
۱۵؍جولائی ۲۰۱۵ء کو حماس کے سیاسی دفتر کے سربراہ خالد مشعل پیشگی اطلاع دیے بغیر دو روزہ دورے پر ریاض پہنچے۔ جون ۲۰۱۲ء کے بعد تین برسوں میں حماس کے کسی وفد کا یہ سعودی عرب کا پہلا دورہ تھا، جس میں تنظیم کی سیاسی شاخ کے رہنما موسیٰ ابو مرزوق، محمد نذَل اور صالح العروری بھی شامل تھے۔ دورے سے متعلق حماس نے ۱۸؍جولائی کو ایک بیان جاری کیا، جس میں بتایا گیا کہ وفد نے شاہ سلمان بن عبد العزیز، ولی عہد محمد بن نائف اور وزیر دفاع محمد بن سلمان سے غیر رسمی ملاقاتیں کیں۔
وفد کے متعدد ارکان اور ان کے نائبین نے گمنام رہنے کی شرط پر بات چیت کی تفصیلات بیان کیں۔ ایک رکن کے مطابق ’’مشعل اور ان کے ساتھیوں نے سعودی حکام کے ساتھ حالیہ مہینوں میں بتدریج بہتر ہونے والے باہمی تعلقات کے حوالے سے تبادلۂ خیال کیا۔ حماس نے الفتح اور حماس کو قریب لانے کی غرض سے فلسطین میں سعودی عمل دخل دوبارہ بڑھانے میں گہری دلچسپی ظاہر کی اور سعودی عرب کو اسرائیل کے ساتھ جنگ بندی کے بارے میں بھی آگاہ کیا‘‘۔
اس دورے کے بعد زمینی حقائق تیزی سے تبدیل ہوئے۔ ۱۸؍جولائی ۲۰۱۵ء کو نامعلوم تعداد میں ان قیدیوں کو سعودی جیلوں سے رہا کیا گیا جنہیں دسمبر ۲۰۱۴ء میں حماس سے منسلک فلاحی تنظیموں کے لیے چندہ جمع کرتے ہوئے پکڑا گیا تھا۔ ذرائع بتاتے ہیں کہ حماس نے اس دورے کے وقت کا تعین بہت سوچ سمجھ کر کیا اور اس حوالے سے خفیہ تیاریاں مہینوں سے جاری تھیں۔ تحریک کے سیاسی دفتر کے نائب چیئرمین اسمٰعیل ہنیہ کی اپریل میں کی گئی بات چیت سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس سلسلے میں سعودی دعوت نامہ ملنے کے مناسب موقع کا انتظار کیا گیا، جو خطے میں تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کے تناظر میں اس وقت آیا جب ایرانی جوہری معاہدہ طے پاگیا اور حماس اور مصر کے درمیان تعلقات آہستہ آہستہ بہتر ہونے لگے۔ تاہم اس کے باوجود فلسطینیوں کے باہمی اختلافات اب تک دور نہیں ہوسکے ہیں۔
فلسطینی قانون ساز کونسل کی امورِ داخلہ و سلامتی کمیٹی کے سربراہ اور حماس کے رہنما اسمٰعیل الأشقر نے بتایا کہ ’’حماس خطے میں کلیدی سعودی کردار کے حوالے سے پُرعزم ہے اور سعودی عرب کو ناگزیر عرب قوت کے طور پر دیکھتی ہے۔ مشعل کی جانب سے یہ ریاض کا آخری دورہ نہیں ہے، فلسطینیوں کی حمایت اور غزہ کی ناکہ بندی کے خاتمے کے لیے سعودی کردار کے حوالے سے آنے والے دنوں میں متعدد ملاقاتیں کی جائیں گی۔ ان ملاقاتوں کا مقصد یہ ہے کہ سعودی عرب الفتح اور حماس کو قریب لانے کی کوشش کرے اور اسے مصر کی حمایت بھی حاصل ہو‘‘۔
فلسطینی مقتدرہ نے حماس کے دورئہ سعودی عرب پر کڑی نظر رکھی۔ الفتح کی مرکزی کمیٹی کے رکن نبیل شعث نے ۲۰؍جولائی ۲۰۱۵ء کو امید ظاہر کی کہ اس دورے سے غزہ کو مغربی کنارے سے الگ کرنے کا منصوبہ ترک کرنے کے لیے حماس پر دباؤ بڑھے گا۔ دورے پر تاثرات ظاہر کرتے ہوئے رام اللہ میں قائم فلسطینی ایوان صدر کے اہلکار نے گمنام رہنے کی شرط پر بتایا کہ رام اللہ میں اس حوالے سے بہت پریشانی ہے کہ کہیں حماس سعودی عرب کے ساتھ اس سفارتی سودے بازی میں کامیاب نہ ہوجائے۔ کیونکہ اس معاہدے کے نتیجے میں، جس کی تفصیلات ابھی سامنے آنا باقی ہیں، حماس اور سعودی عرب اپنے باہمی مفادات کو آگے بڑھا سکیں گے اور فلسطینی مقتدرہ کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔
ایک فلسطینی وزیر نے بھی نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’’حماس کے دورے کے نتائج پر گفتگو کرنے کی غرض سے اگست ہی میں صدر محمود عباس کے دورئہ سعودی عرب کے لیے ابتدائی انتظامات کیے جارہے ہیں۔ فلسطینی قیادت کو یقین ہے کہ سعودی عرب کسی ایک گروہ کو نظر انداز کرکے دوسرے سے روابط نہیں بڑھائے گا اور اس کا کردار تمام فلسطینیوں کے حق میں سازگار ہوگا‘‘۔
ادھر ایرانی میڈیا نے حماس کے دورئہ سعوی عرب کے خلاف ان تھک مہم چلائی۔ ۱۹؍جولائی کو فارس خبر ایجنسی نے دعویٰ کیا کہ سعودی عرب نے حماس سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف لڑنے کے لیے اپنے ۷۰۰ جنگجو بھیجے۔ حماس کے ترجمان سمیع ابو زہری نے اسی روز ان الزامات کو رد کرتے ہوئے کہا کہ ایران حماس کی جانب سے سعودی عرب کے کامیاب دورے کو سبوتاژ کرنا چاہتا ہے اور تنظیم کے خلاف نفرت پھیلانے کا خواہاں ہے۔
تہران اور ریاض کے مابین بڑھتی ہوئی خلیج کے تناظر میں حماس کی سعودی عرب کے ساتھ بات چیت نے ایران کے حوالے سے اس کے مؤقف پر سوالیہ نشان لگادیا ہے۔ ممکن ہے سعودی قیادت حماس اور ایرانیوں کے درمیان باضابطہ کشیدگی کی امید کررہی ہو تاکہ ایرانی توسیع پسندی کے خلاف سعودی اتحادیوں میں ایک اور کا اضافہ ہوجائے۔ تاہم بظاہر حماس اب تک اس اتحاد کا باقاعدہ حصہ نہیں بنی ہے جو خطے میں ایرانی اثر و رسوخ کو محدود کرنے کے لیے سعودی عرب قائم کرنا چاہ رہا ہے۔
۲۳ جولائی ۲۰۱۵ء کو خالد مشعل نے اعلان کیا کہ ان کا دورئہ سعودی عرب صحیح سمت میں ایک قدم تھا اور حماس نہ تو کسی کا ساتھ چھوڑ رہی ہے اور نہ ہی خطے میں طاقت کا توازن بگاڑنے کے کسی کھیل کا حصہ ہے۔ حماس کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے گمنامی کی شرط پر بتایا کہ ’’سعودی عرب میں حماس کا واضح مؤقف یہ تھا کہ وہ ہر اس فریق کے ساتھ ہے جو اسرائیل کے خلاف اس کی مدد کرے، کیونکہ یہ فلسطینیوں کی آزادی کی قومی تحریک ہے جسے کسی پیشگی شرط کے بغیر تعاون کرنے والے درکار ہیں۔ حماس نے سعودی عرب پر یہ بھی واضح کیا کہ اس کی علاقائی اور بین الاقوامی پالیسی متوازن اور پائیدار ہے، وہ نہ تو ایران کی قیمت پر سعودی عرب کے ساتھ تعلق داری قائم کرے گی اور نہ سعودی عرب کے خلاف ایران کا ساتھ دے گی۔ آنے والا وقت کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا لیکن حماس کے سیاسی اقدامات اس پالیسی کی توثیق کردیں گے‘‘۔
۲۱ جولائی ۲۰۱۵ء کو حماس کے سیاسی دفتر کے رکن خلیل الحیہ نے اس مؤقف کی تصدیق کرتے ہوئے تمام عرب اور اسلامی ممالک سے اپیل کی کہ وہ کسی سیاسی سودے بازی کے بغیر غزہ میں جاری مزاحمتی تحریک کی حمایت کریں کیونکہ حماس تمام ممالک کے ساتھ متوازن تعلقات استوار رکھنا چاہتی ہے۔ حماس کے سیاسی دفتر کے ایک اور رکن زیاد الظاظا نے بتایا کہ ’’حماس کے دورئہ سعودی عرب کا مقصد دونوں کے تعلقات کو ویسا ہی مضبوط اور مثبت بنانا تھا، جیسے وہ پہلے تھے۔ اس کے اہم ترین نتائج میں سے ایک یہ ہوگا کہ دونوں فریقین تعلقات کو دوبارہ اس نہج پر لے جائیں جہاں سعودی عرب مسئلہ فلسطین پر کھل کر حمایت کرے‘‘۔
اس سے قطع نظر کہ حماس کے دورے میں کیا بات چیت ہوئی اور میڈیا اس پر کیوں خاموش ہے، لگتا ایسا ہے جیسے حماس نے بہت بڑی سفارتی فتح حاصل کرلی ہے کیونکہ وہ سعودی عرب کو عرب سفارت کاری اور عربوں کے متفقہ اقدامات کا رہنما تسلیم کرتی ہے۔ لہٰذا ریاض کے ساتھ اس کی قربت کا مطلب ہے کہ اسے زیادہ تر عرب خلیجی ریاستوں کی حمایت حاصل ہوگی اور مصر اور اردن جیسے ممالک کے ساتھ کشیدگی کم کرنے میں بھی مدد ملے گی۔ سعودی عرب جانے والے وفد کے رکن صالح العروری نے ۲۷ جولائی کو کہا کہ ان کی تحریک سعودی حکام کے ساتھ طے پانے والے معاملات پر پیش رفت کے لیے جلد دوبارہ ریاض کا دورہ کرے گی، تاہم انہوں نے وقت کا تعین نہیں کیا۔
دوسری جانب حماس اس دورے کے بعد پیدا ہونے والے ایرانی غصے کو بھی بظاہر ٹھنڈا کرنا چاہتی ہے۔ اس نے دورے کے خلاف ایرانی میڈیا کی مہم کا جارحانہ جواب نہیں دیا بلکہ پُرسکون انداز میں جواب دے کر تہران اور ریاض دونوں کے ساتھ تعلقات استوار رکھنے کی کوشش کی ہے۔ تاہم حماس کے لیے مسلسل ایسا کرنا بہت مشکل ثابت ہوگا۔
(مترجم: حارث رقیب عظیمی)
“Hamas visit to Riyadh strikes nerve in Iran”. (“al-monitor.com”. June 28, 2015)
Leave a Reply