
جرمن صدر کرسچین ولف نے حال ہی میں اپنی اہلیہ کے ساتھ ترکی کا پہلا سرکاری دورہ کیا۔ جرمن مہمانوں کا سرکاری سطح پر استقبال کرنے والوں میں ترک خاتون اول حیرالنساء بھی شامل تھیں۔ انہوں نے گارڈ آف آنر پیش کرنے والوں سے سلامی بھی لی اور سرخ قالین پر مہمانوں کی ہم رکاب بھی ہوئیں۔
آپ سوچیں گے اس میں غیرمعمولی بات کیا ہے۔ ۲۰۰۷ء میں جرنیلوں نے دھمکی دی تھی کہ وہ عبداللہ گل کو صدر بننے سے روکنے کے لیے مداخلت کریں گے کیونکہ ان کی اہلیہ سر پر اسکارف رکھتی ہیں۔ تب سے ترک خاتون اول ایسی تقاریب میں شرکت سے گریز کرتی آئی ہیں جن میں جرنیل شریک ہوں۔ ترکی میں سر کا اسکارف آج بھی اسلام پسند اور سیکولر ترکوں کے درمیان نزاع کا سبب بنا ہوا ہے۔ اسلام پسند عناصر کہتے ہیں کہ یہ ایمان کا معاملہ ہے جبکہ سیکولر ترک اسے سیاسی اسلام کی علامت اور کمال اتا ترک کی قائم کردہ ریاست کے سینے میں خنجر سے تعبیر کرتے ہیں۔ نصف سے زائد ترک خواتین اپنا سر کسی نہ کسی طرح ڈھانپتی ہیں اور ان کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اسکولوں اور جامعات میں ہیڈ اسکارف پر پابندی عائد ہے۔ سرکاری اداروں کی ملازم خواتین سر پر اسکارف نہیں رکھ سکتیں اور سر پر اسکارف رکھنے والی خواتین پارلیمنٹ کا الیکشن بھی نہیں لڑ سکتیں۔ اسلامی تعلیمات کی طرف جھکاؤ رکھنے والی جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی نے ۲۰۰۷ء میں دوبارہ بر سر اقتدار آنے پر آئین میں ترمیم کے ذریعے ہیڈ اسکارف پر عائد پابندی ختم کرنے کی کوشش کی تھی تاہم اسے ملک کے چیف پروسیکیوٹر عبدالرحمٰن یلچنکیا کی جانب سے آئینی کارروائی کا سامنا کرنا پڑا اور حکومت کو بڑی مشکل سے بچایا جاسکا۔
ترک خاتون اول کا دوبارہ جرنیلوں کے ساتھ سرکاری تقریبات میں شریک ہونا اس بات کی علامت ہے کہ ہیڈ اسکارف کے معاملے پر کشیدگی خاصی بڑھ چکی ہے۔ ترک ہائر ایجوکیشن بورڈ کے سربراہ یوسف ضیاء اوزکان کا کہنا ہے کہ اسکارف استعمال کرنے والی طالبات کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ اسکارف پہننے والی طالبات کو جامعات کے داخلہ ٹیسٹ میں حصہ لینے سے روکا نہیں جاسکتا۔ یوسف ضیاء کے بیان پر عبدالرحمٰن یلچنکیا نے فوری رد عمل ظاہر کرتے ہوئے اسے آئین کے منافی قرار دیا۔
اس صورت حال نے کمال کلکداروغلو کی ری پبلکن پیپلز پارٹی کے لیے عجیب صورت حال پیدا کردی ہے۔ یہ پارٹی سیکیولر ازم کی طرف جھکاؤ رکھتی ہے تاہم اب کمال کلکداروغلو نے اعلان کیا ہے کہ وہ اسکارف پر پابندی ختم کرنے کی مہم میں جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی کا ساتھ دیں گے۔ انہوں نے وزیر اعظم طیب اردگان سے اس بات کی ضمانت چاہی ہے کہ اسکارف پر پابندی کے اٹھائے جانے کو ہائی اسکولوں اور سرکاری دفاتر تک توسیع نہیں دی جائے گی۔ طیب اردگان نے ایسی کوئی بھی ضمانت دینے سے اب تک گریز کیا ہے۔ سیکیولر عناصر کو یہ خدشہ بھی لاحق ہے کہ نئی آئینی ترامیم سے حکومت کہیں عدلیہ میں اسکارف کے حامی ججوں کو بھرتی نہ کرلے۔
معروف پولسٹر ترہان اردم کا کہنا ہے کہ اسکولوں میں اسکارف پہننے کی اجازت دیے جانے سے ہر سطح کے اسکولوں کی طالبات اسکارف پہننے کی اجازت چاہیں گی اور بالخصوص رجعت پسند اناطولیہ میں صورت حال بالکل بدل جائے گی۔ اس حوالے سے دلیل یہ پیش کی جاتی ہے کہ لوگ اپنی بیویوں اور بیٹیوں کو کام کرنے کی اجازت اسی صورت میں دیں گے جب وہ شرافت اور پاکیزگی کی نشانی یعنی سر ڈھانپنے کی اجازت کی حامل ہوں گی۔ تمام نقاب پوش خواتین کسی بھی اعتبار سے جدید دور کی جامع نمائندہ یا ترجمان نہیں۔ انقرہ اور ازمیر میں بہت سے لڑکیوں کو سر پر اسکارف لگائے جینز میں ملبوس اور بوائے فرینڈ کے ساتھ دیکھا جاسکتا ہے۔ ترکی میں حقوق نسواں کی متعدد نمایاں کارکنان بھی سر پر اسکارف رکھتی ہیں۔
کپڑے کے ایک ٹکڑے پر لڑنے کے بجائے ترک سیاست دانوں کو اپنی توانائی صنفی امتیاز کم یا ختم کرنے پر صَرف کرنی چاہیے۔ ورلڈ اکنامک فورم کے مطابق ترک لیبر فورس میں خواتین کا حصہ ۱۹۸۹ء میں ۳۴ فیصد تھا جو اب ۲۶ فیصد رہ گیا ہے۔ پارلیمنٹ میں خواتین صرف ۹ فیصد ہیں۔ ان میں بھی سب سے زیادہ ارکان کا تعلق کرد نواز پیس اینڈ ڈیموکریٹک پارٹی سے ہے جس نے خواتین کا کوٹا ۴۰ فیصد مقرر کر رکھا ہے۔ کردوں کا موقف یہ ہے کہ جامعات میں سر پر اسکارف رکھنے کی اجازت دی جانی چاہیے اور اس مقصد کے لیے آئین میں ترمیم بھی کی جائے۔ طیب اردگان نے اعلان کیا ہے کہ اسکارف کے بارے میں حتمی فیصلہ آئندہ سال کیا جائے گا۔ آئندہ سال جولائی میں پارلیمانی انتخابات ہوں گے۔ ایسے میں چند لڑائیاں ایسی بھی ہیں جن کا نہ لڑا جانا بہتر ہے۔
(بشکریہ: ’’دی اکنامسٹ‘‘۔ ۳۰؍اکتوبر ۲۰۱۰ء)
Leave a Reply