
مغربی کنارے اور غزہ کے میونسپل الیکشن میں حماس کی بڑھتی ہوئی مقبو لیت اور موجودہ سیاسی رجحان اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ ۲۶ جنوری ۲۰۰۶ء کے انتخاب میں حماس کی کامیابی ترقی پسند قوتوں (ماڈریٹ) کے لیے ایک خطرے کی علامت ثابت ہوگی۔
کئی تجزیہ نگار یہ کہہ رہے ہیں کہ ضروری نہیں کہ حماس کی مقبولیت اس بات کی غماز ہو کہ فلسطینی عوام نے ترقی پسندوں اور اسرائیل سے مذاکرات کا راستہ ترک کر دیا ہے بلکہ یہ اس حقیقت کی عکاسی کرتی ہے کہ فلسطینی اتھارٹی (حکومت) اور الفتح کی صفوں میں کمزوریاں اور انتشار ہے اس کے علاوہ وہ کافی حد تک بدعنوانیوںمیں ملوث رہے ہیں۔ جبکہ حماس نے عوام کے سامنے ایک صاف ستھرا سیاسی کردار پیش کیا ہے۔ اس کے ساتھ حماس غریبوں سے ہمدردی اور اپنی شاندار خدمات خاص کر تعلیم‘ صحت اور لوگوں کے بھلائی کے کاموں کا ایک متاثرکُن ریکارڈ رکھتی ہے۔ اس کے علاوہ حماس کا یہ دعویٰ بھی اپنی جگہ صحیح ہے کہ اس کی مسلسل مزاحمت اور مسلح جدوجہد کے نتیجے میں غزہ سے سرائیلیوں کا انخلاء ممکن ہوا۔
اسرائیل کی یکطرفہ کارروائیوں اور یہ عزم کے صدر محمود عباس اور فلسطینی اتھارٹی سے کوئی مذاکرات نہ کیے جائیں‘ نے حماس کو مزید قوت دی اور عباس اور اس کی حکومت کو مزید کمزور کر دیا جسے پہلے ہی پانچ سالہ تحریک انتفاضہ نے بے بس کر دیا تھا اور اسرائیل کے اقدامات بھی جس نے فلسطینی اتھارٹی کا انفرااسٹرکچر اور انتظامی اداروں کو مزید تباہ کر دیا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ایریل شیرون اور خدمت پارٹی (Kadima Party) کو شاندار کامیابی مل رہی ہے ‘اس کی وجہ اسرائیلیوں کا یہ خیال ہے کہ ایریل شیرون مغربی کنارے کی یہودی بستیوں کے یکطرفہ انخلاء کے عمل کو جاری رکھے گا اور مشرقی کنارے کی اگر ساری نہیں تو زیادہ تر رکاوٹوں کو آنے والوں سالوں میں مسمار کر دے گا۔ یہ مفروضہ اور خیال شیرون کے ان بیانات کی نفی کرتا ہے جو اس نے خود دیا تھا۔
یہ کتنی عجیب بات ہے کہ لوگوں کو معلوم ہے کہ ایریل شیرون غلط بیانی سے کام لے رہا ہے کہ وہ یکطرفہ طور پر مغربی کنارے سے انخلاء کا عمل جاری رکھے گا یہ کتنی مضحکہ خیز بات ہے کہ اسرائیلی عوام ایریل شیرون کے یکطرفہ اقدامات کی رکاوٹوں کے پیچھے سے اسرائیلیوں کی واپسی کی حمایت کریں باوجودیہ کہ ایک رائے عامہ کے ایک جائزے کے مطابق اسرائیلیوں کی مسلسل یہ خواہش ہے کہ وہ فلسطینیوں سے مستقل امن کے لیے مذاکراتی عمل کو نتیجہ خیز بنائیں حالانکہ اسرائیلی عوام کو ابھی تک یہ یقین نہیں ہے کہ فلسطینی ہمارا ساتھ دیں گے۔اگر حماس فلسطینی اتھارٹی کے پارلیمانی الیکشن جیت جاتی ہے تو آئندہ آنے والے سالوں میں یہ نتیجہ سچ ثابت ہوگا۔ (یعنی فلسطینی اسرائیلیوں سے کوئی اتحاد نہیں کریں گے۔)
فلسطینی‘اسرائیلیوں کے یکطرفہ اقدام جس کے نتیجہ میں مزید آبادیوں کو مسمار اور اسرائیلیوں کی واپسی کے اقدام کو مسترد نہیں کریں گے تاہم ان کو (فلسطینیوں) کو خدشہ ہے کہ مغربی کنارے سے اسرائیلیوں کے انخلاء کے باوجود اسرائیل فلسطینی ریاست کی سرحدوں کو قبول نہیں کرے گا اور انخلاء شدہ علاقوں پر فلسطینیوں کو مکمل کنٹرول حاصل نہیں ہوپائے گا۔ جیسا کہ شمال مغربی کنارے کے انخلاء کے موقع پر اسرائیل نے اصرار کیا کہ وہ سیکورٹی پر اپنا مکمل کنٹرول رکھے گا۔
فلسطینی جو کہ مستقل بنیادوں پر امن کے لیے مذاکرات کی میز پر جانا چاہتے ہیں ان کو تشویش ہے کہ اسرائیلیوں کی یکطرفہ کارروائیوں سے مزید دہشت گردی ہوگی اور اسرائیلی مظالم کے نتیجے میں فلسطینی دوبارہ تشدد پر آمادہ ہوسکتے ہیں۔
فلسطینی پارلیمانی انتخابات سے ایک ماہ قبل سرکردہ ترقی پسند قوتوں کو چاہئے کہ کوئی نئی تزویراتی حکمت عملی اپنائیں اور ایسے اقدامات کریں جو ان کی (ترقی پسندوں) کامیابی کو یقینی بنائے‘ ساتھ ہی مذاکراتی دور کے امکانات مزید بڑھائے‘ جیسا کہ فلسطینی عوام کی اکثریت کی خواہش ہے۔
عالمی رائے عامہ کے مطابق مئی ۱۹۹۹ء کی ابتداء میں یہ خدشہ تھا کہ یاسرعرفات ’’یکطرفہ اعلان آزادی‘‘ (U.D.I) کا اعلان کریں گے۔ اس وقت امریکا کی سربراہی میں عالمی قوتوں نے یاسرعرفات کو اس بات پر قائل کیا (یامجبور کیا) کہ ان کے یکطرفہ اعلان آزادی کے منفی اثرات مرتب ہوں گے اور فلسطینیوں کی خواہشات کو شدید دھچکہ لگے گا تاہم آج حالات بالکل مختلف ہیں یعنی اگر محمود عباس یکطرفہ اعلان آزادی کردیں تو اسرائیلی کارروائیوں کے تعطل کو ختم کرنے اور مذاکراتی عمل کے امکانات پیدا ہوسکتے ہیں۔
آج کا منظرنامہ کچھ اس طرح ہوگا کہ محمود عباس ۱۹۸۸ء کے پہلے (U.D.I) یکطرفہ آزادی کے اعلان کادوبارہ اعلان کردیں‘ لیکن اس دفعہ وہ فلسطینیوں کی ریاست کی حدود کی واضح نشاندہی کریں گے۔ محمود عباس کے اعلانِ آزادی میں فلسطینی ریاست غزہ اور مغربی کنارے پر مشتمل ہوگی‘ جس کا دارالخلافہ مشرقی یروشلم ہوگا۔ عباس اس بات کا بھی اعلان کریں گے کہ حرم الشریف ماؤنٹ ٹمپل اور فلسطینی ریاست پر حاکمیت صرف اللہ تعالیٰ کی ہوگی اور فلسطینی ریاست ماؤنٹ ٹمپل کا اسلام کے نام پر انتظام و انصرام کرے گی۔مزید یہ کہ وہ (عباس) یہ اعلان کریں گے کہ جہاں تک یہودیوں کے اس مطالبہ کا تعلق ہے کہ ماؤنٹ ٹمپل اور اس کے اطراف کے تقدس کی فلسطینی حکومت ضمانت دیگی اور یہ بھی کہ وہاں کوئی کھدائی نہیں ہوگی اور وہاں عمارتوں کی حیثیت کو تبدیل نہیں کیا جائے گا۔
فلسطینی صدر ساتھ ہی یہ اعلان بھی کریں گے کہ فلسطینی ریاست اسرائیل کے انخلاء شدہ علاقوں کا مکمل کنٹرول حاصل کرے گی اور فلسطینی مہاجرین اپنے گھروں کو واپس آجائیں صدر یہ بھی اعلان کریں گے فلسطینی دستور جمہوریت اور آزادی رائے کا احترام کرے گی اور فلسطینی پارلیمنٹ (اسمبلی) چھ ماہ کے اندر ان فیصلوں کی توثیق کرے گی اور واضح طور پر اس بات کا اعلان کریں گے کہ فلسطینی ریاست اپنے پڑوسیوں خاص کر اسرائیل کے ساتھ امن سے رہنا چاہے گی۔
فلسطینی ریاست اقوام متحدہ کی مکمل ممبر شپ کے لیے درخواست دے گی اور اس سلسلے میں وہ امریکا اور یورپی یونین اور اسرائیل کی حمایت کی درخواست بھی کرے گی عباس اپنے اعلان کا خاتمہ اس بات پر کریں گے کہ الیکشن کے بعد وہ اسرائیلی حکومت سے ملیں گے تاکہ ان کے درمیان جتنے مسائل اور متنازعہ امور ہیں ان پر مذاکرات شروع کئے جائیں۔
میرا یہ ایقان ہے کہ اگر اعلانِ عباس کو ترقی پسندوں (فلسطینیوں) اور الفتح کی حمایت حاصل ہوئی تو حماس کی مقبولیت کے موجودہ رجحان کو تبدیل کیا جاسکتا ہے ۔ فلسطینیوں کا یکطرفہ اعلان آزادی‘ (U.D.I) فلسطینی اتھارٹی کو اخلاقی برتری دلانے کا سبب بن جائے گا اور فلسطینی عوام کو ایک نئے مثبت ایجنڈے کے گرد اکھٹا ہونے کا موقع مل جائے گا۔ وہاں کچھ ایسے عناصر بھی ہوں گے جو عباس پر سخت اعتراض کریں گے ان کا بنیادی مفروضہ یہ ہوگا کہ صدر کا اعلان آزادی حقیقتاً فلسطینی مہاجرین کا اسرائیل میں اپنے اصلی گھروں میں واپسی کہ امکانات کا خاتمہ ثابت ہوگا۔
تاہم صدر عباس جواب میں لوگوں سے یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اس مسئلہ (فلسطینی مہاجروں کی اپنے اصلی گھروں میں واپسی) کو مذاکراتی میز پر ہمیشہ کے لیے طے کیا جاسکتا ہے اور مذاکرات ریاست سے ریاست کی بنیاد پر ہوں گے جسے عالمی برادری کی بھی حمایت حاصل ہوگی۔عباس کو ترقی پسند ی (ماڈریشن) اور مذاکراتی عمل کی حمایت کے خلاف موجودہ لہر روکنے کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور کرنا چاہئے کیونکہ وہ اکیلا اسرائیل کی مدد پر بھروسہ نہیں کرسکتا۔
ایریل شیرون نے عباس کو بحیثیت ایک پارٹنر بالکل نظرانداز کردیا کیونکہ اس کے خیال میں عباس کچھ نہیں کرسکتا۔ مندرجہ بالا پس منظر کی روشنی میں صدر عباس کی حکمت عملی اسے ڈرائیونگ سیٹ پر لاسکتی ہے اور فلسطینی عوام‘ عالمی برادری اور اسرائیل کو بتاسکتی ہے کہ وہ ایسا لیڈر اور مدبّر ہے جس نے اپنے عوام کے لیے حقیقی امن کا بہترین موقع فراہم کیا ہے۔ موجودہ حالات میں یہ ا یسی پالیسی ہے جو ترقی پسند قوتوں (Moderates) بشمول صدر کی فتح کو یقینی بناسکتی ہے۔
(بحوالہ: ’’یروشلم پوسٹ‘‘۔ ترجمہ: ایم رفیق احمد صدیقی)
Leave a Reply