
اگر بھارت عالمی سطح پر کسی حد تک بالادستی حاصل کرنا چاہ رہا ہے تو وزیراعظم نریندر مودی نے اس کے لیے کوششیں شروع کر رکھی ہیں۔ وہ دہلی کے تزویراتی مقاصد حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہیں اور بنگلادیش، نیپال، بھوٹان اور مالدیپ کو بھارت کے حاکمانہ دائرئہ اثر میں لاکر دیرینہ سیاسی جغرافیائی رکاوٹوں کو دور کرنا چاہتے ہیں۔ مودی نے اس سفر کا آغاز پڑوس سے کیا جب وہ نیپال اور بھوٹان کے بعد بنگلادیش پہنچے۔ ڈھاکا میں متحرک اور جاذبِ نظر بھارتی وزیراعظم نے بہتوں کو متاثر کیا اور اس سے زیادہ لوگوں کو جھنجھلاہٹ میں ڈال گئے۔
بنگلادیش کے ساتھ ایک اچھے ہمسائے کے طور پر امن و سکون کے ساتھ رہنے کے مودی کے اشارے بظاہر اچھے تاثر کی وجہ بنے۔ دوسری جانب جھنجھلاہٹ کی وجہ یہ تھی کہ یا تو ان کی خواہش ہی نہ تھی یا وہ اس قابل نہیں تھے کہ دو طرفہ تعلقات سے متعلق مفاہمت کی ایک درجن سے زائد یادداشتوں پر دستخط کرکے بھارت نے جو کچھ حاصل کیا تھا، اُس کے بدلے بنگلادیش کو بھی وہ پیشکشیں کرتے جن کا مطالبہ ایک عرصے سے کیا جارہا ہے۔
خطے پر بالادستی
بنگلادیش کے ساتھ ہونے والے معاہدوں کے طفیل دہلی اس قابل ہوجائے گا کہ پاکستان کے سوا سارے جنوبی ایشیا کو بھارت کی سیاسی، عسکری، معاشی اور سماجی بالادستی کی لڑی میں پرو دے۔
زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ مودی نے یہ جانتے ہوئے بھی کہ بنگلادیش مشرقی بھارت سے جغرافیائی طور پر پیوستہ ہے، بنگلادیش سے بہت کچھ لے لیا اور بدلے میں کوئی خاص پیشکش نہ کی۔ انہوں نے یا تو جذبات کے جوش میں یا پھر الفاظ اور محاروں کے غلط چناؤ کے ذریعے بنگلادیشی خودمختاری کے حساس معاملے پر بھی ضرب لگائی۔
مودی نے کس طرح بنگلادیشی خودمختاری کو زک پہنچائی، یہ دیکھنے سے پہلے خود ہماری کابینہ کے افعال بحث کے متقاضی ہیں۔ عوامی لیگ کی حکومت نے بنگلادیش، بھارت، نیپال اور بھوٹان کے درمیان تجارتی و انفرادی گاڑیوں کے لیے سڑک کی تعمیر کا منصوبہ ۸ جون کو جس عجلت میں کابینہ سے منظور کرایا، اس نے بے چینی میں مزید اضافہ کردیا۔
مودی کو ڈھاکا سے گئے ۲۴ گھنٹے بھی نہیں ہوئے تھے جب کابینہ نے یہ فیصلہ کیا۔ کسی بھی سیاسی نقطۂ نظر سے دیکھیں تو اعلان ایک افواہ سے زیادہ کچھ نہیں کیونکہ بنگلادیش اور بھارت کے مابین کوئی ایسا معاہدہ نہیں ہوا جو بنگلادیشی گاڑیوں کو بھارتی سرزمین سے گزرنے کی اجازت دے اور نہ ہی بنگلادیش کا ایسا کوئی معاہدہ نیپال اور بھوٹان کے ساتھ ہے۔
یوں لگتا ہے جیسے کابینہ نے یہ فیصلہ ملک کے اندر ہونے والی اس تنقید سے توجہ ہٹانے کے لیے کیا ہے کہ دہلی نے مفاہمت کی یادداشتوں کے ذریعے بنگلادیش کے اندر محفوظ راہداری حاصل کرلی ہے، جس تک وہ زمین اور سمندر سے رسائی حاصل کرسکتا ہے جبکہ بنگلادیشی گاڑیوں کو بھارت میں برآمد کی غرض سے داخلہ دینے کا کوئی معاہدہ نہیں ہوا۔
خالص معاشی اصطلاحات میں بات کی جائے تو بھارت اب اس قابل ہوگیا ہے کہ اپنی شمال مشرقی ریاستوں تک خدمات اور اجناس کی ترسیل بآسانی بنگلادیش کی سرزمین استعمال کرتے ہوئے کرے۔ اس سے بنگلادیش کی ۱۰۰؍ملین ڈالر سے زائد کی برآمدات کو نقصان پہنچے گا، جو اس کے تاجروں اور صنعتکاروں نے بڑی مشکلوں سے ہمسایہ بھارتی ریاستوں تک پھیلائی تھیں۔
معاشی و عسکری خطرات
ابھرتا ہوا یہ رجحان تجارت کا توازن بھارت کے حق میں کردے گا اور بنگلادیشی منڈیوں میں بھارتی مصنوعات کا ایسا سیلاب آئے گا، جس سے ہمارا اندرونی معاشی ڈھانچا تباہ ہوکر رہ جائے گا۔ تاریخی اعتبار سے تجارت کا توازن ہمیشہ چھوٹے ہمسایوں کے حق میں رہا ہے لیکن اب ڈھاکا کی بھارت سے درآمدات ۶ بلین ڈالر سے زائد ہیں اور برآمدات ابھی ۶۰۰ ملین ڈالر تک بھی نہیں پہنچیں، اور پھر بھارت شمال مشرقی ریاستوں میں بغاوتوں کو کچلنے کی غرض سے فوجی ساز و سامان بنگلادیش سے گزار کر لے جائے گا جس پر بنگلادیشی سرزمین کے اندر حملوں کا خطرہ ہے۔ دونوں ممالک کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے یہ ایک ڈراؤنا خواب بن جائے گا۔
جو لوگ دہلی کو ۱۹۷۴ء کے زمینی سرحدی معاہدے پر راضی کرلینے کے حوالے سے بہت زیادہ پرجوش ہیں، وہ بھی ڈھاکا کی کامیابی کا غلط اندازہ لگارہے ہیں۔ بھارتی پارلیمان نے ۱۹۷۴ء سے اب تک اس معاہدے کی منظوری نہیں دی تھی جبکہ بنگلادیش نے دستخط کرتے ہی اسے پارلیمان سے منظور کرالیا تھا۔ بھارتی قانون سازوں کو اپنا کردار ادا کرنے میں ۴۱ سال لگے۔ اس بارے میں موجودہ حکومت اور اس کے حمایتیوں کے بلند و بانگ دعوے بالکل غلط ہیں۔ اصل صورت حال یہ ہے کہ اگر کوئی چار دہائیوں کے بعد آپ کا قرض ادا کرے تو آپ پر شکریہ ادا کرنا بھی واجب نہیں ہوتا۔
مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بینرجی کی چالبازیاں بھی بھارت، بنگلادیش تعلقات کا ایک ایسا عنصر ہیں جسے سامنے آنا چاہیے۔ بھارتی میڈیا کی رپورٹس بتاتی ہیں کہ مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ نے مودی کے ساتھ صرف اس شرط پر ڈھاکا جانے پر رضامندی ظاہر کی کہ دریائے تیستا کے پانی پر موجود دیرینہ تنازع پر بات نہیں کی جائے گی۔ پھر بھی وزیراعظم مودی اس سلگتے ہوئے مسئلے کو نظر انداز نہیں کرسکے اور اس مسئلے پر مستقبل میں معاہدہ کرنے کا ایک نیا وعدہ کرلیا۔
بنگلادیش سمجھتا ہے کہ مواصلاتی رابطوں کے معاہدوں کو اس وقت تک ملتوی کردینا چاہیے تھا، جب تک تیستا کے پانی کے استعمال پر سمجھوتا نہ ہوجائے۔ کیونکہ بھارت کی جانب سے دریائے تیستا کا رخ موڑے جانے کی وجہ سے بنگلادیشی زراعت، معیشت اور ماحولیات کو سخت نقصان پہنچ رہا ہے۔
خودمختاری کہاں گئی؟
ان باتوں سے قطع نظر، مودی نے ڈھاکا میں قیام کے دوران اپنے جچے تلے اور نتیجہ خیز رویے کے ذریعے تجارتی خود اعتمادی اور سیاسی چابکدستی کا ثبوت دیا۔ مگر کچھ مواقع پر وہ اپنے مذاق اور پھبتیوں کے باعث مضحکہ خیز دکھائی دیے اور ایسا لگا کہ وہ بچکانہ جذباتیت کا شکار ہوں۔ اس حوالے سے جو بات سب سے زیادہ موضوعِ بحث بنی، وہ یہ ہے: ’’پہلے دنیا یہ جانتی تھی کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔ اب دنیا کو معلوم ہوگا کہ ہم ایک ساتھ چل رہے ہیں‘‘۔
یہ بیان ایک بہت دور کی کوڑی ہے اور صرف جذباتی انداز میں ہی سچ دکھائی دیتا ہے کیونکہ بظاہر مضبوط بھارت، بنگلادیش تعلقات ایک ایسی منفرد تزویراتی شراکت داری پیدا کر رہے ہیں جس کی سیاسی بنیاد کھوکھلی اور معاشی مقاصد ناہموار ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ بھارت اور بنگلادیش کے درمیان کئی چیزیں مشترک ہیں مگر وہ کہیں زیادہ چیزوں میں ایک دوسرے سے مختلف بھی ہیں۔ جغرافیے نے جہاں دونوں کو پڑوسی بنا رکھا ہے، وہیں تاریخ نے دونوں کے مابین بے تحاشا خونریزی، نسلی و لسانی دشمنی، ۱۹۰۵ء میں تقسیمِ بنگال اور ۱۹۴۷ء میں بنگالیوں کے پاکستان کا حصہ بننے کی صورت میں دشمنی کے بیج بھی بو رکھے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ مودی کے اس مخصوص بیان سے کئی لوگوں کو جھٹکا لگا کیونکہ اس سے انہیں یہ پیغام ملا کہ گویا بھارت اور بنگلا دیش کے درمیان اب کوئی سرحد باقی نہیں ہے۔ بھارت کے کرشماتی وزیراعظم کا مطلب یہ نہیں تھا اور وہ شاید یہ باور کرانا چاہ رہے تھے کہ بنگلادیش اور بھارت اب اس انداز میں قریب آئیں گے کہ جس سے سرحدیں گویا دھندلا جائیں گی۔ لیکن کہا تو یہ بھی جاسکتا ہے کہ ان کا مطلب واقعی وہ تھا جو سمجھا گیا۔
یکجا ہونے میں بہت دیر ہوچکی!
ہمیں یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ بھارت کی جانب سے بنگلادیش کے ساتھ موجود ۴۲۰۰ کلومیٹر طویل سرحد پر خاردار تاروں کی باڑھ لگانے کے بعد یہ اشارہ مشکل ہی سے ملتا ہے کہ یہ خیالی بات کبھی حقیقت بھی بن سکے گی۔ اس کے علاوہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ایسا موقع بہت پہلے ہی گنوایا جاچکا ہے جب: (۱)بھارت نے تیستا دریا کے پانی پر معاہدہ کرنے میں تاخیر کی، (۲)دونوں ملکوں کے لیے فائدہ مند ایسا معاہدہ نہیں کیا جس کے تحت گاڑیاں مصنوعات لے کر ایک دوسرے کی سرزمین میں جاسکیں، (۳)علاقائی رابطوں کو مستقبل کی خوشحالی، اخوت اور باہمی انحصار کی بنیاد بنانے کے لیے چین اور برما سے پہلے نیپال اور بھوٹان کو قریب کیا۔ اگر ایسا ہوتا تو آگے بڑھنے کا عمل زیادہ حقیقت پسندانہ ہوتا کیونکہ اس میں چھوٹی اور عسکری لحاظ سے کمزور ریاستوں کو سیاسی جغرافیائی نقصانات سے بچانے کے لیے کثیر جہتی نظام قائم ہوتا۔
اگر ایشیا کو ابھرنا ہے اور اگلی صدی کی قیادت کرنی ہے تو ایسا صرف اتحاد کے ذریعے ہوگا۔ خاص طور پر بے معنی سیاسی جغرافیائی تحفظات کو امن، سلامتی اور علاقائی خوشحالی کے عظیم تر مقصد کی خاطر ترک کرنا ہوگا۔ فرسودہ معاشیات کی آڑ میں چھپے ہوئے سیاسی جغرافیائی مقاصد کے حصول کی کوشش بداعتمادی کی ان دیواروں کو شاید ہی گرا سکے جنہوں نے خطے کو کئی صدیوں سے اپنے حصار میں لے رکھا ہے۔
(مترجم: حارث رقیب عظیمی)
“Has Dhaka’s sovereignty been undermined?”. (“Weekly Holiday” Dhaka. June 12, 2015)
Leave a Reply