حماس نے مشرق وسطیٰ، افریقا اور دیگر خطوں میں اپنے رہنماؤں کو بھیجنا شروع کیا ہے تاکہ تعلقات بہتر بناکر ان خطوں بالخصوص یورپی یونین میں تنظیم کے حوالے سے پائے جانے والے منفی تاثر کو زائل کیا جاسکے۔ حماس کے ’’چینج اینڈ ریفارم‘‘ پارلیمنٹری بلاک کا ایک وفد ۲۱ نومبر کو ترکی کے شہر استنبول پہنچا۔ وہاں اس وفد نے حماس کے مقامی رہنماؤں سے ملاقات کی اور تنظیمی امور کا جائزہ لیا۔ وفد کی قیادت محمود الظہر نے کی۔ وفد نے حماس کے جن رہنماؤں سے ملاقات کی ان میں مہر صالح بھی شامل تھے۔ اسی وفد کو یکم دسمبر کو جنوبی افریقا بھی جانا تھا۔ حماس کے لیے خیر سگالی کے یہ دورے ناگزیر تھے کیونکہ اس کی سب سے بڑی حریف جماعت فتح فلسطینی قانون ساز کونسل (پی ایل سی) کو تحلیل کرنا چاہتی ہے۔ اس ادارے پر حماس کا کنٹرول ہے۔ ۲۰۰۶ء کے انتخابات میں حماس نے کامیابی حاصل کی تھی اور پی ایل سی پر چھاگئی تھی۔ اگلے ہی سال حماس نے فتح سے راہیں الگ کرتے ہوئے غزہ کی پٹی کو عسکری شکنجے میں کس لیا تھا۔ فلسطینی مقتدرہ کے صدر محمود عباس کا تعلق فتح سے ہے۔ مغربی کنارے اور فلسطین مرکزی کونسل پر محمود عباس کا کنٹرول ہے۔ حماس نے پی ایل سی کے اجلاس باقاعدگی سے منعقد کیے، مگر دوسری طرف محمود عباس نے غرب اردن کے صدر مقام رام اللہ میں کونسل کے دروازے بند کردیے ہیں۔
حماس کے پارلیمانی بلاک کے سربراہ یحییٰ موسیٰ نے المانیٹر کو بتایا کہ حماس کا خیرسگالی وفد ترکی کے علاوہ جنوبی افریقا، ایران، تیونس، لبنان، مراکش اور الجزائر کا بھی دورہ کرے گا۔ ان کے بقول ان تمام یعنی ساتوں ممالک سے دورے کی باضابطہ دعوت موصول ہوئی ہے۔ وفد کے دورے جنوری ۲۰۱۹ء کے وسط میں مکمل ہوں گے۔
ان دوروں کا مقصد عالمی برادری اور بالخصوص خطے کے ممالک کو محصور غزہ کی پٹی، غرب اردن اور مقبوضہ بیت المقدس میں فلسطینیوں کی مشکلات سے آگاہ کرنا اور فسلطینی کاز کے حوالے سے زیادہ سے زیادہ حمایت حاصل کرنا ہے۔ یحییٰ موسیٰ کہتے ہیں کہ اسرائیل کی جانب سے غزہ کی پٹی کی ناکہ بندی اور اس کے رفاہ بارڈر کی راہداری بند کرنے کے اقدام سے کئی سال تک حماس کے لیے کہیں بھی وفود بھیجنا ممکن نہ رہا۔ اس حقیقت کے تناظر میں موجودہ دورے بہت اہم ہیں۔ حماس کی مشکلات یوں بھی بڑھ گئی تھیں کہ ۲۰۱۳ء میں منتخب صدر محمد مرسی کو فوج کے ہاتھوں ہٹائے جانے کے بعد سے حماس اور مصر کے تعلقات میں کشیدگی در آئی تھی اور پھر ۲۰۱۵ء میں مصر کی کورٹ آف ارجنٹ میٹرز نے حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا تھا۔ چار ماہ بعد ایک اپیل پر کورٹ نے اس فیصلے کو غلط قرار دیا تب کہیں حماس کے لیے مصر میں دوبارہ داخل ہونا ممکن ہوسکا۔
حماس نے ۲۰۰۶ء میں عام انتخابات میں بھرپور کامیابی حاصل کی اور فلسطین قانون ساز کونسل میں مضبوط ترین جماعت بن کر ابھری مگر چونکہ حماس کو یورپی یونین، امریکا اور دیگر ترقی یافتہ ممالک نے دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے، اس لیے کسی بھی عالمی پارلیمانی فورم میں پی ایل سی کو فلسطینیوں کی نمائندگی کا حق حاصل نہیں۔ تمام بڑے عالمی پارلیمانی پلیٹ فارمز میں شرکت کے دعوت نامے فلسطینی قومی کونسل کو بھیجے جاتے ہیں، جو غرب اردن، غزہ کی پٹی اور باقی دنیا میں مقیم فلسطینیوں کا سب سے بڑا نمائندہ ادارہ ہے۔ فلسطینی قومی کونسل دنیا بھر میں وفود بھیجتی ہے، تاہم اِن میں حماس کے ارکان شامل نہیں کیے جاتے۔
فتح سے تعلق رکھنے والے پی ایل سی کے رکن اور فلسطینی قومی کونسل کے بھی رکن ولید اصاف کہتے ہیں کہ سات ممالک کے دورے کرنے والے فلسطینی وفد میں حماس سے تعلق رکھنے والے افراد کو پی ایل سی کے ارکان کی حیثیت سے نہیں بلکہ ان کی اپنی ذاتی یعنی حماس کے ارکان کی حیثیت میں شامل کیا گیا ہے۔ ولید اصاف نے ساتوں ممالک کے قانون ساز اداروں پر زور دیا ہے کہ وہ پارلیمانی معاملات پر حماس کے بجائے فلسطینی قومی کونسل سے براہِ راست بات کریں۔ وہ کہتے ہیں کہ عالمی پارلیمانی یونین، عرب انٹر پارلیمنٹری یونین اور افریقی پارلیمانی یونین نے کم و بیش ۱۱ سال سے تنظیم آزادیٔ فلسطین کو فلسطینیوں کی نمائندہ تنظیم مان کر اُس سے بات چیت کی ہے۔
قانونی امور کے ماہر اور فلسطین کے سینٹر فار پالیسی ریسرچ اینڈ اسٹریٹجک اسٹڈیز کے ڈائریکٹر برائے غزہ صلاح عبدالعطی کہتے ہیں کہ عالمی سطح پر تعلقات بہتر بنانے کے حوالے سے حماس کے ارکان کے یہ دورے بہت اہم ہیں۔ امید ہے کہ ان دوروں سے فلسطین کے نیشنل پروجیکٹ اور فلسطینی کاز کے لیے عالمی سطح پر حمایت کا حصول یقینی بنانے میں خاطر خواہ حد تک مدد ملے گی۔
صلاح عبدالعطی نے حماس اور فتح پر زور دیا ہے کہ وہ الگ الگ رہتے ہوئے کچھ کرنے کے بجائے مل کرکام کریں تاکہ عالمی سطح پر فلسطینی کاز کے لیے زیادہ سے زیادہ حمایت کا حصول یقینی بنایا جاسکے۔ اس وقت کیفیت یہ ہے کہ دونوں دھڑے اپنے اپنے زیر اثر علاقوں میں اپنے طور پر قوانین وضع اور نافذ کرتے ہیں۔ صلاح عبدالعطی کہتے ہیں کہ اس سے فلسطینی کاز کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔
سیاسی تجزیہ کار شہرابی الغریب نے المانیٹر سے گفتگو میں کہا کہ حماس کے ان دوروں سے فلسطینی کاز کی طرف عالمی برادری کی توجہ مبذول کرانے میں مدد ملے گی۔ یہ دورے اس اعتبار سے بھی اہم ہیں کہ اسرائیلی قیادت اس وقت اومان، اردن اور متحدہ عرب امارات سے سفارتی سطح پر تعلقات بہتر بنانے کے حوالے سے خاصی متحرک ہے۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Hamas politicos make rounds internationally to gain backing”.(“al-monitor.com”. November 30, 2018)
Leave a Reply