
جنوبی افریقا کی جانب سے حماس کی اعلیٰ قیادت کو تاریخی استقبالیہ دیے جانے سے صہیونی ریاست چراغ پا ہوگئی ہے اور اس نے تل ابیب میں جنوبی افریقا کے سفیر کو طلب کرکے اس پر سخت ناراضی کا اظہار کیا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ خالد مشعل کی قیادت میں حماس کا ایک وفد ۱۸؍اکتوبر کو کیپ ٹائون پہنچا۔ اس وفد کا جنوبی افریقا میں شاندار استقبال کیا گیا جس سے صہیونی ریاست چراغ پا ہے۔ اس وفد نے اپنے دورے کے پہلے دن جنوبی افریقا کے صدر جیکب روما سے ملاقات کی۔ حماس کے وفد میں موسیٰ ابومرزوق اور محمد نزال بھی شامل تھے۔ اطلاع ہے کہ خالد مشعل کیپ ٹائون کے وسط میں ایک عوامی ریلی میں بھی شرکت کریں گے۔ علاوہ ازیں جنوبی افریقا کی پارلیمان سے ان کا خطاب بھی ہوگا۔ یاد رہے کہ جنوبی افریقا نسل پرستی کے خلاف جدوجہد میں پوری دنیا کے لیے قابل تقلید مثال رہا ہے، جہاں نیلسن منڈیلا نے نسل پرست حکومت میں تین دہائی تک جیل کے پیچھے زندگی گزاری۔ نسل پرست حکومت کے خاتمے کے بعد ملک کے اندر اولین منصفانہ اور جمہوری انتخابات میں منڈیلا کی افریقی نیشنل کانگریس اقتدار میں آئی۔ اس سے قبل اس جماعت کو مغربی ممالک دہشت گرد قرار دیتے تھے۔ خالد مشعل کو جنوبی افریقا میں ہاتھوں ہاتھ لیے جانے سے ناراض صہیونی حکومت نے تل ابیب میں موجود جنوبی افریقا کے سفیر کو طلب کرکے ناراضی کا اظہار کیا اور کہا کہ حماس کی قیادت کے دورے کا مقصد دہشت گردی کی اعانت کرنا ہے کیونکہ حماس کو اسرائیل اور اس کے اتحادیوں نے دہشت گرد قرار دے رکھا ہے۔ تاہم حماس کی قیادت کے دورۂ جنوبی افریقا کی حمایت کرنے والوں نے اسرائیل کو اس کی دہشت گردی کا آئینہ دکھاتے ہوئے جواب دیا ہے کہ نیلسن منڈیلا کی افریقی نیشنل کانگریس کو بھی جنوبی افریقا کی نسل پرست حکومت نے دہشت گرد قرار دے دیا تھا، لیکن تاریخ نے اس کو غلط ثابت کردیا۔
(بشکریہ: سہ روزہ ’’دعوت‘‘ دہلی۔ ۲۵؍اکتوبر ۲۰۱۵ء)
Leave a Reply