
جب تک آپ کو ترکی کی سیاسی تاریخ کا ٹھوس علم نہ ہو، فتح اللہ گولن اور خذمت تحریک کی اس حساسیت کا سبب سمجھنا آپ کے لیے بہت مشکل ہو گا، جو وہ سرکاری، آئینی اور قانونی مسائل کے بارے میں رکھتی ہے، باوجود یہ کہ خذمت تحریک بنیادی طور پر ایک تعلیمی تحریک ہے، جو مکالمے پر زور دیتی ہے اور روزمرہ سیاست سے خود کو دور رکھنے کی کوشش کرتی ہے۔ اگر آپ کے ذہن میں ایسے سوالات ابھرتے ہیں جیسے ’خذمت تحریک ریاست سے کیا چاہتی ہے؟‘ یا ’گولن اپنے حامیوں کو کیوں سرکاری ملازمتیں قبول کرنے پر راغب کرتے آئے ہیں؟‘ یا ’خذمت سے متاثرہ لوگوں نے ذرائع ابلاغ کے بہت سے ادارے کیوں کھول رکھے ہیں؟‘ تو ان کے تسلی بخش جوابات پانے کے لیے آپ کو پہلے جدید ترک سیاسی تاریخ سے رجوع کرنا پڑے گا۔
ترکی کی ’جنگِ آزادی‘ ۱۹۱۹ء سے ۱۹۲۲ء تک کمیٹی آف یونین اینڈ پروگریس (CUP) کی زیر قیادت چلی، جس کے اکثر رہنما ترک قوم پرست، غیر مذہبی نظامِ حکومت کے حامی (Laicist)، ریاستی سوشلزم کے حامی (Etatist) اور انتہا پسند سیاسی کارکن (Jacobin) تھے جن کا عوام پر بھروسا نہ تھا۔ ان ہی سیاسی رہنمائوں نے اناطولیہ میں سیکولر ترک قوم کی تشکیل کا فیصلہ کیا، کیونکہ ان کا خیال تھا کہ اسلام اور سلطنتِ عثمانیہ کی بلحاظ نسل اور مذہب متنوع آبادی دونوں ہی سلطنت کے زوال کا سبب بنے ہیں۔ جنگ عظیم اول کے دوران اور اس کے بعد ترکی میں آرمینیائی، یونانی اور کرد باشندوں کے ساتھ جو کچھ ہوا، اسے تو دنیا جانتی ہے لیکن بہت کم لوگوں کو پتا ہے کہ اس دور میں عملی مسلمانوں پر، جو اس ملک میں ہمیشہ اکثریت میں رہے، کیا گزری۔
چند افراد پر مشتمل (Oligarchic) کمال پرست مقتدر طبقے نے ایسے لوگوں کو اپنے لیے ہمیشہ خطرہ سمجھا، جو تعلیم یافتہ شہری باشندے اور منظم عملی مسلمان ہوں۔ سیکولر ری پبلکن پارٹی کے دور میں مذہب کو ہمیشہ سلامتی کے لیے خطرہ سمجھا جاتا رہا۔ بالآخر ۱۹۹۱ء میں سابق وزیراعظم ترگت اوزال نے ’ضابطہ تعزیرات ترکیہ‘ (TCK) کی بدنما زمانہ دفعہ ۱۶۳ کو منسوخ کیا، اسی دفعہ کو استعمال کرتے ہوئے ریاست نے ہزاروں ایسے عملی مسلمانوں کو ناانصافی کے ساتھ جیلوں میں ٹھونس دیا تھا، جو محض مذہبی کتب پڑھنے کے مرتکب پائے گئے تھے اور ان کتب کا سیاست سے کوئی تعلق نہ تھا۔ اُس دور میں ذرائع ابلاغ پر ریاست کا سخت کنٹرول تھا، چنانچہ مذکورہ اسیروں کو غدار، جاسوس، دہشت گرد وغیرہ بنا کر پیش کیا جاتا رہا۔ ان کے بنیادی حقوق کے دفاع کے لیے انسانی حقوق کی تنظیمیں تھیں، نہ کوئی سول سوسائٹی۔ استبداد کا یہ عالم تھا کہ صرف کمال پرست گروہ کے منظور کردہ افراد ہی پولیس افسران، پراسیکیوٹر، فوجی اور جج مقرر ہو سکتے تھے اور یہ تقریباً تمام عہدیدار مقتدر طبقے کے غیر منصفانہ عزائم کو ہمیشہ پورا کرتے رہے۔
اس تاریخ کو مدنظر رکھتے ہوئے فتح اللہ گولن نے تعلیم کے شعبے پر زیادہ توجہ دی۔ انہوں نے اجتہاد سے کام لیتے ہوئے ہمیشہ یہ پیغام دیا کہ جو کاروباری افراد مذہبی رجحان رکھتے ہیں اور اسلام کی خدمت کرنا چاہتے ہیں، انہیں چاہیے کہ مساجد تعمیر کرنے کے بجائے سیکولر اسکول تعمیر کریں تاکہ وہاں سے مستقبل کے انجینئر، ڈاکٹر، وکلا، صحافی اور یقیناً پولیس افسران، پراسیکیوٹر اور جج حضرات نکلیں۔ صحافیوں اور ادیبوں کی تنظیم (GYV) نے حال ہی میں کہا ’’گولن اور خذمت تحریک نے متواتر یہی مطالبات کیے ہیں کہ یورپی یونین کی اصلاحات پر عمل کیا جائے، ترکی کو مکمل جمہوری بنایا جائے، قانون کی حکمرانی قائم کی جائے، عوام کو انتہائی بنیادی حقوق اور آزادیاں عطا کی جائیں، قانون کے سامنے سب کو مساوی حیثیت دی جائے، شہری آئین بنایا جائے، اور ریاست کا نظام شفاف بنایا جائے جو شہریوں کو جوابدہ ہو۔ گولن نے ان مقاصد کا حصول یقینی بنانے کے لیے کوششیں بھی کی ہیں‘‘۔
چنانچہ آج اگر بیورو کریسی میں ممکنہ طور پر ایک یا دو فیصد افراد کسی نہ کسی درجے میں خذمت تحریک سے متاثر ہیں تو یہ معمول کی بات اور جمہوریت کے عین مطابق ہے، ترکی کی آبادی میں بھی خذمت تحریک کے اثرات چند فیصد ہیں۔ گولن سے متاثر افراد روحانی اور مذہبی امور میں ازخود خذمت تحریک کی طرف دیکھتے ہیں، جبکہ بیوروکریسی اور انتظامی امور میں انہیں اپنے افسران کا حکم بجا لانا ہوتا ہے۔ خذمت تحریک اپنے حامیوں سے یہی توقع کرتی ہے کہ وہ عدل و انصاف سے کام لیں، قانون کے فرماں بردار ہوں اور قانون ہی کی حکمرانی قائم کریں، ان کا مزاج جمہوری ہو، وہ آزادیوں بشمول مذہبی آزادیوں اور انسانی حقوق کی پابندی کرنے والے ہوں۔ یہ تحریک جمہوری ماحول میں پروان چڑھتی ہے، یہ اس طریقہ کار سے چڑ رکھتی ہے جو ایرانی انقلاب کے نتیجے میں قائم حکومت کا ہے یعنی بالادست طبقے کی ہدایات پر نچلے طبقے کی فرماں برداری (Top-down)، کیونکہ خذمت کے نزدیک اس طریقے سے زیادہ تر غیر مخلص اور منافق شخصیات پیدا ہوتی ہیں۔
صحافیوں اور ادیبوں کی تنظیم کے بیان کے مطابق خذمت تحریک کا موقف ہے کہ ریاست کو کمزور کرنے والے ’متوازی ریاست‘ اور ’خودمختار بیورو کریٹس‘ جیسے مسائل کا ایک ہی حل ہے اور وہ ہے مکمل جمہوری اور شفاف ریاست جو یورپی یونین کے معیارات کی تعمیل کرتی ہو، جس پر قانون کی حکمرانی اور بالادستی ہو، اور ایسی حکومت ہو جو پارلیمان، عدلیہ، کورٹ آف اکائونٹس، ذرائع ابلاغ اور عوام کو جواب دہ ہو۔
ایک طرف خذمت تحریک ان مقاصد کے لیے کام کر رہی ہے اور دوسری طرف یہ بات واضح ہوتی جا رہی ہے کہ رجب طیب ارووان کی حکومت کے یہ مقاصد نہیں ہیں۔
(ترجمہ: منصور احمد)
(“Gülen, Hizmet, the state and the AKP”… “Today’s Zaman” Turkey. Jan. 1, 2014)
Leave a Reply