سیاست اور سفارت کاری پر علمی انداز سے تنقید کا حق ادا کرنے والے اس نکتے کو زور دے کر بیان کر رہے ہیں کہ امریکا اس وقت اپنی صلاحیتوں کے اظہار کے حوالے سے نقطۂ عروج گزار چکا ہے یا گزار رہا ہے۔ اِس کا واضح مطلب یہ ہے کہ یہ دور گزرنے کے بعد امریکا کے لیے زوال کی گھڑیاں شروع ہوں گی۔
عالمی سیاست اور سفارت میں امریکا چھ عشروں سے مرکزی یا کلیدی کردار ادا کرتا آیا ہے۔ اُس نے دنیا بھر میں اپنی طاقت کا لوہا منوایا ہے۔ کئی دور افتادہ خطوں میں کامیاب سیاسی مہم جوئی کی ہے اور عالمی تعلقات کے معاملے میں اُس کی مہارت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ پریشان کن امر یہ ہے کہ یہ سب کچھ اس نے صرف عسکری قوت کے بل پر کیا ہے۔ اُس کی تھوپی ہوئی جنگوں نے کئی خطوں کو مکمل بربادی سے دوچار کیا ہے۔ ویت نام، افغانستان، نکارا گوا، عراق اور دوسرے بہت سے ممالک امریکا کے ہاتھوں بُرے زمانے سے دوچار ہوئے ہیں۔ اب ایسا لگتا ہے کہ امریکا کے لیے پالیسی بدلنے کا وقت آگیا ہے۔ امریکی پالیسی سازوں کو یقین ہوچکا ہے کہ اُن کی طاقت کا زمانہ وہ نہیں رہا جو تھا۔ مگر خیر، سیاسی اور سفارتی امور کے ماہرین اور مبصرین میں اب بھی اِس حوالے سے اختلافِ رائے پایا جاتا ہے۔ بہت سے مبصرین کا کہنا ہے کہ امریکا نے اپنا عروج کا زمانہ اب تک پوری طرح دیکھا نہیں۔ یعنی وہ مزید عروج سے ہمکنار ہوگا اور دنیا سے اپنی طاقت اور برتری کا لوہا مزید منوائے گا۔
امریکی عوام کو بھی اس بات کا احساس ہوچلا ہے کہ ان کا ملک اب دنیا پر حکمرانی کی پوزیشن میں نہیں رہا۔ امریکیوں کو دن بہ دن اندازہ ہوتا جارہا ہے کہ ان کے ملک کی جس قدر بھی طاقت تھی، اُس کی بنیادیں کمزور پڑتی جارہی ہیں۔ طاقت میں کمی آنے سے عالمی سطح پر امریکا کے لیے مشکلات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ رائے عامہ کے حالیہ جائزوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ ۶۰ فیصد سے زائد امریکیوں کا خیال ہے کہ ان کا ملک اپنی طاقت سے محروم ہوتا جارہا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکیوں کو وہ فکر لاحق ہے جو پہلے کبھی لاحق نہ تھی۔ ۱۹۵۰ء کی دہائی میں سوویت یونین کی ٹیکنالوجیکل برتری، ۱۹۶۰ء کی دہائی میں ویت نام کی دلدل، ۱۹۷۳ء کے تیل کے بحران، ۱۹۸۰ء کی دہائی میں افغانستان پر لشکر کشی کے نتیجے میں سوویت یونین کی طاقت کے اُبھار اور ۱۹۸۰ء کی دہائی کے اواخر میں عالمگیر معاشی بحران سے بھی امریکیوں کو وہ تشویش لاحق نہ ہوئی تھی، جو اَب لاحق ہے۔ سب کو یہ اندازہ پوری شدت سے ہو رہا ہے کہ امریکا عالمی امور میں اپنی بات پوری طرح منوانے کے قابل نہیں رہا۔ سیاسی اور سفارتی امور کے تجزیہ کار اور ’’تہذیبوں کا تصادم‘‘ جیسی معرکہ آرا کتاب کے مصنف سیمیوئل ہنگٹنگٹن نے مذکورہ بالا پانچ معاملات کو زوال سے جُڑا اضطراب قرار دیا تھا۔
بہت سے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکا نے پہلے افغانستان اور پھر عراق میں ایک طویل جنگ لڑی جس کے نتیجے میں اس کی طاقت کا مرکز کمزور ہوگیا ہے۔ مگر امریکی عوام کی رائے کچھ اور ہے۔ وہ اچھی طرح محسوس کرتے ہیں کہ جو کچھ اُن کے ملک کو دیکھنا پڑ رہا ہے، وہ دراصل پالیسیوں میں پائی جانے والی خامیوں کا نتیجہ بھی ہے۔ امریکیوں کے ذہنوں میں بے یقینی گھر کرچکی ہے۔ وہ محسوس کرنے لگے ہیں کہ اب وہ دنیا پر حکمرانی کی پوزیشن میں نہیں رہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اِس احساس میں شدت پیدا ہوتی جارہی ہے۔
واشنگٹن کی پالیسیوں پر بحث کرنے والے امریکا کی عالمگیر طاقت کے حوالے سے بحث کرتے ہیں۔ عام امریکیوں کے نزدیک امریکا کی طاقت کو پرکھنے کا پیمانہ مختلف ہے۔ اُن کے لیے معاشی میدان میں مشکلات بڑھتی جارہی ہیں۔ جاب مارکیٹ سکڑ رہی ہے۔ مقابلہ سخت سے سخت تر ہوتا جارہا ہے۔ متوسط طبقہ کی آمدنی دن بہ دن کم ہوتی جارہی ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ امریکیوں کو اپنی آنے والی نسل کی زیادہ فکر ہے۔ وہ رات دن یہ سوچ سوچ کر پریشان ہوئے جاتے ہیں کہ اُن کے بچوں کا مستقبل کیا ہو۔ سی این این کی طرف سے کرائے جانے والے رائے عامہ کے ایک حالیہ جائزے سے معلوم ہوا ہے کہ ۶۵ فیصد سے زائد امریکیوں کا خیال ہے کہ اُن کے بچوں کا مستقبل زیادہ پریشان کن ہوگا، اُنہیں معاشی اور معاشرتی سطح پر زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ امریکی پالیسی ساز اہل وطن کو یقین دلاتے رہے ہیں کہ اُن کا ملک ہمیشہ ترقی کی راہ پر گامزن رہے گا اور ہمیشہ خوش حالی اُن کے قدم چُومتی رہے گی۔ یہ خوش کن باتیں اب امریکیوں کا دل نہیں بہلا سکتیں۔ اُنہیں اندازہ ہوچکا ہے کہ اچھا وقت گزر چکا ہے یا گزر چلا ہے اور یہ کہ آنے والے دور کے دامن میں اُن کے لیے پھول کم اور کانٹے زیادہ ہیں۔
عام امریکیوں کا اضطراب حقیقی ہے اور بلا جواز بھی نہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کا ملک اب دنیا بھر میں مہم جوئی سے باز رہے۔ مگر امریکی پالیسی ساز ایسا نہیں چاہتے۔ ان کے نزدیک امریکا کے لیے کہیں نہ کہیں سیاسی و عسکری مہم جوئی میں مشغول رہنا ناگزیر ہے۔ پالیسی سازوں کی اکثریت اِس عمل کو طاقت کے اظہار کا ایک اہم ذریعہ سمجھتی ہے۔ پالیسی سازوں کا تصور یہ ہے کہ امریکا کو دنیا سے چھپ کر ایک طرف بیٹھ رہنے کے بجائے مقابلہ کرنا چاہیے۔ مقابلہ کرکے ہی وہ اپنی طاقت منوا سکتا ہے اور اپنے لیے نئے امکانات بھی تلاش کرنے میں کامیاب ہوسکتا ہے۔ پالیسی سازوں کی سوچ یہ ہے کہ امریکا اگر میدان میں رہے گا تو اُس کے بارے میں پائی جانے والی بدگمانیاں ختم ہوں گی اور اُس کی طاقت میں اضافہ ہوگا، جس کے نتیجے میں عام امریکیوں کے لیے امکانات روشن تر اور بہتر ہوتے جائیں گے۔
بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ سیاسی مباحث سے اِس امر پر بحث اب مفقود ہوچلی ہے کہ امریکی طاقت کو برقرار رکھنے کی بہتر سبیل کیا ہوسکتی ہے اور کس طور امریکی ایک بار پھر ساری دنیا کو مٹھی میں لینے کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کرسکتے ہیں۔ مبصرین اور تجزیہ کاروں کے ساتھ ساتھ پالیسی سازوں نے اب تک دنیا بھر میں طاقت کے توازن کے حوالے سے رونما ہونے والی جوہری تبدیلیوں سے متعلق مواد اور اعداد و شمار پر ناقدانہ اور حقیقت پسندانہ نظر نہیں ڈالی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اُنہیں کچھ اندازہ نہیں کہ امریکا کے لیے حقیقت پسندانہ طرز فکر و عمل کیا ہوسکتی ہے اور یہ کہ تیزی سے بدلتے ہوئے عالمی حالات میں امریکا کس طور مسابقت کے قابل رہ سکے گا۔ امریکی پالیسی سازوں نے اب تک اِس نکتے پر توجہ نہیں دی کہ امریکا کی طاقت کو کس طور ایک طویل مدت تک اِس طرح برقرار رکھا جاسکتا ہے کہ دنیا میں زیادہ خرابیاں بھی پیدا نہ ہوں اور امریکا سے نفرت کرنے والوں کی تعداد میں بھی کمی واقع ہو۔
سفارت کاری پر نظر رکھنے والے بہت سے تجزیہ کاروں کا خیال یہ ہے کہ امریکا کے لیے اپنی برتری برقرار رکھنے کا معاملہ بہت حد تک اس بات پر منحصر ہے کہ وہ ایسا چاہتا بھی ہے یا نہیں۔ صدر اوباما کو کسی بھی بہتر امکان سے کہیں زیادہ ’’زوال کا پیغمبر‘‘ سمجھا جاتا رہا ہے۔ وہ بھی کہہ چکے ہیں کہ باقی دنیا کے مقابلے میں امریکا جس قدر طاقتور اِس وقت ہے، پہلے کبھی نہ تھا۔ ان کے خیال میں بنیادی مسئلہ یہ نہیں ہے کہ امریکا اپنی عالمگیر قائدانہ حیثیت برقرار رکھ سکے گا یا نہیں بلکہ یہ ہے کہ وہ کس ڈھنگ سے قیادت کرتا رہے گا۔
عالمی معاملات میں برتری برقرار رکھنا محض خواہش کے تابع نہیں۔ اِس کے لیے متعلقہ طاقت کا ہونا بھی ناگزیر ہے۔ امریکا یہ چاہتا ہے کہ عالمی معیشت میں اُس کی قائدانہ حیثیت برقرار رہے، عالمی تجارت وسیع البنیاد ہو اور اُس کے تمام مفادات کو بہت حد تک تحفظ حاصل رہے۔ ساتھ ہی ساتھ بڑی طاقتوں کے درمیان مناقشے کم سے کم رہیں تو لازم ہے کہ اُس کے پاس محض عزم نہ ہو بلکہ طاقت بھی ہو۔ اگر حقیقت پسندی سے دامن نہ بچایا جائے تو اِس امر کو بھی ذہن نشین رکھنا ہوگا کہ عالمی سطح پر طاقت کے معاملات بے مثال تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں۔ طاقت اور دولت کے بدلتے ہوئے معیارات اور معاملات کے اثرات بھی وسیع اور گہرے ہیں۔ اس وقت امریکا کی برتری کو لاحق خطرات میں سے بیشتر اُس کے اپنے پیدا کردہ ہیں۔ مالیاتی پالیسی ہی کو لیجیے۔ امریکی مالیاتی پالیسی نے دنیا بھر میں امریکی برتری کے لیے شدید خطرات پیدا کیے ہیں۔ پالیسی کی کمزوری نے امریکا کو بیشتر خطوں میں بروقت اقدامات کی صلاحیت سے محروم کردیا ہے۔ بہت سے معاملات میں امریکا خاصا ہدف پذیر ہوچکا ہے۔ کسی بھی ابھرتی ہوئی طاقت یا چند طاقتوں کے گروپ کے لیے امریکا کو نشانے پر لینا کچھ خاص مشکل نہیں رہا۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ ایک طرف تو امریکا بر وقت اقدامات کے قابل نہیں رہا اور دوسری طرف دوسروں کو غیر معمولی حد تک متاثر کرنے کی اُس کی صلاحیت بھی دم توڑتی جارہی ہے۔
اگر امریکی پالیسی ساز چاہتے ہیں کہ ان کا ملک عالمی معاملات میں قائدانہ حیثیت کا حامل رہے اور اپنی بات منوانے کی پوزیشن کمزور نہ ہو تو لازم ہے کہ وہ امریکی معیشت کو مستحکم کریں تاکہ دنیا بھر کے معاشی معاملات میں امریکا کے لیے پریشانیاں کم ہوں اور آسانیاں بڑھیں۔ امریکا کو عشروں تک اقتصادی امور میں برتر رکھنے کے لیے پالیسی میں تبدیلیاں بھی ویسی ہی لانی پڑیں گی۔ امریکا کے لیے ناگزیر ہے کہ ترجیحات کا نئے سِرے سے تعین کرے اور نئی ترجیحات سے مطابقت رکھنے والے اقدامات بھی بروقت کرے۔ امریکا اِس اعتبار سے خوش نصیب ہے کہ اُسے جتنے بھی مسائل کا سامنا ہے، اُن میں بیشتر اُس کی اپنی خامیوں اور خرابیوں کے پیدا کردہ ہیں۔ یعنی وہ اپنی خامیوں اور خرابیوں کو دور کرکے اپنے بہت سے مسائل کم کرسکتا ہے۔ ایسی صورت میں اُس کے لیے اپنی کمزور پڑتی ہوئی پوزیشن کو دوبارہ مستحکم کرنا کوئی بہت بڑا دردِ سر ثابت نہیں ہوگا۔ امریکا کیا کرسکتا ہے اور کیا نہیں کرسکتا، اِس کا تجزیہ ہم اِس نکتے سے شروع کریں گے کہ امریکا میں مسابقت کی صلاحیت کس قدر ہے اور ساتھ ہی ساتھ ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ امریکا کو کس طرح کی مسابقت کا سامنا ہے۔
امریکا کی معاشی قوت میں کمی
اِس حقیقت سے صرفِ نظر ممکن نہیں کہ امریکا کی معاشی قوت میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ ۲۰۰ سال میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ جس قدر بھی ترقیاتی عمل ہے، وہ صرف ترقی پذیر دنیا میں رونما ہو رہا ہے اور اِس کے نتیجے میں ایسی عالمگیریت رونما ہو رہی ہے جس کی رفتار، حد اور اثرات کا اندازہ لگانا ممکن نہیں۔ ۱۹۹۰ء کے عشرے کے اوائل میں عالمی تجارت اور خدمات کا ۱۴ فیصد ترقی پذیر دنیا سے تعلق رکھتا تھا۔ اب یہ تناسب ۴۰ فیصد سے زائد ہوچکا ہے۔ ۲۰۰۰ء میں چینی معیشت امریکی معیشت کے دسویں حصے پر مشتمل تھی۔ اب حالت یہ ہے کہ چین نے کم از کم قوتِ خرید کے اعتبار سے امریکی معیشت کی ہمسری کا اعزاز پالیا ہے۔
طاقت کے توازن میں رونما ہونے والی ایک تبدیلی نے ایک اور بہت بڑی تبدیلی کو راہ دی ہے۔ عالمی تجارت پر ڈیڑھ سو سال سے بحر اوقیانوس کا کنٹرول تھا۔ اب بحرالکاہل سے ہونے والی تجارت عالمی تجارت پر تصرف کی حامل ہے۔ انیسویں صدی میں رونما ہونے والے صنعتی انقلاب نے امریکا اور یورپ کو طاقت کے مراکز میں تبدیل کردیا تھا۔ تب سے اب تک یہ دونوں خطے ہی اقتصادی ترقی کا مرکز رہے ہیں۔ اب طاقت کا توازن ایشیا کی طرف منتقل ہو رہا ہے اور اِس عمل کی رفتار غیر معمولی ہے۔
تیزی سے ابھرتی ہوئی معیشتیں بہت سی خرابیوں کا بھی شکار ہیں۔ بھارت میں غیر معمولی کرپشن ہے اور آبادی کا دباؤ بھی بہت زیادہ ہے مگر اس کے باوجود وہ عالمی منڈی میں اپنی پوزیشن بہتر بنانے میں کامیاب رہا ہے۔ چین میں بینکاری نظام بہت سی خرابیوں سے دوچار ہے۔ اس کے باوجود چینی معیشت تیزی سے مستحکم ہوتی جارہی ہے۔ دنیا بھر میں چینی مصنوعات نے بہت سی مقامی صنعتوں کا بوریا بستر گول کردیا ہے۔ مگر اِس کے باوجود امریکی برتری کے لیے مشکلات کم نہیں ہو پارہیں۔ اثاثوں کا جائزہ لینے والی فرم بلیک راک اور یورپ میں تعاون و ترقی کی تنظیم (او ای سی ڈی) کے جائزے کے مطابق ابھرتی ہوئی منڈیوں میں صَرف کی سطح امریکا اور یورپ کو پیچھے چھوڑ چکی ہے۔ ۲۰۳۰ء تک ایشیا کا ابھرتا ہوا متوسط طبقہ شمالی امریکا کے متوسط طبقہ کو صَرف کے معاملے میں بہت پیچھے چھوڑ چکا ہوگا۔
امریکا اور اس کے اتحادی اب بھی عالمگیر حالات سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ ان کی دولت میں کمی واقع نہیں ہو رہی ہے مگر مشکل یہ ہے کہ ان کے حریفوں کی طاقت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ترقی یافتہ دنیا کی گھٹتی ہوئی طاقت کے حوالے سے مرکزی کردار یورپ اور جاپان نے ادا کیا ہے۔ ان دونوں خطوں کی طاقت ایک مخصوص رفتار سے کم ہوتی گئی ہے۔ چند عشروں کے دوران امریکی معیشت کی رفتار بھی سست پڑتی گئی ہے۔ امریکا کی پیداواری قوت کم ہوتی جارہی ہے۔ مغربی میڈیا نے اِسے پیداواری بحران قرار دیا ہے۔ اِس کا ایک بنیادی سبب یہ ہے کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ترقی میں اضافے کے ساتھ ہی امریکا نے صنعتی پیداوار پر خاطر خواہ توجہ دینی ترک کردی تھی۔ امریکیوں کو اس حوالے سے مہارت سے ہمکنار کرنے کی کوششیں بھی کمزور پڑگئی ہیں۔ صنعتی ترقی کے لیے لازم ہے کہ تحقیق و ترقی کے لیے خطیر رقوم مختص کی جائیں۔ ایسا کیے بغیر صنعتی پیداوار میں اضافے اور برتری کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں کیا جاسکتا۔
مجموعی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ امریکی معیشت میں مقابلہ کرنے کی صلاحیت خطرناک حد تک کم ہوچکی ہے۔ مکنسے گلوبل انسٹی ٹیوٹ کا تجزیہ یہ ہے کہ امریکا میں افرادی قوت کا معیار بلند کرنے پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی جارہی۔ صنعتی ترقی کے لیے لازم سمجھی جانے والی تحقیق پر توجہ دینے کا رجحان بھی کمزور پڑتا جارہا ہے۔ بیرونی سرمایہ کاری میں زیادہ دلچسپی نہیں لی جارہی۔ دنیا بھر میں امریکی سرمایہ کاری کے مقابلے میں دیگر ابھرتی ہوئی معیشتوں کی طرف سے سرمایہ کاری کو اہمیت دی جارہی ہے۔ کئی خطوں میں چین اور بھارت نے اچھی خاصی سرمایہ کاری کی ہے۔ وہ منافع کی کم شرح پر بھی گزارا کر رہے ہیں۔ امریکی ادارے چاہتے ہیں کہ ان کے لیے شرح منافع غیر معمولی ہو اور اس معاملے میں وہ کوئی رعایت دینے کو تیار نہیں ہوتے۔ بہت سے اہم شعبوں میں امریکی برآمدات سکڑتی جارہی ہیں۔ ایئرو اسپیس کے شعبے میں امریکا کو جو غیر معمولی اور فیصلہ کن برتری حاصل تھی وہ اب نہیں رہی۔
اقتصادی نمو کا ترقی پذیر دنیا کی طرف منتقل ہونا
اقتصادی نمو کا ترقی پذیر دنیا کی طرف تیزی سے منتقل ہونا دور رس اثرات و نتائج کا حامل ثابت ہوسکتا ہے۔ کسی بھی بڑی قوت کے لیے عسکری قوت دراصل معاشی قوت ہی کے بطن سے ہویدا ہوتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ امریکی دفاعی بجٹ اُس کے بعد دس بڑے ملکوں کے مجموعی دفاعی بجٹ سے زیادہ ہے مگر اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ کسی بھی ملک کا دفاعی بجٹ معاشی حقیقت سے ہم آہنگ ہونا چاہیے۔ دفاعی بجٹ زیادہ اُسی صورت میں ہونا چاہیے، جب معاشی قوت بھی زیادہ ہو۔ اگر ان دونوں میں توازن اور ہم آہنگی نہ ہو تو ملک کے لیے صرف انحطاط اور زوال کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ اب ایک واضح ہوتی حقیقت یہ بھی ہے کہ ابھرتی ہوئی معیشتوں کا دفاعی بجٹ بڑھتا جارہا ہے۔ حالیہ جائزوں کے مطابق امریکا اور اس کے اتحادیوں کا مجموعی دفاعی بجٹ سب سے بڑی ۱۵؍افواج کے مجموعی بجٹ کے ۸۰ فیصد کے مساوی ہے۔ میکنسے گلوبل انسٹی ٹیوٹ کا کہنا ہے کہ محض آٹھ برسوں میں یہ فرق ۵۵ فیصد تک رہ جائے گا۔
عالمگیریت سے غیر معمولی فوائد سمیٹتے ہوئے کئی ممالک اب اپنی عسکری قوت میں تیزی سے اضافہ کرتے جارہے ہیں۔ جدید ترین ہتھیار حاصل کرنے کی دوڑ ہر ملک میں جاری ہے۔ ایسے میں امریکی عسکری قوت میں کمی واقع ہونا اور اُس کی واضح برتری کا گھٹنا یا ختم ہوتے جانا فطری امر ہے۔ سینٹر فار اے نیو امریکن سکیورٹی کے لیے رابرٹ ورک اور شان برملے نے لکھا ہے کہ ۱۹۹۰ء اور ۲۰۰۰ء کے عشروں کے دوران امریکا نے اسٹیلتھ ٹیکنالوجی، ہائی ٹیک گائڈیڈ ہتھیاروں، ہائی اینڈ سینسرز، بیٹل نیٹ ورکنگ، خلا اور سائبر اسپیس میں جو برتری قائم کی تھی، وہ اب بہت حد تک ختم ہوچلی ہے اور سچ تو یہ ہے کہ یہ عمل اب بہت تیز ہوچکا ہے۔ امریکی نائب وزیر دفاع نے بھی رابرٹ ورک اور شان برملے کی تحقیق اور تجزیے کو درست قرار دیا ہے۔
چین اپنی عسکری قوت میں غیر معمولی رفتار سے اور غیر معمولی حد تک اضافہ کر رہا ہے۔ وہ جدید ترین ہتھیاروں کی مدد سے اس امر کو یقینی بنانا چاہتا ہے کہ امریکا مغربی بحرالکاہل میں چین کے علاقے میں کوئی بڑی مہم جوئی نہ کرے۔ اس سال چین کے دفاعی بجٹ میں ۱۲ فیصد اضافہ کیا گیا ہے اور ۲۰۰۰ء سے اب تک اُس کا دفاعی بجٹ ۹ گنا ہوچکا ہے۔ بہت سے مبصرین اور تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ چین کا حقیقی دفاعی بجٹ اِس سے بھی زیادہ ہے۔ ۲۰۲۰ء اور ۲۰۳۰ء کے درمیان چین عسکری قوت میں اضافے کا عمل تیز کرتے ہوئے دفاعی بجٹ کے لیے امریکا سے کہیں زیادہ رقوم مختص کر رہا ہوگا۔
ایران جیسی ریاستیں اور حزب اللہ جیسے نان اسٹیٹ ایکٹر بھی اب امریکی عسکری برتری کے لیے واضح خطرے کے روپ میں ابھر رہے ہیں کیونکہ پوری قطعیت کے ساتھ حملہ کرنے اور ہدف کو حاصل کرنے کی صلاحیت کے حامل ہتھیاروں اور متعلقہ مشینری کا حصول اب کچھ زیادہ مشکل نہیں رہا۔ دوسری طرف امریکا اپنے دفاعی بجٹ میں کٹوتی کر رہا ہے اور فنڈز کو اسٹریٹجک اثاثوں سے ہٹ کر استعمال کرنے پر زیادہ توجہ دے رہا ہے۔ امریکی محکمہ دفاع نے بتایا ہے کہ آئندہ عشرے کے لیے امریکی دفاعی بجٹ میں کم و بیش ۶۰۰ ارب ڈالر کی کمی کی جاچکی ہے۔ اگر یہی رجحان برقرار رہا تو ۲۰۲۱ء تک امریکی محکمہ دفاع ہتھیاروں کے حصول، ان کے استعمال کی تربیت، تحقیق، ترقی اور آپریشنز سے زیادہ عملے سے متعلق امور پر خرچ کر رہا ہوگا۔
دی یو ایس نیشنل انٹیلی جنس کونسل نے حال ہی میں طاقت کے مظاہرے کے حوالے سے دو طریق ہائے کار کی وضاحت کی ہے۔ طاقت کے مظاہرے کو ’’سخت‘‘ اور ’’نرم‘‘ کی درجہ بندی میں رکھا گیا ہے۔ دونوں حوالوں سے طاقت کے معاملے میں امریکی حصہ ڈرامائی طور پر کم ہوگا۔ ۲۰۱۰ء میں یہ حصہ ۲۵ فیصد تھا جو ۲۰۵۰ء میں صرف ۱۵ فیصد رہ جائے گا۔ دی یو ایس نیشنل انٹیلی جنس کونسل نے بتایا ہے کہ اِس مدت کے دوران یورپ اور جاپان کی مجموعی قوت میں بھی ڈرامائی کمی واقع ہوگی۔
امریکا کی ناپائیدار مالیاتی پالیسی
امریکا اپنے قرضوں اور بجٹ کے خسارے کا سامنا کرنے سے انکار کرکے اپنے معاشی و عسکری معاملات کو مزید خراب کر رہا ہے۔ ناپائیدار مالیاتی پالیسی امریکا کے لیے غیر معمولی مشکلات کو جنم دے گی۔ اِس پہلو پر قومی مفادات کے حوالے سے بحث میں توجہ نہیں دی جارہی۔ اس وقت امریکا کے مجموعی قرضے کم و بیش ۱۳؍ہزار ارب ڈالر کے ہیں۔ یہ امریکی خام قومی پیداوار کے تین چوتھائی کے مساوی ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران اور بعد میں ایک چھوٹی سے مدت کے سوا ملک کبھی اتنا مقروض نہیں رہا۔ امریکی قرضوں میں اضافے کا اصل سبب بے نام (اینٹائٹلمنٹ) پروگرام ہیں جو ختم نہیں ہوں گے اور غیر معینہ مدت تک مسائل پیدا کرتے رہیں گے۔
امریکی برتری کو جتنے بھی خطرات اور چیلنجوں کا سامنا ہے، اُن کا سامنا کرنے کی بھرپور صلاحیت اِس میں پائی جاتی ہے۔ دوسری طاقتوں کے مقابلے میں امریکا کو سیاسی، معاشی، جغرافیائی، ارضیاتی اور ثقافتی سطح پر بہت زیادہ ایڈوانٹج حاصل ہیں۔ امریکا میں مقابلے کی صلاحیت موجود ہے مگر یہ سب کچھ اُسی وقت ممکن ہے جب ترجیحات کا سوچ سمجھ کر نئے سِرے سے تعین کیا جائے اور پھر ترجیحات کی نئی ترتیب کے تحت بھرپور ایکشن کو یقینی بنایا جائے۔ کسی بھی بڑی قوت کے لیے لازم ہے کہ موقع کی مناسبت سے بھرپور اقدام یا کارروائی کو یقینی بنائے اور اِس معاملے میں کہیں کوئی جھول باقی نہیں رہنا چاہیے۔
امریکا کی مالیاتی پالیسی چونکہ ہر معاملے کو متاثر کرتی ہے اور موجودہ مالیاتی نظام پائیدار نہیں، اِس لیے اب بے نام (اینٹائلمنٹ) پروگرام پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ اصلاح کی گنجائش پیدا کی جانی چاہیے۔ سوال اب صرف یہ ہے کہ اِصلاحات کا آغاز کب ہوگا۔ بعد از ملازمت دی جانے والی مراعات پر نظر ثانی کی ضرورت ہے تاکہ حالات کے مطابق درست مالیاتی پالیسی اپنانا دسترس میں رہے۔ بعض اقدامات ایسے ہیں جو تیزی سے اور بروقت کیے جاسکتے ہیں۔ مثلاً ریٹائرمنٹ کی عمر میں اضافہ۔ ایسا کرنے کی صورت میں ریٹائرڈ ملازمین کو دی جانے والی پنشن اور دیگر مراعات میں بہت حد تک کمی لانا ممکن ہوگا۔ اگر ریٹائرڈ ملازمین کو ادائیگی کا بوجھ کم ہوگا تو مالیاتی پالیسی بہتر ہوتی جائے گی۔
امریکا نے بنیادی ڈھانچے کو مستحکم رکھنے پر ہمیشہ توجہ دی ہے مگر اب اِس شعبے کو نظر انداز کیا جارہا ہے۔ بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری کے ذریعے امریکا مقابلہ کرنے کی صلاحیت میں غیر معمولی حد تک اضافہ کرسکتا ہے۔ بنیادی ڈھانچے کو مضبوط کرنے سے ایک طرف تو پیداواری صلاحیت بڑھے گی اور ساتھ ہی ساتھ طویل المیعاد بنیاد پر معاشی نمو یقینی بنائی جاسکے گی۔ کارپوریٹ ٹیکس سے متعلق قوانین میں ترمیم یا اصلاح سے بڑی کمپنیوں کے لیے زیادہ منافع گھر لانا ممکن ہوجائے گا۔ موجودہ قوانین کے تحت بیشتر بڑے کاروباری ادارے بیرون ملک سے زیادہ منافع وطن نہیں لاتے کیونکہ زیادہ منافع لانے کی صورت میں اُنہیں زیادہ فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔
امریکی معیشت کے چند شعبے ایسے ہیں جن پر معمولی سی توجہ دینے کی صورت میں بھی اچھا خاصا نفع مل سکتا ہے۔ ریحان سلام اور دیگر مبصرین نے صحت اور تعلیم کے شعبوں میں کارکردگی بہتر بنانے کی طرف بروقت توجہ دلائی ہے۔ ان مبصرین کا کہنا ہے کہ امریکا میں صحت اور تعلیم کے شعبے اُس معیار کے ساتھ کام نہیں کر رہے جو یورپ کے بیشتر ممالک میں پایا جاتا ہے۔ اس معاملے میں حکومت کی طرف سے درست خدمات فراہم نہیں کی جارہیں اور جو خدمات فراہم کی جارہی ہیں وہ بھی ناکافی ہیں۔ اگر جدید ترین رجحانات اور جدید ترین ٹیکنالوجی متعارف کرائی جائے تو ایک طرف تو صحت اور تعلیم کے حوالے سے امریکیوں کا معیار بلند ہوگا اور دوسری طرف ملک کی آمدنی میں بھی اضافہ ہوگا کیونکہ افرادی قوت کا معیار بلند ہونے سے ان کے کمانے کی صلاحیت بھی پروان چڑھے گی۔
دفاعی امور میں امریکا کو اسٹریٹجی کے اعتبار سے غیر معمولی حد تک جوش و خروش اور ’’سفاکی‘‘ کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ امریکا کو اپنی ترجیحات نئے سِرے سے متعین کرنی ہیں تاکہ جدید دور کے تقاضوں کے مطابق عسکری قوت میں اضافہ کیا جاسکے۔ دفاعی ٹیکنالوجی میں واضح برتری اُس کا ہدف ہونا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکا کو اپنے محدود ہوتے ہوئے وسائل جدید ترین ہتھیاروں کی تیاری پر صرف کرنے ہوں گے تاکہ حریف قوتوں پر واضح برتری یقینی بنائی جاسکے۔ خفیہ اداروں کا نیٹ ورک مضبوط بنائے بغیر ایسا کرنا ممکن نہیں۔ امریکا اگر ہر معاملے میں اپنی برتری یقینی بنائے رکھنا چاہتا ہے تو اُسے زیادہ سے زیادہ جدت اپنانی ہوگی۔ دفاعی اُمور میں جدید ترین رجحانات اپنائے بغیر ایسا کرنا امریکا کے لیے کسی بھی طور ممکن نہ ہوگا۔ کسی بھی بڑی قوت سے مقابلہ کرتے وقت دفاع جیسے اہم ترین شعبے میں موزوں ترین سرمایہ کاری ناگزیر ہے۔ یہی حال افرادی قوت کا معیار بلند کرنے کا ہے۔ تربیت کے بہترین مواقع کا اہتمام کرنا بھی ناگزیر ہے تاکہ بدلتے ہوئے حالات کے مطابق عملہ تیار کرنا زیادہ مشکل ثابت نہ ہو۔
اگر امریکی پالیسی ساز اپنے ملک کی قوت میں کمی کا عمل روکنا چاہتے ہیں تو اُنہیں صرف معاشی، تکنیکی اور عسکری اُمور تک محدود نہیں رہنا ہوگا۔ اُنہیں امریکا کے لیے متعلقہ مفاد کی راہ بھی ہموار کرنی ہوگی۔ بہتر سیاسی اور سفارتی فیصلوں کے ذریعے امریکا اپنے لیے اضافی یا متعلقہ فوائد یقینی بناسکتا ہے۔ امریکا ابتدا ہی سے کُھلے ذہن کا سیاسی ماحول اپناتا آیا ہے۔ سیاسی فیصلوں میں کُھلا پن واضح ہے۔ اِس معاملے کو جدید ترین رجحانات سے ہم آہنگ کرنا لازم ہے، تاکہ بہتری کی طرف تیزی سے بڑھا جاسکے۔ امریکی معاشرہ بھی کُھلے پن کی نمایاں ترین علامت بن کر دنیا کو ایک بڑا نمونہ پیش کرتا آیا ہے۔ دنیا بھر سے انتہائی باصلاحیت افراد امریکا کا رخ کرتے ہیں۔ اُن کی کوشش ہوتی ہے کہ امریکی سرزمین پر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواکر وہ اپنے لیے محفوظ اور روشن تر مستقبل یقینی بنائیں۔ امریکی پالیسی سازوں کو اِس نوعیت کے متعلقہ فوائد کا حصول یقینی بنانا ہوگا۔ امریکا میں چونکہ کاروبار کے پنپنے کے امکانات روشن ہیں، اِس لیے غیر ملکی سرمایہ کاری بھی بڑے پیمانے پر کی گئی ہے۔ اگر ماحول کو زیادہ موزوں بنایا جائے اور دنیا بھر سے باصلاحیت افراد کی آمد پر کوئی غیر ضروری قدغن نہ لگائی جائے تو اِس حوالے سے سرمایہ کاری کی سطح بلند بھی کی جاسکتی ہے۔ امریکی تعلیمی ادارے اور ٹیکنالوجیکل انسٹی ٹیوٹ جدت کی علامت ہیں۔ دنیا کے ذہین ترین افراد ان اداروں میں اپنی بھرپور صلاحیتوں کا اظہار کرتے ہیں۔ اُن کی محنت کے نتیجے میں جدت اور ندرت کا بازار گرم رہتا ہے۔ امریکا میں کئی شعبے اب بھی غیر معمولی خصوصیت رکھتے ہیں۔ توانائی کے شعبے میں جدید ترین رجحانات کو اپنایا گیا ہے۔ اس حوالے سے سرمایہ کاری بھی بڑھتی رہی ہے۔ اگر پالیسی ساز خاطر خواہ توجہ دیں تو توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری بڑھ بھی سکتی ہے اور اِس کے نتیجے میں افرادی قوت کو بہتر انداز سے تیار کرنا بھی ممکن ہوسکتا ہے۔ توانائی بھی اب اسٹریٹجک پلاننگ کا شعبہ ہے۔ اگر کوئی ملک آگے بڑھنا چاہتا ہے تو اُسے دفاعی امور کی طرح معاشی اُمور پر بھی توجہ دینی ہوگی اور معاشی اُمور میں توانائی کا شعبہ خاص طور پر توجہ چاہتا ہے۔
دس سال پہلے تک امریکا توانائی کے بحران سے دوچار تھا۔ اب ایسا نہیں ہے۔ جدید ترین ٹیکنالوجی کی مدد سے کھدائی کرکے امریکیوں نے تیل اور گیس کی پیداوار سات گنا تک کرلی ہے۔ شیل گیس کی پیداوار میں دس برس کے دوران سات گنا یعنی ۷۰۰ فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اس کے نتیجے میں توانائی کا بحران دم توڑ گیا ہے۔ دنیا بھر میں پیدا ہونے والی شیل گیس میں امریکا کا حصہ اب ۴۵ فیصد ہوچکا ہے۔ توانائی کے شعبے میں غیر معمولی کارکردگی کا امریکا بھرپور فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ اسٹریٹجک معاملات میں بھی یہ عنصر اہم کردار ادا کرتا ہے۔ امریکا میں تیل کی پیداوار بھی چار عشروں پر محیط زوال کے بعد اب دوبارہ عروج کی طرف مائل ہے۔ تیل کی تلاش کے بیشتر منصوبے کامیابی سے ہمکنار ہوئے ہیں۔ تیل کی پیداوار کی سطح بھی بلند ہوتی جارہی ہے۔
امریکا نے تیل کی پیداوار کے حوالے سے روس کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ چند برسوں میں وہ سعودی عرب کو بھی پیچھے چھوڑ دے گا، جو تیل برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ اِس کے بعد امریکا تیل برآمد کرنے والے ممالک کی صف میں بھی شامل ہوسکتا ہے۔ شمالی امریکا میں توانائی کے شعبے کی بہتر کارکردگی کے نتیجے میں معاشی بہتری کا آغاز ہوچکا ہے۔ امریکا میں پٹرولیم مصنوعات کے نرخ دنیا بھر کے مقابلے میں غیر معمولی حد تک گرچکے ہیں۔
توانائی کے شعبے میں عمدہ کارکردگی کی بدولت اِس وقت امریکا بہت اچھی پوزیشن میں ہے۔ پیٹرو کیمیکل انڈسٹری میں سرمایہ کاری بڑھنے سے صنعتی شعبہ بھی توانا ہوا ہے۔ مینوفیکچرنگ کی سطح بڑھی ہے۔ پیداواری لاگت میں کمی واقع ہونے سے امریکا کے لیے بہت سی بیرونی منڈیوں میں مسابقت قدرے آسان ہوگئی ہے۔ توانائی سے متعلق امور کے ماہر ڈینیل یرگن نے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ شیل گیس کے شعبے میں عمدہ کارکردگی کی بدولت امریکا میں کم و بیش بیس لاکھ نئی ملازمتیں پیدا ہوئی ہیں۔ توانائی کے شعبے میں ہر سال اربوں ڈالر کی اضافی بیرونی سرمایہ کاری ہو رہی ہے۔ کوئلے سے بجلی پیدا کرنے والے منصوبوں کے بجائے اب ڈیزل اور گیس سے بجلی پیدا کرنے والے منصوبوں پر زیادہ کام ہو رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں ماحول کو نقصان پہنچانے والی گیسوں کا اخراج بھی کم ہوگیا ہے۔ دوسری طرف جرمنی اور دیگر گرین معیشتیں اس معاملے میں قدرے ناکام رہی ہیں۔
یہ سب کچھ تو ٹھیک ہے مگر حقیقت پسندی سے جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ امریکا میں بہت سے ماہرین اور مبصرین نے توانائی کے شعبے میں عمدہ کارکردگی کو ضرورت سے زیادہ بڑھا چڑھاکر پیش کیا ہے۔ اُن کا استدلال یہ ہے کہ توانائی کے شعبے کو مضبوط کرکے ایسا بہت کچھ کیا جاسکتا ہے جو کچھ عرصہ پہلے تک سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا۔ ایسا نہیں ہے۔ تونائی کے شعبے کی کارکردگی بہت عمدہ سہی مگر یہ سب کچھ نہیں۔ عالمی منڈی میں معاشی اعتبار سے مقابلے کے لیے اور بہت سے فیکٹرز کو ذہن نشین رکھنا پڑتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ توانائی کے شعبے میں انقلابی بہتری نے امریکا اور کینیڈا کو غیر معمولی برتری دی ہے، مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ دیگر تمام عناصر کو نظر انداز کردیا جائے۔ لیبیا سے تیل کی برآمدات گھٹنے پر جس بحران کے پیدا ہونے کا خطرہ تھا، اُسے امریکا اور کینیڈا میں پیداوار کی سطح کے بلند ہونے سے ٹالنے میں کامیابی ملی۔ امریکا اور کینیڈا مل کر توانائی کی عالمی تجارت پر بھی اپنی گہری چھاپ ڈال سکتے ہیں۔ کئی ممالک اور خطوں کے لیے امریکا اور کینیڈا سے تیل اور گیس کا حصول مشرق وسطیٰ کے مقابلے میں خاصا آسان اور سستا ہوگا۔ جاپان کی مثال واضح ہے جو بحرالکاہل کے ذریعے امریکا اور کینیڈا سے تیل اور گیس کم نرخوں پر اور آسانی سے حاصل کرسکتا ہے۔ ۱۹۷۳ء میں تیل کے بحران کے بعد سے امریکی قانون سازوں نے تیل اور گیس کی برآمد پر پابندی عائد کردی تھی۔ اب اس پابندی کو ختم کرنے کا وقت آگیا ہے۔ اس حوالے سے قوانین میں تبدیلی لانی پڑے گی۔ واشنگٹن کو اس معاملے میں فیصلہ جلد کرنا ہوگا تاکہ انرجی مارکیٹ میں قدم جمانا ممکن ہوسکے۔ اگر امریکا تیل اور گیس کی مارکیٹ میں قدم رکھتا ہے تو اُس کی پوزیشن مزید مستحکم ہوجائے گی اور سرمایہ کاروں کے اعتماد میں بھی اضافہ ہوگا۔
انسانی وسائل کے شعبے میں امریکی برتری
امریکا کو انسانی وسائل کے حوالے سے بھی غیر معمولی برتری حاصل رہی ہے۔ تعلیم اور تربیت کے بہترین اداروں کی عمدہ کارکردگی سے ایسا ممکن ہوسکا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ امریکا قدرے پس منظر میں چلے جانے والے اس عنصر کو بھی ذہن نشین رکھے۔ امریکی پالیسی سازوں کے لیے اب انسانی وسائل کو نظر انداز کرنا یا پس منظر میں رکھنا ممکن نہیں رہا۔ اُنہیں اِس حوالے سے جلد کوئی ٹھوس اور نتیجہ خیز فیصلہ کرنا ہوگا۔ ہر شعبے کے بہترین افراد تیار کرنا امریکا کے لیے ناگزیر ہے۔ امریکا نے کئی شعبوں میں دنیا بھر کے بہترین ذہن جمع کیے ہیں۔ بیشتر خطوں کے ذہین ترین افراد روشن مستقبل کی تلاش میں امریکا آتے ہیں۔ اگر افرادی قوت کی مارکیٹ میں بہتر امکانات تلاش کرنے ہیں تو امریکا کو اپنے ہاں بھی افرادی قوت کا معیار بلند کرنا ہوگا۔ امریکیوں کو مزید اعلیٰ تعلیم اور اُس سے کہیں بڑھ کر بہتر تربیت کی ضرورت ہے۔ جدید ترین رجحانات کے مطابق افرادی قوت تیار کرنا بھی امریکا کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ اِس مقابلہ کا وہ ڈٹ کر سامنا کرسکتا ہے۔ انسانی وسائل کے شعبے میں امریکا کو اپنی برتری برقرار رکھنی پڑے گی اور ایسا کیے بغیر وہ عالمی مارکیٹ میں اپنی برتری برقرار رکھنے میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔ بھارت اور چین اس معاملے میں اُس کے لیے حقیقی خطرہ بن کر اُبھرے ہیں۔ دونوں ممالک نے مل کر امریکا میں بہت سے شعبوں کے ۱۵ فیصد سے زائد پیٹنٹ حاصل کر رکھے ہیں۔ امریکا میں ٹیکنالوجی اور بزنس کے شعبے میں غیر ملکیوں کا حصہ بڑھتا جارہا ہے جو امریکی معیشت کے لیے آگے چل کر بہت خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔
ویزا کے حوالے سے بھی امریکا کو اپنے قوانین بہتر اور لچکدار بنانے ہوں گے۔ امریکا انتہائی باصلاحیت نوجوانون کو پی ایچ ڈی کی سطح کی تعلیم کے لیے ویزے تو دیتا ہے مگر بعد میں ان کے لیے امریکا میں قیام ناممکن ہوجاتا ہے۔ اس حوالے سے پالیسیاں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ امریکی جامعات کا معیار بلند کرنا اور دور حاضر کی ضرورتوں کے مطابق نصاب میں تبدیلی لانا بھی ناگزیر ہے۔ ایسا کیے بغیر بہتر تعلیم اور تربیت ممکن نہیں۔ نیشنل سائنس فاؤنڈیشن، نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ اور ڈیفنس ایڈوانسڈ ریسرچ پروجیکٹس جیسے اداروں کے لیے بہتر فنڈنگ کا اہتمام کرنا ہوگا۔ گزشتہ صدی میں اس حوالے سے بیشتر تجربات ناکام رہے۔ جو فوائد ملنے چاہئیں، وہ نہ مل سکے۔ جدت اور ندرت پر سب سے زیادہ توجہ دینی ہوگی۔ محض بڑے ادارے قائم کرنے سے کچھ نہ ہوگا، سوچ بھی نئی ہونی چاہیے۔
امریکی افرادی قوت کو نئی مہارتوں سے آراستہ کرنا حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ امریکیوں کی اکثریت ایسی مہارتوں کی حامل نہیں جو عالمی منڈی میں مسابقت کے لیے ناگزیر سمجھی جاتی ہیں۔ امریکی محنت کشوں کو زیادہ سے زیادہ ہنر مند بنانا امریکی حکومت کی ترجیحات میں سرفہرست ہونا چاہیے۔ اسی صورت انسانی سرمائے کی عالمی منڈی میں مقابلہ ممکن ہوسکے گا۔
امریکیوں کو اپنے مسائل کے بارے میں سنجیدگی اختیار کرنی ہوگی۔ اپنے رویے میں لچک پیدا کرکے وہ دنیا بھر میں اپنی بگڑی ہوئی بات پھر منوا سکتے ہیں۔ امریکی پالیسی سازوں کو یہ نکتہ سمجھنا ہوگا کہ ہر معاملے میں صرف عسکری قوت پر بھروسا نہیں کیا جاسکتا۔ بہت سے امور میں لچکدار رویہ ہی بگڑا ہوا کام بناسکتا ہے۔ سرکاری شعبے کے تعلیمی اداروں کا فرض ہے کہ اِس حوالے سے قوم کو تیار کریں۔ نئی نسل کو جدید دور کے تقاضوں اور چیلنجوں کا سامنا کرنے کے قابل بنانا امریکیوں کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ ایسا کیے بغیر وہ بہتر زندگی کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں کرپائیں گے۔ اگر امریکا یہ سمجھتا ہے کہ وہ دوسروں سے بہتر اور منفرد ہے تو اُسے اس کا راگ الاپنے کے بجائے عملاً کچھ کرکے دکھانا ہوگا۔ امریکا کے لیے بہتر زندگی کی طرف جانا اُسی وقت ممکن ہے، جب وہ اپنی پالیسیوں کو تبدیل کرے اور ہر معاملے میں عسکری قوت پر بھروسا کرنے کے بجائے زیادہ سے زیادہ لچک اپناکر افرادی قوت کا معیار بلند کرنے پر توجہ دے۔ افرادی قوت کو زیادہ لچکدار اور قابل قبول بناکر امریکا اپنے لیے بہت سے معاملات میں بہتر امکانات پیدا کرسکتا ہے۔ معاشی اُمور پر زیادہ توجہ دینا اب ناگزیر ہوچکا ہے کیونکہ آج کی دنیا میں اصل جنگ معاشی برتری کی ہے۔ روایتی جنگ سے دنیا دور بھاگ رہی ہے۔ معاشی برتری یقینی بنانے کے لیے تمام دیگر معاملات کو استعمال کیا جاتا ہے۔ چین اور جاپان جیسی قوتیں ہتھیاروں سے روایتی جنگ لڑنے پر اقتصادی جنگ کو ترجیح دیتی ہیں۔ چین نے ثابت کیا ہے کہ طاقت کا مظاہرہ کیے بغیر بھی طاقت کا مظاہرہ کیا جاسکتا ہے۔ طاقت کے بے محابہ استعمال سے امریکا نے اپنے لیے بہت سی ایسی مشکلات پیدا کی ہیں جنہیں ٹالا جاسکتا تھا۔ اگر وہ بیشتر عالمی امور میں قوت کے غیر ضروری استعمال سے گریز کرے اور تحمل سے کام لے تو اُس کے لیے بہتر امکانات پیدا ہوں گے، اُس پر بھروسا کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوگا اور اُس سے خوف کھانے والوں کی تعداد میں کمی واقع ہوگی۔ پائیدار ترقی اور غیر معمولی کامیابی کے لیے امریکا کو اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنی ہوگی۔ طاقت کے استعمال سے گریز کے ذریعے وہ معاشی میدان میں زیادہ تیزی سے آگے بڑھ سکتا ہے۔ ہر مسئلے کو بمباری اور گولہ باری سے حل کرنے کی روش ترک کیے بغیر حقیقی کامیابی اور امن کی منزل تک پہنچا نہیں جاسکتا۔ خارجہ پالیسی کی بنیاد محض یہ نہیں ہونی چاہیے کہ جب جی میں آئے، غیر معمولی طاقت کا مظاہرہ کردیا جائے۔ معیشت کے شعبے میں کامیابی کچھ اور چاہتی ہے۔ اِس کے تقاضے کچھ اور ہیں۔
دنیا کی ۲۰ بہترین جامعات میں سے ۱۷؍امریکا میں ہیں۔
اوٹو وان بسمارک اکثر کہا کرتے تھے کہ خدا شرابیوں، بے سہارا بچوں اور امریکا کا خاص خیال رکھتا ہے! امریکا کو ایسا کچھ بھی کرنے سے گریز کرنا ہوگا، جس کے نتیجے میں لوگ یہ سوچ رکھیں اور امریکیوں کو مطعون کریں۔ امریکیوں کو یہ سوچ ترک کرنی ہوگی کہ زوال ناگزیر ہے اور اب تو صرف خرابیاں ہی پیدا ہوں گی۔ امریکیوں کو جب تک اپنی صلاحیتوں پر بھروسا نہیں ہوگا، تب تک وہ ڈھنگ سے کچھ بھی کرنے کے قابل نہیں ہوسکیں گے۔ امریکا کی خود مختاری اور اقدامات کرنے کی آزادی کوئی پیدائشی حق نہیں بلکہ اُسے یہ پوزیشن اپنی محنت سے حاصل کرنی ہے۔ بیرون ملک زیادہ سے زیادہ اثرات قائم رکھنے کے لیے لازم ہے کہ امریکی اپنی اندرونی قوت کو نئی زندگی عطا کرنے کے لیے متحرک ہوں۔ یہ ایک طویل عمل ہے جس کے لیے امریکیوں کو پوری تیاری کے ساتھ میدان میں اترنا ہوگا۔
“Have we hit peak America?”.
(“Foreign Policy”. July-August, 2014)
Leave a Reply