
اسرائیل کے ساتھ جنگ بندی میں سُست پیش رفت پر مصر اور حماس کے درمیان ایک بار پھر کشیدگی پیدا ہوگئی۔ حماس نے مصر پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ مئی میں آخری لڑائی کے بعد فلسطینی دھڑوں کے ساتھ طے پانے والے جنگ بندی کے معاہدوں پر عمل درآمد کو روک رہا ہے اور اس میں تاخیر کر رہا ہے۔ ابھی تک صرف دو مطالبات پورے کیے گئے ہیں، ان میں سے ایک قطر کی طرف سے دی جانے والی مالی امدادکی غزہ تک رسائی، اوردوسرا غزہ کی جنوبی پٹی میں کریم شالوم کراسنگ اور صلاح الدین گیٹ سے سامان کی بتدریج آمد کی اجازت ہے۔
حماس کے اہم رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ’’الجزیرہ چینل‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’مصر اپنے رویے سے یہ ثابت کر رہا ہے کہ وہ اپنے وعدے سے پیچھے ہٹ گیا ہے۔ہم اس صورت حال کو ایسے ہی چلتے رہنے نہیں دے سکتے،اگلا مرحلہ ہماری ساکھ کو ثابت کرے گا‘‘۔
انہوں نے مصر کی جانب سے غزہ کے حوالے سے کیے گئے وعدوں کو پورا کرنے میں ہچکچاہٹ پر حماس کی طرف سے شدید عدم اطمینان کا اظہار کیا۔ ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ حماس کی سیاسی اور عسکری قیادت اسرائیل کے ساتھ کشیدگی بڑھانے کے آپشنز کا مطالعہ کر رہی ہے۔
اگرچہ کئی دن گزرنے کے بعد بھی قاہرہ خاموش ہے۔ تاہم، اسرائیلی وزیر دفاع بینی گانٹز نے ۷ دسمبر کو وضاحت کی کہ اسرائیل حماس کی فوجی سرگرمیوں کو روکنا، طویل مدتی امن کے حصول، اور گرفتار اور لاپتا فوجیوں کی واپسی کی ضمانت چاہتا ہے، اور اس نے حماس سے ان معاملات کو حل کرنے کا مطالبہ کیا۔ دونوں فریقین کے درمیان چند ماہ کے سکون کے بعد دوبارہ سے کشیدگی پیدا ہونے کے امکان بڑھتے جا رہے ہیں۔ اس دوران مصر نے غزہ کی پٹی کو کچھ اقتصادی سہولیات فراہم کیں او رفح کراسنگ کے ذریعے فلسطینیوں کی نقل و حرکت میں بھی سہولت فراہم کی۔ تاہم یہ سہولتیں حماس کے لیے کافی نہیں تھیں۔
حماس کے ایک اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ’’المانیٹر‘‘ کو بتایا کہ قاہرہ اسرائیل کا ساتھ دے رہا ہے اور معاہدے کی شرائط سے حماس کو بلیک میل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ قیدیوں کے معاملے پر حماس سے مزید رعایتیں لینے کے لیے اس پر دبائو بڑھایا جا رہا ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ نومبر کے وسط میں حماس کے رہنما یحییٰ شنوار کی قیادت میں ایک وفد نے قاہرہ جانا تھا اور پھر وہاں سے ایران،قطر اور ترکی کا دورہ کرنا تھا، جسے مصر نے رفح کراسنگ پر روک لیا اور سرحد عبور کرنے کی اجازت نہ دی۔
حماس کے اہلکار کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس مستند معلومات ہیں کہ بہت سے معاملات پر مصر کا موقف اسرائیل سے بھی زیادہ سخت ہے۔ جیسا کہ غزہ کی تعمیر نو،اقتصادی سہولیات اور قیدیوں کے تبادلے جیسے معاملات۔ قاہرہ چاہتا ہے کہ حماس کو اسرائیل کے ساتھ حالیہ لڑائی کے بعد کوئی بھی داخلی کامیابی حاصل کرنے سے روکا جائے، تاکہ ’’فلسطینی اتھارٹی‘‘ اور ’’فتح تحریک‘‘کی نازک صورتحال کی روشنی میں،حماس کی فلسطین میں مقبولیت میں اضافہ نہ ہو۔
حماس کے ایک عہدیدار کا کہنا ہے کہ حماس اسرائیل کے ساتھ کشیدگی بڑھانے پر سنجیدگی سے غور کر رہی ہے، اسی سلسلے میں فلسطینی پارٹیوں کا اجلاس جلد منعقد کیا جا ئے گا، جس میں کشیدگی میں بتدریج اضافے کی منظوری دی جائے گی۔ حماس نے مصر کو معاہدے کی تمام شقوں پر بغیر کسی تاخیر کے عمل درآمد کے لیے دسمبر کے آخر تک کی تاریخ دی تھی۔
حماس کے جس وفد نے اکتوبر کے شروع میں مصر کا دورہ کیا اور مصری انٹیلی جنس حکام سے کئی ملاقاتیں کیں، نے اس وقت ہونے والی بات چیت کو مثبت قرار دیا تھا۔ قیادت نے بتایا تھاکہ قاہرہ نے رفح کراسنگ کے ذریعے نقل و حرکت میں آسانی پیدا کرنے، اقتصادی حالات کو بہتر بنانے اور تعمیر نو شروع کرنے کا وعدہ کیا ہے۔تاہم دو ماہ گزرنے کے بعد بھی غزہ والوں کو ابھی تک کوئی ٹھوس کارروائی نظر نہیں آئی۔
دریں اثنا، غزہ میں حالاتِ زندگی ابتر ہوتے جا رہے ہیں، فلسطینی عوام حماس کی قیادت پر اسرائیلی محاصرے کے اثرات کو کم کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں۔ ۷ دسمبر کو، اقوام متحدہ کی ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق، مشیل بیچلیٹ نے غزہ کی پٹی میں انسانی صورتحال کو’’تباہ کن‘‘ قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ غزہ کے لوگ اسرائیل کی کئی دہائیوں سے زمینی، سمندری اور فضائی ناکہ بندی کا شکار ہیں، جس کی وجہ سے اہم بنیادی ڈھانچا ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور سیوریج کا نظام بوسیدہ ہو چکا ہے۔
اسرائیلی وزیر خارجہ Yair Lapid مصری وزیر خارجہ سامح شکری سے ملاقات کے لیے قاہرہ میں موجودہیں تاکہ مسئلہ فلسطین، غزہ کی پٹی کی صورتحال اور حماس کے ساتھ قیدیوں کے معاملے پر تبادلہ خیال کیا جاسکے۔ نومبر کے آخر میں مصری خفیہ ایجنسی کے سربراہ عباس کامل نے تل ابیب کا دورہ کرنا تھا، جو نہ ہو سکا، اس کے بعد اسرائیلی وزیر خارجہ Yair Lapid نے قاہرہ کا دورہ کیا۔ نومبر کے آخر میں طے شدہ اس دورے میں جنگ بندی کو مضبوط بنانے اور اسرائیل اور حماس کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے پر بات چیت کی جانی تھی۔ قابل غور بات یہ ہے کہ حماس نے قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کو آگے بڑھانے کی تجویز پیش کی تھی، لیکن اسرائیل نے کوئی جواب نہیں دیا۔
غزہ میں حماس سے وابستہ فلسطینی اخبار کے سیاسی تجزیہ کار اور صحافی ’’ایاد القررہ‘‘ نے المانیٹر کو بتایا کہ مصر پر حماس کی قیادت کے غصے کی وجہ سے غزہ کی سرحدوں پر کشیدگی بڑھے گی۔ حماس اپنی ثالثی کی کوششوں میں قاہرہ کو کوئی نئی تاریخ دینے کے موڈ میں نہیں ہے۔ تحریک نے قاہرہ کو دسمبر کے آخر تک کا وقت دیا تھا۔ انہوں نے کہا، توقع ہے کہ قاہرہ اور اسرائیل آنے والے دنوں میں حماس کے ساتھ کشیدگی کم کرنے کے لیے کچھ پیش رفت کریں گے۔
غزہ کی اسلامی یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر، تیسیر محیسن نے المانیٹر کو بتایا کہ’’ حماس اور فلسطینی دھڑوں نے ثالثی کی کوششوں پر مصر کو صوابدید دی‘‘۔ تاہم ان دھڑوں کو مصر نے مایوس کیا، جو جغرافیائی قربت اور دیگر عوامل کی روشنی میں مسئلہ فلسطین کے حوالے سے سیاسی وسفارتی اقدام پر اجارہ داری قائم کر رہا ہے۔ محیسن نے وضاحت کی کہ’’ حماس کا خیال ہے کہ قاہرہ اور اسرائیل طویل مدتی جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے پر مراعات حاصل کرنے کے لیے معاہدے پر عملدرآمد میں تاخیری حربے استعمال کر رہے ہیں۔انہوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ قاہرہ آنے والے دنوں میں حماس کے غصے پر قابو پانے کی کوشش کرے گا، کیوں کہ امریکی انتظامیہ، اسرائیل اور مصر ایک ایسے وقت میں جب وہ ایران کے ساتھ نمٹنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں،غزہ کی پٹی میں کسی قسم کی کشیدگی نہیں چاہتے۔
(ترجمہ: حافظ محمد نوید نون)
“Hamas slams Egypt for botched mediation, delayed reconstruction”.(“al-monitor.com”. December 10, 2021)
Leave a Reply