
سرمایہ داریت بظاہر سرمائے کے چند ہاتھوں میں ارتکاز کا نظام ہے تاہم اس مقصد کے حصول کے لیے اسے معیشت کے علاوہ دوسرے میدانوں میں بھی تگ و تاز کرنا پڑتی ہے‘ کیونکہ اس کے بغیر اسے اپنے بنیادی مقصد میں کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی۔ مذہب ہو‘ معاشرت ہو‘ سیاست و اقتدار ہو‘ عقائد ہوں‘ غرض انسانی زندگی کا کوئی ایسا شعبہ نہیں جس میں اسے رد و بدل کی ضرورت نہ پڑتی ہو۔ وہ ہمیشہ مذاہب کے نشیلے پہلوئوں کو اجاگر کرتا ہے۔ مثلاً وہ کچلے اور پسے ہوئے طبقات کو باور کرانے کی کوشش کرتا ہے کہ غربت‘ بیماری اور جہالت ان کی تقدیر ہے‘ لہٰذا وہ اپنی حالت پر صبر کریں۔ راضی بہ رضا رہیں اور اچھے دنوں کا انتظار کریں۔ مشیت خود ہی ان کے مسائل کے حل کا بندوبست کر دے گی یا یہ کہ دکھ اور تکلیفیں اﷲ کی دَین ہیں۔ بلکہ یہاں تک کہ وہ جن سے زیادہ محبت کرتا ہے‘ اُن ہی کو تکلیف میں ڈال کر آزماتا ہے۔ اب جہالت‘ جو غربت کا جزو لاینفک ہے‘ انہیں اس عقیدے پر یقین کرنے پر مجبور کر ڈالتی ہے اور پھر ان کی کئی کئی نسلیں اسی لعنت میں بیت جاتی ہیں۔ اسی طرح یہ نظام مقامی ثقافتوں کو بھی پنپنے نہیں دیتا کہ اس طرح قوموں کو اپنی انا اور بھرم کا احساس رہتا ہے۔ ان ثقافتوں کو آلودہ کرنے کے لیے اس نظام کے گماشتے سماجوں کو ان کے قومی احساسات سے بے حس کر دیتے ہیں۔ اقوام کی تاریخوں میں رد و بدل کر دیا جاتا ہے جس سے منفی‘ مثبت میں اور مثبت منفی میں بدل جاتا ہے۔ ایک ہی قوم اور ایک ہی خطے میں رہنے والے قومیتوں میں بٹ جاتے ہیں اور ایک دوسرے کو غاصب قرار دینے لگتے ہیں۔ سرمائے کے ارتکاز سے مطمتع اقوام اپنے درمیان اتحاد و اتفاق کی طرح ڈال لیتی ہیں لیکن غریب اقوام میں قوم پرستی کا بیج بو دیا جاتا ہے۔ گورے کو کالے پر فضیلت مل جاتی ہے۔ کالے کو درجۂ انسانیت سے دھکا دے کر نیچے گرا دیا جاتا ہے۔
ہیٹی میں چند ہفتے قبل آنے والے زلزلے کا شمار دنیا کے چند بڑے ارضی جھٹکوں میں ہوتا ہے۔ یہاں کے لوگ سیاہ فام تو اپنے سلسلۂ توارث کے باعث ہیں‘ البتہ ان کی غربت کا ذمہ دار وہی سرمایہ دارانہ نظام ہی جو یہاں کے وسائل کو لوٹ رہا ہے۔ زلزلے نے ۱۰ ؍ہزار ۷۱۴ مربع میل پر پھیلے اس ملک کی چولیں ہلا ڈالی ہیں۔ لاکھوں لوگ اس زلزلے میں ہلاک‘ لاکھوں معذور اور بے گھر ہوئے۔ اسے سیاہ فاموں کا دنیا کا پہلا آزاد ملک ہونے کا اعزاز حاصل ہے اور اس کے ساتھ یہ سیاہ اعزاز بھی اسی کا ہے کہ یہ براعظم امریکا بلکہ دنیا کا غریب ترین ملک ہے۔ فی کس آمدنی ۲ ؍امریکی ڈالروں سے بھی کم ہے۔ آدھی آبادی اَن پڑھ ہے۔ جو نوجوان کالجوں سے فارغ ہوتے ہیں‘ امریکا سدھار جاتے ہیں۔ سوا دو لاکھ بچوں کو گھروں میں بلامعاوضہ یعنی صرف روٹی پانی پر کام کرنا پڑتا ہے۔ جو اقوامِ متحدہ کے مطابق بدترین غلامی کی جدید شکل ہے۔ ۶۶ فیصد باشندے زراعت سے منسلک ہیں۔ زرعی پیداوار ملک کی جی ڈی پی کا صرف ۳۰ فیصد بنتی ہے۔ آم اور کافی یہاں کی بڑی برآمدات ہیں اور یہ بات جگر تھام کر سننے والی ہے کہ ملک کی آدھی سے زیادہ دولت اور وسائل کا مالک بالائی طبقہ ہے جو کل آبادی کا ایک فیصد بھی نہیں بنتا۔ اسی لیے یہ دنیا کا سب سے بدعنوان ترین ملک بھی کہلاتا ہے۔ واضح رہے کہ ہیٹی کی کل آبادی ۹۸ لاکھ ہے۔ منشیات کی اسمگلنگ یہاں کی سب سے بڑی صنعت ہے۔ بیدوئن کیٹانٹ منشیات کا عالمی اسمگلر یہاں کی ایک سابق صدر آریس ٹائیڈ کا قریبی حصہ دار رہا ہے‘ اس کا بیان ہے کہ ملک کو منشیات کا گڑھ اسی (امریکی پٹھو) آر ایس ٹائیڈ نے بنایا ہے۔
زلزلہ آیا تو ملک کی طبی امداد کے لیے سب سے پہلے کیوبا پہنچا۔ اس کے ۲۰۰ ڈاکٹروں نے یہاں خاموشی کے ساتھ کام کرنا شروع کر دیا۔ جبکہ امریکی امداد اس کے بعد پہنچی اور یہ امداد طبی سے زیادہ فوج پر مبنی تھی۔ میں نے امریکا کی اس حرکت کے خلاف روزنامہ ’’گارجین‘‘ کو ایک احتجاجی مراسلہ بھی بھیجا‘ جس میں لکھا کہ امریکا کو چاہیے تھا کہ وہ براہِ راست امداد فراہم کرے لیکن اس نے اس کے بجائے فوج کی اتنی بڑی تعداد بھیج دی جس کی ملک کو ضرورت نہیں۔ یہاں غیرملکی ڈاکٹروں کی پہلے سے موجود ٹیموں کا کہنا ہے کہ ہیٹی والوں کے ساتھ برتائو میں نسلی امتیاز کا پرتو نظر آتا ہے۔ لگتا ہے کہ امریکا نے یہاں کسی طرح کے بھی ردعمل کو دبانے کا بندوبست کیا ہے۔ مطلب یہ کہ اسے محسوس ہو رہا ہے کہ یہاں اسے متاثرین زلزلہ کی طرف سے نسلی سطح پر فسادات کا اندیشہ ہے۔
بٹورنے کے لیے بازو کشادہ اور دینے میں ہتھیلی تنگ رکھنے والے سرمایہ دار ممالک کی امداد کا بھی سوچ بچار کے بعد اعلان کیا گیا‘ لیکن بائیں بازو کے ممالک مثلاً وینزویلا نے زلزلے کی ہولناکی کا علم ہوتے ہی سب سے پہلے ہیٹی کے قرضے معاف کرنے کا اعلان کیا۔ حالانکہ ان قرضوں کا حجم وینزویلا جیسے ملک کے لیے کافی بڑا تھا اور اس کی امداد بھی کیوبا کے بعد سب سے پہلے پہنچی۔ حالانکہ ہیٹی کے زلزلہ زدگان کی امداد کے لیے مونٹریال (کینیڈا) میں امداد دینے والے ملکوں کے اجلاس میں کیوبا اور وینزویلا کو مدعو بھی نہیں کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ ہیٹی کے ہمسایہ ملک ڈومینیکن ری پبلک نے بھی فوری طور پر امداد فراہم کر دی۔
ڈومینیکن پر امریکی ذرائع ابلاغ نے الزام عائد کیا ہے کہ جب ہیٹی کے زلزلہ زدگان نے ڈومینیکن میں داخل ہونے کی کوشش کی تو وہاں کی فوج نے انہیں روکا اور واپس ہانک دیا۔ مضمون نگار کو یہ شکایت ہے کہ امریکا دنیا کا امیر ترین ملک ہے‘ یہاں طبی سہولتیں دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہیں اور یہی ہیٹی کے قریب تر ہے۔ کیا امریکا ہیٹی سے ایک بھی زلزلہ زدہ یا زخمی کو لے کر گیا ہے۔ بلکہ حقوقِ انسانی کے اس سب سے بڑے دعویدار نے زلزلہ کے فوراً بعد جو سب سے پہلا ردِعمل ظاہر کیا وہ یہ تھا کہ اس نے ہیٹیوں کو میامی میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے کوسٹ گارڈ کی ایک بڑی تعداد ساحل پر تعینات کر دی۔ یونیورسٹی آف میامی میڈیکل اسکول کے ڈین نے اس امریکی حرکت کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے امریکا کا مجرمانہ فعل قرار دیا ہے۔ ہیٹی کا زلزلہ بھی طبقاتی تھا۔ اس زلزلے نے حیرت انگیز طور پر بالائی طبقے کو کچھ نہیں کہا۔ وہ زلزلے کا جھولا ضرور جھولے لیکن تباہ ہونے والے ڈھائی لاکھ کے قریب افراد کا تعلق نچلے طبقات سے تھا۔ حالانکہ یہ بالائی طبقہ نچلے طبقے سے دور پہاڑوں میں رہائش پذیر ہے۔ ہیٹی کی غربت کی سب سے بڑی وجہ امریکا کی گزشتہ صدی کی پالیسیاں ہیں‘ جن کے خدوخال ہو بہو فرانسیسی نوآبادیاتی نظام سے ملتی ہیں۔ امریکی صدر وڈروولسن نے جب ہسپانیولا کے خطے پر حملہ کیا‘ جہاں ہیٹی اور ڈومینیکن وغیرہ واقع ہیں‘ تو خاصی مار پیٹ کی لیکن ہیٹی کی تو اینٹ سے اینٹ بجا دی اور اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ لوگ سیاہ فام ہیں‘ جبکہ اس کے دوسرے ہمسائے گوری چمڑی کے حامل ہیں۔ یہ سیدھے سبھائو نسل پرستانہ واردات تھی۔ امریکی محکمۂ خارجہ کہتا ہے کہ ڈومینیکن والوں میں یورپی خون کی رمق ہے لہٰذا وہ ہمارے لیے اتنے برے نہیں لیکن ہیٹی کے لوگ تو خالص نیگرو ہیں۔ ولسن کا مقصد ہیٹی کی پارلیمنٹ کو درہم برہم کرانا تھا کیونکہ وہ ہیٹی میں زمینوں کی خریداری کی خواہشمند امریکی کارپوریشنوں کے آڑے آرہی تھی۔ یہ ہیٹی پر امریکی غاصبیت کی صرف ایک مثال ہے۔ امریکا نے یہاں کی زراعت کو بھی کبھی پنپنے نہیں دیا۔ صدر رونلڈ ریگن کے دور میں عالمی بینک نے یو ایس ایڈ کے ساتھ مل کر ہیٹی کی زراعت کو تباہ کرنے کا پروگرام بنایا تھا اور ان کی دیدہ دلیری اور سینہ زوری ملاحظہ ہو کہ انہوں نے اپنے اس پروگرام پر کبھی پردہ بھی نہیں ڈالا۔ ان کا برملا کہنا تھا کہ ہیٹی کے پاس کوئی زرعی نظام نہیں ہونا چاہیے۔ انہیں اسمبلی پلانٹس لگانے چاہئیں اور ان کی عورتوں کو (بدترین حالات میں) بس بیس بال سینے چاہئیں۔ ریگن کے دور کی اتنی سختیوں کے باوجود ہیٹی اپنے لیے چاول کی خاصی مقدار اگا پاتا تھا‘ صدر کلنٹن نے اس کا بھی صفایا کر دیا۔ امریکی پالیسی سازوں نے انسانیت کش بڑے بش کے عہد میں ہیٹی کو آزاد تجارت کا پابند بھی کر دیا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ ہیٹی چاول اور دیگر اجناس امریکا سے خریدے۔ ۲۰۰۸ء میں خوراک پر ہیٹی میں ہونے والے فسادات ان ہی پابندیوں کا نتیجہ تھے‘ کیونکہ ہیٹی کو خود اپنی خوراک کی ضروریات اپنی زمین سے پوری کرنے کی اجازت نہیں اور لوگوں میں امریکی خوراک خریدنے کی سکت نہیں۔ تو یہ ہے سرمایہ دارانہ نظام کے استبداد کی ایک چھوٹی سی تصویر۔
(بشکریہ: ’’ڈیلی ٹائمز‘‘ کراچی۔ ۱۱ مارچ ۲۰۱۰ء)
Leave a Reply