دل کا مرض ’’خاموش قاتل‘‘

دنیا بھر میں دل کے امراض میں مبتلا افراد کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ دل کے امراض کی مختلف اقسام اور مختلف مراحل ہیں۔ دل کے معمولی درد میں مبتلا افراد کے مقابلے میں ان کے لیے مشکلات زیادہ ہوتی ہیں جنہیں دل کا دورہ پڑچکا ہو۔ اسی طور دل کے مرض کو ڈاکٹر ’’خاموش قاتل‘‘ قرار دیتے ہیں۔ طبی اصطلاح میں اسے Heart-Failure (دل کی ناکامی یا موت) کہا جاتا ہے۔ دل کی ناکامی کا مطلب اس کا رک جانا نہیں بلکہ یہ ایک مستقل عارضے کا نام ہے، جس کا تعلق دل کے بتدریج کمزور پڑتے چلے جانے سے ہے۔ برصغیر میں کروڑوں افراد دل کے کمزور پڑتے چلے جانے کے مرض میں مبتلا ہیں۔ جب دل کمزور پڑتا جاتا ہے تب وہ خون کو پوری تندہی سے پمپ کرکے جسم کے تمام حصوں تک پہنچانے کی قوت سے محروم ہوتا جاتا ہے۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ بھارت، پاکستان، بنگلادیش اور خطے کے دیگر ممالک اور بالخصوص انتہائی پسماندہ علاقوں میں ہارٹ فیلیئر کی تشخیص کے بعد محض سال کے اندر کم و بیش ۲۵ فیصد مریض ہتھیار ڈال دیتے ہیں اور موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔

ہم میں سے بہت سوں کو دل کی صحت کا احساس رہتا ہے۔ دل کو زیادہ سے زیادہ توانا رکھنے کے لیے ڈاکٹر عام طور پر جو کچھ بھی تجویز کرتے ہیں، وہ سب کچھ کیا جاتا ہے۔ متوازن خوراک اور ورزش کے ذریعے ہم دل کی صحت کا معیار بلند کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کے مثبت نتائج بھی برآمد ہوتے ہیں مگر محض خوراک اور ورزش پر بھروسا نہیں کیا جاسکتا۔ دل کو توانا رکھنے کے لیے معمولات کا بھرپور خیال کرنا پڑتا ہے۔

عام طور پر لوگ دل کے دورے اور ہارٹ فیلیئر کو ایک دوسرے میں گڈمڈ کرتے ہیں۔ یہ دونوں الگ کیفیتیں ہیں اور فرق کو سمجھنا لازم ہے۔ دل کا دورہ اس وقت پڑتا ہے جب شریانوں میں رکاوٹ پیدا ہو جانے کے باعث دل خون کو خاطر خواہ حد تک پمپ کرنے سے قاصر رہتا ہے۔ دل تک خون نہ پہنچنے سے اسے آکسیجن بھی بھرپور مقدار میں نہیں مل پاتی۔ آکسیجن کے بغیر دل ناکامی کی راہ پر گامزن ہوتا ہے یعنی تیزی سے کمزور پڑتا چلا جاتا ہے۔ شریانوں کی دیواروں پر جمع ہونے والے مواد جب سوکھ کر ٹوٹتا ہے تو خون کی روانی میں خطرناک حد تک رکاوٹ پیدا کرتا ہے۔ خون کی شریانوں میں پیدا ہونے والی رکاوٹوں کو دور کرنے والی یعنی کم کولیسٹرول والی خوراک دل کے تمام امراض کے خلاف بالعموم اور دل کے دوروں کے خلاف بالخصوص پہلا دفاعی حصار ہے۔

دل کے کمزور پڑتے جانے کا مطلب ہے، خون پمپ کرنے کی صلاحیت کا گھٹتے جانا۔ جب یہ صلاحیت خطرناک حد تک گھٹ جاتی ہے اور دل اپنا کام ڈھنگ سے نہیں کر پاتا تب جسم کے دیگر اعضا پر بھی دباؤ بڑھتا ہے۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب دل میں خون پمپ کرنے کی صلاحیت برائے نام رہ جاتی ہے۔ ایسے میں دیگر اعضا پر غیر معمولی دباؤ پڑتا ہے اور ان کے لیے پورے جسم کا بوجھ اٹھانا عملی سطح پر انتہائی دشوار، بلکہ ناممکن ہو جاتا ہے۔

ہارٹ فیلیئر دو طرح کے ہوسکتے ہیں۔ دائمی اور فوری۔ اور دونوں کی علامات میں بھی فرق ہوتا ہے۔ دائمی نوعیت کے ہارٹ فیلیر کا مطلب ہے دل کا رفتہ رفتہ کمزور پڑنا اور پورے جسم پر اس عمل کا منفی اثر مرتب ہونا۔ یہ چونکہ مستقل نوعیت کا معاملہ ہوتا ہے اس لیے معمول کا درجہ رکھتا ہے جبکہ فوری نوعیت کے معاملے میں دل کی تکلیف اچانک بڑھ جاتی ہے اور خون مطلوبہ مقدار میں مطلوبہ رفتار سے پمپ نہ ہو پانے کے باعث پورے جسم کو اس کا فوری منفی نتیجہ بھگتنا پڑتا ہے۔ ’’سڈن ہارٹ فیلیر‘‘ کی صورت میں دل اچانک تکلیف سے دوچار ہوتا ہے اور یہ کیفیت تیزی سے ختم بھی ہو جاتی ہے۔ ہارٹ فیلیر سے دل کا کوئی بھی حصہ یا دونوں حصے بھی متاثر ہوسکتے ہیں۔

دل کی ناکامی یعنی اس کے کمزور پڑنے کے بہت سے اسباب ہوسکتے ہیں۔ غیر صحت بخش خوراک، ورزش کی کمی، موٹاپا، الل ٹپ طرزِ زندگی، تمباکو کا استعمال، غیر معمولی تیزابیت، دل کی دھڑکنوں کا بے ترتیب ہو جانا، دل کے والوز کی خرابی، بے حد شراب نوشی، منشیات کا استعمال، روزمرہ خوراک میں نشہ آور اجزا کا استعمال، فضائی آلودگی، نیند کی کمی، خراٹے، ہائی بلڈ پریشر وغیرہ مستقل نوعیت کے اسباب ہیں۔ ذیابیطس اور چند دوسرے امراض بھی شدید تر ہوکر دل کے امراض کا دائرہ وسیع کرتے ہیں۔

علامات کے سست رفتاری سے ابھرنے کے علاوہ دل کے امراض کو انتہائی خطرناک بنانے والا ایک اہم عامل یہ بھی ہے کہ کئی اسباب بیک وقت کارفرما ہوسکتے ہیں۔ آج کے انتہائی ہنگامہ پرور اور بے ہنگم طرزِ زندگی نے ہمیں ایسی کیفیت سے دوچار کردیا ہے جس میں دل کے امراض کے پنپنے کی گنجائش غیر معمولی حد تک بڑھ گئی ہے۔

ہارٹ فیلیر وہ مرض ہے جو رفتہ رفتہ پروان چڑھتا ہے اور انسان کو اس کا اچانک اندازہ نہیں ہو پاتا، اس لیے اس کی علامات پر نظر رکھنا لازم ہے تاکہ بروقت احتیاطی تدابیر اختیار کی جاسکیں۔ آیے، دل کے کمزور پڑنے کے مرض کی علامات پر ایک نظر ڈالیں۔

۔۔ سانس کا دورانیہ کم ہو جانا: اٹھنے اور بیٹھنے پر سانس کا دورانیہ گھٹ جاتا ہے اور ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ پھیپھڑوں میں مواد یا رطوبت جمع ہو جاتی ہے۔

۔۔ ٹخنوں کا سوج جانا: دل کے امراض کا شکار ہو جانے والوں کے ٹخنوں میں سوجن ہو جاتی ہے کیونکہ ان میں رطوبت جمع ہو جاتی ہے۔

۔۔ دائمی تھکن: جسم میں خون کی گردش کم ہو جانے سے انسان جلدی تھک جاتا ہے یا پھر ہر وقت تھکن سوار رہتی ہے۔ رطوبت بڑھ جانے سے پھیپھڑوں کی کارکردگی کا گھٹ جانا بھی تھکن میں اضافہ کرتا ہے۔

۔۔ بھوک کا گھٹ جانا: دل جیسے جیسے کمزور ہوتا جاتا ہے، خون کی گردش بھی گھٹتی جاتی ہے۔ اس کے نتیجے میں بھوک بھی کم ہوتی جاتی ہے۔

۔۔ وزن میں اضافہ: شریانوں میں رطوبت کا تناسب بڑھ جانے سے دل مزید کمزور ہو جاتا ہے اور یوں وزن میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔

۔۔ پیشاب کم آنا: جسم میں خون کی گردش کم ہو جانے سے گردے بھی زیادہ کام نہیں کرتے اور یوں پیشاب بھی کم آتا ہے۔

۔۔ دوڑتا ہوا دل: دل کے امراض میں مبتلا افراد کو کبھی کبھی دل بہت تیزی سے دھڑکتا، بلکہ دوڑتا ہوا محسوس ہوتا ہے کیونکہ وہ خون کو زیادہ سے زیادہ پمپ کرنے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے۔

سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ یہ تمام علامات یا ان میں بیشتر ایسی نرم اور بے ضرر سی محسوس ہوتی ہیں کہ انسان نوٹس نہیں لیتا۔ دل کے امراض سے بہتر طور پر نمٹنے کا کلیدی نکتہ یہ ہے کہ بروقت تشخیص ہو اور علاج بھی بروقت شروع کیا جائے۔

دل کے بیشتر امراض کے حوالے سے بنیادی نوعیت کی معلومات کا زیادہ سے زیادہ پھیلانا غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ ہارٹ فیلیر کے کیس میں مریض کا اپنی بیماری سے بروقت آگاہ ہونا لازم ہے تاکہ احتیاطی تدابیر اختیار کرنا زیادہ دشوار ثابت نہ ہو۔ اگر لوگوں کو اس بیماری کے بارے میں زیادہ سے زیادہ بتایا جائے، بہتر اور متوازن خوراک یقینی بنانے پر مائل کیا جائے، باقاعدگی سے ورزش کرنے کی تحریک دی جائے تو اسپتال سے دور رہنا اور خاصی صحت مند زندگی بسر کرنا ممکن ہوسکتا ہے۔

(ترجمہ: ایم ابراہیم خان)

“Heart failure is the silent killer you’ve been ignoring”. (“Times of India”. Oct. 9, 2019)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*