
ایک سال قبل مقبوضہ غرب اردن میں فلسطینی الیکشن سینٹر سے جب انتخابات کے نتائج آنا شروع ہوئے تو حماس اور الفتح کے اہلکاروں کو اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا۔ حماس سرفہرست تھی اور یہ بتانا مشکل تھا کہ کون زیادہ محوِ حیرت تھا، حماس کے کارکن یا الفتح کے۔ حماس کے لوگوں کو اچھی کارکردگی کا اندازہ تھا لیکن ان کا خیال تھا کہ وہ اپوزیشن میں رہیں گے، انہیں اُمید نہیں تھی کہ وہ پارلیمانی انتخابات جیت جائیں گے اور فلسطینی انتظامیہ پر ان کا کنٹرول ہو گا۔
الفتح کو شکست کی امید نہیں تھی۔ دونوں جماعتوں کو انتخابات کے نتائج سمجھنے میں مہینوں لگے۔ حماس نے حکومت سازی کے لیے انتخاب نہیں جیتا تھا، کیونکہ فلسطین ایک ریاست نہیں ہے۔ جس خطے کو وہ ریاست کا درجہ دلانا چاہتی ہے وہ اسرائیلی فوج کے قبضے میں ہے۔۱۹۹۰ء کے عشرے کے امن عمل کا جو کہ اب ناکام ہو گیا ہے، ایک اثر یہ ہوا کہ اسرائیل فلسطینیوں کو اپنی زندگی کے کچھ شعبوں جیسے پولیس، صحت اور تعلیمی نظام میں انتظامی امور سنبھالنے کی اجازت دیتا ہے۔
چونکہ فلسطینی الفتح کی برسوں کی کرپشن اور بدانتظامیوں سے پریشان تھے اور اسرائیل کی جانب اس کی پالیسیوں کو کامیاب نہیں سمجھتے تھے، اس لیے انہوں نے حماس کے حق میں ووٹ دے دیا۔الفتح اور اس کے رہنما محمود عباس نے، جو اَب بھی فلسطینیوں کے منتخب صدر ہیں، اسرائیل کو تسلیم کر لیا ہے اور ایک فلسطینی ریاست کے قیام پر یقین رکھتے ہیں جس کے ساتھ اسرائیل ایک پڑوسی ملک کی حیثیت سے وجود میں رہے گا۔ فلسطینی بھی کچھ حقیقت پسندانہ رویہ رکھتے ہیں۔ لیکن ایک سال قبل جب فلسطینی ووٹ دینے گئے تو ان پر واضح تھا کہ ۱۹۹۰ء کے عشرے کی اعتدال پسندانہ سیاست انہیں آزادی کی جانب لانے میں کامیاب نہیں رہی۔ وہ ۲۰۰۰ء میں شروع ہونے والی مسلح تحریک مزاحمت سے بھی بیزارہو گئے تھے۔
فلسطینی عوام الفتح کو چانٹا لگانا اور اسرائیل کو ایک پیغام بھیجنا چاہتے تھے کہ وہ ان کے ساتھ ایسے وقت تعاون نہیں جاری رکھ سکتے جب وہ غزہ کو دنیا کا سب سے بڑا جیل بنا کر رکھیں اور غرب اردن میں یہودی بستیاں بسا کر اسرائیلی قبضے میں توسیع کرتے رہیں۔ فلسطینیوں کو بھی اندازہ تو رہا ہو گا کہ حماس کو ووٹ دینا ایک پُرخطر راستے پر چلنے کے مترادف ہے۔ ان کے اندر ہر طرف مایوسی تھی، شاید خودکش رجحان بھی اور جہاں انہیں معلوم تھا کہ حماس کی کامیابی اسرائیل قبول نہیں کرے گا، وہیں انہیں یقین تھا کہ جمہوری انتخابات کے نتائج کو باقی دنیا میں سراہا جائے گا۔امریکی اہلکار عربوں میں زوال، کرپشن اور پسماندگی کے حل کے لیے جمہوریت کی بات تو کر ہی رہے تھے۔ تاہم امریکا، یورپی یونین اور روس کی جانب سے یہ پیغام بھی تھا کہ فلسطینی جس کو چاہیں ووٹ دے سکتے ہیں لیکن اگر انتخابی فاتح انہیں قبول نہیں ہو گا تو ان کی لیے اس کے ساتھ تعلقات رکھنا لازمی بھی نہیں۔
گذشتہ ایک سال فلسطینیوں کے لیے ایک پُرخطر سال ثابت ہوا ہے۔ حماس نے اسرائیل کی حقیقت کو تسلیم کرنے، تشدد کا راستہ ترک کرنے اور الفتح کی حکومت کی جانب سے کیے جانے والے معاہدوں کو تسلیم کرنے کے بیرونی دنیا کے الٹی میٹم کو ٹھکرا دیا۔ لہٰذا اسرائیل اور بڑے ممالک نے فلسطینیوں کو وہ پیسے دینا بند کر دیے جو ۱۹۹۰ء کے عشرے کے امن کے عمل کا نتیجہ تھے۔ جب حماس نے انتخاب جیتا، اس وقت فلسطینی انتظامیہ مالی مشکلات کا شکار تھی جو کہ خراب تر ہوتی گئی۔ فلسطینی انتظامیہ کے ملازمین جیسے ڈاکٹروں اور ٹیچروں کو تنخواہیں نہیں ملیں، ہسپتالوں میں ادویات کی فراہمی رک گئی۔
جب اسرائیل کے سرحدی شہر سیدروت پر راکٹ داغے جانے لگے اور ایک کارروائی کے دوران ایک اسرائیلی فوجی کو قبضے میں لے لیا گیا تو اسرائیلی فوج نے غزہ میں ایک فوجی آپریشن شروع کر دیا جو کہ سال بھر تک جاری رہی۔۲۰۰۶ء میں اقوامِ متحدہ نے ایک اندازہ لگایا کہ مقبوضہ علاقوں میں ۸۷۶ فلسطینی ہلاک ہوئے جبکہ چار ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔ دوسری جانب ۲۵ اسرائیلی ہلاک ہوئے اور ۳۷۷ زخمی۔
یاسر عرفات کی جماعت الفتح اقتدار کی عادی ہو چکی تھی، نئے حالات اس کے لیے مشکل ثابت ہو رہے تھے۔ فلسطینی سکیورٹی فورسز کے بیشتر دھڑوں پر الفتح کا کنٹرول بھی باقی ہے۔ انتخابات سے قبل بھی فلسطینی معاشرہ مستقبل کے بارے میں مستقل نااُمیدی سے کمزور ہو چکا تھا اور اسرائیل کے فوجی قبضے کے تحت بکھر رہا تھا۔اسرائیل نے ۲۰۰۵ء میں غزہ سے آبادکاروں کو نکال لیا لیکن ابھی وہ بین الاقوامی قوانین کے تحت غزہ پر ایک قابض طاقت ہے۔ اقتدار کھونے کا الفتح کا افسوس، حماس کے حامیوں کے اندر اس بات پر غصہ کہ ان کی انتخابی کامیابی پر سوالات اٹھائے جارہے ہیں اور اسرائیلیوں کی جانب سے جاری رہنے والے دبائو نے مزید تشدد کو جنم دیا۔
حماس اور الفتح کے درمیان جاری رہنے والی کشیدگی اور فائرنگ کے واقعات میں کم سے کم ۶۰ فلسطینی ہلاک ہوئے ہیں۔ اگر ایک گولی بھی کسی اہم رہنما کو لگ جاتی تو فلسطینیوں کے اندر خانہ جنگی شروع ہو جاتی جس کا خطرہ اب بھی برقرار ہے۔
امریکا کی جانب سے اب تک سب سے اہم مداخلت یہ رہی ہے کہ اس نے محمود عباس اور ان کے حامیوں کے لیے ہتھیاروں کی فراہمی شروع کر دی ہے۔ محمود عباس سے تعلق رکھنے والے وزیراعظم اسماعیل ہنیہ کے ساتھ ایک متحدہ قومی حکومت کے لیے بات چیت اور اسرائیل کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔
مغربی ممالک میں فلسطینی صدر کے حامی یہ امید کر رہے ہیں کہ وہ ایک ایسی نئی حکومت قائم کر سکیں گے جو اسرائیل کے وجود سے متعلق کچھ الفاظ کی تشکیل پر متفق ہو سکے اور بیرونی امداد پھر سے فلسطینیوں کو جاری کی جاسکے جو حماس کی انتظامیہ کو کمزور کرنے کے لیے روک دی گئی ہے۔ لیکن ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا ورنہ اب تک یہ ہو گیا ہوتا۔فلسطینیوں کے لیے یہ بھی اہم ہے کہ سڑکوں پر جاری تشدد ختم ہو۔ کچھ فلسطینی حماس کی کارکردگی سے مایوس بھی ہیں۔ رائے شماری کے حالیہ جائزوں سے جن پر ہمیشہ یقین کرنا مشکل ہوتا ہے، ایسا لگتا ہے کہ آج اگر انتخابات منعقد ہوں تو محمود عباس کی الفتح کامیاب ہو جائے گی۔ آئندہ ایک سال حوصلہ افزا نہیں ہے۔ یہ پورا علاقہ ہی کئی نسلوں کی سب سے وسیع پسماندگی میں مبتلا ہے۔ کچھ لوگوں کی نظر میں موجودہ دور کی سب سے بڑا پسماندگی ہے۔
حماس اقتدار میں رہنے کے لیے جو کچھ بھی ممکن ہے، وہ کرے گی۔ اس کے خلاف پابندیاں اب بھی عائد ہیں لیکن مقبوضہ علاقوں میں فلسطینی صدر کے دفتر کے ذریعے پیسے اور امداد آنا شروع ہو گئے ہیں۔لیکن حماس دور تک نظر رکھتی ہے۔ اس کو یقین ہے کہ وقت اور تاریخ اس کے ساتھ ہیں اور یہ کہ مشرقِ وسطیٰ کا مستقبل اسلام پسندوں کے ہاتھوں میں ہے۔ حماس یہ سمجھتی ہے کہ گذشتہ ۵۰ برسوں کی الفتح کی سیکولر قومیت فلسطینیوں کو آزادی دلانے میں ناکام رہی ہے۔تمام دبائو کے باوجود حماس جہاں ایک سیاسی راستے پر چل رہی ہے وہیں اس نے مسلح جدوجہد کا راستہ بھی اختیار کیا ہوا ہے جسے ہر فلسطینی جائز سمجھتا ہے۔
حماس کے رہنما جو غرب اردن کی اسرائیلی جیلوں میں نہیں ہیں، کچھ اعتدال پسندانہ تصور کیے جانے والے بیانات بھی دیتے رہتے ہیں جس کے تحت غرب اردن، غزہ اور مشرقی یروشلم میں فلسطینی ریاست کے قیام کے بدلے میں اسرائیل کو ’دیرپا فائر بندی‘ کی پیش کش بھی کی جاتی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ مستقل جنگ کے بدلے سکون بہتر ہے کیونکہ باقی فیصلے اگلی نسلوں کو کرنے ہیں۔اسرائیل پورا غرب اردن چھوڑنے اور مشرقی یروشلم میں فلسطینی دارالحکومت کے قیام کے لیے تیار نہیں ہے۔ اگر وہ تیار بھی ہوتا تو بیشتر اسرائیلیوں اور بیرونِ ملک ان کے دوستوں کے پاس ایسے الفاظ کے لیے وقت نہیں ہے جنہیں وہ دہشت گرد تنظیموں کے ترجمانوں کی چالاکی سمجھتے ہیں۔وہ سوال کرتے ہیں کہ اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ اگر اسرائیل کے ساتھ فائر بندی ہو جائے تو حماس اس وقفے کو ہتھیار اکٹھا کرنے کے لیے استعمال نہیں کرے گی اور حماس کے اس چارٹر سے کیا سمجھیں جسے مذہبی استعارات میں تحریر کیا گیا ہے اور اس کے تحت تمام فلسطینی خطے کو اسلام کے کنٹرول میں تصور کیا جاتا ہے جہاں اسرائیل کے لیے جگہ نہیں تو حماس کو بنیاد کیوں فراہم کریں کہ اسے اسرائیل کو تباہ کرنے کا ایک موقع مل جائے؟ حماس کو ایک ریاست قائم کر کے ’فتح‘ کیوں دلا دیں جبکہ اس نے یہودیوں کو ہلاک نہ کرنے کے صرف زبانی بیان سے زیادہ کچھ نہیں کیا؟
اسرائیلیوں اور بیرونِ ملک ان کے دوستوں کے یہ سوالات سمجھ میں آنے والے ہیں۔ گذشتہ گیارہ برسوں کے دوران حماس نے سیکڑوں اسرائیلی شہریوں کو ہلاک کیا ہے۔ لیکن اگر حماس تبدیل ہور ہی ہے، مسلح جدوجہد کی آسانیوں اور سیاست کی پیچیدگیوں کو اپنانے کی کوشش کر رہی ہے، تو کیا کریں؟
ایسا ضرور دکھائی دیتا ہے کہ حماس کے کچھ رہنما اسرائیل کے ساتھ رہنے کے راستے کی جانب چل رہے ہیں، اسی راستے پر جس پر ۱۹۸۰ء اور ۱۹۹۰ء کے عشروں کے درمیان الفتح اور فلسطینی تنظیم یعنی پی ایل او کے رہنما چل رہے تھے۔مغربی ممالک کے رہنمائوں نے اب تک یہ جاننے کی کوشش نہیں کی ہے کہ اسرائیل کے ساتھ ساتھ رہنے کے بارے میں حماس کے رہنمائوں کے بیانات کتنے سنجیدہ ہیں۔ لیکن مغربی ملکوں کے ان رہنمائوں میں سے کوئی ایک بھی، مثال کے طور پر امریکا کا اگلا صدر، اگر مشرقِ وسطیٰ کے اس سیاسی تعطل کو توڑنا چاہے تو حماس کی اس سنجیدگی کو سمجھنا ہی ایک راستہ ہے۔
(بحوالہ بی بی سی اردو ڈاٹ کام)
Leave a Reply