کابل میں بالادستی رکھنے والے بہت سے افغان، خاص طور پر تاجک اور ہزارہ گروہ گلبدین حکمت یار کو سخت ناپسند کرتے ہیں، تاہم جنوبی علاقوں میں رہنے والے ایسے پشتونوں کی تعداد بھی کم نہیں جو آج بھی اُن کے حامی ہیں۔ حکمت یار وہ پہلے جنگجو سردار نہیں ہیں جو طویل اور خوفناک جنگ کے دھوئیں سے نکل کر منظرِ عام پر آتے ہوئے اپنی اہمیت جتانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس دوران پوچھا جانے والا سوال یہ ہے کہ کیا وہ موجودہ زمینی حقائق کے مطابق خود کو ڈھالنے اور کوئی کردار ادا کرنے کے قابل ہیں؟ بلا مبالغہ افغانستان میں سچ بولنے کی روایت بری طرح مسخ ہوچکی ہے لیکن جنگوں میں ایسا ہی ہوا کرتا ہے۔
جہاں تک طویل جلاوطنی کے بعد حکمت یار کی دوبارہ کابل آمد کا تعلق ہے اُس کے وقت کا محتاط طریقے سے جائزہ لینا ہوگا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کئی برسوں سے افغان حکومت میں حزب اسلامی کی نمائندگی موجود رہی ہے۔ ایسے میں حکمت یار نے بھی ناگزیر صورت حال سے نباہ کرنے کا فیصلہ کرلیا، ان تمام برسوں کے دوران حکمت یار کا طالبان سے ٹکراؤ تھا، طالبان نے کسی برتر قوت کے کہنے پراُنہیں انتقام کا نشانہ نہیں بنایا۔ اگراس بات کا فیصلہ خود طالبان پر چھوڑ دیا جاتا تو وہ حکمت یار کو ختم کرچکے ہوتے۔
ایسا لگتا ہے حکمت یار کی قسمت کے ستارے عروج پر رہے۔ اُنہیں ننگرہار میں کوئی ڈرون کوئی بھی سوال پوچھے بغیر صفحہ ہستی سے مٹاسکتا تھا اور ایسا ممکن تھا۔ امریکا نے اُنہیں ۲۰۰۳ء میں انتہائی مطلوب دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کیا تھا تاہم سی آئی اے کے ڈرون اُن سے ’’پہلو تہی‘‘ کرتے رہے اور کوئی نہیں جانتا کہ کیوں؟ ایک دھندلی سی وضاحت یہ ہوسکتی ہے کہ شاید سابق امریکی صدر بارک اوباما کسی مرحلے پر افغانستان کے پلان بی کا امکان دیکھ رہے تھے۔ امریکا اور پاکستان کے درمیان حکمت یار کے حوالے سے سوچ میں کیا مماثلت ہوسکتی ہے؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ ماضی میں حکمت یار کے سی آئی اے اور پاکستان کے خفیہ اداروں سے تعلقات تھے اور عین ممکن ہے کہ وہ دیرینہ تعلقات ہی اب کام آرہے ہوں۔
گلبدین حکمت یار کا دوبارہ منظر عام پر آنا امریکا اور پاکستان دونوں کے لیے اہم ہوسکتا ہے۔ واشنگٹن کو خدشہ ہے کہ کابل حکومت تیزی سے کمزور ہوتے ہوتے کسی بھی وقت گرسکتی ہے۔ ایسے میں اس کے ہاتھ میں کوئی پلان بی ضرور ہونا چاہیے۔ اگر ایسا نہ ہو ا تو اسے ایک مرتبہ پھر ویتنام کی سی ہزیمت اٹھانا پڑے گی اور امریکا عالمی حالات کے تناظر میں اس کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ مزید یہ کہ اب چند ہزار فوجیوں سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ پاکستان کو بھی خطرہ ہے کہ اگر افغانستان بھرپور خانہ جنگی کی آگ میں دہک اٹھتا ہے تو اس کی تمازت ڈیورنڈ لائن کے اس پار بھی محسوس ہوگی۔ خطے میں داعش یا اس کی خراسانی شاخ کا ابھرنا پاکستان اور امریکا دونوں کے لیے انتہائی تشویش ناک ہے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اسلام آباد اور واشنگٹن کا مفاد اس میں ہے کہ افغانستان میں امن اور سیاسی استحکام رہے تاکہ ملک کو تباہی کی کھائی میں گرنے سے روکا جاسکے۔ اس بات کا امکان ہے کہ بہت جلد ٹرمپ انتظامیہ افغانستان کے حالات پر توجہ دے گی۔ وزیر دفاع جیمز میٹاس اور قومی سلامتی کے مشیر ایچ آر میک ماسٹر انہی خطوط پر سوچ رہے ہوں گے۔
افغان جنگجو سردار حکمت یار اس صورتحال میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ اس حوالے سے تین عوامل کو ذہن میں رکھنا ہوگا۔
پہلا یہ کہ طالبان اور حز ب اسلامی کے درمیان خیرسگالی کے جذبات موجود ہیں۔ کسی مرحلے پر حکمت یار طالبان قیادت سے ملاقات کرکے انہیں جنگ ختم کرتے ہوئے افغانستان کی حکومت میں شریک ہونے پر راضی کرسکتے ہیں۔ حزب اسلامی اور طالبان دونوں دھڑوں میں پشتون نسل کے لوگ شامل ہیں۔ حزب اسلامی میں روایتی طور پر کنڑ، لغمان، جلال آباد اور پکتیا کے علاقوں کے افراد شامل رہے ہیں اور اب ان علاقوں میں داعش کے ابھرنے کے آثار دکھائی دے رہے ہیں۔ داعش کو مقبولیت حاصل کرنے سے روکنے میں حکمت یار اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔
دوسرا یہ کہ کابل کی اشرافیہ پشتون دیہاتیوں سے فاصلہ رکھتی ہے جبکہ حکمت یار جنوبی علاقوں کے مقامی باشندوں کے درمیان رہتے ہیں۔ اس خطے میں اُن کی ۱۹۸۰ء کی دہائی کے افغان جہاد کی داستانیں مشہور ہیں۔
تیسرا یہ کہ تمام مجاہدین گروہوں میں حزب اسلامی ہی ایسا گروہ ہے جس کی جانب تعلیم یافتہ افغان نوجوان کشش محسوس کرتے ہیں۔ اس طرح طالبان کے پاس طاقتور بازو اور حزب اسلامی کے پاس دماغ ہے۔
جلال آباد اور کابل میں گلبدین حکمت یار کے حالیہ خطاب اسی ایجنڈے کی عکاسی کرتے ہیں۔ وہ طالبان کی طاقت کو کنٹرول کرکے مثبت مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے افغانستان کے لیے اسلامی نظام، مخلوط حکومت کو تحلیل کرنے، تمام غیر ملکی دستوں کی واپسی اور طالبان سے جنگ کے بجائے مفاہمت اور دوستی کا مطالبہ کیا ہے۔ پاکستان حکمت یار کو اُن کے بھارت مخالف موقف کے حوالے سے پسند کرتا ہے۔ اسی طرح امریکی بھی اُن پر اعتماد کرتے ہیں تاکہ روسیوں کو دور رکھا جاسکے۔ اگر امریکا واقعی پلان بی کی کامیابی چاہتا ہے تو اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ بھارت، روس اور ایران مل کر کوئی کھیل نہ کھیلیں۔ ٹرمپ انتظامیہ خطے میں جاری کشمکش کے خاتمے کے لیے بیجنگ کا تعاون چاہتی ہے۔ دوسری طرف چین خود بھی افغانستان کے استحکام میں ایک اسٹیک ہولڈر ہے۔ یہاں واحد چھپا رستم ایران ہے۔ ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے حال ہی میں کابل کا غیر اعلانیہ دورہ کیا۔ اس سے پہلے وہ پاکستانی وزیراعظم نواز شریف اور آرمی چیف جنرل قمر باجوہ سے ملاقات کرچکے تھے۔
اگرچہ خطے کے حالات ہنگامہ خیز تبدیلی کی طرف بڑھ رہے ہیں لیکن اس صورت حال کو حکمت یار کے لیے کسی طور پر موزوں قرارنہیں دیا جاسکتا۔ ۱۹۹۲ء میں وہ کابل پر قبضہ کرنے کے قریب تھے کہ تاجک کمانڈر احمد شاہ مسعود نے اُن کاراستہ روک لیا۔ طالبان کا تختہ الٹے جانے کے بعد اُنہوں نے پھر واپس آنے اور کابل پر کنٹرول سنبھالنے کی کوشش کی لیکن کسی اہم ملک اور ادارے نے اُن کا ہاتھ نہ تھاما۔ کابل پر حکومت قائم کرنے کی یہ اُن کی آخری کوشش ثابت ہوسکتی ہے۔ ۶۹ سالہ جنگجو سردار کے طویل ڈرامے کا آخری منظر دیکھا جانا باقی ہے۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Gulbuddin’s second coming: old Afghan warhorse back in fray”.(“atimes.com”. May 8, 2017)
Leave a Reply