
اسرائیل عرب ۶ روزہ جنگ کے دوران ۶ جون ۱۹۶۷ء کو جبکہ اسرائیلی فوج اس وقت کے وزیرِ دفاع موشے دایان کے زیرِ کمان مصر کے صحراے سنیائی کو عبور کرتے ہوئے آگے بڑھ رہی تھی تو موشے دایان اس وقت کے وزیراعظم Levi Eshkol کے ساتھ ریڈیو ڈیوائس کے ذریعہ مستقل رابطے میں ہوتے تھے۔ چھ عرب فوجوں پر اسرائیل کی اس آسان فتح نے اسرائیلی جنرلوں کو اپنی طاقت کے نشے میں مخمور کر دیا تھا‘ چنانچہ جنرل موشے دایان اپنے وزیراعظم سے یہ مطالبہ کر رہا تھا کہ وہ اسرائیلی فوج کو قاہرہ تک پیش قدمی کرنے کا حکم دے‘ اس وقت تک اسرائیل نے عرب سرزمین کا ۸۰ ہزار مربع کلو میٹر قبضہ کر لیا تھا جو کہ لبنان کے ۸ گنا رقبے کے برابر تھا۔ ان مفتوحہ علاقوں میں غزہ پٹی‘ مغربی کنارہ‘ مشرقی قدس العریش‘ جزیرۂ سینائی‘ شرم الشیخ اور گولان پہاڑی شامل تھے۔ عرب فوجوں کی شکست نے عرب اقوام کے دلوں میں رعب و دہشت بٹھا دی تھی‘ جس کے بعد یہ تصور ان کے دماغوں میں بیٹھ گیا کہ صیہونی فوج ناقابلِ شکست ہے۔ یعنی ان تمام حالات کے نتیجے میں یہ سوچ پروان چڑھی کہ علاقے میں اسرائیل کا کوئی مدمقابل نہیں ہے۔ بہرحال اس چھ روزہ جنگ کے ۳۹ سال بعد صورتحال بڑی حد تک تبدیل ہو چکی ہے۔ اس بار جنوبی لبنان میں اسرائیل کی شکست کی وجہ سے اسرائیلی جنرل صیہونی وزیراعظم ایہود المرٹ سے جنگ بندی کے حکم جاری کیے جانے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ یہ تبدیلی تقدیر کی تبدیلی نہیں ہے بلکہ صورتحال حزب اﷲ کے جوانوں کی دینی سوچ کا نتیجہ ہے۔ لبنان کی مزاحمتی قوت کو یقین تھا کہ اسرائیلی فوج کو ایک طویل گوریلا جنگ میں مصروف رکھ کر شکست دی جاسکتی ہے۔ اگر یہ خیال عرب فوجیوں کا آج سے ۳۹ سال قبل ہوتا تو آج مشرقِ وسطیٰ کی صورتحال بالکل مختلف ہوتی اور صیہونی حکومت و امریکا اپنے ناپاک منصوبوں کو عملی شکل دینے میں یہاں ہرگز کامیاب نہ ہوتے۔ ۱۹۴۸‘ ۱۹۶۷ اور ۱۹۷۳ء میں ہونے والی عرب اسرائیل جنگوں نے تل ابیب کو تقریباً نصف صدی سے علاقے میں واحد فیصلہ ساز قوت ہونے کا موقع فراہم کیا جبکہ عربوں کو ان کے تمام تر اقتصادی‘ جغرافیائی اور انسانی وسائل کی بہتات کے باوجود انہیں کنارے لگا دینے میں کردار ادا کیا۔ اس وقت اسرائیلی فوج ڈھائی سو جوہری اسلحوں کے باوجود شکست و ریخت کے دہانے پر کھڑی ہے۔ پہلی بار اس کو ایسی کمیٹیاں تشکیل دینے کی ضرورت پیش آئی ہے جو جنگ میں شکست کے اسباب کا پتا لگانے پر مامور ہو۔ یہ کمیٹیاں جنگ میں شکست کے اسباب کے حوالے سے اپنی حتمی رپورٹیں وزارتِ جنگ Knesset (اسرائیلی پارلیمنٹ)‘ وزیراعظم اور جوائنٹ چیف آف دی اسٹاف کو پیش کریں گی۔ حزب اﷲ اور اس کی فوجی و سیاسی حیثیت کا معاملہ ملکی‘ علاقائی و بین الاقوامی سطح پر بہت اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ اس ۳۳ روزہ جنگ میں اسرائیل پر حزب اﷲ کی فتح واقعی طور پر خطے میں بہت ساری سیاسی تبدیلیوں کی موجب بنی ہے اور اس نے نام نہاد ’’نئے مشرقِ وسطی‘‘ کے امریکی منصوبے کو ناکام بنا دیا ہے۔ اس مرحلے پر بعض علاقائی اور عرب قوتیں سخت کوششوں میں مصروف ہیں کہ اس طاقتور اسلامی گروہ کو غیرمسلح کر دیا جائے اور سیاسی طور پر تنہا کر دیا جائے۔ حزب اﷲ کے جانبازوں کو لبنانی فوج میں ضم کر دینے کا منصوبہ زیرِ غور ہے۔ اس عمل سے صرف اسرائیل اور امریکا کے مفادات کو تقویت ملے گی اور بالآخر لبنانی فوج ایک ایسی پولیس فورس میں تبدیل کر دی جائے گی‘ جس کا کام جنوبی لبنان کی سرحدوں کو اسرائیل کے لیے محفوظ بنانا ہو گا۔ چنانچہ حزب اﷲ کو ایک سیاسی اور فوجی قوت کی حیثیت سے اپنی پوزیشن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جو اسے اسرائیل پر فتح کے نتیجے میں حاصل ہوئی ہے‘ مقامی اور علاقائی سطح پر فیصلہ سازی کے عمل میں اپنا فعال کردار ادا کرنا ہو گا۔ یہ لبنانی حکومت کی بہت بڑی سیاسی غلطی ہو گی اگر وہ حزب اﷲ کو علاقائی اور بین الاقوامی دباؤ میں آ کر لبنانی فوج میں ضم کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ اس طرح کے اقدام سے لبنانی حکومت اسرائیل کو حملے سے باز رکھنے کی قوت (Deterrent Power) سے محروم ہو جائے گی۔
(بشکریہ: ’’تہران ٹائمز‘‘۔ شمارہ: ۷ ستمبر ۲۰۰۶ء)
Leave a Reply