
درد آج پلکوں سے ٹپکتا چلا جا رہا ہے۔ اِدھر سید منور حسن کی حب الوطنی مشکوک ٹھہری، اُدھر عبدالقادر مُلّا کی لاش ڈھاکا کے پھانسی گھاٹ پر جھول رہی ہے۔ ایک زمانے میں بھٹو نے کہا تھا: اُدھر تم اِ دھر ہم۔ البدر کے وارث منور حسن چاہیں تو سارے بانکپن سے کہہ سکتے ہیں: ’’اُدھر بھی ہم اِدھر بھی ہم‘‘۔
لیکن وہ کیا کہیں گے؟ منصورہ بھی خاموش ہے اور حکومت بھی۔ عبدالقادر مُلّا کے لاشے کو زباں ملے تو کہے:
میری نمازِ جنازہ پڑھائی غیروں نے
مرے تھے جن کے لیے، وہ رہے وضو کرتے
لیکن شاید یہ بھی عبدالقادر ملّا کا ایک حسنِ ظن ہی ہو کیونکہ یہاں تو یاروں نے وضو کا تردد بھی نہیں کیا۔منصورہ سے آئی ایس پی آر تک اور پارلیمنٹ سے ایوان صدر تک ایک سکوت طاری ہے۔ کیسے بے نیاز ہیں ہم لوگ، اسی لہو کو بھول گئے، جو ہمارے لیے بہا تھا۔ حادثے کے ذمہ دار البدر کے جوان تو نہ تھے۔ ہمیں تو فوجی حکمرانوں اور بھٹو صاحب کی ہوسِ اقتدار لے ڈوبی۔ جس نے ڈھاکا جانے والوں کی ٹانگیں توڑنے کی دھمکی دی، اُسے ہم نے فخرِ ایشیا بنا دیا اور جس نے دختر انگور کے مٹکے میں شعور اور غیرت ڈبو دی، اُسے ہم نے قومی پرچم میں لپیٹ کر، توپوں کی سلامی دے کر اعزاز کے ساتھ دفنا دیا۔ اور جن پاکبازوں نے اپنی جوانیاں وطن پہ نثار کر دیں، اُنہیں ہم نے گناہ کی طرح بھلا دیا۔ ہتھیار پھینکتے وقت بھی نہیں بتایا کہ ہم تو سرنڈر کرنے والے ہیں، تم بھی اِدھر اُدھر ہو کر اپنی جان بچا لو۔ احباب تو نرسوں کے لیے آئے ہیلی کاپٹرمیں بیٹھ کر فرار ہو گئے، البدر کے جوانوں کا مکتی باہنی نے جی بھر کر قتلِ عام کیا۔ آج وطن سے محبت کے جرم میں ان کے لاشے پھانسی گھاٹ میں جھول رہے ہیں اور ہمارے پاس انہیں دینے کے لیے لفظوں کا کفن بھی نہیں ہے۔ صرف حمید گل بولے ہیں اور انہیں بھی پریشانی دوسری ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت احتجاج کرے، ورنہ بنگلہ دیش آگے بڑھ کر آپ سے فوجی بھی طلب کرے گا۔ مستقبل کے خطرات کا احسا س اچھی بات ہے، اُن کا بھی تدارک کرنا چاہیے، لیکن جو قیامتیں لمحۂ موجود میں اتر رہی ہیں، اُن کا بھی تو کچھ کیجیے۔ کیا البدر کے لوگوں پر ظلم کی مذمت صرف اس لیے کی جائے کہ کل کو بنگلہ دیش ہم سے ہمارے وہ فوجی جوان نہ مانگ لے، جنہوں نے حکمرانوں کی بدمستیوں کا خراج نامساعد حالات میں بھی ادا کیا تھا، کیا البدر پر ہونے والا ظلم فی نفسہٖ قابلِ مذمت نہیں؟ کتنے دکھ کی بات ہے!
کیا ہم جانتے ہیں کہ البدر کیا تھی؟ یہ تنظیم میجر ریاض حسین ملک نے بنائی۔ میجر سے میرا تعلق دو عشروں پر محیط ہے۔ میجر ریاض بتاتے ہیں کہ راجشاہی میں فوج کی نفری کم تھی اور ہمارے لیے ممکن نہیں رہا تھا کہ ہم پُلوں اور راستوں کی نگرانی کر سکیں۔ ایک روز کچھ بنگالی نوجوان ان کے پاس آئے اور کہا کہ دفاعِ وطن کے لیے آپ کے کچھ کام آسکیں تو حاضر ہیں۔ ان جوانوں کا تعلق اسلامی جمعیت طلبہ سے تھا۔ میجر ریاض نے انہیں کہا: ’’ٹھیک ہے، آپ فلاں فلاں پُلوں پر پہرا دیجیے‘‘۔ ایک نوجوان نے کہا: ’’میجر صاحب! ہمیں اپنی حفاظت کے لیے بھی کچھ دیں‘‘۔ یہ وہ دن تھے جب ہائی کمان کی طرف سے حکم آ چکا تھا کہ تمام بنگالیوں کو غیرمسلح کر دو۔ میجر ریاض کی آج بھی آہیں نکل جاتی ہیں، جب وہ بتاتے ہیں کہ یہ سن کر وہ اندر گئے اور سورۂ یٰس کا ایک نسخہ اس جوان کو پکڑا دیا کہ اپنی حفاظت کے لیے میں تمہیں اس کے سوا کچھ نہیں دے سکتا۔ وہ نوجوان چلے گئے، گھر نہیں، بلکہ میجر کے دیے مشن پر۔ انہوں نے بانس کے ڈنڈے بنا لیے اور ندی نالوں اور پلوں پر، جہاں سے مکتی باہنی اسلحہ لاتی تھی، پہرے شروع کر دیے۔ میجر ریاض بتاتے ہیں کہ اس کے بعد انہوں نے اسلحہ نہیں مانگا۔ لیکن میجر کے من کی دنیا اجڑ چکی تھی۔ فوجی ضابطے انہیں عذاب لگ رہے تھے۔ ایک روز تیس کے قریب نوجوان ان کے پاس آئے کہ انہیں بھی اس رضاکار دستے میں شامل کر لیں۔ ان میں ایک بچہ بھی تھا۔ میجر نے اسے کہا، بیٹا! آپ بہت چھوٹے ہو، واپس چلے جاؤ۔ وہ بچہ اپنی ایڑیوں پر کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا:’’میجر شاب! ہُن تو بڑا ہوئے گاشے!‘‘ (میجر صاحب! اب تو بڑا ہو گیا ہوں)۔ میجر تڑپ اٹھے، انہیں معوذ اور معاذ یاد آگئے جن میں ایک نے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں ایسے ہی ایڑیاں اٹھا کر ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ وہ اتنے چھوٹے بھی نہیں کہ جہاد میں حصہ نہ لے سکیں۔ میجر نے اس بچے کو سینے سے لگا لیا۔ ہائی کمان کا حکم پامال کرتے ہوئے، اُن جوانوں کو مسلح کر دیا اور جنگِ بدر کی نسبت سے اس رضاکار دستے کو ’’البدر‘‘ کا نام دے دیا۔ کئی ہفتے بعد ہائی کمان نے ان سے پوچھا کہ ان کے علاقے میں اتنا امن کیسے ممکن ہوا؟ تو میجر نے یہ راز فاش کیا کہ میں نے آپ کی حکم عدولی کی اور میں نے تمام بنگالیوں پر عدم اعتماد نہیں کیا۔ میں نے بنگالیوں کو مسلح کر کے بھارت اور مکتی باہنی کے مقابلے میں کھڑا کر دیا ہے۔ تب یہ رضاکار تنظیم پورے بنگال میں قائم کر دی گئی۔
ایک روز میں نے میجر سے پوچھا کہ ہم میں عمروں کے فرق کے باوجود تکلف باقی نہیں ہے۔’’البدر نے ظلم تو بہت کیے ہوں گے اپنے سیاسی مخالفین پر؟‘‘ یہ سوال سن کر میجر کو ایک چُپ سی لگ گئی۔ کہنے لگے: ’’آصف تم میری بات کا یقین کرو گے؟‘‘ میں نے کہا، میجر صاحب! آپ سے پچیس سال کا تعلق ہے، میرا نہیں خیال کہ آپ جھوٹ بولتے ہیں۔ میجر نے کہا: ’’میں اپنے اللہ کو حاضر ناظر جان کر کہتا ہوں، میں نے البدر کے لوگوں سے زیادہ قیمتی اور نیک لڑکے نہیں دیکھے۔ یہ لڑکے اللہ کا معجزہ تھے۔ میرے علم میں کوئی ایک واقعہ بھی نہیں کہ انہوں نے کسی سے ذاتی انتقام لیا ہو۔ مجھے تو جب یہ پتا چلا کہ ان کی فکری تربیت مودودی نام کے ایک آدمی نے کی ہے، تو اشتیاق پیدا ہوا کہ دیکھوں یہ مودودی کون ہے۔ برسوں بعد جب میں بھارت کی قید سے رہا ہوا، تو میں اپنے گھر نہیں گیا، میں سیدھا اِچھرہ گیا مودودی صاحب کے گھر۔ میں دیکھنا چاہتا تھا کہ وہ شخص کیسا ہے جس نے ایسے باکردار اور عظیم نوجوان تیار کیے‘‘۔
آج یہی البدر پھانسی گھاٹ پر لٹک رہی ہے اور ہم ایک حرفِ مذمت بھی نہیں کہہ سکتے۔ ہم سا بے حس بھی کوئی ہو گا؟ سیکولر مُلّائیت کا تو پیشہ ہی اہلِ مذہب سے نفرت ہے۔ ان مجہول عصبیت فروشوں سے کیا گلہ؟ کیا یہ بھی نامناسب ہوتا کہ آج پارلیمنٹ کے لان میں پاکستان پر قربان ہونے والے عبدالقادر مُلّا کی نمازِ جنازہ ہی پڑھ لی جاتی؟ سماج کدھر ہے؟ کیا سب مر گئے؟
جماعت اسلامی نے بھی کیا قسمت پائی ہے۔ پاک فوج کے شہدا کے بعد اس ملک پر قربان ہونے والوں میں یہ سب سے آگے ہے۔ لیکن
اُدھر بھی یہ غدار، اِ دھر بھی یہ غدار
’’ضبط لازم ہے، مگر دکھ ہے قیامت کا فراز‘‘
(بحوالہ: روزنامہ ’’نئی بات‘‘ کراچی۔ ۱۴؍دسمبر ۲۰۱۳ء)
Leave a Reply