
سائنس سے وابستہ بعض شخصیات ایسی ہیں جو سائنسی دنیا کے باہر بھی مشہور ہوئیں۔ ان شخصیات میں اسٹیفن ہاکنگ (Stephen Hawking) کا بھی شمار ہوتا ہے۔ اسٹیفن ہاکنگ کی پیدائش ۱۹۴۲ء میں ہوئی اور ۲۰۱۸ء میں اس کا انتقال ہوا۔ اس کا تعلق انگلینڈ سے تھا۔ اپنی علمی اور تحقیقی خدمات اس نے کیمبرج یونیورسٹی میں انجام دیں۔ اگر ہم اس سوال پر غور کریں کہ سائنس اور اس کی شاخ فزکس میں ہاکنگ نے کیا کارنامہ انجام دیا تو چند عنوانات ہماری توجہ مبذول کراتے ہیں:
شہرت کا سبب
ہاکنگ نے جن موضوعات پر کام کیا ان میں سب سے اہم قعر اسود (بلیک ہول) کا موضوع ہے۔ اس نے اس مسئلے کی تحقیق کے لیے بیسویں صدی کے سائنسی نظریات کا استعمال کیا۔ اس سے اتنی بات واضح ہے کہ اس کی گرفت سائنس اور طبیعات کے تصورات پر بہت مضبوط تھی۔ سائنس کے نظریات کو سمجھنے میں اس کی تحقیقی کاوشوں کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، البتہ جب ہم یہ سوچتے ہیں کہ اس کی شہرت کی اصل وجہ کیا ہے؟ تو یہ اس کا سائنسی کارنامہ نہیں معلوم ہوتی۔ واقعہ یہ ہے کہ بیسویں صدی عیسوی میں سائنس کی دنیا میں ہاکنگ سے کہیں زیادہ اہم کام کرنے والی دوسری شخصیات موجود تھیں۔ اگر کوئی فہرست تیار کی جائے کہ اس صدی میں کن اہل تحقیق کا کام فزکس کی دنیا میں نمایاں اہمیت رکھتا ہے تو ہاکنگ کا نام پہلے یا دوسرے نمبر کے بجائے شاید بیسویں نمبر پر آئے گا، لیکن اس کے باوجود اس کو بڑی شہرت حاصل ہوئی۔
اس دنیا میں شہرت کسے حاصل ہوتی ہے، یہ ہم نہیں جانتے۔ اللہ تعالیٰ کی مشیت ہی طے کرتی ہے کہ کون مشہور ہوگا اور کون گمنام؟ تاہم اگر غور کیا جائے کہ اسٹیفن ہاکنگ کی شہرت کی کیا وجہ تھی؟ تو چند باتیں سمجھ میں آتی ہیں:
زندگی کے درمیانی دور میں، جب ہاکنگ جوان ہی تھا، اس پر فالج کا حملہ ہوا اور جسم کا بڑا حصہ کام کرنے کے لائق نہیں رہا۔ پھر اس کیفیت کا اثر جسم کے باقی حصوں پر بھی پڑا۔ یہاں تک کہ آہستہ آہستہ بولنے کی طاقت بھی ختم ہوگئی، لیکن انگلیوں اور آنکھوں کی حرکت کی مدد سے اس کے لیے کمپیوٹر کا استعمال ممکن رہا۔ کمپیوٹر کو اس طریقے سے ترتیب دیا گیا کہ وہ ہاکنگ کی انگلیوں اور آنکھوں کی حرکت کے ذریعہ کام کرتا تھا۔ اس طرح اس نے کتابیں بھی لکھیں اور علمی تحقیق بھی کی، نتائج تحقیق دنیا کے سامنے بیان کیے اور سائنس کے موضوعات کا عام فہم متعارف بھی کرایا۔
چنانچہ بظاہر شہرت کا سبب ہاکنگ کی غیر معمولی زندگی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک شخص کی جسمانی طاقت بہت کم تھی، فالج کی وجہ سے وہ بولنے اور لکھنے کا کام براہ راست نہیں کر سکتا تھا۔ اسے کمپیوٹر کی مدد لینی پڑی۔ ان غیر معمولی مشکلات کے باوجود اس نے اول درجے کی تحقیق کی اور اپنے خیالات اور تحقیقات کاعام فہم متعارف بھی کرایا۔ یہ سب امور کشش کا باعث ہیں۔ اس کی غیر معمولی محنت، عزم، ارادہ اور تسلسل کے ساتھ کام اور جسمانی صلاحیت متاثر ہو جانے کے باوجود اس کی سرگرم زندگی میں ہمارے لیے سبق موجود ہے۔ سبق یہ ہے کہ ہم زندگی کی مشکلات سے نہ گھبرائیں، بلکہ عزم اور ارادے کے ساتھ مشکلات پر قابو پائیں۔
ہاکنگ کی مقبول کتاب
علمی دنیامیں ایسی موو (Asimov) کا نام معروف ہے، جس نے سائنس کے تصورات کا سہارا لے کر مستقبل کی دنیا کی تصویر سائنسی کہانیوں کی شکل میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ Asimov کو سائنس فکشن یعنی سائنسی کہانیاں لکھنے کے میدان میں شہرت حاصل ہے۔اس کی کہانیوں میں مشینی دماغ یعنی روبوٹ سے متعلق کہانیاں بھی موجود ہیں۔ ان داستانوں میں ایسی دنیا کا تصور پیش کیا گیا ہے جس میں مفلوج افراد جن کی جسمانی صلاحیتیں کمزور ہوں یا ختم ہو گئی ہوں، روبوٹ کا سہارا لے کر اپنے کام کر سکتے ہیں۔ گویا روبوٹ ان کی جسمانی کمی پوری کر دیتا ہے۔ یہ تو کہانی کی بات ہے، لیکن ہاکنگ کی زندگی میں یہ افسانہ حقیقت کی شکل میں نظر آتا ہے۔
ہاکنگ کے علمی اور تحقیقی کام کا تعلق ایک خاص سائنسی موضوع سے ہے، جس کو قعر اسود (بلیک ہول) کہا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اس نے دیگر سائنسی موضوعات پر بھی اظہار خیال کیا اور تحقیقات کیں۔ اس نے سائنس کے تصورات اور تحقیقات کاعام فہم مقبول بنانے کی کوشش کی۔ اس سلسلے میں اس کی ایک کتاب زیادہ مشہور ہوئی جس کا نام ہے A Brief History of Time یعنی وقت کے تصور کی مختصر تاریخ۔ یہ کتاب ۱۹۸۸ء میں شائع ہوئی اور اپنے زمانے میں اسے سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتاب کی حیثیت حاصل ہوئی۔ کتاب کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوا اور بڑے پیمانے پر خریدی اور پڑھی گئی۔
اس کتاب کی اشاعت کے چند سال بعد اس نے اسی کتاب کا خلاصہ ’’تصور وقت کی مختصر تر تاریخ‘‘ کے نام سے لکھا، جس میں سائنسی تصورات کی عام فہم تفہیم کی کوشش کی۔ یہ تحریریں ہاکنگ کے نمایاں کاموں میں شامل ہیں۔ اس نے کائنات کی ابتدا، خدا کے تصور اور خدا اور کائنات کے تعلق جیسے موضوعات پر بھی اظہار خیال کیا ہے۔ یہ موضوعات عام انسان کی دلچسپی کے موضوعات ہیں، چاہے وہ سائنس نہ جانتا ہو۔ ہر شخص بہرحال کائنات اور خدا کے بارے میں سوچتا ہے، ہاکنگ کی تحریروں کے پڑھنے والوں نے خدا اور کائنات کے بارے میں اس کے خیالات پر بھی توجہ دی۔
غالباً بیسویں صدی میں صرف آئن اسٹائن (Einstein) ایسی دوسری شخصیت ہے جس کو اتنی زیادہ شہرت حاصل ہوئی ہے۔ بیسویں صدی سائنس اور فزکس کی دنیامیں بعض انقلابی تبدیلیوں کی حامل صدی تھی۔ سائنس کے تصورات میں تبدیلیاں تو ہمیشہ ہوتی رہی ہیں، لیکن بعض اوقات یہ تبدیلیاں بڑی ہمہ گیر نوعیت کی ہوتی ہیں، جن کا علمی دنیا پر گہرا اثر پڑتا ہے۔ تحقیق طلب سوالات، انداز گفتگو اور اندازِ بیان سب بدل جاتے ہیں۔ اگر ہم غور کریں کہ بیسوی صدی کی فزکس اور سائنس میں ہونے والی خاص تبدیلیاں کیا ہیں تو دو قابل ذکر تغیرات سامنے آتے ہیں:
بیسویں صدی کی اہم سائنسی تبدیلیاں
ایک تبدیلی تو وہ ہے جسے Relativity کا نظریہ کہا جاتا ہے، یعنی نظریۂ اضافیت۔ اس کو ابتدائی اور مربوط شکل میں آئن اسٹائن نے ۱۹۰۵ء میں پیش کیا۔ آئن اسٹائن کا تعلق جرمنی سے تھا۔ جب جنگ عظیم کے بعد جرمنی میں یہودیوں کا رہنا مشکل ہو گیا تو وہ امریکا میں جابسا۔ ۱۹۰۵ء میں آئن اسٹائن نے اپنا نظریۂ اضافیت پیش کیا جس کو Special Theory of Relativity کہا جاتا ہے، یعنی آئن اسٹائن کے اضافیت کے نظریہ کا خاص پہلو۔ اس کے دس سال بعد ۱۹۱۵ء میں آئن اسٹائن ہی نے عام (یا جامع) نظریۂ اضافیت (General Theory of Relativity) پیش کیا، جو سابق نظریے کے مقابلے میں زیادہ وسیع ہے۔ نظریہ اضافیت کی تشریح کرنے، اس کو سمجھنے اور اس کو بیان کرنے میں بہت سے لوگوں نے حصہ لیا ہے۔ ایسے شارحین کی تعداد کم نہیں، بلکہ سیکڑوں میں ہے، لیکن اصل تحقیقی کام اور بنیادی تصورات آئن اسٹائن کے پیش کردہ ہیں۔ بیسویں صدی کی فزکس میں یہ ایک نمایاں اور انقلابی تبدیلی تھی جو واقع ہوئی، یعنی نظریۂ اضافیت کی تخلیق۔
دوسری نمایاں تبدیلی وہ ہے جسے کوائنٹم نظریہ یا کوائنٹم تھیوری (Quantum Theory) کہا جاتا ہے۔ اردو میں اسے نظریۂ مقادیری کہتے ہیں۔ اس نظریہ کو پیش کرنے والا ’پلینک‘ نامی شخص تھا۔ ۱۹۰۰ء میں پلینک نے اپنے نظریات ابتدائی شکل میں پیش کیے، اس کے چوتھائی صدی بعد تین اہم شخصیات نے اس نظریے کی مربوط تشریح کی، اس میں اہم اضافے کیے اور اس کی تفصیل بیان کی۔ یہ تین شخصیات ہیں شروڈنگر (Schrodinger)، ہازن برگ (Heisenberg) اور ڈراک (Dirac)۔
اضافیت اور تصور کوائنٹم دو نظریات ہیں، جنہوں نے بیسویں صدی کی فزکس اور سائنس پر انقلابی اثرات ڈالے اور سائنسی طرزِ فکر میں نمایاں تبدیلیاں کیں، جن کا اثر انسانوں کے عام فلسفیانہ تصورات پر بھی پڑا۔ وہ تبدیلیاں کیا ہیں؟ یہ جاننے کے لیے بیسویں صدی سے پہلے سائنس کی دنیا میں رائج تصورات کا جائزہ لینا ضروری ہے، تاکہ پس منظر سامنے رہے۔ مظاہر کائنات کو سمجھنے کے لیے بیسویں صدی سے پہلے مقبول سائنسی تصورات وہ تھے جو اصلاً نیوٹن نے پیش کیے تھے۔ نیوٹن کا دور آج سے ۳۰۰ سال قبل کا ہے۔ (نیوٹن کا تعلق انگلینڈ سے تھا) نیوٹن کی مشہور کتاب ۱۶۸۷ء میں شائع ہوئی۔ اس کتاب کا مختصراً نام پرنسپیا (Principia) ہے، جو ریاضی اور فزکس سے متعلق نیوٹن کی تحقیقات پر مشتمل ہے۔ یہ دقیق کتاب ہے، آج بھی اس کو پڑھنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔
نیوٹن کا کارنامہ
یہ کتاب ۱۶۸۷ء میں شائع ہوئی اور دو صدیوں تک سائنسی دنیا پر چھائی رہی۔ آج بھی اس کے اثرات جوں کے توں موجود ہیں۔ عصر حاضر کی سائنس اور ٹیکنالوجی کی تفصیلات کاجائزہ لیں تو اس کا دو تہائی حصہ ایسا ہے جس کی کامیاب تفہیم نیوٹن کے تصورات کی مدد سے ہی کی جاتی ہے۔ ان تصورات سے زیر مشاہدہ دنیا کی ایک خاص تصویر ذہن میں ابھرتی ہے۔ نیوٹن کے بارے میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ وہ تثلیث کا قائل نہیں تھا۔ خاندانی پس منظر کے اعتبار سے وہ عیسائی تھا، لیکن تثلیث کے بجائے وہ توحید کا قائل تھا۔ ایک قادر مطلق خدا پر یقین رکھتا تھا۔ اس کی سائنسی تحقیقات ریاضی اور فزکس پر مرکوز تھیں، لیکن یہ اس کی دلچسپی کے اصل موضوعات نہیں تھے۔
مذکورہ بالا کتاب نیوٹن نے اس وقت لکھی جب اس کی عمر ۴۵ سال کی ہو چکی تھی۔ اس میں جو تحقیقات بیان کی گئی ہیں وہ کتاب کی اشاعت سے کافی پہلے اس کی گرفت میں آچکی تھیں، جب اس کی عمر ۲۵ سال سے زیادہ نہیں تھی۔ بظاہر اس کا کوئی ارادہ کتاب شائع کرنے کا نہیں تھا۔ اپنے دوستوں کے اصرار پر اس نے یہ کتاب تحریر کی۔ اس کی دلچسپی کا اصل موضوع تو کیمیائی تجربات تھے اور ان سے بھی زیادہ اسے بائبل سے دلچسپی تھی، وہ بائبل کا بڑا عالم تھا۔ اس نے اپنی زندگی کا باقی حصہ بائبل کو سمجھنے میں اور اس کے رموز کو جاننے میں گزارا۔ اپنی زندگی میں وہ خدا پرست انسان نظر آتا ہے۔
تحقیق کے میدان میں اس نے جو کچھ پیش کیا ہے اسے خدا کے تصور سے مربوط کرنے کی کوشش کی ہے۔ البتہ ہم جانتے ہیں کہ وقت کی غالب فلسفیانہ فضا سے کوئی بھی شخص آزاد نہیں رہ پاتا، چاہے نیوٹن جیسا عظیم ماہر ہی کیوں نہ ہو، اپنے ذاتی تصورات کے لحاظ سے خدا پرست ہونے کے باوجود اس نے جو کچھ پیش کیا اس میں مغرب کی دنیا کے اثرات نظر آتے ہیں، جہاں الحاد کا رجحان غالب تھا۔ مزید برآں مغربی دنیا نے نیوٹن کے تصورات کو اس طرح استعمال کیا کہ وہ الحاد کی تائید کرتے ہوئے نظر آئے۔
الحاد کے رجحان کی تائید کی ایک مثال دی جاسکتی ہے۔ نیوٹن کے تصورات کی تشریح کرنے والے بہت سے محققین نے اپنی کاوشیں پیش کیں۔ نیوٹن کے ایک صدی بعد ان شارحین میں ہمیں ایک اہم نام ریاضی داں Laplace کا نظر آتا ہے۔ اس کا طرزِ فکر یہ ہے کہ اس دنیامیں فطری قانون موجود ہے، جو مظاہر کائنات کی تفہیم کے لیے کافی ہے۔ خداوند قدوس کا کام صرف اتنا ہے کہ اس نے کائنات کی ابتدا کردی۔ اس کے بعد کائنات میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ فطری قوانین کی کارفرمائی کی بناء پر خود بخود ہوتا چلا جارہا ہے۔ نیوٹن کے پیش کردہ تصورات بنیادی قوانین فطرت کو بیان کرتے ہیں۔ اس تعبیر کے مطابق اگرہم اس وقت کی (کائنات کی) صورتحال کو جانتے ہوں (مشاہدہ کے ذریعہ) تو کائنات کا ماضی کیا تھا؟ یہ بھی بتا سکتے ہیں اور مستقبل کیا ہوگا؟ یہ بھی بتا سکتے ہیں۔ شرط یہ ہے کہ ہمیں قوانین فطرت کا درست فہم حاصل ہو۔
اس وقت سائنس کی دنیا میں یہ خوش فہمی عام تھی کہ نیوٹن کی تحقیقات کے بعد اب قوانین فطرت کا علم ہمیں حاصل ہو چکا ہے اب کچھ راز میں نہیں رہ گیا ہے۔ ہم قابل مشاہدہ مظاہر میں کار فرما قوانین کی تلاش کے آخری مراحل تک پہنچ گئے ہیں۔ کائنات کی کنجی ہم نے پا لی ہے۔ یہ وہ بات تھی جو اٹھارویں صدی میں مقبول تھی، لیکن حقیقت حال ایسی نہ تھی۔ جلد معلوم ہو گیا کہ نیوٹن نے جو کچھ پیش کیا تھا وہ نت نئے مشاہدات کی تشریح و تفہیم کے لیے کافی نہ تھا، بلکہ انیسویں صدی کے وسط تک مظاہر کائنات سے متعلق فزکس کی دنیا میں وہ مشاہدات بھی سامنے آچکے تھے جن کی تشریح محض مشینی قوانین کے ذریعہ سے نہیں کی جاسکتی تھی۔
مظاہر فطرت میں جو پہلی چیز انسان کی توجہ مبذول کرتی ہے وہ فلکیات کی دنیا ہے، جوہم سے بہت دور ہے۔ انسان زمین کا مشاہدہ تو ذرا بعد میں کرتاہے لیکن چاند اور سورج کا پہلے کرتا ہے۔ مغرب میں سائنس کی نئی ابتدا سولہویں صدی میں ہوئی۔ اس مرحلے میں فلکیات سے نئے سائنسی تصورات کا آغاز ہوا۔ پرانے مشاہدات، جوچاند، سورج اور سیاروں سے متعلق تھے ان کو ازسرنو ترتیب دیاگیااور مربوط تشریح پیش کرنے کی کوشش کی گئی، جو پہلے کی تشریح سے بہتر ثابت ہوسکے۔
علم فلکیات
نئی سائنس میں اجرام فلکی کی حرکت کو سمجھنے کی کوشش کی گئی۔ نیوٹن کے نقطۂ نظر کی ندرت یہ ہے کہ اس نے حرکت کی جامع تعبیر تلاش کی۔ اس نے توجہ دلائی کہ سورج اور چاند کی طرح زمین کی چیزیں بھی حرکت کر رہی ہیں۔ زمین پر بہت سی اشیا ہمیں چلتی پھرتی نظر آتی ہیں۔ ان میں بطور مثال ذرّات ہیں اور ہوا کی گردش ہے۔ نیوٹن کے مطابق حرکت کی ماہیت ایک جیسی ہے اور جہاں بھی حرکت موجود ہو، اس کے قوانین یکساں ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ آسمان میں متحرک اجسام کے لیے کچھ قوانین ہوں اور زمین پر کچھ اور ہوں۔ سائنس کی دنیا میں یہ ایک نادر خیال تھا جو پیش کیا گیا۔ اس سے پہلے لوگ یہ کہتے تھے کہ فلکیات کی دنیا الگ ہے اور زمین کے معاملات الگ۔ دونوں کے سلسلے میں الگ الگ طرز پر سوچنا چاہیے۔
نیوٹن کے تجویز کردہ نظام تصورات میں حرکت اور ذرّات کو بنیادی حیثیت حاصل تھی۔ اس رجحان کو تقویت ایک قدیم تصور سے حاصل ہوئی، جسے ماضی میں متعدد لوگوں نے پیش کیا تھا، یعنی ایٹم کا تصور۔ کہا جاتا ہے کہ یونانیوں نے آج سے مدتوں پہلے ایٹم کے بارے میں سوچا۔ جدید مغرب نے نشاۃ ثانیہ میں اسے دوبارہ دریافت کیا اور ڈالٹن کا نظریہ ایٹم سامنے آیا۔ وہ یہ کہ مادی چیزیں ایٹموں پر مشتمل ہیں، جو ہمیں نظر نہیں آتے۔ مگر بہرحال ان کاوجود ہے۔ ان کے وجود کی تائید کرنے والے شواہد دریافت کیے گئے ہیں۔
کائنات کے مشینی تصور کے نقائص
نیوٹن کے نظامِ تصورات میں ذرّات کی حرکت کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ دنیا میں ذرّات کی موجودگی اور حرکت کا ظہور ایسی بنیادی حقیقتیں ہیں جو مظاہر کی تشریح میں مدد دیتی ہے؟ پھر یہ کہ روشنی کیا ہے؟ نیوٹن کا کہنا یہ ہے کہ جو روشنی ہم دیکھ رہے ہیں وہ بھی ذرّات ہی پر مشتمل ہے۔ اس کے خواص کو اس تصور کے تناظر میں بیان کیا جاسکتا ہے، مثلاً سیدھی لائن میں روشنی کا چلنا۔ اس خصوصیت کی توجیہ کے لیے ہم ذرّات کی خاصیتوں کو کافی سمجھتے ہیں۔ ذرّات کے ذریعہ روشنی کی خصوصیات کی تشریح کی جاسکتی ہے۔
مندرجہ بالا دعوؤں اور Laplace جیسے راسخ العقیدہ سائنس دانوں کے خیالات کے باوجود (جو سائنس کے تصورات پر گویا ایمان لے آئے تھے) انیسویں صدی کے وسط تک ایسے مشاہدات سامنے آچکے تھے (خاص طور پر روشنی اور بجلی کے سلسلے میں) جن کی تشریح مشینی تصور کائنات سے نہیں ہو سکتی تھی، جو اس وقت رائج تھا، یعنی اگر ہم یہ کہیں کہ کائنات میں ذرّات اور ان کی حرکتوں کے علاوہ کچھ اور موجود نہیں توہم نہ روشنی کی تشریح کر سکتے ہیں نہ بجلی کی۔ ہم ان خصوصیات کو نہیں سمجھ سکتے جو روشنی سے متعلق ہیں۔ انیسویں صدی کی سائنس پر مشینی تعبیرات چھائی ہوئی تھیں، لیکن اس صدی کے ختم ہوتے ہوتے محققین نے یہ سمجھ لیا کہ نیوٹن کے تصورات کافی نہیں۔ ان کے ساتھ ہمیں کچھ اور نئی تعبیرات اور نئے تصورات کی بھی ضرورت ہے۔ بلاشبہ ذرّات موجود ہیں، ان کی حرکت بھی ایک حقیقت ہے، لیکن یہ کُل کائنات نہیں۔ بطور مثال اس دنیا میں لہروں (Waves) کا وجود بھی ہے۔
کوائنٹم نظریہ
بیسویں صدی آئی تو مزید نئے چیلنج ساتھ لائی۔ آپ چاہے ذرّات کا ذکر کریں یا لہروں کا، مگر اب تک کی سائنس کے مطابق دونوں مظاہر فطرت میں ایک مشترک خصوصیت موجود تھی، جس کو Laplace نے بڑی اہمیت دی تھی کہ اصلاً بس قوانین فطرت ہیں، جن کی بدولت دنیا میں تبدیلیاں خود بخود ہوتی جاتی ہیں۔ اگر کسی صاحب ارادہ ہستی (مثلاً خداوند قدوس) کا تدبیر کائنات میں کوئی رول یا کردار ہے تو محض تخلیق کی ابتدا کرنے کا ہے۔ لیکن بیسویں صدی آئی تو سائنس ’کوائنٹم نظریہ‘ سے آشنا ہوئی۔ اس نظریے نے ایک نیا سوال پیدا کردیا کہ کیا حقیقت (خارجی دنیا میں فی الواقع) موجود ہے اور ہم محض اس کا مشاہدہ کرتے ہیں، یا ہمارے مشاہدات سابقہ صورتحال کو بدل سکتے ہیں؟
اس سوال کے جواب میں ردعمل دو طرح کا ہو سکتا ہے: ایک موقف یہ ہے کہ کائنات تو جیسی کچھ ہے، خارج میں موجود ہے، ہم انسان محض اس کا مشاہدہ کرنے والے ہیں۔ صورتحال ہمارے مشاہدے سے بدلتی نہیں ہے، جب تک ہم مشاہدات کے دائرے میں انسانی دنیا کو شامل نہ کریں۔ بظاہر یہ بات صحیح معلوم ہوتی ہے۔
بہرحال مشاہدے اور مشاہد کی دوئی کا یہ دعویٰ ان لوگوں کا نہیں تھا جو انسانی دنیا کی تشریح کر رہے تھے، بلکہ یہ دعویٰ ان محققین کا تھا جو (بظاہر) بے جان دنیا کے مظاہر کے بارے میں تحقیق کر رہے تھے۔ ان کا ادّعا یہ تھا کہ اس بے جان دنیا میں حقیقت ہمارے مشاہدے سے بے نیاز ہے۔ وہ ہمارے دیکھنے سے نہیں بدلتی۔ مگر کوائنٹم نظریے نے اس مقبول عام خیال کو رد کر دیا۔ جیسے جیسے کوائنٹم نظریہ ترقی کرتا گیا، یہ بات زیادہ نمایاں ہوتی چلی گئی کہ ہمارے مشاہدات واقعات کو بدل سکتے ہیں۔ ہمیشہ یہ ممکن نہیں کہ زیر مشاہدہ چیز اور دیکھنے والے کے درمیان ہم ایسی لکیر کھینچ سکیں جو دونوںمیں واضح امتیاز کر دے۔ غالب نے کوائنٹم نظریہ کے ظہور سے پون صدی قبل فلسفۂ وحدت الوجود کے زیر اثر یہ بات کہی تھی:
اصل شہود و شاہد و مشہود ایک ہے
حیراں ہوں پھر مشاہدہ ہے کس حساب میں
ابتدائی سوال کے جواب میں یہ دوسرا موقف ہے جو کوائنٹم نظریہ نے تجویز کیا۔ یہ حقیقت تسلیم کی گئی کہ جب انسان سائنس کے اس شعبے کا (مشاہدے کے ذریعے) مطالعہ کرتے ہیں جو ایٹموں اور ذرّات کی دنیا سے متعلق ہے (جو براہ راست آنکھوں سے نظر نہیں آتی، مگر جس کا بالواسطہ مشاہدہ ممکن ہے) تو وہاں انسانی مشاہدے سے واقعات بدل سکتے ہیں۔ یہ سائنس کے تصورات میں ایک انقلابی تبدیلی ہے جس نے مشینی تصور کائنات کے لیے کوئی گنجائش نہیں چھوڑی۔
کائنات میں ذرّات کی موجودگی کو نیوٹن نے بڑی اہمیت دی تھی۔ دوسرے مفکرین نے نیوٹن کے نظام تصورات میں لہروں کی تشریح کی گنجائش نکالی۔ تاہم انیسویں صدی کے اختتام تک یہ سب شارحین یہ سمجھتے تھے کہ اگر ہم قوانین فطرت کو جانتے ہوں تو تفصیلی پیشگوئی کرسکتے ہیں اور بتا سکتے ہیں کہ کائنات میں مستقبل میں کیا ہوگا؟ اور اگر اپنی پیشگوئی کے استدلال کو ماضی کی طرف لے جائیں تو یہ بھی بتا سکتے ہیں کہ ماضی میں کیا ہوا ہوگا؟ لیکن اب کوائنٹم نظریہ اس طرز کی پیشگوئی کی اجازت نہیں دیتا۔ اس نظریے کو درست سمجھا جائے تو ہم یہ تو نہیں بتا سکتے کہ مستقبل کیا ہوگا؟ البتہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ کسی خاص مظہر فطرت کے تناظر میں (بطور مثال) دس مختلف طرح کے امکانات ہیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے، وہ بھی ہو سکتا ہے۔ ہر ایک نتیجے کا کتنا فیصد امکان ہے، اس کا حساب ریاضی کی مدد سے لگا سکتے ہیں، مگر یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتے کہ فلاں امکان ہی ظہور پذیر ہوگا۔ مثال کے طور پر بہت سارے ایٹم ایسے ہیں جو قدرتی طور پر ٹوٹتے رہتے ہیں۔ ایٹم کا ایک مرکزی حصہ ہوتا ہے، جسے نیوکلیس کہتے ہیں اس میں سے ذرّات نکلتے رہتے ہیں۔ یورینیم (Uranium) اس کی مثال ہے۔ خود بخود ان ذرّات کا نیوکلیس سے نکلنا ریڈیو ایکٹیوٹی (تابکاری) کہلاتا ہے۔ اس کا استعمال بجلی بنانے میں کیا جاسکتا ہے، اس کے تخریبی استعمال کے امکانات بھی ہیں۔
تابکاری کی مثال
یورینیم یا اسی طرح کے بعض دوسرے عناصر کے نیوکلیس سے ذرّات نکلتے رہتے ہیں، چنانچہ یورینیم بدل کر بتدریج ایک دوسرا عنصر بن جاتا ہے۔ آپ یہ بتا سکتے ہیں کہ اگر ہمارے پاس سو گرام یورینیم آج موجود ہے تو اتنے عرصے بعد سو میں سے ۸۰ گرام باقی بچے گا۔ باقی بدل کر کچھ اور بن چکا ہوگا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ بیس گرام ابتدائی مادہ ایک دوسرا عنصر بن گیا لیکن سو گرام میں کون سا حصہ کچھ اور بنا یہ ہم نہیں بتا سکتے۔
انسانی دنیا میں اس کی مثال یوں سمجھ لیجیے کہ ایک گاؤں میں انسانوں کی آبادی ایک ہزار ہے۔ سابق مشاہدات کی بنا پر ہمارا اندازہ یہ ہے کہ اگلے پانچ سال میں اس گاؤں میں دس لوگوں کا انتقال ہو جائے گا، مگر وہ کون سے دس ہوں گے؟ یہ ہم نہیں بتا سکتے۔ یہاں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم جانتے نہیں، اللہ کی مشیت کسی فرد کی موت کا وقت طے کرتی ہے اور یہ مشیت ہمارے علم میں نہیں۔
اب تابکار مادے کو لیجیے۔ ہمارا دعویٰ ہے کہ ہم مادی دنیا کے قوانین فطرت کو جانتے ہیں، لیکن اس علم کے باوجود یہ نہیں بتا سکتے کہ اس یورینیم مادے کے کس حصے میں تبدیلی واقع ہو گی اور کون سا جز (یورینیم کے طور پر) باقی رہ جائے گا؟ یہ پیشگوئی کا نقص ہے۔ (پیشگوئی) کی صلاحیت، جو کامل سمجھی گئی تھی وہ حقیقتاً ناقص ثابت ہوئی۔
یہ ایک ہی طرزِ فکر کی دو تعبیریں ہیں۔ آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا مشاہدہ حقائق کو متاثر کرتا ہے اور یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ پیشگوئی مطلق نہیں، یقین نہیں، Certain اور Absolute نہیں ہو سکتی، بلکہ محض امکانی نوعیت رکھتی ہے۔ ہم محض کسی واقعہ کے امکان کو بتا سکتے ہیں، اس کے لازمی ظہور کا دعویٰ نہیں کرسکتے۔ سائنسی تصورات میں یہ ایک انقلابی تبدیلی ہے، جو بیسویں صدی کی دنیا میں سامنے آئی۔
ہاکنگ کا سائنسی کارنامہ
ہاکنگ کی تحقیقات کا ایک اہم جُز قعر اسود یا بلیک ہول سے متعلق ہے۔ قعر اسود کا ابتدائی تصور تو ہاکنگ کا نہیں ہے (دوسرے لوگ پہلے اسے پیش کر چکے تھے) البتہ اس کو سمجھنے میں ہاکنگ کی تشریحات نے بھی مدد کی ہے۔ کائنات میں ہم سیاروں کے وجود سے واقف ہیں، سورج بھی ایک سیارہ ہے، جو دوسرے سیاروں کے مقابلے میں ہم سے سب سے زیادہ قریب ہے۔ ہمارے حساب سے تو سورج بہت دور ہے، یعنی نو کروڑ میل یا پندرہ کروڑ کلومیٹر، لیکن اللہ تعالیٰ کی کائنات بڑی وسیع ہے، اس میں پندرہ کروڑ کلومیٹر کا فاصلہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ سورج سے روشنی زمین تک صرف ۸ منٹ میں آجاتی ہے۔ اس کے بعد زمین سے قریب ترین جو سیّارہ ہے اس کو الفاسنٹاری کہا جاتا ہے، اس سے روشنی کو زمین تک آنے میں چار سال لگ جاتے ہیں۔ یہ قریب ترین سیّارے کا معاملہ ہے۔ خدا کی کائنات کی وسعت کے تناظر میں زمین سے سورج کا فاصلہ معمولی فاصلہ ہے۔ سورج نظام شمسی کا مرکز ہے۔ اس نظام میں بہت سارے سیّارے موجود ہیں۔ زمین بھی ان میں سے ایک ہے۔ سورج جیسے بہت سارے سیارے کائنات میں موجود ہیں۔ سیّارے سے روشنی اور گرمی نکلتی ہے تو اس میں موجود توانائی آہستہ آہستہ ختم ہوتی جاتی ہے۔ ایک بڑے لمبے عرصے کے بعد ایسا وقت بھی آتا ہے جب سیّارے کی توانائی بالکل ختم ہو جاتی ہے اور وہ ٹھنڈا ہو جاتا ہے۔ اس مرحلے میں سیّارے کو سائنسی اصطلاح میں White Dwarf کہا جاتا ہے، یعنی وہ سفید وجود کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔
قعراسود
سوال یہ ہے کہ کوئی سیّارہ اس مرحلے تک پہنچ جائے تو اب کیا ہوگا؟ تحقیقات کی بنیاد پر تین امکانات ہیں: ایک امکان یہ ہے کہ وہ پھٹ جائے گا اور منتشر ہو جائے گا، اس کی توانائی دوبارہ یکجا نہیں ہو سکے گی۔ دوسرا امکان یہ ہے کہ وہ سکڑتے سکڑتے چھوٹا ہوتا جائے گا۔ عام مادہ میں ایٹم ہوتے ہیں اور ایٹم میں الیکٹران، پروٹان جیسے ایٹمی ذرّات ایک دوسرے سے الگ الگ موجود ہوتے ہیں۔ سکڑ جانے والے سیّارے میں ایسا نہیں ہوگا، وہ اتنی چھوٹی شکل اختیار کرلے گا کہ ایٹم کے ذرّات میں سے بس ایک ذرّہ باقی رہ جائے گا، جسے نیوٹرون کہتے ہیں۔ گویا سیّارہ نیوٹرون اسٹار بن جائے گا۔ ایک تیسرا امکان بھی ہے، وہ ہے قعر اسود یا بلیک ہول کا ظہور، یعنی یہ ممکن ہے کہ سیّارہ بلیک ہول بن جائے۔
البتہ بلیک ہول کے ظہور کے لیے شرط یہ ہے کہ سیّارے کا جو ابتدائی وزن تھا وہ ہمارے سورج کے وزن سے کم ازکم چالیس فیصد زائد ہو، اس مقدار سے کم نہ ہو۔ سورج کا وزن ہمارے پیمانوں کے مطابق بہت زیادہ ہے۔ کاغذ پر آپ دو کا ہندسہ لکھیں اور اس کے آگے تیس صفر لگا دیں۔ اتنے کلوگرام سورج کا وزن ہے۔ ہماری گنتی سے اس مقدار کو بتایا نہیں جاسکتا۔ یوں سمجھیں کہ وہ دو ہزار ارب، ارب، ارب کلوگرام کا وزن ہے۔ اتنی بڑی مقدار میں اس کا مادہ ہے۔ اس میں چالیس فیصد کا اضافہ کیجیے۔ سیّارے میں کم ازکم اتنا مادہ ہو تب وہ قعر اسود یا بلیک ہول بن سکے گا۔ مقدار مادہ کے متعلق یہ جو اندازہ ہے، اس کو چند شیکھر لمٹ کہا جاتا ہے۔ چندر شیکھر نامی سائنس داں نے جو ہندوستانی تھا، ۱۹۳۰ء میں یہ خیال پیش کیا تھا۔ اس وقت وہ نوعمر تھا، اس نے کہاکہ بلیک ہول بننا ممکن ہے مگر اس کے لیے شرط یہ ہے کہ سیّارے میں مادے کی مقدار سورج کی مقدار مادہ سے کم ازکم چالیس فیصد زائد ہو۔ اس وقت لوگوں نے سوچا کہ یہ نوجوان ان معاملات کو کیا جانے، چنانچہ اس کے تصورات کو ایک لمبے عرصے تک نظرانداز کیا گیا۔ بالآخر نصف صدی کے بعد تسلیم کر لیا گیا کہ اس نے جو اندازہ لگایا تھا وہ درست تھا۔
روایتی فہم کے مطابق بلیک ہول کی خصوصیات
تاہم یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ اب تک کی تحقیق کے مطابق بلیک ہول کا ظہور ممکن ہے، لازم نہیں ہے۔ ابھی تک بلیک ہول صرف امکان کا نام ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس کے کچھ شواہد موجود ہیں، مگر ان کی حیثیت ایسی نہیں کہ وہ یقینی کہے جاسکیں۔ ان مشاہدات کی تعبیر دوسرے طریقوں سے بھی ہو سکتی ہے۔ بلیک ہول ایک ممکن حقیقت ہے، ثابت شدہ حقیقت نہیں ہے۔ بہرحال ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ بلیک ہول میں کیا ہوگا؟
بلیک ہول کی دو خصوصیات نمایاں ہیں: ایک یہ کہ اس کا حجم بڑا مختصر ہوگا، یعنی وزن تو بہت ہوگا (سورج کے وزن سے بھی چالیس فیصد زیادہ) لیکن حجم مختصر ہوگا۔ ہر مادی وجود میں ثقل کی بنا پر کشش موجود ہے، وہ اپنا کام کرتی ہے اور سیّارے کے حجم کو گھٹاتی ہے۔ چنانچہ بہت چھوٹی سی جگہ میں قعر اسود موجود ہوگا۔ دوسری خاص بات یہ ہے کہ بلیک ہول سے کوئی چیز باہر نہیں جاسکتی۔ یہاں تک کہ روشنی بھی اندر چلی جائے تو واپس نہیں آئے گی۔ اس میں کوئی چیز گرے تو جذب ہو جائے گی، لیکن اس میں سے کوئی شے نکل جائے، ایسا ممکن نہیں ہوگا۔ گویا وہ ایک کھائی ہے، جس میں ہر چیز جو قریب آئے گی، گر جائے گی۔ اس سے باہر نکلنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔
بلیک ہول کا مقابلہ زمین سے کر سکتے ہیں۔ ہم سطح زمین سے اوپر کی جانب کوئی چیز پھینکیں تو وہ کچھ دور جائے گی، پھر واپس آجائے گی۔ اِلّا یہ کہ آپ بہت تیز پھینکیں، یعنی ابتدائی رفتار بہت تیز ہو۔ اگر آپ کسی چیز کو چالیس ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سطح زمین سے اوپر کی جانب پھینکیں تو وہ زمین پر واپس نہیں آئے گی۔ مگر چالیس ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ بہت بڑی رفتار ہے۔ آواز کی رفتار صرف بارہ سو کلومیٹر فی گھنٹہ ہوتی ہے۔ آواز سے تیز سپرسونک طیارے بھی اب بن گئے ہیں جن کی رفتار پندرہ سو کلومیٹر فی گھنٹہ تک ہو سکتی ہے۔ مگر عام انسانی سواریوں کی رفتار زیادہ نہیں ہوتی۔ ان کے مقابلے میں چالیس ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ بڑی رفتار ہے۔ اس رفتار سے کوئی چیز دور پھینک دی جائے تب وہ زمین پر واپس نہیں آئے گی۔ لیکن بلیک ہول کا معاملہ مختلف ہے۔ آپ کسی بھی رفتار سے کوئی شے اس کی سطح سے دور پھینک دیں، بہرحال وہ واپس آجائے گی۔ بلیک ہول سے وہ بھاگ نہیں سکتی، اس کے دائرہ کشش سے روشنی بھی نہیں نکل سکتی۔ یہ اس کی دوسری خصوصیت ہے اس لیے بلیک ہول محققین کی دلچسپی کا باعث رہا ہے۔
ہاکنگ کی جدّت
بلیک ہول کی مذکورہ بالا خصوصیات روایتی سائنس پر مبنی ہیں۔ اس تناظر میں ہاکنگ نے نئی بات پیش کی جس کو اس نے عام فہم انداز میں اپنی کتاب Brief History of Time میں بیان کیا ہے۔ ہاکنگ نے کوائنٹم نظریہ کا حوالہ دیا ہے، جس کے مطابق پیشگوئی یقینی نہیں ہوتی۔ چنانچہ یقینی پیشگوئی کی کوشش، کوائنٹم نظریہ کے تخلیق کردہ سائنسی مزاج کے خلاف ہے۔ جب آپ یہ کہتے ہیں کہ بلیک ہول سے کوئی چیز نہیں نکل سکتی، تو یہ ایک مطلق پیشگوئی ہے۔ ہاکنگ کہتا ہے کہ یقینا اس استدلال میں کوئی جھول اور کوئی کمزوری ہے، اس لیے کہ مطلق پیشگوئی، نئے سائنسی رجحان سے ہم آہنگ نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ایک مرتبہ ہاکنگ نے روس کا سفر کیا۔ روس کے ایک سائنس دان نے اس تضاد کی جانب ہاکنگ کو توجہ دلائی کہ یہ جو بات کہی جاتی ہے کہ بلیک ہول سے کوئی چیز نہیں نکل سکتی، کیا یہ مطلق دعویٰ کوائنٹم نظریہ کے مطابق ہے؟ ہاکنگ کو اس سوال نے متاثر کیا اور اس نے بالآخر اپنی تحقیق کرکے نتیجہ نکالا کہ بلیک ہول سے متعلق یہ دعویٰ صحیح نہیں ہے کہ اس سے کوئی چیز باہر نہیں نکل سکے گی، بلکہ ہوگا یہ کہ بلیک ہول سے روشنی نکلے گی، البتہ اس اخراج کے امکانات کم ہوں گے۔ بتدریج ہی سہی، روشنی نکلتے نکلتے ایک ایسا وقت آئے گا کہ بلیک ہول کی توانائی ختم ہو جائے گی، یعنی وہ منتشر ہو جائے گااور ایک جرم فلکی کے طور پر باقی نہیں رہے گا۔ بلیک ہول سے روشنی کے اخراج کو ہاکنگ ریڈی ایشن Hawking Radiation کہا جاتا ہے۔ روشنی توانائی کی ایک شکل ہے، چنانچہ ہاکنگ کا نظریہ اور تحقیق یہ ہے کہ قعر اسود سے توانائی خارج ہوگی۔
ہاکنگ کا یہ استدلال قوی ہے۔ اس لیے کہ کوائنٹم نظریے سے مطابقت رکھتا ہے۔ چنانچہ اب عموماً لوگوں نے اس استدلال کو تسلیم کر لیا ہے۔ پیش کردہ بنیادی دلیل کوائنٹم نظریہ سے مستنبط ہے۔ البتہ ایک ثانوی دلیل بھی ہاکنگ نے پیش کی ہے، جو پرانی سائنس سے مستعار ہے۔ روایتی فزکس کا ایک باب ’حرارت کے قوانین‘ سے عبارت ہے۔ اس شعبے کو Themodynamics کہتے ہیں۔ حرارت کے قوانین کی نوعیت نیوٹن کے عام خیالات سے قدرے مختلف ہے، اگرچہ یہ قوانین روایتی فزکس کا حصہ ہیں۔ حرکیات کے ان قوانین میں امکان کا ذکر ہوتا ہے۔ زیر مشاہدہ ذرّات کی حرکت سے متعلق یقینی پیشگوئی نہیں ہوتی۔ حرارت کے قوانین پرانی سائنس کا جز ہیں۔ یہ بیسویں صدی سے پہلے ترتیب پاچکے تھے، تاہم ان میں اور کوائنٹم نظریہ میں یہ امر مشترک ہے کہ دونوں کے مطابق ذرّات کی حرکت کی تفصیلی کیفیت کے سلسلے میں مستقبل کے تناظر میں یقینی بات نہیں کہی جاسکتی۔ ہاکنگ نے دلیل کے طور پر دونوں کو استعمال کیا ہے۔ یعنی کوائنٹم نظریہ اور حرکیات حرارت کے قوانین کو۔ ہاکنگ کی اصل دلیل کوائنٹم تصورات ہیں اور اس کے استدلال کا حاصل یہ ہے کہ بلیک ہول سے توانائی نکلے گی، حتیٰ کہ اس میں موجود توانائی بالآخر ختم ہو جائے گی اوراس کا بلیک ہول کے طور پر جداگانہ وجود باقی نہیں رہے گا۔ اس استدلال نے سائنس اور فزکس کی دنیا میں ہاکنگ کی تحقیقات کو نمایاں مقام عطا کیا۔ اس کے تصورات کو لوگوں نے بڑی اہمیت دی اور اس کے استدلال کی قوت کو تسلیم کیا۔
ہاکنگ کے عام افکار
سائنسی تحقیق اور سائنس کے مقبول عام تعارف پر مشتمل کتابوں کی تصنیف کے علاوہ ہاکنگ نے کائنات کی ابتدا اور خدا اور کائنات کے تعلق پر بھی اظہار خیال کیا ہے۔ سائنس دانوں کے مابین کائنات کی ابتدا کے سلسلے میں دو نظریات مقبول تھے، جو بیسویں صدی میں پیش کیے گئے: ایک نظریہ یہ تھا کہ کائنات کی ابتدا ایک دھماکے سے ہوئی۔ اس خیال کو بگ بینگ تھیوری کہا جاتا ہے۔ گویا کائنات کا آغاز ایک نقطے سے ہوا۔ پوری کائنات کا مادہ جمع تھا، پھر کائنات پھیلنا شروع ہوئی۔ ابتدائے کائنات سے متعلق دوسرا تصور وہ تھا جس کو ہبل (Hubble) نے پیش کیا۔ وہ تصور یہ ہے کہ کائنات پھیل نہیں رہی، بلکہ اس میں تخلیق کا عمل مسلسل جاری ہے۔ بظاہر ہمیں کائنات پھیلتی ہوئی نظر آتی ہے، لیکن نئی تخلیق کے تسلسل کی بناء پر یہ تاثر قائم ہوتا ہے۔ چنانچہ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ کائنات کا آغاز ایک نقطے سے ہوا۔
بقول اقبالؒ:
یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید
کہ آرہی ہے دمادم، صدائے کن فیکون
جہاں تک مشاہدے کا تعلق ہے، شواہد پہلے تصور کے حق میں ہیں۔ تخلیق مسلسل کے نظریے کے حق میں کوئی شواہد پیش نہیں کیے جاسکتے۔ اس کے برعکس جب دور کی کسی کہکشاں Galaxy کا مشاہدہ کیاجائے تو کائنات کا پھیلنا ایک حقیقت کے طور پر سامنے آتا ہے۔
پہلے تصور، یعنی ایک نقطے سے کائنات کے آغاز کو اہل تحقیق نے عام طور پر تسلیم کیا۔ ہاکنگ بھی اس کو تسلیم کرتا ہے، یعنی کائنات کی ابتدا ایک نقطے سے اور ایک دھماکے کے ساتھ ہوئی اور اب وہ پھیلتی چلی جارہی ہے۔ اس نے کائنات کے ارتقاء کے مختلف مراحل بھی بیان کیے ہیں۔ کتاب Brief History of Time میں ان مراحل کا تذکرہ ہے۔ تدریجاً کائنات میں کیا تبدیلیاں ہوئیں؟ اور کس طرح ارتقاء ہوا؟ اس کو ہاکنگ نے بیان کیا ہے۔
تخلیق کائنات کے تذکرے کے بعد ہاکنگ خدا کے بارے میں گفتگو کرتا ہے۔ جو باتیں اس نے کہی ہیں وہ اسی قسم کی ہیں جیسی عام طور پر ملحدین کہتے ہیں۔ مثلاً ایک بات اس نے یہ کہی ہے کہ ہمیں خدا کے تصور کی ضرورت اس وقت تھی جب سائنس نے ترقی نہیں کی تھی اور ہم کائنات کی توجیہ کے لیے خدا کے تصور کا سہارا لیتے تھے۔ اب ہم سائنس کے حقائق و نظریات کو جانتے ہیں، اس لیے ہمیں خدا کے تصور کی ضرورت نہیں ہے۔ ملحدین کا یہ قول بالکل بچکانہ ہے۔ غور کرنا چاہیے کہ کائنات کی سائنسی تشریح اصلاً اس سوال کا جواب ہے کہ کائنات میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ کس طریقے اور کس ڈھنگ سے ہو رہا ہے؟ اس میں کارفرما قوانین کیا ہیں؟ اس کے برعکس جب ہم خدا کے وجود کے بارے میں پوچھتے ہیں تووہ سوال ایک دوسری نوعیت کا ہوتا ہے۔ وہ سوال یہ ہے کہ ان فطری قوانین کو بنانے والا کون ہے؟ ان قوانین کو کام میں لاکر کائنات میں حسن، ترتیب اور تناسب کو قائم کرنے والا کون ہے؟
ملحدین کا قول
وجودِ خداوندی کے بارے میں مذکورہ بالا بات، جو ہاکنگ نے پیش کی ہے، ملحدین عموماً اس کو دہراتے رہتے ہیں۔ وہ اس بات کو نہیں جانتے کہ اس گفتگو میں دو مختلف سوالات زیر بحث ہیں۔ ایک سوال مظاہر کائنات کے بیان (Description) سے متعلق ہے، جب کہ دوسرا سوال کائنات کی تعبیر (Meaning) سے متعلق ہے۔ کہنے والا یہ تو کہہ سکتا ہے کہ سائنس کی ترقی نے کائنات میں نظر آنے والے مظاہر فطرت کا (مبنی بر مشاہدات) بیان ہمارے سامنے پیش کر دیا، مگر یہ نہیں کہہ سکتا کہ سائنس نے کائنات میں حسن اور توازن کی موجودگی کی توجیہ بھی پیش کردی ہے۔ بہرحال ہاکنگ کا ایک قول تو یہ ہے کہ ہمیں خدا کی ضرورت نہیں ہے، اس لیے کہ اب سائنس ترقی کر چکی ہے۔ دوسری بات اس نے یہ کہی کہ خدا تعالیٰ نے کائنات کے قوانین کو وجود بخشا ہے۔ غالباً یہ تصور صحیح ہے (یہ اسی طرح کی بات ہے جو نیوٹن نے پیش کی تھی کہ قوانین فطرت خدا کے بنائے ہوئے ہیں)البتہ ہاکنگ کہتا ہے کہ خدا تعالیٰ براہ راست مداخلت کرکے (اپنے بنائے ہوئے) قوانین فطرت میں تبدیلی نہیں کرتا، یعنی ایسا نہیں ہوتا کہ قوانین بنا دینے کے بعد پھر وہ کائنات کے ارتقاء میں (بطور مدبر) مداخلت کرے اور مداخلت کی صورت یہ ہو کہ کائنات میں نافذ قوانین میں تبدیلی ہو جائے۔ یہ ہاکنگ کا قول ہے۔
(۔۔۔ جاری ہے!)
یہ کون ذات شریف ہیں جو علمیت کی آڑ میں جہالت بکھیر رہی ہیں۔ جناب ذرا یہ تو بتا دیجئے کہ ’’سیارے‘‘ اور ’’ستارے‘‘ میں کیا فرق ہے؟