غزہ ناکہ بندی: حماس کو بلیک میل نہیں کیا جاسکتا!

فلسطینی تنظیم ’حماس‘ کے سیاسی شعبے کے سربراہ خالد مشعل نے اردن کے ایک کثیر الاشاعت روزنامہ ’السبیل‘ کو دیے گئے اپنے ایک خاص انٹرویو میں غزہ کی معاشی ناکہ بندی سمیت مسئلہ فلسطین اور اس سے متعلق ملکی و بین الاقوامی پالیسی پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ اس کی تلخیص یہاں پیش کی جارہی ہے۔


س: آپ کیا سمجھتے ہیں کہ غزہ کی معاشی ناکہ بندی کے ختم ہونے میں مزید کتنے دن لگیں گے؟ اور معاشی ناکہ بندی کو ختم کرنے سے متعلق فلسطین کی سطح پر ہونے والی کوششیں کیا کافی ہیں؟

ج: یہ بات میں پورے یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ غزہ کی معاشی ناکہ بندی اب اپنے آخری مرحلے میں داخل ہو چکی ہے، تاہم ناکہ بندی کو نرم کرنے جیسی باتیں کر کے بعض اطراف سے اسے طول دینے کی بھی کوشش کی جا رہی ہے تاہم وہ وقت دور نہیں جب غزہ کے عوام معاشی حصار سے باہر نکل آئیں گے۔

معاشی ناکہ بندی اپنے تئیں ایک اخلاقی جرم ہے اور اس جرم کا جلداز جلد خاتمہ ہو جانا چاہیے۔ اسرائیل نے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے معاشی محاصرے کا راستہ اختیار کیا تاہم قابض صہیونی حکومت اپنے مقاصد و اہداف کے حصول میں بری طرح ناکام رہی ہے۔ اسرائیل کا خیال تھا کہ وہ شہر کی معاشی ناکہ بندی کے ذریعے اور اس کے شہریوں کو بھوک اور افلاس کے سمندر میں دھکیل کر حماس کو بلیک میل کر لے گا، اب یہ بات صرف اسرائیل پر ہی واضح نہیں ہو گئی بلکہ ان تمام قوتوں پر عیاں ہو چکی ہے کہ عوام پر بھوک مسلط کر کے نہ تو حماس کو بلیک میل کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی عوام کی حماس سے ہمدردیوں کو نفرت میں بدلنے کی سازش کامیاب ہو سکتی ہے۔

اس میں دو رائے نہیں کہ غزہ کی معاشی ناکہ بندی اس کے مکینوں کے لیے ایک بڑا تکلیف دہ مرحلہ ہے، فریڈم فلوٹیلا کے ذریعے ناکہ بندی کو توڑنے کی جو کوشش کی گئی ہے اس کے بارے میں بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اسرائیل کی طرف سے امدادی بیڑوں کو نشانہ بنائے جانے کے بعد اب محصور شہر کی طرف امدادی قافلے لے کر نکلنا بے سود ہے، حالانکہ ایسا ہرگز نہیں، امدادی سرگرمیوں کا سلسلہ اب بھی بدستور جاری ہے اورہم سمندری راستے اور دیگر خشکی کے راستوں سے مزید امدادی قافلے لے کر غزہ کی طرف روانہ ہوں گے۔ اس حوالے سے اسلامی ممالک، عرب دنیا اور عالمی برادری کے ساتھ مل کر کوششیں کر رہے ہیں۔

س: موجودہ حالات میں غزہ کی معاشی ناکہ بندی ختم کرنے سے متعلق عرب دنیا، اسلامی ممالک اور عالمی برادری کے کردار کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں، کیا محاصرہ مخالف عالمی کوششوں سے آپ مطمئن ہیں؟

ج: جہاں تک غزہ کی معاشی ناکہ بندی ختم کرنے سے متعلق فلسطینی اتھارٹی کا کردار ہے تو اس پر نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی اس معاملے میں نہ صرف غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کر رہی ہے بلکہ فریڈم فلوٹیلا پر صہیونی فوج کشی پر عالمی سطح پر اسرائیل کے خلاف اٹھنے والی غم و غصے کی لہر کو ٹھنڈا کرنے کی بھی کوشش کر رہی ہے۔

فلسطینی اتھارٹی حقیقی معنوں میں ناکہ بندی ختم کرنے کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر رہی ہے۔ ناکہ بندی کو فلسطینی جماعتوں کے درمیان مصالحت سے مشروط قرار دینا بھی ایک ایسی ہی رکاوٹ ہے۔ ایک ایسے وقت میں جبکہ عالمی سطح پر ناکہ بندی ختم کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں کے ساتھ مصالحت کو جوڑنا ان عالمی کوششوں سے توجہ ہٹانے کے مترادف ہے۔ یہ ایک ایسا کھیل ہے جسے کسی صورت میں بھی پسندیدہ قرار نہیں دیا جاسکتا، کیونکہ معاشی ناکہ بندی ختم کرنے کے اپنے اہداف اور مقاصد ہیں اور مفاہمت یا مصالحت کے مقاصد اور اہداف الگ ہیں۔ ان دونوں معاملات کو اپنے متوازی خطوط پر ہی چلنا ہے، انہیں ایک دوسرے کے ساتھ الجھانے کی ضرورت نہیں۔

س: عرب لیگ نے طویل عرصے تک غزہ کی معاشی ناکہ بندی کے سلسلے میں خاموشی اختیار کیے رکھی حالانکہ عرب ممالک کی طرف سے غزہ کی معاشی ناکہ بندی ختم کرنے سے متعلق کئی قراردادیں بھی پاس کی گئی تھیں۔ پھر اس قدر تاخیر کے ساتھ عرب لیگ کے جنرل سیکریٹری عمرو موسیٰ کی آمد کا کیا سبب تھا؟

ج: عرب لیگ کے سیکریٹری جنرل عمرو موسیٰ کی غزہ آمد گوکہ تاخیر کے ساتھ ہوئی تاہم مثبت تھی۔ میرے خیال میں اصل معاملہ بعض عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان حماس کے خلاف وہ ہم آہنگی ہے جس کے تحت معاشی ناکہ بندی کو حماس کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کیا جارہا ہے۔ اس میں بعض عرب ممالک کے ساتھ ساتھ فلسطینی اتھارٹی بھی شریک ہے۔ وہ نہ صرف معاشی ناکہ بندی کو حماس کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کررہی ہے بلکہ ان کی کوشش ہے کہ غزہ کی معاشی ناکہ بندی کے خاتمے کا کریڈٹ حماس کو نہ جائے، یوں وہ معاشی محاصرے کو ایک ’’سیاسی کارڈ‘‘ کے طور پر استعمال میں لانا چاہتے ہیں۔

س: معاشی ناکہ بندی کے خاتمے سے متعلق ترکی کا واضح اور دوٹوک مؤقف رہا ہے، آپ کے خیال میں اس نوعیت کی کوششیں اور تحریک کہیں اور بھی موجود ہے؟

ج: غزہ کی معاشی ناکہ بندی کے حوالے سے ترکی نے نہایت ہی قابل تحسین کردار ادا کیا ہے۔ ترک عوام نے ایک جانب اسرائیلی جارحیت کا بھرپور مقابلہ اور دھمکیوں کو نظرانداز کرتے ہوئے امدادی جہاز تیار کیے اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے ۹ شہریوں کا خون بھی پیش کیا۔ دوسری جانب ترکی کے وزیراعظم رجب طیب ایردوگان کے یہ الفاظ تاریخ میں سنہری حروف میں لکھے جانے کے قابل ہیں کہ ’’اگر پوری دنیا نے غزہ کے مسائل سے منہ موڑ لیا ہے تو کیا ہوا، ترکی نے تو اہلِ غزہ سے پیٹھ نہیں پھیری‘‘۔

اس وقت ترکی اور اسرائیل کے درمیان تعلقات غزہ کی پٹی کی معاشی ناکہ بندی ختم کرنے سے مشروط ہو چکے ہیں، بالخصوص فریڈم فلوٹیلا پر صہیونی جارحیت اور ۹ ترک رضاکاروں کی شہادت کے بعد ترکی نے ایک تاریخی اور ناقابلِ فراموش طرزِ عمل اختیار کیا ہے۔ ترکی عالم اسلام بالخصوص خطے کے ممالک کے ایک لیڈر کے طور پر ابھر کر سامنے آیا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ عرب ممالک اور یورپ میں بھی غزہ کی معاشی ناکہ بندی کو ختم کرنے کے حوالے سے کوششیں جاری ہیں۔ حال ہی میں حماس کے ایک اعلیٰ سطح کے وفد نے یورپ اور عرب ممالک کا تفصیلی اور طویل دورہ کیا۔ عالمی اور اسلامی برادری کو غزہ کی معاشی ناکہ بندی سے متعلق موقف کو سمجھنے کا موقع ملا۔ بیشتر عرب ممالک معاشی حصار کے فوری خاتمے اور غزہ کے تمام بند بحری اور بری راستے کھولنے کی ضرورت پر متفق ہیں۔ ایسے میں حماس عالمی برادری اور مسلم ممالک پر زور دیتی ہے کہ وہ غزہ کی ساحلی اور خشکی کے راستے کھولنے کے لیے اسرائیل پر دبائو ڈالیں۔ بالخصوص رفاح راہداری کا کھلا ہونا نہایت ضروری ہے کیونکہ غزہ کا بیرونی دنیا سے رابطے کا صرف ایک ہی راستہ ہے۔ اس کے کھلنے سے غزہ کے لیے اسلامی دنیا اور پوری عالمی برادری سے روابط آسان ہو جائیں گے۔

س: آپ نے اپنی گفتگو میں ذکر کیا کہ غزہ کی معاشی ناکہ بندی ناکام ہونے کے ساتھ ساتھ اسرائیل پر ایک بوجھ بھی ثابت ہو رہی ہے، اگر ایسا ہے تو اسرائیل معاشی ناکہ بندی جاری رکھنے پر مصر کیوں ہے؟

ج: میرے خیال میں اس کے تین پہلو ہیں، اول یہ کہ اسرائیل ایک قابض ریاست ہے جبکہ فلسطینی اس کے ناجائز تسلط کا شکار ہیں، لہٰذا ایک قابض ریاست اپنی دھونس جمانے کے لیے اس نوعیت کے اقدامات کرتی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اسرائیل نے غزہ کی معاشی ناکہ بندی کے ساتھ ساتھ مقبوضہ فلسطین کے دیگر علاقوں میں یہودی آبادکاری، فلسطینیوں کی بے دخلی اور فلسطینی شہریوں کی مکانات کی مسماری کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ اسرائیل اپنے گرفتار فوجی گیلادشالیت کی سزا پوری فلسطینی قوم کو دینا چاہتا ہے۔

معاشی ناکہ بندی جاری رکھنے کا تیسرا پہلو نہایت افسوسناک ہے، وہ یہ کہ غزہ کی معاشی ناکہ بندی میں کچھ غیر ملکی طاقتیں اسرائیل کو ایسا کرنے پر نہ صرف اکسا رہی ہیں بلکہ اس میں صہیونی ریاست کی مسلسل مدد بھی کر رہی ہیں، تاہم مجھے یقین ہے کہ جلد یا بدیر غزہ سے اسرائیل اور اس کے ہمنوائوں کی مسلط کردہ معاشی ناکہ بندی ختم ہو کر رہے گی۔

س: آپ نے کہا کہ غزہ کی معاشی ناکہ بندی کے خاتمے کو اسرائیل نے حماس کے ہاں قید فوجی گیلادشالیت کی رہائی سے مشروط قرار دیا ہے، جبکہ حال ہی میں اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے عالمی برادری سے گیلاد کی رہائی کے سلسلے میں مدد مانگی ہے۔ آپ کے خیال میں یہ اسرائیلی قیادت کی کون سی پالیسی ہے؟

ج: اسرائیلی وزیراعظم کی جانب سے گیلاد شالیت کی رہائی کے لیے عالمی برادری کا دروازہ کھٹکھٹانے کے معاملے کو کئی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اسرائیل اندرونی اور عوامی سطح پر گیلادشالیت کی رہائی میں ناکامی پر سخت تنقید کا سامنا کر رہا ہے۔ چنانچہ اندرونی دبائو کا رُخ تبدیل کرنے کے لیے عالمی برادری سے مدد کی اپیل کی گئی ہے۔ اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اسرائیلی حکومت نے غزہ کے امدادی بیڑے فریڈم فلوٹیلا پر حملہ کر کے نہ صرف کئی غیر ملکی رضاکاروں کو شہید کیا بلکہ جارحیت کے باعث قافلے میں شریک تیس ممالک سے مخالفت مول لے لی، اس طرح اب اسرائیل دنیا میں فریڈم فلوٹیلا پر حملے کے باعث ہونے والی رسوائی اور تنہائی سے خود کو نکالنے کے لیے مختلف حیلوں بہانوں سے عالمی برادری سے رابطے کی کوشش کر رہا ہے۔ اسرائیل کی موجودہ قیادت کو یہ خدشہ ہے کہ فریڈم فلوٹیلا پر حملے جیسے واقعات صہیونی ریاست کے غیر قانونی وجود ہونے کی راہ ہموار کرنے والی مہم کا سبب نہ بن جائیں۔

عالمی برادری سے رجوع کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اسرائیل گیلادشالیت کی رہائی میں ناکامی کی ذمہ داری اپنی حکومت پر عائد کرنے کے بجائے عالمی برادری پر عائد کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ گیلادشالیت کا مقدمہ عالمی برادری کے سامنے رکھنے کا ایک مقصد حماس کے خلاف عالمی سطح پر مہم کو تیز کرنا ہے۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ اسرائیلی حکومت گیلادشالیت کی رہائی کے معاملے میں نہ صرف ناکام ہو گئی ہے بلکہ حقیقی معنوں میں کمزوری اور انتشار کا بھی شکار ہے۔ اسرائیلی شہری حکومت سے آئے دن یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ گیلاد شالیت کی رہائی کے لیے جو قیمت درکار ہے ادا کرے اور حماس کے ہاں قید فوجی کی رہائی کو یقینی بنائے۔ گیلادشالیت کی رہائی کے لیے اسرائیل نے غزہ پر طویل جنگ مسلط کیے رکھی۔ طاقت کے زور پر یہ معاملہ حل نہ ہوا تو سفارتی کوششیں شروع کی گئیں تاہم اسرائیل اپنی ہٹ دھرمی کے باعث سفارتی کوششوں سے بھی استفادہ نہ کر سکا۔ اسرائیل اس وقت تک گیلاد شالیت کی رہائی میں کامیاب نہیں ہو سکتا جب تک حماس کے مطالبات کے مطابق قیدیوں کی رہائی نہیں کی جاتی۔

س: گیلادشالیت اور قیدیوں کے تبادلے کی ڈیل میں کوئی تازہ پیش رفت ہوئی ہے یا اس ضمن میں ثالثی کی کوششیں ہو رہی ہیں؟

ج: جرمنی کی جانب سے قیدیوں کے تبادلے کی ڈیل کے بارے میں ایک بار رابطہ کیا گیا تاہم حماس نے واضح کر دیا ہے کہ قیدیوں کے تبادلے کے سلسلے میں بالواسطہ بات چیت وہیں سے شروع ہونی چاہیے جہاں رُکی تھی۔ حماس اسرائیل کی طرف سے قیدیوں کی مخصوص فہرست کو تسلیم نہیں کرے گی۔ اسرائیل کو حماس کی فہرست کے مطابق قیدیوں کو رہا کرنا ہو گا۔

س: ایک تاثر یہ ہے کہ بعض عرب اور دیگر ممالک کی جانب سے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کو پیغام ارسال کیا گیا ہے کہ وہ گیلاد شالیت کی رہائی کے لیے جلد بازی سے کام نہ لیں، کیونکہ قیدیوں کے تبادلے کی ڈیل سے حماس کو سیاسی طور پر فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ آپ اس پر کیا تبصرہ کریں گے؟

ج: یہ تاثر درست ہے کہ قیدیوں کی ڈیل کی راہ میں کچھ غیر ملکی عناصر کا بھی ہاتھ ہے امریکا اور بعض دیگر حلقوں کی جانب سے اسرائیل پر گیلاد شالیت کی رہائی میں جلد بازی سے کام نہ لینے کے لیے دبائو ڈالا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ قیدیوں کی ڈیل حماس کے لیے مفید اور محمود عباس کے لیے مضر ثابت ہو سکتی ہے۔ چونکہ امریکا فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کے درمیان مذاکرات کی بحالی کے لیے کوشاں ہے یہی وجہ ہے کہ وہ ہر اس اقدام کی مخالفت کرے گا جو ان نام نہاد مذاکرات کی راہ میں رکاوٹ بنیں گے۔

س: آپ نے چند روز قبل خبردار کیا تھا کہ حماس کی فراہم کردہ فہرست اور مطالبات کی روشنی میں اگر قیدیوں کو رہا نہ کیا گیا تو نہ صرف گیلادشالیت کو رہا نہیں کیا جائے گا بلکہ مزید فوجی بھی پکڑے جائیں گے۔ آپ کا یہ مؤقف قیدیوں کی ڈیل کی کوششوں پر کس حد تک اثرانداز ہوسکتا ہے؟

ج: ہمارا اصل مقصد اسرائیل میں پابند سلاسل فلسطینی اسیران اور اسیرات کی رہائی ہے اور ان ہزاروں قیدیوں کی رہائی کے لیے صرف ایک اسرائیلی فوجی کی اسیری کافی نہیں۔ صاف ظاہر ہے ہمیں اپنے ہدف اور مقصد کے حصول کے لیے مزید اسرائیلی فوجیوں کو گرفتار کرنا پڑے گا۔ فلسطینی قیدیوں کی رہائی قومی اور ملّی فریضہ ہے اور ان کی رہائی کے لیے ہر طرح کی کوششیں جاری رہیں گی۔ اپنے قیدیوں کو ہم کسی صورت بھی فراموش نہیں کر سکتے۔

س: فلسطینی جماعتوں اور حماس کے درمیان مصالحت کے لیے جاری کوششوں میں کوئی تازہ پیش رفت؟

ج: فلسطینی مصالحت کے سوال پر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ ایک اہم قومی اہمیت کا معاملہ غیر ملکی ’’ویٹو‘‘ کی نذر ہو کر رہ گیا ہے۔ موجودہ حالات میں مفاہمت کو کامیاب بنانے کی بجائے اب تک کی گئی کوششوں کو بھی سرد خانے میں ڈالنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ مصالحت کی بات تو بہت سے لوگ کر رہے ہیں لیکن اسے کامیاب بنانے کے لیے خلوص نیت کے ساتھ بہت کم لوگ تیار ہیں۔

مصر میں مصالحت کے لیے کئی ماہ کی کوششوں کے بعد مختلف جماعتیں ایک دوسرے کے قریب آئیں۔ حماس نے مصر کے تیار کردہ مفاہمتی مسودے پر بعض اصولی ترامیم کی سفارش کی لیکن اسے یکسر مسترد کر دیا گیا اور ابھی تک مفاہمت کے حوالے سے حماس کی ترامیم کو مسلسل نظر انداز کیا جارہا ہے۔

مفاہمت کا عمل فلسطینیوں کے درمیان طے پا رہا ہے لیکن اس میں غیر ملکی ایجنڈے کو بھی شامل کر لیا گیا ہے۔ حماس سے بڑھ کر مفاہمت کی اہمیت پر کوئی دوسری جماعت زور نہیں دے سکتی، لیکن یہ عمل اسی وقت کامیاب ہو سکتا ہے جب اس کی بنیاد فلسطینی عوام کے مفادات اور قومی اصولوں پر رکھی جائے۔ مفاہمت کے ذریعے ہم فلسطینی قیادت اور عوام کی صفوں میں اتحاد اور مضبوطی پیدا کرنا چاہتے ہیں، نہ کہ ایسی مصالحت جس کے ذریعے دشمن کو راحت پہنچائی جائے۔

اس کے علاوہ اہم بات یہ ہے کہ مفاہمت کو کسی ایک فریق کی کامیابی نہیں قرار دینا چاہیے اور نہ ہی کسی کی شخصی بالادستی کو تسلیم کیا جانا چاہیے بلکہ مفاہمت کے عمل کے بعد تمام فلسطینی دھڑوں کو برابری کی بنیاد پر قومی خدمت کا موقع ملنا چاہیے۔

س: عرب لیگ کے جنرل سیکریٹری عمرو موسیٰ کے دورہ غزہ کے دوران مختلف سیاسی دھڑوں کی جانب سے فلسطین میں مفاہمت کے حوالے سے مطالبات کی آوازوں میں تیزی آئی، خود فلسطینی جماعتوں کے درمیان مفاہمت کے لیے ہم آہنگی کیوں نہیں پائی جاتی؟

ج: عرب لیگ کے جنرل سیکریٹری عمرو موسیٰ غزہ دورے پر آئے، حماس کی حکومت کے وزیراعظم اسماعیل ہانیہ نے ان کا خیرمقدم کیا اور فلسطین میں مفاہمت کی ضرورت سے متعلق حماس کے مؤقف سے آگاہ کیا۔ فلسطینیوں کے درمیان مفاہمت کرانے کے لیے عمروموسیٰ نے فلسطینی صدر محمود عباس سے بھی رابطہ کیا، انہوں نے بھی عمرو موسیٰ کی آمد کا خیرمقدم کیا اور وعدہ کیا کہ وہ فتح کے مرکزی راہنما منیب المصری کی سربراہی میں ایک اعلیٰ سطح کا وفد جلد غزہ کے دورے پر روانہ کریں گے، تاہم کمیٹی کی غزہ روانگی کی تاریخ سے قبل محمود عباس نے اپنا فیصلہ تبدیل کر لیا اور مفاہمت کی کامیابی کے لیے مصری مسودے پر ’’جہاں ہے جیسے ہے‘‘ کی بنیاد پر دستخط کی شرط عائد کر دی۔ ایک بند کمرے میں منعقد اجلاس میں محمود عباس نے کہا کہ ’’میں مصری مطالبات سے صرفِ نظر نہیں کر سکتا‘‘۔ عمرو موسیٰ نے حماس کے موقف کو مثبت قرار دیا ہے، میں ان سے چاہوں گا کہ وہ انکشاف بھی کریں کہ مفاہمت کی راہ میں اصل رکاوٹ کون ہے۔ لیکن میں یہ سوال کروں گا کہ فلسطینیوں کے درمیان مفاہمت ممنوع کیوں قرار دی گئی ہے۔ فلسطینیوں کے درمیان موجود اختلافات ان کے اپنے نہیں بلکہ باہر سے مسلط کردہ ہیں۔ فلسطینیوں کو مفاہمت کے لیے آزاد چھوڑ دیا جائے عرب ممالک ان کے باہمی اختلافات کو ختم کرنے میں رکاوٹ بننا اور مداخلت کرنا چھوڑ دیں اور مفاہمت کی کامیابی کے بعد مبارکباد پیش کریں۔میں یہ بھی واضح کر دوں کہ فلسطین میں مفاہمت کی راہ میں رکاوٹ کیا ہے اور وہ کیا حقیقی اسباب ہیں جو اس بابرکت کام کے لیے سدِراہ ہیں۔ اس سلسلے میں دو بنیادی اور اساسی اسباب ہیں۔ پہلا سبب خارجی ہے اور وہ اسرائیل اور امریکا کا مفاہمت مخالف گٹھ جوڑ ہے۔ تمام تر کوششوں اور سازشوں کے بعد بھی اسرائیل اور امریکا حماس کا سیاسی پروگرام تبدیل نہیں کر سکے۔ مفاہمت کی کامیابی کی صورت میں اسرائیل کو فلسطین میں اپنی من مانی کرنے میں مزید مشکلات دکھائی دے رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا اور اسرائیل اپنی شرائط کے تحت مفاہمت کرانا چاہتے ہیں۔ یہ ایک ایسی مفاہمت ہو گی جس میں حماس کو بے دست و پا کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

دوسرا سبب فلسطینی اتھارٹی کی قیادت اور بعض عرب ممالک کا اپنا مخصوص ایجنڈا ہے اور ان کے ایجنڈے کو عالمی یا علاقائی سرپرستی بھی حاصل ہے، یہ لوگ داخلی سطح پر اس وقت تک مفاہمت کی راہ میں رکاوٹ بنے رہیں گے جب تک وہ اقتدار میں ہیں اور ان کی جگہ قومی قیادت نہیں آتی۔ یہ عناصر عالمی چھتری کے سائے تلے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے مصالحت سے گریز کر رہے ہیں۔

س: آپ کے خیال میں فلسطینی دھڑوں میں صلح کرانے کے لیے ترکی کوئی کردار ادا کر سکتا ہے؟

ج: ترکی نے فلسطینیوں کے درمیان انتشار کے آغاز ہی میں انہیں آپس میں جوڑنے کی حتی الوسع کوشش کی تاہم اس معاملے میں مداخلت کا موقع ہی فراہم نہیں کیا گیا۔ میرے خیال میں ترکی کو اس کا موقع دیا بھی نہیں جائے گا۔

س: مغربی کنارے میں حماس نے مزاحمتی حکمتِ عملی میں کس قسم کی تبدیلی کی ہے؟

ج: مغربی کنارے میں حماس کی مزاحمتی حکمتِ عملی میں کسی قسم کی بنیادی تبدیلی نہیں ہوئی تاہم فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کے درمیان سیکورٹی تعاون اور تحریک مزاحمت کو جرم قرار دیے جانے کے بعد مجاہدین نے اپنے طریقہ کار کو جزوی طور پر تبدیل کیا ہے۔

مغربی کنارے میں حماس صرف مزاحمت کی وجہ سے ہی ملزم نہیں بلکہ اس کی عوامی حمایت اور سیاسی حیثیت بھی اس کے مخالفین کے لیے ناقابل برداشت ہے۔ یہی وجہ ہے فلسطینی اتھارٹی چُن چُن کر ایسے شہریوں کو ملازمتوں سے فارغ کر رہی ہے جن کا تعلق حماس سے ہے۔ حماس کے زیر انتظام چلنے والے رفاہی ادارے بھی انتقام کا نشانہ بن رہے ہیں۔ یہ سب کچھ حماس کو سیاسی اعتبار سے مفلوج کرنے اور آئندہ اس کے سیاسی کردار کی راہ روکنے کی سازش ہے۔

س: فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے مغربی کنارے میں حماس کے حامیوں کے خلاف سخت پالیسی کی کیا وجہ ہے؟

ج: یہ امر نہایت افسوسناک ہے کہ فلسطینی اتھارٹی ایک ایسے وقت میں محب وطن شہریوں کو گرفتار کر کے انہیں سزائیں دے رہی ہے۔ جب اسرائیل مغربی کنارے اور مقبوضہ بیت المقدس میں یہودی آبادکاری کی توسیع میں مصروف ہے۔ مسجد اقصیٰ پر حملے روز کا معمول ہیں اور مقبوضہ بیت المقدس کو یہودیانے کے لیے سرتوڑ کوششیں کی جارہی ہیں۔ ایسے حالات میں اسرائیل کے ساتھ بے ثمر مذاکرات اور فوجی تعاون ایک قوم دشمن پالیسی ہے۔

فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے اسرائیل کی اس مفت کی خدمت نے یہودیوں کو فلسطینی عوام کے حقوق غصب کرنے پر اور جری کر دیا ہے۔ اسرائیلی خدمت کا جو صلہ چند اقتصادی سہولیات کی صورت میں اسرائیل کی طرف سے فلسطینی اتھارٹی کو حاصل ہو رہا ہے وہ اسرائیل کو فلسطین پر دائمی تسلط کی طرف لے جارہا ہے۔ موجودہ حالات میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف ایک موقف اختیار کرنا صرف حماس کی ذمہ داری نہیں فلسطین کی تمام سیاسی جماعتوں اور عرب ممالک کو مل کر اسرائیل کے بڑھتے ہوئے قدم روکنا ہوں گے۔ فلسطینی اتھارٹی کو بھی اسرائیل نوازی کی اپنی پالیسی بدلنا ہوگی۔

س: کیا حماس اور اردن کے درمیان تعلقات ازسرنو بہتر ہو سکتے ہیں؟

ج: اس وقت حماس اور برادر ملک اردن کے درمیان تعلقات جمود سے گزر رہے ہیں۔ حماس اور اردن کے درمیان تعلقات کی خرابی کا ایک سبب محمود عباس کی جماعت فتح بھی ہے۔ فتح نہیں چاہتی کہ حماس اور اردن کے درمیان مثالی تعلقات قائم ہوں۔ تاہم حماس اب بھی اردن کے حوالے سے مثبت سوچ رکھتی ہے۔ اردن کی جانب سے کئی قسم کے شکوک و شبہات ظاہر کیے جارہے ہیں۔ موجودہ جمود کی ذمہ داری بھی کسی ایک فریق پر عائد نہیں کی جاسکتی۔

س: آپ اردن کے ساتھ کیسے تعلقات کے خواہاں ہیں؟

ج: حماس اور اردن کے درمیان تعلقات کی نوعیت کی شکل پر بات کرنے سے قبل ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ حماس اور اردن کے تعلقات کے تقاضے اور ضروریات کیا ہیں۔ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ اردن فلسطینیوں کا بڑا بھائی ہے اور اردن نے ہر موڑ پر فلسطینیوں کی مدد کی ہے۔ اردن اور فلسطینی عوام کے درمیان کوئی خاص فرق نہیں، دونوں کی تاریخ بھی مشترک ہے۔ اب اردن کو بھی چاہیے کہ وہ فلسطین کی ان حقیقتوں کو تسلیم کرے جو موجودہ حالات کے تناظر میں ضروری ہیں۔ حماس بھی اسی طرح کی ایک حقیقت ہے جو نہ صرف فلسطین میں ایک مقبول جماعت ہے بلکہ موجودہ فلسطینی سیاسی نظام کا حصہ ہے۔ ۲۰۰۶ء کے انتخابات کے بعد حماس ایک بڑی سیاسی قوت کے طور پر ابھر کر سامنے آئی ہے اور اس کے پاس ایک قومی جماعت ہونے کا مینڈیٹ ہے۔

اردن کو بھی اس حقیقت کو تسلیم کرلیناچاہیے۔ موجودہ حالات میں اردن کو مزید چوکنا رہنے اور مشترکہ دشمن کے عزائم کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم فلسطینی پناہ گزینوں کو اردن میں مستقل وطن دینے کی مہم چلا رہے ہیں۔ یہ مہم نہ صرف ان لاکھوں بے گھر فلسطینیوں کے مستقبل کے لیے خطرہ ہے بلکہ خود اردن کے لیے بھی بہت بڑے نقصان کا باعث ہے۔ ان حالات میں حماس اور اردن کے درمیان تعلقات کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے۔

اردن کو حماس سے کوئی شکوہ یا خوف ہے تو حماس اسے دور کرنے پر بھی تیار ہے۔ اس کے لیے مذاکرات کے دروازے ہر وقت کھلے ہیں اردن کے مفادات حماس کے مفادات ہیں۔

س: حماس پر اردن کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے حوالے سے بھی انگلیاں اٹھائی جاتی ہیں یہ الزامات کس حد تک حقیقت پر مبنی ہیں؟

ج: حماس پر اردن کی اسلامی تحریک کے ساتھ معاونت اور حکومت کے خلاف اقدامات سے متعلق جتنے بھی الزامات ہیں محض قیاس آرائیاں ہیں۔ اردنی اسلامی تحریک کا اپنا ایجنڈا ہے اور وہ اپنے انداز میں ملک میں کام کر رہی ہے، حماس کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔

اردن کیا، حماس نے کبھی کسی دوسرے عرب ملک یا کسی بھی ملک کے اندرونی معاملات میں کسی قسم کی مداخلت نہیں کی۔ اگر اردن کے پاس حماس کی مداخلت کے ٹھوس شواہد موجود ہیں تو وہ انہیں پیش کرے، حماس ان کا ازالہ کرنے پر بھی تیار ہے۔

(ترجمہ و تلخیص: شمشاد حسین فلاحی)
(بشکریہ: عربی روزنامہ ’’السبیل‘‘۔ اردن)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*


This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.