فٹنس کے لیے کوشش شروع کرنے کا کوئی وقت یا عمر کی قید مقرر نہیں‘ کچھ لوگ بہانے بنا کر ورزش سے جان چراتے ہیں‘ نتیجتاً بیماریاں انہیں دبوچنے کا بہانہ ڈھونڈ لیتی ہیں۔
منیلا کی ڈی ڈی مینہن ایک روز اچانک اپنی پرانی تصویر دیکھ کر حیران رہ گئی۔ تصویر سے موازنہ کرنے پر اسے اپنا وجود بے حد مختلف اور عجیب محسوس ہوا۔ یہ تبدیلی وہ گذشتہ کئی ماہ سے محسوس کر رہی تھی مگر اس تصویر نے اسے جو حقیقت دکھائی وہ اس کے لیے بے حد پریشان کن اور فکر انگیز تھی۔ اسے یہ سوچ کر بے حد دھچکا لگا تھا کہ اس کا وزن پہلے کے مقابلے میں کس قدر بڑھ گیا ہے۔ ’’میرے بازو انتہائی پھولے پھولے اور بدن بے ہنگم ہو چکا تھا‘ پیٹ باہر کو نکلا ہوا‘ کمر اور کولہوں پر چربی کی تہیں جمی ہوئی تھیں۔
مینہن کی اس بیچارگی کی اصل وجہ کا اندازہ لگانا کوئی خاص مشکل نہیں۔ ایک پری اسکول کی ڈائریکٹر کے طور پر ساران دن تھکا دینے والا کام کرنے کے بعد اس کا دل صرف گھر جاکر آرام کرنے کے لیے بے قرار رہتا۔ ورزش کا تو خیال تک اسے مشکل ہی سے آتا۔
لیکن حقیقت میں اس غفلت کے باعث مینہن کو بڑی مہنگی قیمت چکانا پڑی۔ وہ ۴۰ سال کی ہو چکی تھی اور اس کا بدن موٹاپے کی طرف مائل تھا۔ وزن میں مسلسل اضافہ سے وہ ہر وقت تھکاوٹ اور سستی کا شکار رہنے لگی۔ نتیجتاً اس کا حال بد سے بدتر ہونے لگا۔
سست اور کاہل لوگوں کی جوانی میں اموات کی شرح‘ چست و توانا افراد کی نسبت ۴۰ فیصد زیادہ ہے۔ کلین ایگلو انسٹان میڈیکل سینٹر‘ کوالالمپور کے کارڈیالوجسٹ ڈاکٹر دیوی راما سوامی کے بقول ورزش کرنے والوں کو دل کی بیماریوں‘ کینسر ہائی بلڈ پریشر‘ شوگر خون لے جانے والی نالیوں کی سوزش اور دیگر کئی مہلک بیماریوں کا خطرہ کم ہوتا ہے۔ ۲۰۰۱ء میں شائع ہونے والی ایک تحقیق سے پتا چلا کہ باقاعدہ ورزش حافظہ کی کمزوری اور پاگل پن سے بچانے کا بھی اہم ذریعہ ہے۔
سنگاپور فٹنس پروفیشنلز فیڈریشن کے ٹیکنیکل ڈائریکٹر ہادی ری یانتو ورزش کے آغاز کے بارے میں مشورہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’ورزش جلد سے جلد شروع کر دینا بہتر ہے‘ کیونکہ جوں جوں آپ بڑھاپے کی طرف بڑھتے جاتے ہیں‘ اسی تناسب سے ورزش کی عادت ڈالنا مشکل ہوتا جاتا ہے‘‘۔
ہادی ریانتو کی رائے سے اتفاق کرتے ہوئے منیلا کے طبی تحقیق کے ادارے کی سربراہ ڈاکٹر دینا سانتوس نے بتایا کہ ’’ہر گزری ہوئی دہائی کے ساتھ چربی سے چھٹکارا اور پٹھوں کو درست شکل میں رکھنا مشکل ہو جاتا ہے‘ ورزش کرنا بے حد ضروری ہے‘ اس کے بے شمار فائدے ہیں مگر پھر بھی ہم میں سے اکثر لوگ ورزش نہیں کرتے‘‘۔
ورزش نہ کرنے کے کئی بہانے تراشے جاتے ہیں‘ جن کی بنیاد پر اپنی صحت اور خوبصورتی کو دائو پر لگا دیا جاتا ہے۔ یوں وقت گزرتا رہتا ہے اور اپنے ساتھ چربی اور پٹھوں کی کمزوری کی صورت میں ہمارا مذاق بھی اڑاتا رہتا ہے‘ ہم سب کچھ جانتے ہوئے بھی انجان بنے اپنا نقصان کرتے چلے جاتے ہیں‘ اور جب ہمیں اس حقیقت کا احساس ہوتا ہے تو بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔
آیئے ورزش نہ کرنے کے مختلف بہانوں اور ان کے اثرات کا جائزہ لیں۔
۱۔ میرے پاس وقت نہیں!
ورزش نہ کرنے کے لیے یہ سب سے زیادہ بنایا جانے والا بہانہ ہے۔ وائی ڈبلیو سی اے سنگاپور کی لومی لی آن کے بقول ’’جو لوگ چاق و چوبند رہتے ہیں ان کے پاس بھی دوسروں کی طرح کم ہی وقت ہوتا ہے۔ اصل بات تو یہ ہے کہ آپ اپنے وقت کا استعمال کیسے کرتے ہیں۔ ٹی وی دیکھنے پر آپ جو وقت صرف کرتے ہیں‘ وہی آپ ورزش کے لیے بھی استعمال کر سکتے ہیں‘‘۔ ایشیائی ماہرین روزانہ ۳۵ سے ۴۰ منٹ تک کی ورزش کا مشورہ دیتے ہیں۔ اس ضمن میں ڈاکٹر سانتوزر رنگور کا کہنا ہے کہ اگر آپ کے لیے ۳۵ سے ۴۰ منٹ ورزش کے لیے نکالنا مشکل ہیں تو آپ یوں کر سکتے ہیں کہ ۱۰‘ ۱۰ منٹ کے وقفوں سے ورزش کر لیں‘ اس طرح بھی آپ کو ورزش کے اتنے ہی فائدے حاصل ہوں گے۔
ہم لوگ دراصل اپنے کام‘ تعلیم یا فیملی کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ ڈاکٹر راما سوامی کے مطابق ’’اکثر لوگ ورزش کے لیے مناسب وقت نہیں نکالتے۔ میں نے بہت سے ایسے لوگ دیکھے ہیں جو اس قدر سستی اور کاہلی کا شکار ہوتے ہیں کہ ان کے لیے چند سیڑھیاں چڑھنا بھی دشوار ہوتا ہے‘ ان کی سانس پھولنے لگتی ہے اور دورانِ خون تیز ہو جاتا ہے‘‘۔ منیلا کا رہائشی افسر اشیوسی تالنٹینو اپنی جوانی میں باقاعدگی سے تیز چہل قدمی کرتا رہا۔ مگر ۳۰ سال سے زیادہ عمر ہوتے ہی اس پر بیوی بچوں کی ذمہ داریوں اور جائیداد کی خرید و فروخت کے کام کا بوجھ آن پڑا۔ نتیجتاً صحت کو پسِ پشت ڈال کر وہ ان فرائض کی انجام دہی میں ڈوب گیا۔ سالوں تک اس نے قطعی ورزش نہیں کی۔ نتیجتاً ۵۹ سال کی عمر میں اس پر فالج کا حملہ ہوا اور اس کا دائیں طرف کا اوپر والا دھڑ بہت حد تک ناکارہ ہو گیا۔ اس وقت اسے احساس ہوا کہ اگر اسے اپنی بقیہ زندگی میں عام انسانوں کی طرح جینا ہے تو پھر باقاعدہ ورزش کو معمول بنانا ہو گا۔
تالنٹینواب صبح کے وقت مقامی بحالی صحت کے مرکز میں جاتا ہے اور سہ پہر کے وقت گھر کے قریب واقع اسٹیڈیم میں چہلی قدمی کرتا ہے‘ اس کے ساتھ ساتھ اس نے ورزشی سائیکل اور ڈمبلز وغیرہ کے ذریعہ بھی خود کو فٹ کرنے کی جدوجہد شروع کر دی ہے۔ اپنی موجودہ حالت کے بارے میں تالنٹینو کہتا ہے ’’ہر روز ورزش کرنے سے میری سستی و کاہلی دور اور بلڈ پریشر اور کولسٹرول لیول میں بہتری آنے لگی۔ مجھے احساس ہے کہ میں نے بہت دیر کر دی مگر دیر آئد درست آئد کے مصداق میں اب اپنی باقی عمر زندگی کی خوشیوں سے بھرپور لطف اندوز ہوتے ہوئے گزارنا چاہتا ہوں‘‘۔ تالنٹینو کو ورزش کی وجہ سے فالج کے حملے سے ہونے والے ڈپریشن سے بھی نجات مل گئی۔ لوگ اس سے پوچھتے ہیں کہ کیا اس کے وزن میں کمی ہوئی ہے (جو درحقیقت صرف ۴ کلو کم ہوا ہے)‘ اس کے علاوہ اس
کی چستی اور دیگر صحت کے امور کے بارے میں دریافت کیا جاتا ہے۔ ان سوالات کے جواب میں وہ کتنا وزن کم ہوا ہے یا کتنی چربی پگھلی ہے بلکہ میرا پختہ یقین اور ارادہ ہے کہ اب مجھے ساری عمر باقاعدگی سے ورزش کرنی ہے‘ کیونکہ ورزش کی وجہ سے اب میں ۶۰ برس کی عمر میں اپنے دوستوں کو ورزش شروع کرنے کی ترغیب دیتا ہوں‘ کیونکہ اگر وہ ورزش نہیں کرتے تو انہیں بھی فالج کے حملے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے‘‘۔
۲۔ میں موٹا نہیں ہوں!
بہت سے ایسے لوگ موجود ہیں جو ورزش کرنا صرف اس لیے گوارا نہیں کرتے کہ ان کے خیال میں ان کا وزن بالکل مناسب ہوتا ہے۔ اگر آپ بھی یہ سوچتے ہیں کہ چونکہ آپ کے قد کی مناسبت سے آپ کا وزن درست ہے‘ سو آپ تندرست ہیں تو ہمارا مشورہ ہے کہ ایک بار پھر اس بارے میں غور کیجیے۔ آپ کو ورزش کے ذریعہ دل کی دھڑکن کی تندرست رفتار پر غور کرنا چاہیے۔ اس کا طریقہ کار کچھ یوں ہے کہ کوئی جسمانی مشقت کا کام ۲۰ منٹ تک کرنے کے بعد اپنی نبض کی رفتار دیکھیں‘ پھر اسے ۶ سے ضرب دیں۔ اگر آپ کا دل واقعی تندرست ہے تو جو تعداد آپ ہمارے بیان کردہ فارمولے سے حاصل کریں گے وہ زیادہ سے زیادہ دھڑکن کی رفتار کا ۵۰ سے ۷۵ فیصد ہونی چاہیے (عام طور پر یہ ۲۲۰ نفی آپ کی عمر کے فارمولے سے مرتب کی جاتی ہے)۔
ملائیشین چائنیز ایسوسی ایشن کی کوالالمپور میں واقع برانچ کے وائس چیئرمین رئمنڈ چیو کا خیال تھا کہ وہ ہفتے میں ایک بار ٹینس کھیل کر کافی ورزش کر لیتا ہے۔ ۵۷ سال رئمنڈ کا وزن بالکل متناسب تھا اور وہ سگریٹ یا شراب نوشی بھی نہیں کرتا تھا۔ پھر ایک روز اسے زندگی بھر کا خطرہ لاحق ہو گیا۔ ہوا یوں کہ ایک روز جب وہ صبح سویرے اٹھا تو اسے سینے میں شدید درد محسوس ہو رہا تھا۔ ٹیسٹ کروانے پر پتا چلا کہ اس کے دل کی دو نالیاں بہت حد تک بند ہو چکی ہیں۔ چیو کو بائی پاس سرجری کروانا پڑی اور اس کے کارڈیالوجسٹ نے بتایا کہ اسے زیادہ ایکسر سائز کی ضرورت ہے۔
چیو کا اس بارے میں کہنا ہے کہ ’’میں ڈاکٹر کی بات سن کر حیران رہ گیا مجھے قطعی انداز نہیں تھا کہ میں ان فٹ ہوں۔ میرے ڈاکٹر کہتے ہیں کہ اب میرا دل بالکل نارمل انداز میں کام کر رہا ہے اور دل کی نالیوں کی حالت بھی ٹھیک ہے‘‘۔ چیو کو یہ بات کافی دیر سے سمجھ آئی مگر اب وہ غفلت کا شکار نہیں ہوتا۔ روزانہ ۴ گھنٹے تک جاگنگ اس کا باقاعدہ معمول بن چکا ہے۔
۳۔ ورزش کر کے دیکھ لی‘ فائدہ نہیں ہوتا!
درمیانی عمر بہت سی دوسری چیزوں کے ساتھ ساتھ قوتِ ہاضمہ کی کمزوری بھی ساتھ لاتی ہے۔ جس کی وجہ سے موٹاپے کا شکار ہونا آسان ہو جاتا ہے۔ ایسے میں بہت سے لوگ ورزش شروع کر دیتے ہیں کیونکہ بڑھتا ہوا وزن انہیں پریشان کرتا ہے۔ لیکن جب فوری طور پر ان کے وزن میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں ہوتی تو وہ ہمت ہار جاتے ہیں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ وزن یا موٹاپا اصل میں اس بات کی علامت نہیں کہ آپ فٹ نہیں ہیں بلکہ ایک مضبوط پٹھوں کا حامل زیادہ وزن‘ چربی کے حامل کم وزن سے بہتر ہے۔ اس بات کو یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ ایک بھاری بھرکم شخص کو جو فٹ ہے‘ ایک پتلے مگر ان فٹ شخص سے زیادہ صحتمند قرار دیا جاسکتا ہے۔
ڈاکٹر سانتوس رنگور اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’اگر پٹھے مضبوط کرنے کا عمل جاری ہو تو اس دوران چربی کو نظرانداز کیا جاسکتا ہے۔ پٹھوں کی مضبوطی کے ذریعہ چربی رہتے ہوئے بھی آپ اپنے ہاضمے کے عمل کو مضبوط بنا سکتے ہیں‘‘۔
پیٹ کے پٹھوں کی مضبوطی خاص طور پر بہت اہم ہے۔ ۲۰۰۲ء میں شائع ہونے والی میڈیسن اینڈ سائنس ان سپورٹس اینڈ ایکسر سائز کی تحقیق میں بتایا گیا کہ پیٹ کے کمزور پٹھوں والے افراد کی موت جلد واقع ہو جاتی ہے۔ اس تحقیق کو مرتب کرنے والے محققین نے ۸۱۱۶ مرد و خواتین کا مشاہدہ کرنے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا کہ پیٹ کے کمزور پٹھے رکھنے والے افراد جلد موت کا شکار ہو جاتے ہیں۔
(بحوالہ سائنس و ٹیکنالوجی ڈاٹ کام)
Leave a Reply