ہوسکتے ہیں۔
گرین ورلڈ آرڈر کے نفاذ کے لیے ترقی یافتہ ممالک میں کاربن کے استعمال پر ٹیکس میں اضافہ متوقع ہے تاکہ لوگ اس معاملے میں زیادہ محتاط رویہ اختیار کریں۔ ترقی یافتہ ممالک کی جانب سے پس ماندہ اور ترقی پذیر ممالک میں فنڈنگ کی جائے گی تاکہ وہ بہتر ماحول میں زندگی بسر کرسکیں۔ کاربن کے استعمال پر ٹیکس سے ترقی یافتہ دنیا میں معاشی اور معاشرتی تبدیلیاں رونما ہوں گی۔ ان ممالک کے باشندے قدرتی وسائل کے استعمال میں زیادہ احتیاط برتنے لگیں گے۔ ملازمتوں کا ڈھانچا بھی تبدیل ہوگا۔ ماحول دوست شعبوں میں ملازمت کے بہتر مواقع پیدا ہوں گے۔ لوگ چاہیں گے کہ اس ڈھنگ سے کام کریں کہ ماحول کو نقصان نہ پہنچے۔ مگر دوسری جانب بہت سے شعبوں میں ملازمتوں کے مواقع کم سے کم ہوتے جائیں گے۔ ماحول کو نقصان سے دوچار کرنے والے شعبوں میں سرمایہ کاری کی سطح گرنے سے ملازمتیں بھی کم ہوتی جائیں گی۔ ایسے میں لوگوں کو نئے شعبوں کی طرف راغب ہونا پڑے گا اور اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو مشکلات سے دوچار ہوں گے۔ اسپین اور کئی دوسرے یورپی ممالک میں ایسا ہوچکا ہے۔ گرین موومنٹ کے ہاتھوں کئی ممالک کی معیشتیں تباہی سے دوچار ہوئی ہیں۔ اسپین میں توانائی کے متبادل ذرائع کو فروغ دینے کی کوششوں سے ایسے حالات پیدا ہوئے کہ بیروزگاری کی سطح ۱۸ فیصد تک پہنچ گئی۔
اس بات کو سمجھنا ہوگا کہ ہر ماحول دوست جاب کم از کم ۲ء۲ جابس کو ختم کرے گی۔ یعنی تقریباً پانچ ملازمتیں ختم ہوگی تب کہیں جاکر دو نئی ملازمتیں پیدا ہوں گی۔ اس کے نتیجے میں بیروزگاری کی شرح کس قدر بلند ہوگی، اس کا اندازا لگانا کچھ مشکل نہیں۔ امریکا میں یہ صورت حال وہی ڈپریشن پیدا کرے گی جو ۱۹۲۹ء میں نمودار ہوا تھا اور جس نے لوگوں کو شدید مشکلات سے دوچار کیا تھا۔ گرین ورلڈ آرڈر کے نفاذ اور کاربن کے اخراج میں ۵۰ سے ۸۰ فیصد کمی لانے کی کوششوں سے امریکا کی خام قومی پیداوار میں ۹ء۶ فیصد کمی واقع ہوگی۔ اس کے نتیجے میں بیروزگاری بھی بڑھے گی۔
گرین ورلڈ آرڈر کا نفاذ کوئی آسان کام نہیں۔ اس کے لیے نیا قانونی ڈھانچا بھی تیار کیا جارہا ہے۔ امریکا اور دوسرے بہت سے ممالک میں روایتی شعبوں میں سرمایہ کاری کی سطح گر چکی ہے۔ یہ صورت حال ایک نئی دنیا کو جنم دے رہی ہے جس میں سب کچھ نیا ہوگا اور اس نئی دنیا کے لیے سبھی کو تیار ہونا پڑے گا۔
(بحوالہ: “globalresearch.ca”)
Leave a Reply