
حماس نے ایران اور دیگر ممالک کی مدد سے برسوں میں جو طاقت جمع کی تھی، وہ اسرائیل کو ناکوں چنے چبوانے کے لیے کافی تھی۔ ایک طرف سے جنگ کے نئے ہتھکنڈے اور پینترے سیکھے گئے اور دوسری طرف زیادہ سے زیادہ اسلحہ و گولہ بارود جمع کیا گیا تاکہ اسرائیل کو زیادہ سے زیادہ جانی و مالی نقصان پہنچایا جاسکے۔ حماس کے ارکان اور رضاکاروں نے برسوں تربیت پائی ہے۔ جدید ترین جنگی آلات کے حصول کی بھی انہوں نے بھرپور کوشش کی ہے جس کے نتیجے میں اسرائیل کی کارروائیوں کے جواب کے لیے سب کی نظریں حماس پر جمی رہی ہیں۔ غزہ کے اندر اور باہر سرنگوں کے ذریعے آمد و رفت نے حماس کی طاقت میں غیر معمولی اضافہ کیا ہے۔ بعض مقامات پر حماس کے رضا کاروں نے سرنگوں کے ذریعے اسرائیلی حدود میں قدم رکھ کر جانی نقصان پہنچانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔
حماس کی واضح کامیابی یہ رہی ہے کہ اس نے چھاپہ مار جنگ کے تمام داؤ پیچ سیکھے ہیں۔ اسرائیلی فوجیوں کو دھوکا دے کر پھنسانا اور پھر پسپا ہونے پر مجبور کرنا حماس کے رضاکاروں کی بڑی کامیابی رہی ہے۔ حماس نے اسنائپرز کو بھی تربیت دی ہے تاکہ ضرورت پڑنے پر دور ہی سے فوجیوں کو نشانہ بنایا جاسکے۔ نئی تکنیک کے ذریعے اسرائیل کو پریشان کیا گیا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ حماس جن لوگوں کو میدان میں اتارتی ہے، وہ مرنے مارنے پر تل جاتے ہیں، یعنی کسی بھی حالت میں ناکام لوٹنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔
ایران، حزب اللہ اور شام کی مدد سے حماس اب اسرائیل کے لیے انتہائی سخت جان دشمن میں تبدیل ہوچکی ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ شجاعیہ کا کنٹرول حاصل کرنے میں اسرائیلی فوج کو کئی دن لگے۔ غزہ کی مشرقی سرحد پر بھی حماس کے رضاکاروں نے اسرائیلی فوج کو خاصا پریشان کیا۔ راکٹ برسائے اور بعض مقامات پر اسرائیلی حدود میں داخل ہوکر جانی نقصان پہنچانے کی بھرپور کوشش کی۔ اس کے جواب میں اسرائیلی فوج نے خوب گولہ باری کی اور بم بھی برسائے مگر اس کے باوجود حماس کے رضاکاروں کے حوصلے پست نہ ہوئے۔ حماس کے رضاکاروں نے بعض مقامات پر دھماکا خیز مواد دفن کرکے بھی اسرائیل کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔ اس کے نتیجے میں اسرائیل کے بیشتر حصوں میں ہائی الرٹ کردیا گیا۔ بہت سے علاقوں میں دن میں کئی بار سائرن بجتے رہے۔
حماس نے خفیہ سرنگوں کا نیٹ ورک قائم کرکے اسرائیلی فوج کے ناک میں دم کیا ہے۔ اسرائیل کی حدود میں بھی کئی مقامات پر گاڑیوں کو تباہ کیا گیا ہے۔ ان واقعات میں کئی اسرائیلی فوجی ہلاک بھی ہوئے ہیں۔ ۰۹۔۲۰۰۸ء میں اسرائیل کو اس لڑائی سے کم جانی نقصان اٹھانا پڑا تھا۔ القسام بریگیڈ نے اسرائیل پر جو حملے کیے ہیں، وہ خاصے حیرت انگیز ثابت ہوئے ہیں۔ جن مقامات کو نشانہ بنائے جانے کا اسرائیل کی حکومت اور فوج نے سوچا بھی نہیں تھا، انہیں بہت خوبی سے نشانہ بنایا گیا ہے۔ اسرائیل کی طرف سے بھرپور چوکسی اور نگرانی کے باوجود حماس کے رضا کار اسرائیلی حدود میں اپنا کام کرکے واپس آنے میں کامیاب رہے ہیں۔ بعض مقامات پر آمنے سامنے کی لڑائی میں بھی حماس کے رضاکاروں نے بھرپور دادِ شجاعت دی ہے۔ حماس کے لیے بڑی اور واضح کامیابی یہ ہے کہ وہ اسرائیلی حدود میں بھی لڑنے میں کامیاب رہی ہے۔ ایک بار تو رضا کاروں کی ایک ٹیم نے اسرائیلی وردیاں پہن کر اسرائیلی حدود میں کارروائی کی مگر مشکل یہ تھی کہ ان کے پاس کلاشنکوف تھیں جبکہ اسرائیلی فوج کے سپاہی ٹریور رائفل استعمال کرتے ہیں۔ کئی بار ایسے حملے بھی کیے گئے ہیں کہ اسرائیلی فوجیوں کو سنبھلنے کا موقع نہ مل سکا۔ اسرائیل کی حکومت عام طور پر ایسی تمام خبریں چھپانے کی کوشش کرتی ہے جن سے دنیا کو پتا چلتا ہو کہ اسرائیلی فوج کسی مقام پر شکست سے دوچار بھی ہوئی ہے۔ ایک اسرائیلی فوجی نے گھبراہٹ کے عالم میں اپنی ہی ایک گاڑی کو اینٹی ٹینک میزائل مار دیا۔
اسرائیلی فوج کے اعلیٰ افسران نے بھی اعتراف کیا ہے کہ حماس کی لڑنے کی صلاحیت میں غیر معمولی اضافہ ہوچکا ہے۔ اسرائیلی فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل پیٹر لرنر کہتے ہیں کہ ایک طرف تو اسلحے کی فراوانی ہے اور دوسری طرف بھرپور تربیت۔ سپلائیز بھی کم نہیں اور سب سے بڑھ کر حماس کے رضاکاروں کے حوصلے بلند ہیں۔ وہ شدید مزاحمت کا جذبہ رکھتے ہیں۔ کسی بھی محاذ پر لڑنے میں انہیں کچھ عار نہیں۔ اب تک ۲۰۰ سے زائد مزاحمت کار ہلاک ہوئے ہیں مگر اس کے باوجود حماس کے رضاکاروں کے حوصلے پست نہیں ہوئے۔ وہ اب بھی تازہ دم ہیں اور ان کے سینوں میں ولولے موجزن ہیں۔
اسرائیلی فوج کو بھی اندازہ تھا کہ حماس کو زیر کرنا اب آسان نہیں رہا۔ سرنگوں کے نیٹ ورک نے انہیں بہت مضبوط کردیا ہے۔ حماس نے صرف مالی امداد پر بھروسا نہیں کیا بلکہ اسلحے کے حصول اور رضاکاروں کی تربیت پر بھی خاطر خواہ توجہ دی ہے۔ کئی بار ایسا بھی ہوا ہے کہ حماس کے رضا کاروں نے گدھوں اور اونٹوں پر بارود لاد کر انہیں اسرائیلی حدود میں دھکیل دیا۔ حماس کے رضاکاروں کا عزم اسرائیلی فوج کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے اور اِس سے بھی زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ عزائم دن بہ دن زیادہ سے زیادہ مضبوط ہوتے جارہے ہیں۔
غزہ میں کم و بیش اٹھارہ لاکھ افراد انتہائی غربت کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والوں کا تناسب ۴۰ فیصد ہے۔ بے روزگاری کا تناسب بھی خاصا بلند ہے۔ اسرائیل کی طرف سے کی جانے والی ناکہ بندی نے غزہ کے شہریوں کو انتہائی مشکلات سے دوچار کیا ہے مگر اب بھی ان کے حوصلے جوان ہیں۔ اب انہوں نے طے کرلیا ہے کہ ناکہ بندی ہر حال میں توڑ کر دم لیں گے۔ کل تک غزہ کے شہری سوچا کرتے تھے کہ اگر انہوں نے اسرائیل سے ٹکرانے کی کوشش کی تو بہت کچھ داؤ پر لگ جائے گا۔ اب ایسا کچھ ہے ہی نہیں جو داؤ پر لگے۔ جب کسی چیز سے محروم ہونے کا خطرہ باقی ہی نہیں رہا تو وہ یقینی طور پر بے فکر ہوکر لڑ سکتے ہیں۔ حماس کے لیڈر بھی جانتے ہیں کہ اب جو بھی لڑائی ہوگی اس میں اسرائیل کا زیادہ نقصان ہوگا۔
’’رائٹرز‘‘ کے ایک نمائندے نے اپریل میں حماس کے ایک تربیتی کیمپ کا دورہ کیا تھا، اس نے دیکھا کہ حماس کے ذمہ داران بہت چھوٹی عمر کے لڑکوں کو بھی لڑائی کی تربیت دے رہے ہیں تاکہ ضرورت پڑنے پر وہ بھی میدانِ جنگ میں خدمات انجام دے سکیں، اسرائیل کے سامنے سینہ سِپر ہوسکیں۔ تربیتی مشقوں کا اہتمام بڑے پیمانے پر اور باقاعدگی سے کیا جاتا ہے۔
دو ہفتوں کے دوران حماس نے اسرائیل پر ایک ہزار سے زائد راکٹ اور میزائل داغے ہیں۔ ان میں گھریلو ساختہ راکٹ بھی شامل ہیں۔ مزید راکٹ حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ معروف تجزیہ کار عدنان ابو عامر کہتے ہیں کہ حماس کا سب سے بڑا ہتھیار یہ ہے کہ شدید جانی نقصان سے بھی ان کے حوصلے پست نہیں ہوتے۔ حماس کے ذمہ داران ہتھیاروں کے صرف حصول کی کوشش نہیں کر رہے بلکہ بنانے کی کوشش بھی کر رہے ہیں۔ اس وقت حماس کے پاس بیس ہزار سے زائد تربیت یافتہ اور مسلح افراد موجود ہیں جو کسی بھی محاذ پر خدمات انجام دینے کی اہلیت اور سکت رکھتے ہیں۔
قطر کے دارالحکومت دوہا میں قائم بروکنگز انسٹی ٹیوٹ کے فیلو چارلس لسٹر کہتے ہیں: ’’اسرائیل کو حماس کے خلاف لڑائی میں گائڈیڈ میزائل، لڑاکا طیارے اور دیگر جدید ترین ہتھیار استعمال کرنے پڑے ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حماس میں لڑنے کی کتنی صلاحیت ہے اور وہ کس حد تک مزاحمت کرسکتی ہے‘‘۔
“Hamas tactics exact high toll in Israeli ground thrust”. (“Reuters”. Jul 24, 2014)
Leave a Reply