
دس سال قبل جنوری میں حماس نے فلسطینی پارلیمانی انتخابات میں ہنگامہ خیز فتح حاصل کی تھی۔ ایک سال بعد اس نے فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس کی وفادار تنظیم الفتح سے غزہ کا کنٹرول چھین لیا۔ ۲۰۱۴ء میں الفتح کے ساتھ معاہدے کے نتیجے میں اقتدار چھوڑ دینے کے باوجود آج ایک دہائی بعد بھی حماس کا قبضہ برقرار ہے۔ حماس کا عرصۂ اقتدار اتنا سہل بھی نہیں تھا۔ فلسطین کی آزادی کے حوالے سے فتح کے ساتھ جاری رسہ کشی کے علاوہ حماس ان منتخب نمائندوں کو بھی جواب دہ تھی جو اس کی خراب حکمرانی کے ریکارڈ، اور روشن خیالوں اور روایت پسندوں کے مابین جاری اندرونی لڑائی سے بھی مایوس تھے۔ اسرائیل کی جانب سے معاشی ناکہ بندی اور غزہ پر دو طاقتور حملوں نے بھی حماس کی کارکردگی کو گہنا دیا۔
فتح کی خامیاں اور حماس کو محدود کرنے کے حوالے سے اسرائیل کی سیاسی مجبوریاں اپنی جگہ، اس گروپ کا اب تک طاقتور رہنا ہی اس کے متحرک سیاسی گروہ ہونے کی دلیل ہے۔ اس کے باوجود حماس اب تک اپنے طویل عرصۂ اقتدار کے ذریعے عالمی سطح پر وہ باضابطہ حیثیت اور حمایت حاصل نہیں کرسکی، جس کی اسے اشد ضرورت ہے۔ غزہ کے سابق وزیرِ صحت باسم نعیم نے مارچ ۲۰۱۵ء میں ’’المانیٹر نیوز‘‘ کو بتایا تھا کہ ’’حماس اپنی تنہائی ختم کرنے کے لیے یورپ اور پوری دنیا کے ملکوں سے رابطے کررہی ہے۔ کچھ ممالک ہم سے بات بھی کررہے ہیں مگر کچھ وجوہات کے باعث نہ وہ خود اس کا اعلان کرتے ہیں، نہ کرنے دیتے ہیں‘‘۔
دس سال گزرنے کے بعدیہ کوئی فخر کی بات نہیں ہے، خاص طور پر جبکہ حماس کے رہنما گزشتہ پوری دہائی کے دوران بین الاقوامی پذیرائی کے حصول کے لیے ہی سرگرداں رہے ہیں۔ مشعل دنیا بھر کی معروف شخصیات سے ملتے رہتے ہیں جن میں سابق امریکی صدر جمی کارٹر بہت نمایاں ہیں۔ غزہ میں حماس کے کرتا دھرتا اسمٰعیل ہانیہ بھی کچھ کم متحرک نہیں۔ وہ شمالی افریقا سے لے کر خلیج فارس تک سرکاری دوروں پر جاچکے ہیں اور غزہ کے محصور علاقے میں بیرونی سرکاری وفود اور حقائق جاننے کی غرض سے آنے والے کمیشنوں کا استقبال کرتے رہتے ہیں۔ فلسطین، اسرائیل امن عمل میں شامل چار کی سنگت، یعنی اقوام متحدہ، امریکا، یورپی یونین، اور روس کے درمیانے درجے کے سفارتکاروں سے بھی ان کے دفتر کے وسیع روابط قائم ہوگئے ہیں۔ گزشتہ چھ ماہ میں مشعل اور ہانیہ سمیت حماس کے اعلیٰ رہنما سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر، سعودی شاہ سلمان، روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف، تُرک صدر رجب طیب ایردوان اور جنوبی افریقی صدر جیکب زوما سے ملاقاتیں کرچکے ہیں۔ حماس کے ایک ترجمان کی جانب سے ’’تسلسل کی حامل‘‘ قرار دی گئی ان ملاقاتوں کو مسترد کرتے ہوئے فلسطینی اتھارٹی کے سابق عہدیدار غیث العمری جیسے مبصرین انہیں حماس کے رہنماؤں کی جانب سے ’’اپنی اہمیت سے زیادہ‘‘ توجہ حاصل کرنے کی کوشش گردانتے ہیں۔ درحقیقت جیکب زوما کے ساتھ کیپ ٹاؤن میں خالد مشعل کی ملاقات وہ پہلا موقع تھا جب کسی غیرمسلم سربراہِ مملکت نے حماس کے سیاسی سربراہ کی میزبانی کی ہو۔
حماس کو بین الاقوامی پذیرائی نہ ملنے کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اس نے ۲۰۰۶ء میں چار بڑی طاقتوں کی جانب سے تشدد ترک کرنے، اسرائیل کو تسلیم کرنے اور پہلے سے طے شدہ امن معاہدات کی پاسداری کرنے کے مطالبات ماننے سے انکار کردیا تھا۔ ۲۰۰۶ء کے انتخابات کے موقع پر حماس کے ایک سینئر ترجمان نے بی بی سی سے کہا تھا کہ اگر اسرائیل پورا مغربی کنارا اور یروشلم بھی خالی کردے، تب بھی حماس صرف دس سالہ جنگ بندی پر راضی ہوسکتی ہے۔
انتخابی فتح کے بعد بھی حماس کے رہنما چار رکنی اتحاد کی بات نہ ماننے پر مُصِر تھے، حالانکہ غزہ کی بیرونی امداد رک جانے کا خطرہ منڈلا رہا تھا۔ مارچ ۲۰۰۶ء میں حماس کا پہلا وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد ہانیہ نے فیصلہ کن انداز میں وعدہ کیا تھا کہ ’’ہم زعتر کے پتے، گھاس اور نمک کھالیں گے مگر نہ غداری کریں گے اور نہ رسوائی برداشت کریں گے‘‘۔ مشعل کا لہجہ بھی کچھ کم پُرعزم نہیں تھا۔ انہوں نے چار رکنی اتحاد کے رہنماؤں کی بابت کہا کہ ’’ہم اپنے مقاصد حاصل کریں گے، چاہے آپ ساتھ ہوں یا نہ ہوں‘‘۔
مگر ان کی یہ بہادری زیادہ عرصے نہ چلی۔ جیسے ہی انتخابات کے بعد اُبال ٹھنڈا ہوا تو حماس کے رہنماؤں کو اندازہ ہوگیا کہ اسرائیل سے لڑنے، اوران کی انتخابی فتح کو دھندلا کر بین الاقوامی سطح پر تنہا کرنے کی کوششوں میں مصروف فلسطینی اتھارٹی سے نمٹنے کے لیے سفارتی داؤ پیچ آزمانے کے سوا اور کوئی راستہ نہیں۔ لیکن پھر بھی انہوں نے چار فریقی اتحاد کی کوئی بات نہ مانی بلکہ ان مطالبات کو غیرمنصفانہ اور غیر منطقی گردانتے رہے۔ حماس نے نئے سال میں داخل ہوتے وقت اوائل جنوری میں اسرائیل کو تسلیم کرنے یا تشدد ترک کرنے کے بجائے یہ وعدہ کیا کہ سال ۲۰۱۶ء ’’ہر طرح کی مزاحمتی کارروائیوں میں ایک نئی جان پڑتی دیکھے گا‘‘۔
اس بند گلی میں ہونے کے باوجود گزشتہ دہائی سے حماس کے رہنما یہ تاثر دیتے آئے ہیں کہ بس کچھ وقت کی بات ہے، جلد ہی اہم سفارتی کامیابی کی جانب راستہ نکل آئے گا۔ ان کے اس اعتماد کی وجہ صرف ایک ہے ’’یورپ‘‘۔
۲۰۰۶ء کے انتخابات سے پہلے یورپی یونین حماس سے متعلق پالیسی پر تذبذب کا شکار تھی۔ اس پر کئی سال تک بحث اور سخت اختلافات بھی رہے جن میں سے بہت سے منظرِ عام پر بھی آئے۔ ۲۰۰۳ء میں اس نے امریکا کی پیروی کرتے ہوئے حماس کو دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کردیا۔ فرانس، آئرلینڈ اور اسپین جیسے رکن ممالک نے الاقصیٰ انتفاضہ کے جواب میں سخت اسرائیلی ردعمل پر احتجاج کرتے ہوئے اس اقدام کی مخالفت کی۔ ۲۰۰۴ء میں یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ ژاوئیر سولانا نے انکشاف کیا کہ انہوں نے تعلقات کی بہتری کے لیے حماس کے رہنماؤں سے خفیہ ملاقات کی تھی، تاہم بعد میں وہ اپنی اس بات سے دستبردار ہوگئے۔ ۲۰۰۶ء کے پارلیمانی انتخابات سے قبل جب مئی ۲۰۰۵ء میں حماس نے فلسطینی بلدیاتی انتخابات جیتے تو یورپی یونین نے ایک بار پھر اس تنظیم پر پابندی کے حوالے سے نظرثانی کی تھی۔
اس ملے جلے یورپی ردعمل سے حماس کی حوصلہ افزائی ہوئی اور اس نے ۲۰۰۶ء کی کامیابی سے پہلے ہی سفارتی سطح پر ’’سب سے پہلے یورپ‘‘ کی حکمتِ عملی اپناتے ہوئے امید لگالی کہ اس طرح اسے بین الاقوامی برادری سے زیادہ مؤثر پذیرائی مل سکے گی۔
یورپ سے ملنے والے اشاروں سے بھی لگا کہ یہ ایک راست اقدام تھا۔ اطالوی وزیراعظم رومانو پروڈی نے یورپی یونین پر بارہا زور دیا کہ وہ ابھرتی ہوئی ’’جمہوری اور تعاون پسند حماس‘‘ کو الگ تھلگ کرنے کے بجائے گلے لگائے۔ ان کے وزیر خارجہ مسیمو دالیما نے حماس کو آئرش ریپبلکن آرمی کے سیاسی بازو سِن فِین (Sinn Fein) سے تشبیہ دی جس نے ۱۹۹۸ء کے امن معاہدے کے بعد شمالی آئرلینڈ کی حکومت میں شمولیت اختیار کرلی تھی۔ فِن لینڈ کے وزیر خارجہ ایرکی تومیوجا (Erkki Tuomioja) نے یورپی یونین کو حماس کے ساتھ مل کر کام کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ’’اب یہ وہ تنظیم نہیں رہی جو انتخابات سے پہلے تھی‘‘۔
ان باتوں سے مسحور ہوکر حماس کے اس وقت کے وزیر خارجہ محمود زھار نے اپریل ۲۰۰۶ء میں اعلان کیا کہ ’’میں یورپ کے ان ملکوں میں جانے کو تیار ہوں جو ہمیں قبول کرنے پر آمادہ ہیں‘‘۔ مئی میں سوئیڈن نے یورپ کے دورے کے لیے حماس کے ایک وزیر کو ویزا جاری کیا۔ حماس کے اقتدار کو ایک سال پورا ہوتے ہوتے یورپی یونین، فرانس، اٹلی اور اسپین کے اس امن منصوبے کی توثیق کرچکی تھی، جس کے پانچ نکات میں سے کسی ایک میں بھی حماس سے کھل کر یہ مطالبہ نہیں کیا گیا تھا کہ وہ اسرائیل کا حقِ موجودگی تسلیم کرے۔ اور پھر مارچ ۲۰۰۷ء میں یورپی یونین کے خارجی تعلقات کے سابق کمشنر اور برطانوی دارالامراء کے رکن کرس پیٹن نے کئی لوگوں کی ترجمانی کرتے ہوئے حماس حکومت کی ناکہ بندی کرنے کے یورپی یونین کے فیصلے کو لایعنی قرار دیتے ہوئے مسترد کیا اور کہا کہ ’’اب حقیقت پسند ہوجانے کا وقت آگیا ہے‘‘۔
حماس کی جانب سے یورپ کو ترجیح دینے کی بنیاد محض یورپی یونین سے ملنے والے مثبت اشاروں ہی پر نہ تھی بلکہ یہ اُس پالیسی کی عکاسی بھی تھی جسے ۱۹۷۰ء کی دہائی میں یاسر عرفات اور فلسطینی تحریکِ آزادی (PLO) نے اپنایا تھا۔ دہشتگردی ختم کرنے اور اسرائیل کا حقِ موجودگی تسلیم کرنے کے پُرزور یورپی مطالبات کے باوجود پی ایل او پسِ پردہ ذرائع سے اس براعظم میں خود کو تسلیم کروانے میں کامیاب ہوگئی۔ گو کہ پی ایل او ۱۹۷۴ء کے یورپ، عرب مذاکرات کا باضابطہ حصہ نہ تھی مگر پھر بھی اس بات چیت میں اس کی کاوشیں صحیح معنوں میں رنگ لائی تھیں۔ ان مذاکرات میں شامل پی ایل او کے سینئر نمائندے نے بعد میں بتایا کہ ان کے ساتھی یورپ، عرب مذاکرات کا حصہ بن کر بظاہر غیر سیاسی مقاصد کے تحت ثقافتی، سماجی، یا محنت کشوں کے وفود میں شامل ہوجایا کرتے تھے۔ ان وفود کے ذریعے پی ایل او نے بون اور پیرس سمیت کلیدی یورپی دارالحکومتوں میں سیاسی پذیرائی حاصل کرلی تھی۔ پھر جلد ہی فرانس، اٹلی، یونان، پرتگال اور اسپین کے سرکردہ سیاستدان عرفات اور ان کے ماتحتوں کا گرمجوشی سے خیرمقدم کرتے ہوئے دیکھے جانے لگے۔ ۱۹۷۰ء کی دہائی کے اواخر تک ’’نیویارک ٹائمز‘‘ نے یہ اندازے لگانے شروع کردیے تھے کہ یورپی یونین کے ارکان میں سے کون سا ملک سب سے پہلے سرکاری دورے پر عرفات کا استقبال کرے گا۔
۲۰۰۶ء کے وسط میں جب حماس کے وزیر عاطف عدوان نے سوئیڈش ویزے پر جرمنی کا دورہ کیا تو ان کی جرمن ارکانِ پارلیمان سے ملاقاتوں کو ’’ذاتی، غیر سرکاری تبادلۂ خیال‘‘ کہا گیا۔ جرمن چانسلر اینجلا میرکل نے دورے کو ’’پریشان کن‘‘ قرار دیتے ہوئے چار فریقی سنگت کی شرائط کی پاسداری کا اعادہ کیا۔ مگر حماس کے رہنما غیر متزلزل رہے۔ انہوں نے عدوان کے دورے سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ان کی ’’سب سے پہلے یورپ‘‘ کی حکمتِ عملی بالآخر نتائج دے گی۔ ۲۰۰۷ء کے وسط میں الفتح کے ساتھ حکومت میں شامل ہونے جیسے کئی فیصلوں کے پیچھے یہی سوچ کارفرما تھی کہ یہ اقدامات اعلیٰ سطح پر یورپی دارالحکومتوں کے دوروں کی راہ ہموار کردیں گے۔ مگر وہ غلط تھے۔ آج تک حماس یورپی یونین کے کسی بڑے تو درکنار، چھوٹے دارالحکومت کے بھی اعلیٰ سطح یا سرکاری دورے پر نہیں جاسکی۔ اس اسلامی تنظیم نے صورتحال کا بالکل غلط اندازہ لگاتے ہوئے سمجھ لیا کہ یورپی یونین چار فریقی اتحاد کی شرائط پوری ہونے سے پہلے ہی سفارتی سطح پر اسے قریب لے آئے گی۔ درحقیقت حماس کی جانب سے جولائی ۲۰۰۷ء میں مسلح بغاوت کے ذریعے الفتح کو غزہ سے نکال باہر کرنے کے بعد یورپی یونین کا مؤقف مزید سخت ہوگیا ہے۔ اس نے بغاوت کی مذمت کی، حماس کی ساری براہِ راست امداد روک دی اور فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس کی جانب سے اتحادی حکومت ختم کرکے حماس کے بغیر انتظامیہ چلانے کے فیصلے کی حمایت کردی۔
اس حوالے سے یورپی مؤقف مزید سخت ہی ہوا ہے۔ ۲۰۰۹ء کے اوائل میں غزہ میں ہونے والی جنگ کے فوراً بعد اس وقت یورپی یونین کے کمشنر برائے ترقی و انسانی امداد کی ذمہ داریاں نبھانے والے بیلجیم کے سیاستدان لوئی مشیل نے تنازع کی ’’بھاری ذمہ داری‘‘ حماس پر ڈالتے ہوئے اسے ایک ’’دہشت گرد تنظیم‘‘ قرار دے کر مسترد کیا اور کہا کہ اسے ’’اسی طرح رد کیا جانا چاہیے‘‘۔ یورپی ریاستوں نے پالیسیاں سخت کرتے ہوئے حماس سے منسلک فلاحی تنظیموں پر بھی (جرمن وزیر داخلہ تھامس دے میزیرے کے ۲۰۱۰ء میں ادا کیے گئے الفاظ میں) یہ کہہ کر پابندیاں لگا دی تھیں کہ یہ تنظیمیں بالواسطہ طور پر ’’اسرائیل کے حقِ موجودگی‘‘ کے خلاف کام کررہی تھیں۔
اس کے باوجود حماس اپنی ’’سب سے پہلے یورپ‘‘ کی حکمتِ عملی ترک کرنے سے ہچکچا رہی ہے۔ ۲۰۱۱ء سے اب تک یہ تنظیم اس تگ و دو میں ہے کہ یورپی یونین کی دہشت گردوں کی فہرست سے اپنا نام نکلوا سکے۔ مشعل کا اصرار ہے کہ ۲۰۰۶ء کے بعد سے حماس کا ’’اعتدال اور لچک‘‘ کا رویہ فہرست سے اخراج کے لیے کافی ہے، مگر یورپی قانون ساز نہیں مانتے۔ سفارتی و سیاسی محاذوں پر پیشرفت میں ناکامی کے بعد جھنجھلاہٹ کا شکار حماس نے عدالتوں کا رخ کیا۔ ۲۰۱۴ء کے اواخر میں یورپی عدالت برائے انصاف نے یہ فیصلہ ضرور دیا کہ حماس کا نام فہرست سے نکالا جائے مگر یورپی یونین کے خارجی تعلقات کی اعلیٰ ترین افسر فیڈریکا موگرینی نے پھرتی کے ساتھ یہ وعدہ کرکے فیصلے کو ٹال دیا کہ ’’مداوے کے مناسب اقدامات‘‘ اٹھائے جائیں گے، اور پھر یونین کے تمام ۲۸ وزرائے خارجہ نے فیصلے کے خلاف اپیل کے حق میں ووٹ دے دیا۔
حماس کو یورپ میں سیاسی پذیرائی نہ ملنے کی وجوہات کو سمجھنا آسان ہے۔ اولاً، گو کہ یورپی یونین کی رکن ریاستیں اور برسلز میں بیٹھے اعلیٰ حکام حماس کو کلیدی فلسطینی نمائندہ مانتے ہیں، لیکن وہ ڈرتے ہیں کہ اسرائیل اور الفتح کے زیرِ اقتدار فلسطینی اتھارٹی کے خلاف اس کا رویہ دو ریاستی تصفیے کے ضمن میں تباہ کن ہے۔ ایک عرصے سے یورپی یونین کا مقصد دو ریاستی تصفیہ ہی رہا ہے، جس کے تحت وہ ایک ایسی اعتدال پسند فلسطینی ریاست کا قیام چاہتی ہے جو فتح کی حکومت میں رہ کر ایک محفوظ اسرائیل کے ساتھ امن سے رہے۔ امن کا یہ تصور گو کہ دور افتادہ ہے، مگر یورپی سیاسی شعور میں ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ ۱۹۷۰ء اور ۱۹۸۰ء کی دہائیوں میں فتح کے زیرِ اثر پی ایل او کو امن عمل میں کردار دینے کے لیے یورپی یونین کیوں کوشاں رہی، ۱۹۹۰ء کی دہائی میں اوسلو امن عمل کے دوران فتح کے زیرِ انتظام فلسطینی اتھارٹی کے لیے اس کی حمایت کیوں غیر متزلزل رہی، ۲۰۰۰ء میں اوسلو معاہدے کی ناکامی کے بعد اس نے یاسر عرفات اور فتح کی حمایت ترک کرنے کے لیے اسرائیلی و امریکی دباؤ کیوں رد کیا، اور ۲۰۰۶ء کے آئینی انتخابات میں حماس کی باضابطہ کامیابی کے بعد بھی یورپی یونین یاسر عرفات کے جانشین محمود عباس سے دوری اختیار کرنے پر تیار کیوں نہیں تھی۔
حماس کی ’’سب سے پہلے یورپ‘‘ کی حکمتِ عملی وقت کے غلط انتخاب کا بھی شکار ہوئی۔ یہ اس وقت سامنے آئی جب خاص طور پر ہائی ٹیک شعبے میں یورپی یونین اور اسرائیل کے معاشی تعلقات سنہرے دور سے گزر رہے تھے۔ اس طرح یورپی رہنماؤں میں اتفاقِ رائے پیدا ہوگیا کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے سے انکار کرنے والی حماس کو تسلیم کرنے کی طرف کوئی بھی قدم اٹھانا معاشی لحاظ سے تباہ کن ہوگا۔ دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ انہی دنوں یورپی یونین کی خارجی ترجیحات مشرقِ وسطیٰ سے ہٹ کر ایرانی جوہری پروگرام کی جانب مبذول ہورہی تھیں۔ اب ایسے وقت میں جب یورپ کے سر میں ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ کرنے کا سودا سمایا ہوا تھا، حماس کے لیے یہ باور کرانا بہت مشکل تھا کہ مشرقِ وسطیٰ میں یورپی اثر و رسوخ کا انحصار اس کے ساتھ یورپی یونین کے رویے میں تبدیلی پر ہے۔
علاقائی محاذ
’’سب سے پہلے یورپ‘‘ حکمتِ عملی کی ناکامی نے حماس کو اپنی توقعات کو لگام دینے پر مجبور کیا۔ لیکن اپنے گھر سے قریب، مشرقِ وسطیٰ میں وہ اپنی پوزیشن مستحکم کرنے میں لگی رہی۔ ترکی اور قطر نے اسے سفارتی مدد فراہم کی اور قطر نے تو متواتر امریکی حکومتوں اور سعودی عرب اور مصر جیسی علاقائی طاقتوں کے دباؤ کے باوجود گزشتہ دہائی میں حماس کی کھل کر معاشی مدد کی۔ لیکن عالمی سطح پر اچھی ساکھ اور یورپی یونین اور امریکا کے ساتھ قریبی روابط کے ہوتے ہوئے بھی دونوں ہی ملک حماس کا بین الاقوامی قد کاٹھ بڑھانے میں ناکام رہے۔
۲۰۱۲ء میں حماس نے مصر میں محمد مرسی اور اخوان المسلمون کے بامِ اقتدار تک پہنچنے پر یہ سوچ کر خوشی منائی کہ اب اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی کے خلاف قاہرہ اس کے ساتھ کھڑا ہوگا۔ ایسی افواہیں بھی تھیں کہ نئی حکومت غزہ کے اعلانِ آزادی پر بھی حماس کی حمایت کرسکتی ہے۔ یہ امید بڑی حقیقی تھی، جیسا کہ حماس کے عہدیدار احمد یوسف نے فلسطینی نیوز سروس ’’مان نیوز‘‘ کو بتایا کہ مصر میں اخوان کی حکومت ’’بین الاقوامی برادری کو ہمیں تسلیم کرنے اور ہمارے ساتھ معاملات کرنے پر آمادہ کرلے گی‘‘۔
یہ ارمان اس وقت خاک میں مل گیا جب مصری فوج نے ۲۰۱۳ء کے موسمِ گرما میں مرسی کا تختہ الٹ دیا۔ اس کے بعد عبد الفتاح السیسی کی فوجی حکومت نے اخوان اور اس کے حامیوں کے خلاف کارروائیوں کے تسلسل میں مصر اور غزہ کے درمیان قائم سرنگوں اور سرحدی راستوں کو بند کرکے خود کو حماس سے دور کرلیا۔
اسی دوران دمشق سے اپنا صدر دفتر دوہا منتقل کرنے کے حماس کے فیصلے نے شام کے ساتھ اس کی طویل اور ثمربار تعلق داری کا بھی خاتمہ کردیا۔ بشار الاسد کے ساتھ دوری کا دباؤ ایران کے ساتھ تعلقات پر بھی پڑا جو شام کا قریب ترین علاقائی اتحادی ہونے کے ساتھ ساتھ حماس کا مسلسل حامی بھی تھا۔ لیکن ساری خبریں بری بھی نہیں ہیں۔ مشعل نے حال ہی میں یقین ظاہر کیا کہ حماس نے سعودی عرب، مصر اور ایران جیسی علاقائی طاقتوں کے ساتھ ’’غلط فہمیاں‘‘ دور کرنے کی جانب پیش قدمی کی ہے۔ ایران اور سعودی عرب کی حالیہ کشیدگی نے یہ کام مشکل تو بنادیا ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ حماس کو عرب دنیا میں اپنی ساکھ بہتر بنانے کے نئے مواقع بھی دیے ہیں، چاہے اس کی قیمت ایران کے ساتھ تعلقات کی خرابی ہی کیوں نہ ہو۔ خاص طور پر ایران کے خلاف سُنّی اتحاد بنانے کے ضمن میں ریاض نے اخوان المسلمون سے اپنی طویل دشمنی بھی کم کی ہے، جو حماس کے لیے نیک شگون ہے کیونکہ وہ بہرحال اخوان ہی کی فلسطینی شاخ ہے۔
حماس میدان میں رہتے ہوئے چھوٹی کامیابیاں بھی حاصل کرسکتی ہے۔ سوئٹزرلینڈ نے حماس کو دہشت گرد قرار دینے کا برسلز کا فیصلہ ماننے سے انکار کر رکھا ہے، گوکہ سوئس حکومت نے اسے باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا، تاہم حماس کے ایک ترجمان نے قومی پارلیمان میں ہونے والے چند اجلاسوں میں شرکت کی ہے۔ گزشتہ اگست میں مشعل سے دوہا میں ملاقات کے بعد روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف نے انہیں بات چیت کے لیے ماسکو آنے کی دعوت دی۔ کچھ ماہ بعد وزارت خارجہ میں ان کے نائب میخائل بوگدانوف نے حماس کے خلاف یورپی و امریکی نکتۂ نظر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہم اس سے اتفاق نہیں کرتے‘‘ کیونکہ روس کے نزدیک حماس ’’فلسطینی معاشرے کا ایک جزوِ لاینفک ہے‘‘۔ اطلاعات تھیں کہ جنوبی افریقا کے دورے میں مشعل سے حکمراں اے این سی پارٹی نے تحریری وعدہ کیا ہے کہ وہ تنظیم کے ساتھ تعلقات بہتر کرے گی اور اپنے ملک میں اس کے ایک دفتر کے قیام پر بھی غور کرے گی۔
یورپی حمایت کی عدم موجودگی اور امریکا میں دونوں جماعتوں کے صدارتی امیدواروں کی جانب سے حماس سمیت دیگر اسلامی تنظیموں کے خلاف سخت مؤقف اپنائے جانے کے تناظر میں یہ معمولی کامیابیاں بھی نظر انداز نہیں کی جاسکتیں۔ لیکن بہرحال انہیں اس پذیرائی اور حمایت کا ہم پلہ بھی قرار نہیں دیا جاسکتا جس کی حماس کو دس سال قبل اقتدار میں آنے کے بعد یورپ اور پھر پوری دنیا سے امید اور توقع تھی۔
(ترجمہ: حارث رقیب عظیمی)
“Hamas’ lost decade”. (“Foreign Affairs”. January 27, 2016)
Leave a Reply