
ایرانی ذرائع ابلاغ نے حال ہی میں سعودی شاہ سلمان کے دورہ ملائیشیا کو بھرپور کوریج دی۔ ریاستی میڈیا اور پاسدارانِ انقلاب سے قریبی تعلق رکھنے والے چینلز نے دونوں ممالک کے درمیان بڑھتے ہوئے معاشی تعلقات پر خصوصی مباحثے کیے۔ مگر جس بات نے ایرانی ذرائع ابلاغ کی بھرپور توجہ حاصل کی وہ سعودی عرب اور ملائشیا کے رہنماؤں کا مشترکہ بیان تھا کہ ــ’’ایران خطے کے ممالک کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کر رہا ہے‘‘ اور اس بات پر زور دیا گیا کہ ’’ایران دوسرے ممالک کی خودمختاری کا خیال رکھے‘‘۔
تسنیم نیوزایجنسی (جسے پاسداران انقلاب کی آواز سمجھا جاتا ہے) نے لکھا ہے کہ سعودی بادشاہ کے ملائشیا کے دورے کا نتیجہ’’ایران مخالف مشترکہ لائحہ عمل‘‘ کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ اور مزید وضاحت کی کہ ’’ایران پر لگائے جانے والے الزامات بے بنیاد ہیں‘‘۔ ایران کے پریس ٹی وی نے یہ بھی قیاس آرائی کی کہ یمن کی جنگ میں سعودی عرب کے کتنے اخراجات ہوئے اور تیل کی قیمتیں کم ہونے کی وجہ سے سعودی حکومت نے مشرقی ایشیائی ممالک کو اس بات پر متحد کیا ہے کہ وہ سعودی عرب میں سرمایہ کاری کریں اس طرح ملکی معیشت کو سہارا مل سکے۔
اسلامک ری پبلک نیوز ایجنسی، جو ۱۹۶۰ء سے سعودی ملائشیا تعلقات پر گہری نظر رکھتی ہے، اس کا کہنا ہے کہ ریاض نے ملائیشیا پر اپنے اثرورسوخ میں اضافہ کیا ہے اور اس نے بڑے پیمانے پر ملائیشیا کی مالی مدد کا بھی اعلان کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہاں سرمایہ کاری میں بھی اضافہ کیا ہے۔
ریاض اور کوالا لمپور کے درمیان بڑھتے ہوئے دفاعی اور معاشی تعلقات سے تہران پریشانی کا شکار ہے۔ ملائیشیا کی فوج ۲۰۱۵ ء سے سعودی فوج کے ساتھ مل کریمن میں حوثی باغیوں کا مقابلہ کر رہی ہے، جنھیں ایران کی مدد حاصل ہے۔ تہران کو سعودی عرب کا ملائیشیا و دیگر مشرقی ایشیائی ممالک کے ساتھ اتحاد خوفزدہ کر رہا ہے اور اسے خدشہ ہے کہ اس سے ایران کو معاشی طو ر پر اور ان کے خطے میں مفادات کو بری طرح نقصان پہنچے گا، اور وہ بھی ایسے موقع پر جب ایران سے بہت ساری پابندیاں ہٹائی گئی تھیں۔ اور وہ اپنی معیشت کو پھیلانے اور ملائیشیا اور دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کا سوچ رہا تھا۔جنوری ۲۰۱۶ء کے بعد سے، جب ایران پر سے بین الاقو امی ایٹمی پابندی ختم ہوئی تھی، ملائیشیا اور ایران کے حکام کی کئی ملاقاتیں ہوئیں اور اس بات پر گفتگو ہوئی کہ تعلقات کو کس طرح استوار کیا جاسکے۔دسمبر میں ملائیشیا کی ایک کمپنی BHD National Petroliam نے ایک ابتدائی معاہدہ کیا تھا، جس کے تحت کمپنی کوایران کے دو تیل کے ذخائر پر تحقیق کرنی تھی تاکہ تیل اور گیس کی پیداوار کو بڑھایا جاسکے۔دونوں ممالک مل کر ممکنہ آزاد تجارتی معاہدے پر بھی کام کر رہے ہیں۔
سعودی عرب اور ملائیشیا کا مشترکہ بیان اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ نہ صرف مشرق وسطی بلکہ اس سے بھی آگے کے مما لک خطے اور مسلم دنیا پر ایران کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کے حوالے سے فکر مند ہیں۔
(ترجمہ: عبد الرحمن کامران)
“Growing ties between Riyadh and Kuala Lumpur unnerve Tehran”.
(“mei.edu”. March 01, 2017)
Leave a Reply