
حماس پر الزام عائد کیا جارہا ہے کہ وہ مصر کے معاملات میں مداخلت کر رہی ہے۔ اس سے قبل یہ الزام شام کے حوالے سے بھی عائد کیا جاتا رہا ہے۔ اس نوعیت کے الزامات کی کوئی نظیر بھی نہیں ملتی اور یہ سراسر بے بنیاد ہیں کیونکہ عرب دنیا کے کسی بھی ملک میں حماس کی مداخلت کا کوئی الزام کبھی عائد نہیں کیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر کبھی حماس سے کہیں مداخلت کرنے کو کہا بھی گیا تو اس نے معذوری ظاہر کی اور اپنی پالیسی پر کاربند رہی۔
کسی بھی عرب ملک کے معاملات میں مداخلت نہ کرنے کی پالیسی اپناتے وقت حماس نے فلسطینیوں کے سابق تجربات کو ذہن نشین رکھا۔ عرب دنیا کے اندرونی مناقشوں میں فلسطینی سیاسی کارکنوں اور مسلح جدوجہد کے حامیوں نے جب بھی مداخلت کی، خاصی بڑی خرابیاں پیدا ہوئیں۔ یمن اور عمان کے تنازع میں جب فلسطینیوں نے عمان کا ساتھ دیا تو عمان اور فلسطینی اتھارٹی کے تعلقات پر شدید منفی اثرات مرتب ہوئے۔ لیبیا اور چاڈ کے تنازع میں بھی فلسطینیوں کی مداخلت نے صرف خرابی پیدا کی۔ اردنی باشندوں اور فلسطینیوں نے جس نوع کی مداخلت کی اس کے نتیجے میں فلسطینیوں اور اردنی حکومت کے تعلقات اب تک معمول پر نہیں آسکے۔ عراق اور کویت کے تنازع میں فلسطینی سیاسی قیادت نے جو موقف اختیار کیا اس کے نتیجے میں ہزاروں فلسطینیوں کو کویت سے نکلنا پڑا۔ فلسطینیوں کی غیر ضروری مداخلت اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی خرابیوں کی اور بھی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔
فلسطینی تنظیمیں عرب ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی جو پالیسی اختیار کرتی رہی ہیں ان کی بھاری قیمت عام فلسطینیوں کو ادا کرنا پڑی ہے۔ ان تلخ تجربات ہی کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہم نے کسی بھی عرب ریاست کے معاملات میں مداخلت نہ کرنے کی پالیسی اپنائی ہے۔
حماس نے خطے کی تمام سیاسی جماعتوں اور حکومتوں سے بہتر اور متوازن روابط استوار رکھنے کی پالیسی اپنائی ہے اور اگر کبھی کہیں کسی معاملے میں کوئی تنازع ابھرتا دکھائی دے تو وہ ایسی پالیسی اپناتی ہے جو فلسطینیوں کی تحریکِ آزادی کے لیے زیادہ سے زیادہ سُود مند ہو۔ عراق اور شام کے معاملے میں ہم نے یہی کیا، گو کہ دونوں ممالک کی حکومتوں نے اخوان المسلمون سے معاندانہ رویہ اختیار کر رکھا تھا۔ ہم نے کبھی کسی ایک سیاسی جماعت سے تعلقات اس بنیاد پر استوار نہیں کیے کہ کسی اور سیاسی جماعت سے تعلقات داؤ پر لگ جائیں۔ ایران کے ساتھ ساتھ سعودی عرب، خلیجی ریاستوں اور عراق سے ہمارے بہت اچھے تعلقات ہیں۔ بات سیدھی سی ہے۔ ہمیں فلسطینی کاز کے لیے سب کی حمایت درکار ہے۔ ہم سب سے مدد چاہتے ہیں اور اسی لیے سب سے بہتر تعلقات استوار رکھنے کے خواہش مند ہیں۔ عرب ریاستوں کو فلسطینی مسئلے کی گہرائی پر غور کرنا چاہیے۔
شام کے معاملے میں بھی ہم نے مداخلت نہ کرنے کی پالیسی اپنائی ہے۔ شامی حکومت سے ہمارے تعلقات جیسے تھے، شام کے مختلف منحرف گروپوں سے بھی ویسے ہی تعلقات تھے۔ ہم نے بہتر یہی سمجھا کہ شام کے بحران سے دور اور لاتعلق رہیں۔ ہم نے کسی ایک فریق کو خوش کرنے کے لیے دوسروں سے مخاصمت مول لینے کا سودا نہیں کیا۔ حماس نے شام میں مداخلت نہ کرکے اپنے ارکان کو بچایا اور ساتھ ہی اس امر پر بھی زور دیا کہ شام کے بحران کا بہتر اور پرامن حل تلاش کرنے کے لیے تمام سیاسی جماعتوں اور گروپوں کو بات چیت کرنی چاہیے۔ بحران کی ابتدا میں یہ لائحہ عمل دیا گیا تھا جو کسی بھی فریق کے لیے ناقابل قبول نہیں ہوسکتا تھا۔ شام کی حکومت نے یہ سوچ کر ہم سے مداخلت کے لیے کہا کہ شاید بہتر تعلقات کی بنیاد پر ہم فریق بن جائیں۔ مگر حماس نے غیر جانب دار رہنے کو ترجیح دی۔ حماس پر غیر معمولی حد تک دباؤ ڈالا گیا کہ شام کے معاملے میں واضح موقف اختیار کریں یعنی بشارالاسد انتظامیہ کی حمایت یا مخالفت کے حوالے سے کھل کر سامنے آ جائیں مگر ہم نے انکار ہی کیا۔ پھر یہ ہوا کہ دباؤ میں اضافہ ہوتا دیکھ کر خالد مشعل نے بشار الاسد سے ملنے سے انکار کردیا۔ یہ گویا اس امر کا اعلان تھا کہ ہم خود کو بشارالاسد انتظامیہ سے دور کر رہے ہیں۔ اس کے بعد شامی حکومت اور حماس کے تعلقات وہ نہیں رہے جو تھے۔
جب ہم نے شام کے بحران میں فریق بننے سے صاف انکار کردیا تو شام کی حکومت نے ہمیں اپنے ملک کی حدود سے نکل جانے کو بھی کہا۔ شام میں حماس کا مکمل سیاسی بیورو تھا۔ یہ بھاری قیمت تھی جو عدم مداخلت کے نتیجے میں ہمیں ادا کرنا پڑی۔ یہ اس قیمت سے بھاری نہیں تھی جو ہمیں مداخلت کی صورت میں ادا کرنا پڑتی۔ ہم پر شامی حکومت اور فوج کے خلاف لڑنے کا الزام بھی عائد کیا گیا۔ ہزارہا الزامات کے باوجود ہماری اس سوچ میں فرق نہ آیا کہ شام کے بحران کا سیاسی حل ہی موزوں ترین ہے اور وہی تلاش کیا جانا چاہیے۔
تین برسوں کے دوران حماس نے کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا۔ ہم اس خیال کے حامل ہیں کہ شام میں کسی بے قصور کو قتل نہ کیا جائے۔ ہم لوگوں کو نقل مکانی پر مجبور کرنے والے حالات پیدا کیے جانے کے بھی خلاف ہیں۔ سچ یہ ہے کہ ہم نے پوری عرب دنیا پر زور دیا کہ وہ شام میں بے قصور شہریوں کا قتلِ عام روکے۔
مصر کا معاملہ مختلف ہے۔ مصر نے ہمیشہ فلسطینی کاز کا ساتھ دیا ہے۔ عرب بہار کے دور میں بھی فلسطینی کاز کی بات چلی تھی۔ فکری اور عملی ہم آہنگی کی بدولت ہم نے مصر کے باشندوں کا ساتھ دیا۔ مصر کے معاملے میں بھی حماس نے عدم مداخلت کی پالیسی اپنائی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ مصر میں حقیقی جمہوریت وارد ہو اور اقتدار عوام کے حقیقی نمائندوں کو منتقل ہو۔ ہم قتل و غارت کے بھی حق میں نہیں۔ بحران کا سیاسی حل تلاش کیا جانا چاہیے۔ فلسطینی علاقوں میں سیاسی بحران اور رفاہ بارڈر کے علاقے کی صورتِ حال کے تناظر میں ہمارے خلاف زہریلا پروپیگنڈا کیا گیا۔ مصر کا اعلیٰ سیاسی طبقہ ۲۰۰۶ء کے مقامی حکومتوں کے انتخاب میں حماس کی شاندار کامیابی سے زیادہ خوش نہ تھا۔ جب مصر میں اخوان المسلمون نے صدارتی انتخاب جیتا تو حماس کے خلاف پروپیگنڈا کیا گیا۔ نشانہ تو اخوان المسلمون کو بنایا جانے والا تھا اور نشانہ ہم بن گئے۔
آل سینٹ چرچ سمیت بہت سے مقامات پر دھماکوں اور دیگر ناخوشگوار واقعات کی ذمہ داری حماس کے سر پر تھوپ دی گئی۔ رفاہ بارڈر کے علاقے میں حماس کے ارکان پر مصری فوجیوں کی ہلاکت کا الزام بھی عائد کیا گیا مگر بعد میں تحقیقات سے معلوم ہوا کہ ایسا کچھ نہیں تھا۔ قاتل پکڑے گئے اور وہ مصری یا فلسطینی تو تھے مگر ان کی کوئی سیاسی وابستگی نہ تھی۔ یہ بھی کہا گیا کہ حماس نے مصر کے معزول صدر محمد مرسی کی حفاطت کے لیے سات ہزار تک رضاکار بھیجے ہیں۔ مگر اس کہانی کی پشت پر بھی کوئی ثبوت نہ تھا۔ حجاج اور عیاد خاندان سے تعلق رکھنے والے چار فلسطینیوں کو ہتھیاروں کے ساتھ پکڑا گیا اور ان پر بھی حماس کے ارکان ہونے کا الزام عائد کیا گیا۔ مگر بعد میں ثابت ہوگیا کہ ان کا حماس سے کسی بھی قسم کا کوئی تعلق نہ تھا۔ اسی طور چند فلسطینیوں کو گرفتار کرکے ان کا تعلق قسام بریگیڈ سے جوڑنےکی کوشش کی گئی۔ جب اخوان کے سپریم لیڈر کو حراست میں لیا گیا تو معلوم ہوا کہ وہ اکیلے تھے یعنی کوئی گارڈ نہ تھا۔
ہم جانتے ہیں کہ غیر جانب دار رہنے کی قیمت بھی ادا کرنا پڑتی ہے مگر یہ قیمت دوسروں کے معاملات میں مداخلت کی قیمت کے مضمرات سے کم ہے، اور ہم مصر سمیت کسی بھی ملک کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت کے فیصلے پر قائم ہیں۔
(مصنف حماس کے پولیٹیکل بیورو کے نائب سربراہ ہیں۔ یہ مضمون ان کے اصل مضمون کا ترجمہ ہے، جو ۱۸ ستمبر کو عربی کے اخبار ’’الحیات‘‘ میں شائع ہوا تھا۔)
(“Hamas has not Interfered in the Affairs of Arab States”… “Middle East Monitor”. Sep. 24, 2013)
Leave a Reply