حماس کو عوام کا اعتماد حاصل ہے!

پروفیسر محمد شمعہ المعروف ابو الحسن اسلامی تحریک مزاحمت ’’حماس‘‘ کے بانی ارکان میں سے ہیں۔ آجکل وہ غزہ میں دارِارقم اسکول سسٹم کے چیئرمین بورڈ آف ڈائریکٹر ہیں۔ حماس کے قیام کے بعد اس کے تیئس سالہ تنظیمی سفر اور تنظیم کی کامیابیوں اور اہداف پر ان کی گہری نظر رہی ہے۔

مرکز اطلاعات فلسطین نے حماس کے تیئسویں یوم تاسیس کے موقع پر ان سے تنظیم کے اوائل دور کے بارے میں خصوصی گفتگو کی۔ الشیخ محمد الشمعہ نے کہا کہ حماس کے یوم تاسیس کے موقع پر غزہ کی پٹی میں عوام کے جم غفیر نے ثابت کیا ہے کہ تنظیم تمام تر مشکلات کے باوجود عوام کے دلوں میں اپنا مقام پیدا کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے۔ یہ اس امر کی واضح دلیل ہے کہ حماس نے وقت کے ساتھ ساتھ عوام کا اعتماد حاصل کیا ہے اور اس وقت فلسطین کے ہر گھر تک حماس کی دعوت اوراثرات پہنچ چکے ہیں۔

انہوں نے تسلیم کیا کہ حماس کی عوامی پذیرائی کی بڑی وجہ تنظیم کا بنیادی اصولوں پر پوری قوت کے ساتھ ڈٹے رہنا ہے کیونکہ فلسطینی قوم کو اندازہ ہو چکا ہے کہ حماس جھکنے یا بکنے والی نہیں بلکہ ایک اصولی، سیاسی، مذہبی اور مزاحمتی جماعت ہے۔ ذیل میں ان سے ہونے والی گفتگو پیش کی جاتی ہے۔


سوال: حماس کا قیام فلسطین میں الاخوان المسلمون کے اثرات کا نتیجہ قرار دیا جاتا ہے۔ کیا یہ درست ہے؟

جواب: یہ درست ہے کہ حماس الاخوان المسلمون کے فلسطین میں اثرات کا نتیجہ ہے۔ الاخوان المسلمون کے ابتدائی اثرات بھی غزہ کی پٹی سے پھیلے اور پھر پورے فلسطین میں اس کے اثرات بڑھتے چلے گئے۔ تاہم یہ کہنا کہ حماس اخوان ہی کا ایک عسکری بازو ہے یہ درست نہیں کیونکہ حماس کا اپنا ایک پورا نظم ہے۔ اصلاً یہ ایک مزاحمتی تنظیم ہے۔ اگرچہ ابتدائی طور پر اس نے عوام میںاپنا آپ منوانے کے لیے تعلیم و تربیت اور ذہن سازی کا راستہ اختیار کیا۔ لیکن جب اِس کے نتیجے میں اُسے عوام کی ایک بڑی تعداد کی حمایت حاصل ہوگئی تو ہم دیکھتے ہیں کہ اچانک فلسطینی عوام میں اسرائیل کے خلاف مزاحمت کا ایک آتش فشاں تحریک انتفاضہ کی شکل میں دھماکے سے پھٹ پڑا۔ تحریک انتفاضہ میں فلسطینی عوام نے بڑی قربانیاں دیں اور وہ حماس کے شانہ بشانہ چلتے رہے۔ یوں ہم کہیں کہ فلسطینی عوام نے حماس کے پروگرام کو دل و جان سے تسلیم کیا تو غلط نہ ہوگا کیونکہ شروع میں فلسطینی قوم نے حماس کی دعوت و تحریک کو لبیک کہا۔ تنظیم نے جب مزاحمت کے لیے بلایا تو ایک نہیں بلکہ دو مرتبہ تحریک ہائے انتفاضہ برپا ہوئیں اور جب سیاسی اکھاڑے میں حماس نے قدم رکھا تب بھی فلسطینی عوام نے حماس کو تنہا نہیں چھوڑا۔ اس اعتبار سے حماس مسلسل کامیابیوں اور کامرانیوں کا سفر طے کرتے ہوئے قدم بقدم اپنی منزل کی طرف بڑھ رہی ہے۔

سوال: شیخ احمد یٰسین شہید سے تعلق کب اور کیسے قائم ہوا؟

جواب: حماس کے بانی شیخ احمد یٰسین شہید تو کسی تعارف کے محتاج نہ تھے۔ میرا ان سے تعارف ۱۹۶۷ء کی عرب اسرائیل جنگ سے قبل اس وقت ہوا تھا جب وہ غزہ میں ایک ساحلی کیمپ میں رہائش پذیر تھے۔ ہم ان کے جمعہ کے خطبات اور تقاریر سنتے تھے۔ میں الشیخ احمد یٰسین شہید سے متاثر ہوا اور غزہ میں ان کے مکان کے قریب گھر خرید لیا جہاں سے ان کے ساتھ باضابطہ طور پر نشست و برخاست شروع ہوئی۔ ان کی تقاریر نہایت اثرآمیز ہوتی تھیں جنہیں سُن کر ایک وجد کی کیفیت طاری ہوجاتی تھی۔

سوال: حماس کے قیام کے ابتدائی مراحل کے بارے میں کچھ بتایئے؟

جواب: حماس کا قیام ایک طویل جدوجہد کا نتیجہ ہے، یہ کوئی یک دم ہی عمل میں نہیں آیا، حماس کے بانی رہنما ایک باقاعدہ تنظیم قائم کرنے سے قبل ہی اسرائیل کی نظروں میں آگئے تھے، چنانچہ جب ۱۹۸۳ء میں ایک عسکری ونگ قائم کیا گیا تو کچھ ہی روز کے بعد اس کے تمام ارکان کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ ۱۹۸۰ء کے وسط میں اسرائیل کے خلاف کئی مسلح تحریکیں اٹھیں۔ یہ فلسطینیوں کا اسرائیل کے خلاف پہلا مزاحمتی تجربہ تھا لیکن فلسطینیوں نے اس میں جوق درجوق شرکت کرکے اسرائیل کو ششدر کر دیا تھا کہ اچانک فلسطینیوں میں یہ چنگاری کیسے شعلہ بن کر بھڑک اٹھی ہے، چنانچہ اس دور میں اسرائیل کے خلاف جھڑپوں کے دوران کئی ناموں سے تحریکیں اٹھیں۔ ان میں ’’مجاہدینِ فلسطین‘‘، ’’حرکتہ الکفاح الاسلامی‘‘، ’’مرابطون ارضِ اسرا‘‘ اور ’’الاخوان المسلمون‘‘ وغیرہ کے نام آتے ہیں۔ انہی میں ایک تحریک کے دوران لوگوںمیں ایک پمفلٹ اسلامی تحریک مزاحمت کے عنوان سے بھی تقسیم کیا گیا۔ پھر آگے چل کر یہی نام حماس کے لیے مخصوص ہوا۔

سوال: ۱۹۸۰ء کی دہائی کے اوائل میں فلسطین میں باہمی تنازعات پھوٹنے کی کیا وجوہ تھیں؟

جواب: اس دور میں یوں سمجھ لیں کہ فلسطینی بیداری کے ابتدائی دَور سے گزر رہے تھے۔ ایک طرف فتح کا طوطی بولتا تھا اور دوسری جانب الاخوان المسلمون کی اصلاحی تحریک تھی۔ دونوں کے درمیان مختلف اداروں کے کام کی نگرانی کے لیے آپس میں مقابلے پر اتفاق ہوا تھا۔ فتح کی کوشش تھی کہ ہلال احمر اور جامعہ اسلامیہ جیسے دو بڑے اداروں کی نگرانی کے لیے الاخوان المسلمون کے علاوہ کوئی تیسرا شخص مقابلے میں نہ آئے۔ لیکن فلسطین میں ایسے افراد بھی موجود تھے، جو ان دونوں جماعتوں سے ہٹ کر ان اداروں کے کام کو آگے بڑھانے کے حق میں تھے۔ چنانچہ یہی کشمکش مختلف شخصیات اور گروپوں کے درمیان ایک تصادم اور کشمکش کا باعث بنی تھی۔

سوال: غزہ میں اسرائیلی جارحیت میں سات مجاہدین کی شہادت کے بعد حماس کی جانب سے پہلا بیان جاری کیا گیا۔ کیا آپ کو اس دور کے کچھ واقعات اب بھی یاد ہیں؟

جواب: فلسطینی تحریک مزاحمت اور حماس کے حوالے سے یہ تاریخی لمحات تھے۔ ۸؍ ستمبر ۱۹۸۷ء کو مجاہدین کی ایک گاڑی اسرائیل کی نصب بارودی سرنگ سے ٹکرا کر تباہ ہوگئی جس میں متعدد مجاہدین شہید اور زخمی ہوئے تھے۔ جب یہ خبر غزہ کی پٹی میں پھیلی تو چاروں طرف بے چینی کی ایک لہر دوڑ گئی اور اسرائیل کے خلاف مزاحمت کا ایک نیا شعلہ بھڑک اٹھا، دوسرے روز الاخوان المسلمون نے ایک ہنگامی اجلاس بلایا اور جس میں مجاہدین کی شہادت کے ردعمل پر غور کیا گیا۔ اجلاس میں طے پایا کہ ایک جانب فلسطینی عوام احتجاجی مارچ کریں گے اور دوسری جانب مجاہدین صہیونی فوجیوں کے خلاف مزاحمتی سرگرمیوں میں تیزی لائیں گے۔ اجلاس کے دوران ہی صہیونی فوج کے خلاف مسلح جدوجہد کے لیے ایک منشور تیار کیا گیا جسے ’’ح‘‘ اور ’’م‘‘ کے عنوان سے لکھا گیا۔ بعد میں مغربی کنارے کے ایک شہری نے اس میں ’’الف‘‘ کا اضافہ کیا اور یوں اسی منشور سے یہ ’’حرکتہ المقادمتہ الاسلامیہ‘‘ قرار پایا۔ اس اعتبار سے اس بیان کو حماس کا پہلا باضابطہ بیان قرار دیا جاتا ہے۔

سوال: پہلی تحریک انتفاضہ کے شروع ہونے کے چند ماہ بعد قابض اسرائیل نے حماس کے بیشتر تاسیسی ارکان کو حراست میں لے لیا۔ آپ کی گرفتاری کب عمل میںآئی تھی؟

جواب: حماس کے خلاف گرفتاریوں کا سلسلہ نہ ایک دم شروع ہوا اور نہ فوراً ختم بلکہ یہ آٹھ سے دس ماہ تک جاری رہا۔ اس دوران الاخوان المسلمون کی صفِ اول کی قیادت سمیت تقریباً پندرہ سو افراد کو زیرِ حراست لیا گیا۔ گرفتار تمام ارکان کو غزہ میں ’’السرایا‘‘ نامی جیل میں رکھا گیا جہاں ان پر مظالم کے پہاڑ توڑے جاتے تھے۔ شروع میں اسرائیلی فوج کا کہنا تھا کہ وہ شیخ احمد یٰسین کو گرفتار نہیں کریں گے تاہم ایک دن اچانک انہیں بھی حراست میں لے کر جیل منتقل کر دیا گیا۔ شیخ احمد یٰسین شہید کی گرفتاری ایک بڑا دھچکا تھی، اس کے بعد گرفتاریوں کا ایک نیا باب کھل گیا۔ جس میں مجھے بھی حراست میں لے لیا گیا۔

سوال: حماس کے یومِ تاسیس کے موقع پر تاسیسی جلسے میں آپ نے فلسطینیوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ملاحظہ کیا۔ یقینا اسے حماس کی عوامی قوت قرار دیا جانا چاہیے۔ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ حماس کی یہ عوامی طاقت برقرار رہے گی؟

جواب: ایک بانی رکن ہونے کی حیثیت سے میں سمجھتا ہوں کہ حماس نے ۲۳ سال میں جو سفر طے کیا ہے وہ صدیوں کا ہونا چاہیے کیونکہ انقلابی تحریکیں اتنی جلدی عوام کے لیے اتنی بڑی اثر آفرینی کا باعث نہیں ہوتیں۔ حماس کے یوم تاسیس کے جلسے میں جتنی عوامی قوت دیکھنے کو ملی ہے مجھے اس کی توقع ہر گز نہیں تھی۔ عوام کا جم غفیر ہماری توقعات سے بھی بڑھ کر تھا۔ عوام کے اتنے بڑے ہجوم کا تاسیسی جلسے میں اُمڈ کر آنا اس امر کا ثبوت ہے کہ حماس کو عوام میں مکمل اعتماد اور پذیرائی حاصل ہے جو اس کی قوت اور طاقت کی علامت ہے۔ یہ ساری طاقت حماس نے اپنی اصول پسندی، جرأت، استقامت اور آزادی کے لیے قربانیوں کے ذریعے کمائی ہے۔ یہ خوبیاں موجود رہیں تو حماس کی قوت مزید دوچند ہو گی۔ انشاء اللہ۔ (مرکز اطلاعات، فلسطین)

(بشکریہ: سہ روزہ ’’دعوت‘‘ دہلی۔ ۲۸ دسمبر ۲۰۱۰ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*