
حال ہی میں ملائیشیا میں انتخابات ہوئے ہیں اور ۹۲ سالہ مہاتر محمد کامیاب ہوئے ہیں۔ انتخابی نتائج کو دنیا نے حیرت کی نظر سے دیکھا ہے۔ مہاتر محمد ۹۲ سال کی عمر میں بھی عوام کے لیے قابل قبول ٹھہرے ہیں۔ انہیں ملنے والا ووٹ بتاتا ہے کہ عوام قیادت کے وصف کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔ اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ مہاتر محمد نے ملک کی کایا پلٹ دی۔ انہوں نے دو عشروں سے بھی زائد مدت تک ملک کو بھرپور امن و استحکام اور ترقی کی راہ پر گامزن رکھا۔ بعد میں ان کے سِکھائے ہوئے لوگوں ہی نے ملک کو چلایا۔ اختلافات سے قطع نظر، حقیقت یہ ہے کہ مہاتر محمد ملائیشیا کے عوام کے لیے فرق پیدا کرنے والے رہنما ہیں۔ اُن کی قیادت میں ملک کہیں سے کہیں پہنچ گیا۔
۱۹۵۷ء میں آزادی ملنے کے بعد سے ملائیشیا میں انتخابات باقاعدگی سے منعقد ہوتے رہے ہیں۔ اب تک ایک ہی سیاسی اتحاد نے الیکشن لڑا تھا۔ ۲۰۱۴ء کے عام انتخابات نے البتہ ملائیشیا کی سیاست کی تصویر کا ایک الگ ہی رخ دکھایا۔ اپوزیشن نے بریسان نیشنل کو غیر متوقع طور پر اور بڑے فرق سے شکست دی۔ پکاتان ہرپان نے ۲۲۲ نشستوں کی پارلیمنٹ میں ۱۲۲ نشستیں حاصل کی ہیں۔ مہاتر محمد نے ریٹائرمنٹ ترک کرکے دوبارہ سیاست میں قدم رکھا ہے اور ۹۲ برس کی عمر میں دنیا کے معمر ترین وزیراعظم بن کر انہوں نے دنیا کو حیرت زدہ کردیا ہے۔ یہ تو ایسی کہانی ہے کہ کئی نسلوں تک سنائی جاسکتی ہے۔
جنوب مشرقی ایشیا کے خطے میں جمہوریت مشکلات سے دوچار رہی ہے۔ جمہوریت کے مشکل میں ہونے سے سیاسی استحکام بھی دور رہا ہے اور معاشی معاملات بھی الجھن کا شکار رہے ہیں۔ جمہوریت سے محبت کرنے والوں کے لیے یہ خوشخبری ہی تو ہے کہ ملائیشیا میں جمہوریت جیت گئی ہے۔ جمہوریت کی توسیع اور فروغ کے حوالے سے دیکھیے تو ملائیشیا کے انتخابات ہمیں پانچ اہم درس دیتے ہیں۔
۱۔ جمہوریت وقت چاہتی ہے!
سیاسی تجزیہ کار ایک زمانے سے کہتے آرہے ہیں کہ جمہوریت کو جڑ پکڑنے اور مضبوط ہونے میں بہت وقت لگتا ہے۔ اس سفر میں کئی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کبھی کبھی ایسا لگتا ہے جیسے سبھی کچھ الٹ پلٹ گیا ہے۔ کبھی اچانک کوئی بڑی فتح ملتی ہے اور کبھی اچانک بڑی شکست سامنے آجاتی ہے۔ بہت سے عوامل ہیں جو جمہوری عمل پر بری طرح اثر انداز ہوتے ہیں۔ معاشی ابتری، پڑوسی ممالک کے حالات، معاشرتی بگاڑ اور اشرافیہ کا رویہ، یہ تمام معاملات مل کر صورتِ حال کو پیچیدہ بناتے ہیں اور یوں جمہوریت کو بہت سے معاملات میں سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے۔ عالمی حالات بھی معاملات کو بہت بگاڑ دیتے ہیں۔ عالمی معیشت کی پیچیدگیاں جمہوری عمل پر زیادہ اثر انداز ہوتی ہیں۔ مطلق العنان حکمران تو ہر معاملے کو اپنی مرضی سے مشروط قرار دے بیٹھتے ہیں۔ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مطلق العنان حکمرانوں کے ہاتھوں ملک کو جس خسارے کا سامنا کرنا پڑتا ہے اُس سے جمہوری عمل بھی متاثر ہوتا ہے۔ جمہوری طور پر قائم ہونے والی حکومتوں کو گزرے ہوئے ادوار کی چھوڑی ہوئی اچھی خاصی خرابیوں سے نبرد آزما ہونا پڑتا ہے۔
۱۹۹۸ء کئی دوسرے ممالک کی طرح ملائیشیا اور انڈونیشیا کے لیے بہت اہم تھا۔ عالمی معاشی بحران نے دونوں ممالک کو غیر معمولی سطح پر نقصان پہنچایا تھا۔ ملک میں حقیقی سیاسی تبدیلی کی راہ ہموار ہوئی۔ انڈونیشیا میں سوہارتو کی آمریت کے خلاف اصلاحات کی تحریک اٹھ کھڑی ہوئی۔ یوں انڈونیشیا آمریت کے پنجے سے نکل سکا۔
ملائیشیا میں مہاتر محمد نے اپنے نائب انور ابراہیم کو مختلف الزامات کے تحت برطرف کرکے جیل بھیج دیا۔ جیل میں رہتے ہوئے بھی انور ابراہیم نے تحریک جاری رکھی۔ اور پھر تبدیلی اس طور آئی کہ بیس سال بعد مہاتر محمد اور انور ابراہیم نے مل کر نجیب رزاق کا تختہ الٹا۔ بیس سال کی محنت شاقّہ کے بعد مہاتر محمد اور انور ابراہیم ایک ایسا اتحاد تشکیل دینے میں کامیاب ہوئے جس میں سیاسی و سماجی دونوں ہی سطح کے کردار ہیں۔ ان میں نسل پرست بھی ہیں اور وطن پرست بھی۔
جنوب مشرقی ایشیا میں جمہوریت کمزور اور مشکلات سے دوچار رہی ہے۔ آمریت کا بول بالا رہا ہے اور اس کے مقابلے میں کھڑے ہونے والوں کو سو طرح کی مشکلات کا سامنا رہا ہے۔ اس حقیقت سے البتہ کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ حقیقی جمہوری تبدیلی کے لیے ڈیڑھ دو عشروں تک محنت کرنا پڑتی ہے۔
۲۔ اسلام اور جمہوریت ساتھ ساتھ
ملائیشیا اور انڈونیشیا مسلم اکثریت کی حامل ریاستیں ہیں۔ مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقا کی مجموعی مسلم آبادی کے برابر مسلمان ان دو ممالک میں آباد ہیں۔ انڈونیشیا نے ۴۰ سالہ آمریت کو ۲۰ سال قبل ختم کیا۔ اور تب سے اب تک جمہوریت کا سفر عمدگی سے جاری ہے۔ ملک مجموعی طور پر مستحکم ہے اور کسی بھی بڑے معاشی بحران کو جھیلنے کی طاقت رکھتا ہے۔ گزشتہ عشرے کے دوران انڈونیشیا میں جمہوریت کو چند ایک مشکلات درپیش رہی ہیں اور جمہوری ادارے کچھ کمزور بھی ہوئے ہیں۔ ملائیشیا کے حالیہ انتخابات کے نتائج البتہ کچھ امید دلاتے ہیں۔ پڑوس کے حالات کا انڈونیشیا پر بھی اثر ضرور پڑے گا۔ انڈونیشیا میں آئندہ سال صدارتی انتخاب ہونے والا ہے۔ توقع کی جارہی ہے کہ ملائیشیا میں رونما ہونے والی سیاسی تبدیلیاں انڈونیشیا کو بھی مثبت تبدیلیوں کی منزل تک پہنچائے بغیر دم نہیں لیں گی۔ خطے کے دیگر ممالک بھی ملائیشیا میں رونما ہونے والی تبدیلی کو حیرت سے دیکھ رہے ہیں۔ خطے میں آمریت کا دور اب تک چل رہا ہے۔ فلپائن میں صدر ڈیوٹرٹ کی شکل میں ایک مطلق العنان حکمران موجود ہے۔ ایسے میں لگتا ہے کہ ملائیشیا اور انڈونیشیا ہی خطے کی واحد جمہوریتیں رہ جائیں گی۔ ملائیشیا اور انڈونیشیا نے دنیا کو دکھا دیا ہے کہ اسلام اور جمہوریت کو ساتھ ساتھ چلنے سے کوئی بھی نہیں روک سکتا۔ سوال صرف ارادے اور تیاری کا ہے۔
۳۔ قائدانہ کردار
کون قیادت کرے گا یہ بات اہم ہے مگر اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ قیادت کس طور کی جائے گی۔ مہاتر محمد اور انور ابراہیم نے ملک کی خاطر ذاتی اختلافات کو ایک طرف ہٹادیا۔ مہاتر محمد ہی نے انور ابراہیم کو جیل بھجوایا تھا مگر انہوں نے یہ سب کچھ بھول کر مہاتر محمد کو جس انداز سے معافی دی ہے اُس سے نیلسن مینڈیلا کی یاد تازہ ہوگئی ہے۔ گزشتہ بیس میں سے آٹھ برس انور ابراہیم نے جیل میں گزارے۔ اس دوران وہ حزب اختلاف کو مستحکم کرنے میں مصروف رہے۔ انہوں نے نسلی بنیاد پر بھی اتحاد کی راہ ہموار کی اور مذہبی بنیاد پر بھی۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ قیادت کے لیے تیاری کس طور کی جاتی ہے۔ انور ابراہیم نے جیل میں رہتے ہوئے جس طور حزب اختلاف کو متحرک رکھا اور خود کو قیادت کے لیے تیار کیا وہ دنیا بھر میں پسماندہ اور ترقی پذیر جمہوری معاشروں کے لیے ایک بڑا پیغام ہے۔ ابھرتی ہوئی جمہوریتوں کے لیے انور ابراہیم تحریک و تحرک کا ایک بڑا ذریعہ ثابت ہوسکتے ہیں۔
انور ابراہیم کی اہلیہ ڈاکٹر وان عزیزہ وان اسماعیل ایسی ہستی ہیں جن کی زیادہ ستائش نہیں کی گئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے حزب اختلاف کو مستحکم کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ انہی کی کوششوں سے مختلف النسل اور سیاسی طور پر مختلف الخیال افراد کو ایک سیاسی پلیٹ فارم پر آنے کا موقع ملا۔ وہ نئی نائب وزیر اعظم ہیں اور اپنے ملک ہی کی نہیں بلکہ دنیا بھر کی عورتوں کے لیے ایک روشن مثال بن کر ابھری ہیں۔
۴۔ سوشل میڈیا کا کردار
فی زمانہ کسی بھی بڑی سیاسی یا معاشرتی تبدیلی کو یقینی بنانے میں سوشل میڈیا کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ ملائیشیا میں بھی سوشل میڈیا نے تبدیلی یقینی بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ سوال انتخابات یا مہاتر محمد سے زیادہ اس بات کا تھا کہ مہاتر محمد اور انور ابراہیم کے درمیان تعلقات کی نوعیت کیا رہتی ہے۔ دونوں نے اپنے ماضی کو ایک طرف ہٹاکر نئے منظرنامے کی راہ ہموار کی۔ یہ بہت بڑی تبدیلی تھی اور سوشل میڈیا نے بھی اس حوالے سے اہم کردار ادا کیا۔
انور ابراہیم نے ۱۹۹۸ء میں مہاتر محمد کے خلاف تحریک کھڑی کرنے میں انٹر نیٹ کا خوب سہارا لیا تھا۔ تب فیس بک تھی نہ ٹوئیٹر۔ ایسے میں ویب سائٹس کا قیام لازم تھا۔ انور ابراہیم کی آئی ٹی ٹیم نے ہم خیال ویب سائٹس کا جال بچھاکر اپوزیشن کو مستحکم تر بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ ملائیشیا میں انٹر نیٹ پر سینسر شپ کی روایت نہیں رہی۔ اس کا کریڈٹ بہت حد تک انور ابراہیم اور ان کی ٹیم کو جاتا ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے انہوں نے ملائیشیا کو معاشرتی اور سیاسی اعتبار سے قابل رشک حد تک تبدیل کیا ہے۔
سال رواں میں رائے عامہ کے ایک جائزے سے معلوم ہوا ہے کہ ملائیشیا میں کم ہی لوگ ہیں جو سرکاری ٹی وی اور سرکاری اخبارات کی بات کو درست سمجھتے ہیں یا اس پر دھیان دیتے ہیں۔ فیس بک، ٹوئٹر اور واٹس اپ کے ذریعے لوگ ایک دوسرے کے خیالات سے واقف ہونے کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ انہیں اندازہ ہے کہ سرکاری ذرائع ابلاغ کے ذریعے تو وہی بات کہی جائے گی جو حکومت کے مفاد کی ہوگی۔ ایسے میں سوشل میڈیا ہی کے ذریعے دل کی بات کہی اور سُنی جاسکتی ہے۔
۵۔ اداروں کی وقعت
ملائیشیا میں اداروں کی توقیر آج بھی عوام کے مزاج کا حصہ ہے۔ لوگ مجموعی طور پر آئین اور قانون کی بالا دستی پر یقین رکھتے ہیں۔ ملائیشیا برطانیہ کے زیر نگیں رہا ہے۔ برطانوی انداز کی جمہوریت نے یہاں جڑ پکڑی۔ آزادی کے بعد ملائیشیا کا نظم و نسق برطانیہ میں تربیت پانے والے وکلاء نے سنبھالا۔ آئین اور قانون کی بالا دستی ملائیشیا معاشرے کا مجموعی مزاج ہے۔ یہی سبب ہے کہ ادارے بہت مستحکم ہیں۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ اپوزیشن نے انتخابی مہم کے دوران جو وعدے کیے تھے انہیں پورا کرنے کی کوشش بھی کرتی ہے یا نہیں۔ ملائیشیا ایک نئے موڑ پر کھڑا ہے۔ ایک سیاسی اتحاد یا جماعت سے اقتدار دوسرے کو منتقل ہونے کا یہ پہلا موقع ہے۔ مہاتر محمد اور ان کے ساتھیوں کے کاندھوں پر ایک بار پھر بھاری ذمہ داری آن پڑی ہے۔ چند برسوں کے دوران ایسا بہت کچھ کیا گیا ہے جس نے معاملات کو غیر معمولی حد تک خرابی کی نذر کیا ہے۔ تعلیمی اداروں پر ریاست کنٹرول زیادہ مضبوط بنانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ بیورو کریسی کو بھی سیاسی اثرات کی حامل بنانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی گئی۔ نئی حزب اقتدار کے لیے اس حوالے سے بہت سی مشکلات پائی جائیں گی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ان مشکلات پر وہ کس طور قابو پاتی ہے۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Here are five reasons why the Malaysian elections matter”. (“themaydan.com”. May 30, 2018)
;;
Leave a Reply