
اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکا اور یورپ کی افواج افغانستان میں بری طرح پھنس چکی ہیں۔ طالبان کو شکست دینا بظاہر ناممکن ہے۔ ہر گزرتا ہوا دن ان کی طاقت میں اضافہ کر رہا ہے۔ ایسے میں بہتر یہ ہے کہ مغربی اقوام جلد از جلد اپنا بوریا بستر افغان سرزمین سے لپیٹیں اور رخصت لیں۔ مگر یہ ایسا آسان نہیں جیسا دکھائی دیتا ہے۔ اگر اتحادیوں نے افغانستان میں امن اور استحکام کو یقینی بنائے بغیر رخصت لی تو بہت بھد اڑے گی۔
امریکا نے افغانستان میں جو جنگ لڑی ہے وہ اب اس کی طویل ترین جنگ میں تبدیل ہوچکی ہے اور زمینی فتح اب تک ممکن دکھائی نہیں دے رہی۔ اگر امریکا افغانستان میں طالبان کو مکمل شکست دینا اور زمینی فتح کو یقینی بنانا چاہتا ہے تو اسے مزید کئی سال وہاں قیام کرنا پڑے گا۔ صدر بارک اوباما نے افغانستان سے مکمل انخلا کے لیے ۲۰۱۴ء کی ڈیڈ لائن مقرر کی ہے۔ امریکا کو کئی مسائل کا سامنا ہے۔ طالبان کو سرحد پار پاکستان میں پناہ گاہیں میسر ہیں۔ دوسری طرف افغان قیادت بھی قابل اعتبار نہیں کیونکہ وہ صورت حال کے مطابق اپنی پالیسی تبدیل کرنے اور وعدے بھول جانے کی عادی ہے۔ اور پھر ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ افغانستان میں دل جیتنے کا مشن کس طور مکمل کیا جائے۔ اس امر پر بھی امریکیوں میں بحث ہوتی رہی ہے کہ افغانستان میں دل جیتنے کی کوشش کرنا ضروری ہے یا نہیں؟ امریکا کی روایتی فورسز اب تک طالبان کو ختم کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ امریکا کی اسپیشل آپریشن فورسز نے طالبان کو جانی نقصان پہنچانے اور قیادت کو ختم کرنے میں مرکزی کردار ادا کیا ہے۔
گزشتہ سال صدر اوباما نے مزید تیس ہزار فوجی افغانستان بھیجے۔ یہ اقدام طالبان کی کمر توڑنے میں کارگر ثابت ہوا۔ ہلمند اور چند دوسرے صوبوں میں طالبان کا زور توڑنے میں خاصی مدد ملی۔ مگر دوسری طرف افغانوں نے اپنا کردار پوری ایمانداری سے ادا نہیں کیا۔ مجھے یاد ہے کہ میں نے ۲۰۰۹ء میں امریکی میرینز کے ساتھ ہلمند کے ایک علاقے کا سفر کیا تو سارجنٹ بل کہیر نے مقامی عمائدین کو یقین دلایا کہ انہیں خوراک اور تحفظ فراہم کیا جائے گا اور جواب میں انہیں طالبان تک صرف ایک پیغام پہنچانا تھا کہ ’’اب امریکی انہیں کسی طور برداشت نہیں کریں گے‘‘۔ عمائدین نے صاف انکار کردیا اور ایک ہفتے کے بعد اسی علاقے میں بل کہیر طالبان سے جھڑپ میں مارا گیا۔ اس علاقے میں طالبان کا زور توڑنے میں اب تک امریکی فوج نے کئی اقدامات کیے ہیں۔ فوج کے علاوہ مقامی پولیس میں بھی بڑے پیمانے پر نئی بھرتیاں کی گئی ہیں۔ پرانے اور ناقابل اعتبار پولیس چیف کو فارغ کردیا گیا۔ دیہی ترقی پر بھی اچھی خاصی رقم خرچ کی گئی مگر اس کے باوجود اب تک کسی بھی دیہاتی نے بل کیہر کو مارنے والے طالبان کی نشاندہی سے گریز کیا ہے۔
امریکی فوج نے ہلمند میں کئی آپریشن کیے ہیں۔ مقامی آبادی اب بھی طالبان سے خوفزدہ ہے اور امریکیوں سے تعاون سے گریزاں ہے۔ ان میں سے ۶۰ فیصد نے بتایا ہے کہ امریکی میرینز کی موجودگی ان کے لیے تحفظ کی ضمانت نہیں۔ وہ طالبان کی حکومت نہیں چاہتے مگر انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ ایک دن امریکی فوج افغان سرزمین سے چلی جائے گی۔ تب طالبان بھی دوبارہ اقتدار میں آسکتے ہیں۔ ایسا ہوا تو بہت خرابی ہوگی۔ اس خرابی سے بچنے کے لیے وہ غیر جانبدار حیثیت میں کام کرنا چاہتے ہیں۔ امریکی جنرل ڈیوڈ پیٹریاس نے افغان عوام کو پروفیشنل گرگٹ قرار دیا ہے۔ ان کا استدلال ہے کہ جب تک انہیں کسی افغان گروپ کی واضح فتح کا یقین نہیں ہو جائے گا تب تک وہ میدان میں نہیں آئیں گے۔
امریکی فوج کو لازمی طور پر افغان فوج کے ہاتھ مضبوط کرنے ہوں گے تاکہ وہ طالبان کو شکست دینے کے قابل ہو جائے۔ اگر ایسا نہ ہوسکا تو افغانستان میں حقیقی فتح ممکن نہ ہوسکے گی۔ لوگوں کے دل جیتنے سے زیادہ توجہ طالبان کو ہرانے پر دی جانی چاہیے۔ افغان نیشنل آرمی اب تک اس پوزیشن میں نہیں کہ طالبان سے بہتر طور پر نمٹ سکے۔ یہ کام اسی وقت ممکن ہے جب افغان فوج کو بڑے پیمانے پر ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ بھرپور تربیت فراہم کی جائے۔ ہلمند کے علاقے مرجا میں یہ تجربہ کامیاب رہا ہے۔ مرجا میں فوجی آپریشن کے دوران افغان فوجیوں کو ساتھ ساتھ رکھا گیا۔ اسپیشل فورسز کو کئی امور میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ افرادی قوت کی کمی کے ساتھ ساتھ مشاورت کی کمی بھی واضح طور پر محسوس کی گئی۔ مقامی سطح پر مخبر بھی بڑی تعداد میں درکار تھے جو میسر نہ آسکے۔ دیسی بموں سے بچاؤ کے لیے بھی مربوط حکمت عملی درکار تھی جو ممکن نہ ہوسکی۔ امریکیوں کو بخوبی اندازہ تھا کہ طالبان کا لڑنے کا انداز بہت سفاک ہے اور وہ کسی بھی طور دشمن کو معاف نہیں کرتے۔ ایسے میں ان سے مقابلے کے لیے بھرپور کارروائی ناگزیر تھی۔
امریکیوں نے ہلمند میں بڑے پیمانے پر کارروائیوں کے دوران افغان فوجیوں کو ساتھ رکھا تاکہ ان کا حوصلہ بلند ہو۔ انہیں اندازہ تھا کہ جب تک اتحادی افواج خود آگے نہیں بڑھیں گی، افغان فوجی بھی پیچھے ہی رہیں گے۔ امریکی میرینز نے بھی آپریشن میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ افغان فوج کو تربیت اور مورال دونوں کی ضرورت ہے۔ امریکیوں کو اس ضرورت کا پوری شدت سے احساس ہے۔ انہیں افغانستان کے زمینی حقائق اور انخلا کے بعد کی ممکنہ صورت حال کا بھی بخوبی احساس اور اندازہ ہے۔
اگر امریکی افغانستان میں فتح چاہتے ہیں اور تعیناتی یا قیام کو طول دینے کا ارادہ نہیں تو انہیں لازمی طور پر ایسے اقدامات کرنے ہوں گے جن سے ایک طرف تو تعمیر نو ہو اور دوسری طرف امریکی فوج طالبان کو شکست دینے کی بھرپور تیاری میں لگی رہے۔ اس معاملے میں دفتر خارجہ اور محکمہ دفاع کو اپنے اپنے طور پر اقدامات کرنے ہوں گے۔
(بنگ ویسٹ ’’دی رانگ وار‘‘ کے مصنف ہیں)
(بشکریہ: ’’نیوز ویک پاکستان‘‘۔ ۱۱؍ جنوری ۲۰۱۱ء)
Leave a Reply