انسانی ترقی کی ایک سنگین اور نشان زد تباہی کی جانب دنیا بڑھ رہی ہے جو بچوں کی غیرضروری اموات ‘ ناخواندگی اور انتہائی درجہ کی غربت سے عبارت ہے۔ اسے ٹالا نہیں جاسکتا ہے‘ تاآنکہ امدادی رقوم میں اضافے‘ مغربی مارکیٹوں کو کھولنے اور تصادم کو ختم کرنے کے اقدامات کئے جائیں۔ گذشتہ ہفتے یہ انتباہ اقوام متحدہ کی طرف سے جاری ہوا ہے۔ آئندہ ہفتے نیویارک میں ہونے والی کانفرنس اس امر کا جائزہ لے گی کہ (MDG,s) Millennium Development Goals جن کا تعین ۵ سال پہلے اتفاق رائے سے ہوا تھا‘ ان میں سے کتنے حاصل کئے جاسکے۔ اس اجلاس سے قبل کی ایک رپورٹ ظاہر کرتی ہے کہ اقوامِ متحدہ کے رکن ممالک کی اس سمت میں پیش رفت مایوس کن حد تک سست ہے اور یہ کہ جو وعدے دنیا کے غریبوں سے کیے گئے تھے‘ وہ پامال ہو رہے ہیں۔ تنظیم کی ہیومن ڈولپمنٹ سے متعلق سالانہ رپورٹ یہ نتیجہ اخذ کرتی ہے کہ یہ سال ایک دو راہے کو جنم دیتا ہے۔ ایک راستہ یہ ہے کہ ترقی کے لیے ایک دہائی مخصوص کی جائے اور دوسری راہ یہ ہے کہ معاملے کو معمول کے مطابق چلنے دیا جائے۔ رپورٹ میں آگے درج ہے کہ ’’یہ ایک انتخاب ہے جس کے نتیجے میں سیاسی رہنمائوں کی نئی نسل تاریخ میں جائے گی ایسے رہنما کی حیثیت سے جو Millenium development goals کو اپنی نگرانی میں ناکام ہوتا دیکھتے ہیں۔ عمل کرنے کے بجائے اقوامِ متحدہ کا یہ اجلاس دولت مند ممالک کے ساتھ مل کر بلند بانگ اعلانات کی ایک اور فہرست جاری کر دے گا جن میں الفاظ کی پیشکش زیادہ ہو گی‘ اقدام کوئی نہیں ہو گا‘‘۔ رپورٹ کچھ ترقی کا بھی ذکر کرتی ہے جس میں طوالتِ عمر میں ۲ سال کا اضافہ‘ بچوں کی اموات میں سالانہ ۳۰ لاکھ کی کمی‘ اسکول جانے والے بچوں کی تعداد میں مزید تین کروڑ کا اضافہ اور ۱۳ کروڑ لوگوں کا انتہائی غربت کی سطح سے باہر آنا شامل ہے۔ اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ ان کامیابیوں کو حقیر نہیں سمجھنا چاہیے اور نہ ہی ان کے حوالے سے مبالغہ آرائی کرنی چاہیے۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق ۱۸ ممالک جن کی مشترک آبادی ۴۶ کروڑ ہے‘ ۱۹۹۰ء کے مقابلے میں ہیومن ڈولپمنٹ کے حوالے سے کمتر ریکارڈ قائم کیے ہیں جو کہ ایک ایسی گراوٹ ہے جس کی مثال پہلے نہیں ملتی۔ ہیومن ڈولپمنٹ انڈیکس طوالتِ عمر‘ خواندگی اور آمدنی کا احاطہ کرتا ہے۔ اس کی فہرست میں ٹاپ کے پانچ مقام پر Scandinivian ممالک ہیں اور نیچے کے ۲۵ نمبروں پر Sub-saharan افریقی ممالک ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ’’عالمی معیشت کی روز افزوں ترقی کے درمیان ایک کروڑ ستر لاکھ بچے ایسے ہیں جو ہر سال اپنی عمر کے ۵ سال پورے ہونے سے پہلے ہی مر جاتے ہیں۔ ایک ارب لوگ اپنی روزانہ ایک ڈالر سے بھی کم آمدنی کے ساتھ انتہائی غربت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ انسانیت کا ۵/۱ حصہ ایسے ممالک میں رہتا ہے‘ جہاں بیشتر لوگ دو ڈالر ایک کافی کے کپ پر خرچ کرنے سے زیادہ کچھ نہیں سوچتے۔ انسانیت کا دوسرا پانچواں حصہ یومیہ ایک ڈالر سے بھی کم آمدنی پر گزارا کرتا ہے اور جہاں بچے محض مچھر دانی دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے مر جاتے ہیں‘‘۔
رپورٹ نے ایچ آئی وی / ایڈز کو ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ بتاتے ہوئے اسے ۱۴ویں صدی کی سیاہ موت کے بعد سے دنیا کی مہلک ترین وبا قرار دیا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق ذیمبیا میں اس وقت طوالتِ عمر کا اوسط ۱۸۴۰ء کے برطانیہ سے بھی کم تر ہے۔ ۲۰۰۳ء میں وبائی امراض نے ۳۰ لاکھ لوگوں کی جانیں لیں اور ۵۰ لاکھ لوگ ان سے جراثیم زدہ ہو کر بیچارہ Sub-saharan افریقہ میں بچوں کی شرحِ اموات مستقل بڑھ رہی ہے۔ اس خطے میں پیدائش کی شرح پوری دنیا کا ۲۰ فیصد ہے جبکہ بچوں کی شرحِ اموات ۴۴ فیصد ہے۔ لیکن ترقی میں یہ سست رفتاری اس خطے سے ماورا بھی ہے۔ گلوبلائزیشن سے کامیابی سے استفادہ کرنے والے ممالک جن میں چین اور بھارت بھی شامل ہیں‘ اپنی بڑھتی ہوئی آمدنی سے بچوں کی شرح اموات کم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ انسانی ترقی کی گہری ناہمواری مسئلے کی اصل جڑ ہے۔ Millenium Development Goals (MDGs) کے بہت سارے اہداف سے غریب اور محروم طبقہ فائدہ نہیں اٹھا پاتا ہے۔ دنیا کی غریب ترین ۲۰ فیصد آبادی میں بچوں کی شرح اموات دنیا بھر کی شرحِ اموات کی نصف سے تھوڑا کم ہے۔ چونکہ ۲۰ فیصد غریب ترین آبادی بچوں کی شرحِ اموات کی سب سے اونچی شرح رکھنی ہے لہٰذا مجموعی شرحِ ترقی میں کمی MDGs کے حصول کی رفتار کو سست کر دیتی ہے۔
رپورٹ اس حقیقت پر سے پردہ اٹھاتی ہے کہ دنیا کے صرف ۵۰۰ لوگوں کی مجموعی آمدنی دنیا کے غریب ترین ۴۱ کروڑ ۶۰ لاکھ افراد کی مجموعی آمدنی سے زیادہ ہے۔ ڈھائی ارب لوگ یا دنیا کی آبادی کا ۴۰ فیصد حصہ روزانہ ۲ ڈالر سے بھی کم آمدنی پر گزارا کرتا ہے۔ دنیا کے ۱۰ فیصد امیر ترین لوگوں کی آمدنی کا ۵۶ء۱ فیصد یعنی ۳۰۰ بلین ڈالر مددگار ثابت ہو سکتا ہے دنیا کے ایک ارب لوگوں کو انتہائی غربت کی حالت سے باہر نکالنے میں جو کہ ایک ڈالر سے بھی کم کی روزانہ آمدنی پر گزارہ کر رہے ہیں۔ یہ رقم بھی ان کی غربت میں عارضی طور سے ہی راحت پہنچانے کے قابل ہے۔ اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ غربت میں پائیدار کمی کے لیے فعال طریقوں کو اختیار کرنے کی ضرورت ہے جو غریب ممالک اور ان کے باشندوں کو محرومی سے باہر آنے کے لیے اپنا راستہ خود تلاشنے پر ابھارتے ہوں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امدادی رقوم بڑھائی جائیں‘ تجارتی رکاوٹوں کو ختم کیا جائے اور خانہ جنگی کو روکا جائے۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’ڈان‘‘۔ ۹ ستمبر ۲۰۰۵۔ گارجین نیوز سروس)
Leave a Reply