
افغانستان کے صدر حامد کرزئی کے بارے میں سوچنے والوں کو دو گروپوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ایک طرف وہ لوگ ہیں جن کی نظر میں حامد کرزئی نا اہل، کرپٹ اور ایسے بدمزاج سیاست دان ہیں جنہیں فوری علاج کی ضرورت ہے اور دوسری طرف وہ لوگ ہیں جن کے خیال میں افغان صدر نے قومی ضروریات کے مطابق تمام ضروری اقدامات کیے ہیں، قبائلی اور گروہی سیاست کو متوازن رکھنے اور قبائل سے تعلقات بہتر بنانے پر خاطر خواہ توجہ دی ہے اور جو لامتناہی دکھائی دینے والی جنگ سے عوام میں پیدا ہونے والی بیزاری اور بدحواسی کے تناظر میں امریکا پر انحصار کے معاملے میں توازن پر پورا یقین رکھتے ہیں۔
ایک خاص حد تک یہ دونوں مکاتب فکر درست ہیں۔ ۲۰۰۱ء میں جب اتحادیوں نے حامد کرزئی کو افغانستان کا نیلسن مینڈیلا سمجھتے ہوئے اقتدار میں لانے کی راہ ہموار کی تب افغانستان میں کچھ بھی یقینی نہ تھا۔ ایک ایسی جنگ شروع ہوتی دکھائی دی تھی جس کے ختم ہونے کی کوئی امید دکھائی نہیں دیتی تھی۔ نائن الیون کے بعد سے امریکا نے صرف جنگ پر توجہ دی ہے۔ امن کے قیام کے معاملات میں اس کی عدم توجہی اور جنگ سے رغبت نے افغانستان میں حالات کی درستی کی راہ ہموار نہیں ہونے دی۔ سابق امریکی سفیر کارل آئکنبری کے الفاظ میں اگر حامد کرزئی قابل اعتبار شراکت دار نہ تھے تو حامد کرزئی بھی یہی بات امریکا کے بارے میں کہہ سکتے ہیں۔ امریکا ایک طرف تو یہ چاہتا تھا کہ افغانستان میں حقیقی اور شفاف حکمرانی ہو اور دوسری طرف وہ ملک کے بدعنوان ترین افراد پر جی بھر کے ڈالر لٹا رہا تھا۔
اگر شخصی خصوصیات کی بنیاد پر بات کی جائے تو حامد کرزئی کسی بھی اعتبار سے سال کی نمایاں ترین شخصیات میں شامل کیے جانے کے اہل نہیں۔ انہوں نے کئی مواقع پر یہ ثابت کیا ہے کہ ان میں دوسرے بہت سے کامیاب قائدین جیسا کچھ بھی نہیں۔ مگر جب خارجہ پالیسی کی بات آتی ہے تو ہمیں ماننا پڑے گا کہ وہ سال بھر خبروں میں رہے ہیں اور بالخصوص اس حوالے سے کہ افغانستان میں جاری جنگ کا کیا بنے گا۔ اس جنگ کا نتیجہ بہت حد تک اس بات پر منحصر ہے کہ حامد کرزئی کیا چاہتے ہیں۔
حامد کرزئی ویسے ہی ہیں جیسا ان کا ملک ہے۔ افغانستان ایک مفلوک الحال، خشکی سے گھرا اور الجھا ہوا ملک ہے۔ کئی صدیوں تک یہ ملک طاقتور ممالک کے لیے میدان جنگ کا کردار ادا کرتا رہا ہے۔ انیسویں صدی میں وسط ایشیا کو کنٹرول کرنے کے لیے روس اور برطانیہ نے اسی خطے میں اپنی اپنی قوت آزمائی۔ کئی عالمی طاقتیں اس خطے میں اپنی طاقت سے محروم ہوئیں۔ برطانوی پریس نے افغانستان ازم کی بات بھی کی یعنی بیرونی قوتیں اس سرزمین پر مقامی ترجیحات کے تحت ایسی جنگیں لڑتی ہیں جنہیں مجموعی طور پر گمنام مناقشے ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس وقت افغانستان میں جو جنگ جاری ہے وہ بھی ابتدا میں غیر معمولی اہمیت کی حامل دکھائی دیتی تھی۔ اسامہ بن لادن اور اس کی ٹیم کو شکست دینے کے لیے پہلے طالبان کی حکومت ختم کی گئی اور اس کے بعد ایک ایسی جنگ چھیڑی گئی جسے امریکا کی بقا کے لیے ناگزیر قرار دیا گیا مگر رفتہ رفتہ یہ جنگ بھی روایتی افغان جنگ میں تبدیل ہوتی گئی۔ اور اب کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ اس جنگ کو چھیڑنے کا بنیادی مقصد کیا تھا اور اب اسے ختم کس طرح کیا جاسکتا ہے!
حامد کرزئی افغانستان کے صدر کی حیثیت سے بالکل موزوں دکھائی دیے تھے۔ ان کا تعلق ایسے پشتون گھرانے سے تھا جو طالبان کا مخالف تھا۔ طالبان نے حامد کرزئی کے والد کو قتل کیا تھا۔ وہ سفارت کار تھے۔ حامد کرزئی اعلیٰ تعلیم یافتہ اور سلجھے ہوئے ذہن کے مالک تھے۔ وہ افغان اقلیتوں سے بہتر تعلقات اور قومی تعمیر نو میں ان سے خدمات لینے کے حق میں تھے۔ وہ اپنے مخصوص لباس (دوشالہ اور قراقلی ٹوپی) کی بدولت فیشن اسٹیٹمنٹ کا درجہ رکھتے تھے۔ وقت نے ثابت کیا کہ انہیں افغانستان کی تعمیر نو سے کچھ غرض نہ تھی۔ رفتہ رفتہ کرپشن بڑھتی گئی اور حکومت کی نا اہلی زیادہ واضح ہوکر سامنے آنے لگی۔ طالبان سے ایک خونیں جنگ میں الجھی ہوئی نیٹو اقوام بھی حامد کرزئی کے ساتھ ساتھ بدحواس ہوتی گئیں۔
۲۰۱۰ء کے موسم بہار میں حامد کرزئی کے قریبی ساتھی اور مشیر محمد ضیاء صالحی کو کرپشن کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا۔ ان پر امریکا میں منی لانڈرنگ کے حوالے سے بھی کیس درج تھا اور تفتیش کی جانی تھی مگر حامد کرزئی نے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے صالحی کو چھڑالیا۔ سال بھر حامد کرزئی اور ان کے بھائی ولی کرزئی کی کرپشن کے قصے افغان عوام تک پوری تفصیل سے پہنچے ہیں۔ وکی لیکس نے انکشاف کیا ہے کہ سابق نائب صدر احمد ضیاء مسعود نے ۵ کروڑ ۲۰ لاکھ ڈالر کے ساتھ دبئی منتقل ہونے کی کوشش کی تھی۔
کرپشن خیر کوئی ایسی پریشان کن بات نہ تھی۔ حامد کرزئی نے امریکا مخالف رویہ اختیار کرنا شروع کیا تو خرابی پیدا ہوئی۔ جون میں انہوں نے امریکا پر امن جرگے کو نشانہ بنانے کا الزام عائد کیا۔ اس کے بعد یہ انکشاف ہوا کہ حامد کرزئی نے ایران سے نقد امداد وصول کی ہے اور اسے ویسی ہی امداد سے تعبیر کیا گیا جیسی امریکا سے وصول کی جاتی رہی ہے۔ افغانستان میں امریکی اور نیٹو افواج کے کمانڈر جنرل ڈیوڈ پیٹریاس سے کرزئی کے تعلقات کشیدہ ہوتے گئے۔ حامد کرزئی چاہتے تھے کہ طالبان لیڈروں کے ٹھکانوں پر رات کے وقت اسپیشل آپریشن ٹیموں کے ذریعے چھاپے نہ مارے جائیں۔ اس کے بعد پرائیویٹ سیکورٹی کنٹریکٹرز کا معاملہ اٹھ کھڑا ہوا اور حامد کرزئی نے پیٹریاس سے ایک میٹنگ میں اختلاف کیا اور واک آؤٹ کرگئے۔ نومبرکے وسط میں حامد کرزئی سے ملاقات کے بعد پاکستانی صحافی احمد راشد نے کہا کہ افغان صدر اب مغرب مخالف ہوتے جارہے ہیں۔ وہ افغانستان میں جاری جنگ کو امریکی نقطہ نظر سے نہیں دیکھتے اور ان کے خیال میں جنوبی افغانستان میں نیٹو کی کارروائیوں سے کچھ بھی حاصل ہونے والا نہیں۔
افغانستان میں متعین اعلیٰ امریکی افسران حامد کرزئی کے بیانات کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ انہیں اندازہ ہے کہ حامد کرزئی افغان عوام کو خوش کرنا چاہتے ہیں جو اپنی سرزمین پر بیرونی افواج کو برداشت کرنے کے موڈ میں کبھی دکھائی نہیں دیے۔ حامد کرزئی نے ایران اور پاکستان سے تعلقات بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ طالبان سے بھی معاملات درست کرنے کی کوشش کی ہے۔ طالبان اور دیگر مخالفین سے کس طور بات کی جائے، اس امر پر حامد کرزئی اور امریکی فوجی کمانڈروں میں شدید اختلاف رہا ہے۔ حامد کرزئی طالبان سے امن معاہدہ کرنے کے لیے سرگرم رہے ہیں۔
حامد کرزئی پر ایک طرف تو ان کے اتحادیوں کا دباؤ ہے کہ وہ بہتر قیادت کا مظاہرہ کریں۔ دوسری طرف جنگ ختم کرنے کے لیے بھی ان پر شدید دباؤ ہے۔ اس جنگ کو ختم کرنے کے لیے امریکی صدر اوباما بھی ان پر دباؤ ڈال رہے ہیں۔ جنگ کو جلد از جلد ختم کرنا امریکی سیاست کے لیے بھی بہت ضروری ہے۔ ایک طرف تو بڑے پیمانے پر وسائل اس جنگ کی بھٹی میں جھونکنا پڑ رہے ہیں اور دوسری طرف امریکیوں کا جانی نقصان بڑھتا جارہا ہے۔ امریکا نے افغانستان پر حملہ القاعدہ کو مار بھگانے کے لیے کیا تھا۔ القاعدہ اب افغانستان میں برائے نام رہ گئی ہے۔ پاکستان میں بڑے پیمانے پر ڈرون حملوں کے بعد وہاں بھی القاعدہ کا نام و نشان مٹتا جارہا ہے۔ امریکا میں مشکلات بڑھتی جارہی ہیں۔ معیشت کا برا حال ہے۔ عالمی معاشی بحران نے اب تک امریکی معیشت کا گلا دبوچ رکھا ہے۔ بجٹ خسارہ بڑھتا جارہا ہے۔ امریکا میں اب لوگ یہ سوال کرنے لگے ہیں کہ سڑکوں اور انفرا اسٹرکچر کی تعمیر پر افغانستان میں خرچ کرنا زیادہ اہم ہے یا امریکا میں؟
نیٹو نے حامد کرزئی کے دباؤ پر چند سال اور لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ تمام مغربی ممالک اس امر پر متفق ہیں کہ افغانستان میں جنگ ۲۰۱۴ء تک ختم ہو جانی چاہیے۔ امریکی صدر براک اوباما بھی چاہتے ہیں کہ جنگ جلد از جلد ختم ہو مگر افغانستان سے اچانک نکل جانا بھی امریکی خارجہ پالیسی اور ڈیموکریٹس کے لیے بے حد خطرناک ثابت ہوگا۔ اگر امریکا نے افغانستان کی داخلی سلامتی کو یقینی بنانے کا اہتمام کیے بغیر وہاں سے امریکی افواج کو واپس بلایا تو جو بھی خرابی پیدا ہوگی وہ امریکا کے کھاتے میں جائے گی اور سپر پاور کی حیثیت سے اس کی ساکھ مزید داؤ پر لگ جائے گی۔
۲۰۱۰ء میں حامد کرزئی کے حوالے سے تمام امریکی تصورات اور خوش فہمیاں دم توڑ گئیں۔ مگر اب بھی امریکی حکام کے ذہنوں میں ایک سوال ضرور گردش کر رہا ہے۔۔ کیا ہم حامد کرزئی کے بغیر افغانستان میں کامیاب ہوسکتے ہیں؟
(بشکریہ: ’’ٹائم‘‘۔ ۱۵؍ دسمبر ۲۰۱۰ء)
Leave a Reply