
پہلی قسط
۱۹۴۰ء کے عشرے میں منظر عام پر آنے والی مقبول عام تحریک اخوان المسلمون کے فوجی اور سیاسی بازو پر مشتمل حماس اپنے قیام کے بعد جس تیزی سے آگے بڑھی اس پر سب کو حیرت ہوئی ہے۔ اس نے اپنی پیش قدمی میں ’’الفتح‘‘ کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ حماس نے پہلی بار ۲۵ جنوری ۲۰۰۶ء کے انتخابات میں حصہ لیا اور اپنی کامیابیوں سے سب کو چونکا کر رکھ دیا۔ حماس نے اپنے منشور کی ابتدا قرآن حکیم میں سورہ ہود کی آیت نمبر۸۸ سے کی۔ جس کا ترجمہ ہے:
’’میں تو اصلاح کرنا چاہتا ہوں جہاں تک بھی میرا بس چلے۔ اور یہ جو کچھ میں کرنا چاہتا ہوں اس کا سارا انحصار اللہ کی توفیق پر ہے۔ اُسی پر میں نے بھروسہ کیا اور ہر معاملہ میں اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں‘‘۔
حماس نے اپنے منشور میں مزید لکھا ہے کہ ’’اپنے مقصد اور منصفانہ کاز کے لیے جدوجہد کرنے والے عوام کی طرف سے ہم پر جو ذمہ داری عائد ہوتی ہے اس کو پورا کرنے کے لیے جس کے متعلق ہمارا ایمان ہے کہ یہ اسلام کا ایک عظیم ترین ستون ہے، ہم پر جو فریضہ عائد ہوتا ہے اس کی بنا پر ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم فلسطین کی اصلاح کے لیے اپنا حصہ ادا کریں تاکہ اپنے عوام کے مصائب و مشکلات کو کم کر سکیں۔
حماس کا کہنا ہے کہ تبدیلی اور اصلاحات کا مقصد ایک ترقی یافتہ فلسطینی سول سوسائٹی کی تعمیر بھی ہے جس کی بنیاد کثیرالسیاست اور اقتدار کی باہمی گردش ہو۔ اس کا مقصد فلسطین کے سیاسی نظام اور اس کے سیاسی اصلاحات کے پروگرام کی طرف اس کی رہنمائی کرنا ہے۔ جس کے ذریعے فلسطینی عوام اپنے حقوق حاصل کر سکیں اور یہ صورتحال پیش نظر رکھی جائے کہ ہماری سرزمین پر ظالمانہ طور پر قبضہ کیا جا چکا ہے اور فلسطینی عوام کی زندگی کے ہر ہر پہلو میں مداخلت کو بھی ذہن میں رکھا جائے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتے ہیں کہ:
’’نیز اس کی ہدایت یہ ہے کہ یہی میرا سیدھا راستہ ہے لہٰذا تم اسی پر چلو اور دوسرے راستوں پر نہ چلو کہ وہ راستے سے ہٹا کر تمہیں پراگندہ کر دیں گے۔ یہ وہ ہدایت جو تمہارے رب نے تمہیں کی ہے‘‘۔ ( الانعام:۱۵۳)
۱۔ ہمارا لازمی اصول:
حماس کی فہرست (تبدیلی اور اصلاح)نے متعدد لازمی اصول طے کیے ہیں جو اسلام سے اخذ کردہ ہیں ان کا خیال ہے کہ ان اصولوں پر نہ صرف فلسطینی عوام بلکہ عرب اور اسلامی ممالک کو بھی اتفاق کرنا چاہیے۔ مثلاً یہ کہ:
(i) اسلام اور اسلام کے مہذب کارنامے ہماری سیاسی، اقتصادی، سماجی اور قانونی شعبوں میں رہنمائی کا کام دیتے ہیں۔
(ii) تاریخی فلسطین عرب اور اسلامی سرزمین کا حصہ ہے۔ اس پر فلسطینی عوام کا حق ہے جسے وقت گزرنے کے ساتھ ختم نہیں کیا جا سکتا اور کوئی فوجی یا قانونی کارروائی اس حقیقت کو تبدیل نہیں کر سکتی۔
(iii) فلسطینی عوام ایک وحدت ہیں خواہ وہ کہیں بھی رہے ہوں اور وہ عرب اور امت مسلمہ کا جزولاینفک ہیں۔ ’’یہ تمہاری امت ایک ہی امت ہے اور میں ہی تمہارا رب ہوں تو میری ہی عبادت کرو‘‘۔ (الانبیاء: ۹۲)
(iv) فلسطینی عوام ابھی تک قومی آزادی کے مرحلے سے گزر رہے ہیں۔ انھیں اپنے حقوق واپس لینے کے لیے جدوجہد کرنے کا حق حاصل ہے اس کے لیے وہ تمام ذرائع بشمول مسلح مزاحمت کے استعمال کر سکتے ہیں۔ ہمیں اپنے تمام وسائل کو عوام کی جدوجہد کے لیے وقف کر دینا چاہیے اور قبضہ ختم کرانے اور آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے جس کا دارالحکومت بیت المقدس ہو تمام وسائل مہیا کرنے چاہئیں۔
(v) تمام فلسطینی مہاجرین اور ملک بدر کیے جانے والوں کو اپنے وطن اور املاک کی واپسی کا حق حاصل ہے۔ حق خود اختیاری اور ہمارے تمام قومی حقوق ان کے پیدائشی حقوق ہیں جن کو سیاسی سمجھوتوں کے ذریعے غصب نہیں کیا جا سکتا۔
(vi) ہماری سرزمین ’’بیت المقدس‘‘ مقدس مقامات، سمندر اور سرحدوں پر عوام کے پیدائشی حقوق کی مکمل پاسداری ضروری ہے اور اس کے لیے مکمل اور بااختیار فلسطینی ریاست کا قیام ناگزیر ہے جس کا دارالحکومت بیت المقدس ہو۔
(vii) قومی فلسطینی عمل کی ترجیحات میں فلسطینیوں کے قومی اتحاد کو مضبوط بنانا شامل ہیں
(viii) قیدیوں اور نظربندوں کا مسئلہ ترجیحات میں سرفہرست ہے۔
۲۔ تنبیہ اور رہنمائی:
(i) مبلّغین اور مذہبی رہنمائوں کی کارکردگی بہتر بنانے، وزارتوں میں سے ہم مرتبہ لوگوں کے برابر ان کو رُتبہ دینے اور انھیں اچھی ترغیبات دینے کے لیے ایسے قواعد اور رہنما اصول بنانا جس سے ان سے منصفانہ سلوک ہو سکے۔
(ii) مندرجہ بالا امور میں سیکوریٹی ایجنسیوں کی مداخلت بند کرنا، اسکالرز کو ان کے کام کے لیے سہولتیں فراہم کرنا اور تنہائی کی پالیسی ختم کرنا۔
(iii) تنبیہ اور رہنمائی کے قانون پر نظرِثانی کرنا تاکہ جو لوگ علم اور استعداد رکھتے ہیں وہ اپنے مذہبی اور قومی فرائض ادا کر سکیں۔
(iv) مساجد کی دیکھ بھال اور نئی مساجد تعمیر کرنا اور معاشرے میں ان کے مشنری اور تعلیمی کردار کو جاندار بنانا۔
(v) حج اور عمرے کے مسائل حل کرنا تاکہ زائرین یہ عبادات سہولت سے ادا کر سکیں۔
۳۔ تعلیمی پالیسی:
تعلیم نئی نسل کی تعمیر کی بنیاد ہے جو ملک کے مستقبل کی تشکیل کرنے کے ساتھ ساتھ آزادی اور خود مختاری کے خواب کی تعبیر کر سکتی ہے۔ اس لیے ہماری فہرست میں درج ذیل اقدامات شامل ہیں۔
(i) فلسطین میں تعلیمی فلسفے کی بنیادوں کو قائم کرنا۔ ان میں اسلام کا یہ اصول شامل ہے کہ اسلام جامع نظام ہے جو زندگی کے ہر شعبے میں رہنمائی فراہم کرتا ہے اور انسان کو عزت و وقار عطا کرتا ہے اورانفرادی حقوق اور اجتماعی حقوق میں توازن پیدا کرتا ہے۔
(ii) لازمی تعلیم کے اصول پر عمل کرنا اور ثانوی تعلیم کو توسیع دینا، جس میں پیشہ ورانہ تعلیم بھی شامل ہے۔
(iii) فلسطین کے تعلیمی فلسفے کی روشنی میں ہر عمر کے طلبا کی ضروریات کے مطابق نصاب مرتب کرنا۔ (جاری ہے!)
(اس مضمون کی تیاری میں پروفیسر حبیب الحق ندوی کی کتاب ’’فلسطین اور بین الاقوامی سیاسیات‘‘ ڈاکٹر محسن محمد صالح کی کتاب ’’تاریخ فلسطین‘‘ اعظم طمیمی کی کتاب ’’حماس‘‘ ویب سائٹ History of palestin سے مدد لی گئی ہے)
Leave a Reply