امریکا سے بہتر تعلقات کی اُمید رکھنا حماقت ہے!

سوال: عمران خان پاکستان کے نئے وزیر اعظم بن گئے ہیں۔حکومت سے باہر ہوتے ہوئے کیا آپ کو لگتا ہے اس سے ملک میں جاری جاگیردارانہ سیاست کا تسلسل ٹوٹے گا؟

جواب: وزیراعظم کے سوا اہم حکومتی عہدوں پر تعینات تقریباََ تمام ہی افراد ماضی میں کسی نہ کسی حکومت کا حصہ رہ چکے ہیں۔ وزیراعظم ان پرانے سیاست دانوں میں گھرے ہوئے ہیں، جو ماضی کی حکمران جماعتوں کے ساتھ رہے ہیں۔ موجودہ کابینہ شروع میں چھوٹی اور فعال تھی۔ لیکن اب کابینہ میں نئے افراد کااضافہ ہو رہا ہے۔ حکومت نئے نئے کام کر رہی ہے۔ جیسے کہ سرکاری گاڑیوں کی نیلامی کرنا۔ لیکن حکومت کو غیر ملکی وفود کی نقل و حرکت کے لیے گاڑیوں کی ضرورت ہوگی۔ حکومت کی اب تک کی کارکردگی اگر ماضی کی حکومتوں سے بُری نہیں تو بہتر بھی نہیں ہے۔

سوال: امریکا نے پاکستان کی دفاعی امدادبند کردی ہے، لیکن وہ اب بھی پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات کا خواہاں ہے۔ آپ اس تبدیلی کو کیسے دیکھتی ہیں؟

جواب: ہمیں اس صورتحال کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ افغانستان میں جو حالات ہیں ان کی وجہ سے امریکا کے لیے مشکل ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ جارحانہ رویہ اپنائے۔ امریکا کا مفاد اس میں ہے کہ وہ تمام مشکلات کے لیے پاکستان کو ذمہ دار ٹھہرائے۔ لیکن خطے کی جغرافیائی اور سیاسی حقیقت یہ نہیں ہے۔ امریکا کے ساتھ بہتر تعلقات کی امید رکھناحماقت ہے۔

کوشش کر رہے ہیں کہ افغانستان کے مسئلے پر امریکا کے ساتھ ایک صفحے پر آجائیں۔ لیکن ایسا نہیں ہوا اور آئندہ سالوں میں ایسا ہونے کا امکان بھی نظر نہیں آتا۔ پاکستان اس خطے کا حصہ ہے اور ہم یہاں کی پیچیدگیوں کو امریکا سے زیادہ بہتر سمجھتے ہیں۔ میں طالبان سے کوئی ہمدردی نہیں رکھتی، نہ ہی میں افغانستان میں طالبان کی حکومت دیکھنا چاہتی ہوں۔یہ پاکستان کے مفاد میں بھی نہیں ہے۔لیکن مذاکرات اور بات چیت کی طرف جانے سے پہلے ہمیں طالبان کو ایک حقیقت کے طور پر تسلیم کرنا ہوگا۔

سوال: لیکن ٹرمپ انتظامیہ تو پاکستان کی مدد سے طالبان سے مذاکرات کرنے کے امکانات پر غور کر رہی ہے۔

جواب: یہ درست ہے۔لیکن آپ صرف کسی ایک ملک کی مدد سے افغانستان میں امن قائم نہیں کر سکتے اور پاکستان اتنا اثر ورسوخ بھی نہیں رکھتا۔میں سمجھتی ہوں کہ مصالحت کی یہ کاوشیں خلوص کے ساتھ نہیں کی جارہیں۔ کامیاب مصالحت کے لیے ضروری ہے کہ اس کو امریکی مفادات کی فہرست میں سب سے اوپر رکھا جائے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر یہ بھی ان ترجیحات کا حصہ ہے جو حقیقت میں ترجیح نہیں ہوتی۔

سوال: امریکا کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو دیکھتے ہوئے کیا آپ کو لگتا ہے کہ دفاعی امداد کے لیے پاکستان کا چین پر انحصار بڑھ جائے گا؟

جواب: امریکا نے آج تک پاکستان کو جو امداد دی ہے، وہ دراصل اپنے تحفظ کی قیمت تھی۔مجھے وہ وقت بھی یاد ہے جب امریکا نے پاکستان کو F-16 طیاروں کی قیمت وصول کرنے کے بعد بھی طیارے فراہم نہیں کیے تھے۔اس ہی طرح اس جہاز کے پرزے بھی رقم کی ادائیگی کے با وجود آج تک فراہم نہیں کیے گئے۔ مجھے یاد ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑتے ہوئے ہمیں کئی بار ایسے جدید ہتھیار اور آلات فراہم کرنے سے انکار کیا گیا، جن کی مدد سے ہمارے لیے جنگ لڑنا آسان ہو جاتا۔ میرے خیال سے ہم گزشتہ ایک دہائی سے ایک ہی جگہ کھڑے ہیں۔

سوال: کیا واقعی ایسا ہے؟

جواب: ۹ ستمبر کے بعد ایک مختصر وقت ایسا آیا تھا، جب امریکا کی جانب سے اس قسم کے اقدامات کیے گئے تھے۔ لیکن پھر وہ رک گئے۔میرے خیال میں گزشتہ دس سالوں میں پاکستان کو خاطر خواہ عسکری امداد نہیں دی گئی۔

سوال: چین پر الزام لگایا جا رہا ہے کہ وہ اپنے ’’بیلٹ اینڈ روڈ‘‘ پروگرام کے ذریعے ممالک کو قرضوں کے ایسے جال میں پھنسا رہا ہے، جن سے وہ نکل نہیں سکتے۔کیا پاکستان بھی اس جال میں پھنس چکا ہے؟

جواب: مجھے مغربی ممالک کی جانب سے بیلٹ اینڈ روڈ پروگرام پر کی جانے والی تنقید کا اندازہ ہے،لیکن میں اس سے اتفاق نہیں کرتی۔ اگر مجھے ’’عالمی بینک‘‘ کے کسی پروگرام اور ’’بیلٹ اینڈ روڈ‘‘ پروگرام میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوتا تو میں بھی بیلٹ اینڈ روڈ پروگرام کا انتخاب کرتی۔اس کی وجہ یہ ہے کہ چین دوسرے ملک کے مفادات کا بھی احترام کرتا ہے۔مثال کے طور پر گوادر کی بندرگاہ کے منصوبے کو دیکھ لیں جو پاکستان کی قسمت بدل سکتا ہے۔میں عالمی اداروں کے چھوٹے چھوٹے امدادی منصوبوں پر گوادر کے منصوبے کو ترجیح دوں گی۔جہاں تک پاکستان کے موجودہ معاشی حالات کا تعلق ہے تو اس کا چین سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

موجودہ معاشی حالات کی ذمہ داری گزشتہ حکومتوں پر عائد ہوتی ہے۔ اگر مجھے کسی منصوبے کے حوالے سے کوئی اعتراض ہے تو اس کا تعلق چین سے نہیں بلکہ پاکستان سے ہی ہے۔

سوال: موجودہ حکومت نے ’’بیلٹ اینڈ روڈ‘‘ پروگرام پر نظرثانی کا حکم دیا ہے۔ کیا آپ اس کو مناسب سمجھتی ہیں؟

جواب: میں نے سات سال تک پاکستان کو ملنے والی امداد کی نگرانی کی ہے۔اس لیے میں یہ بات وثوق سے کہہ سکتی ہوں کہ چین سمیت اکثر ترقی یافتہ ممالک ایسے ترقیاتی منصوبے پیش کرتے ہیں، جن کے فوائدصرف ان ہی ممالک کو ہوتے ہیں۔جب کہ اس کا فائدہ اس ملک کو بھی ہونا چاہیے جہاں یہ منصوبے لگائے جاتے ہیں۔ انفرا اسٹرکچر کی مد میں امداد دینے والے ممالک میں چین نسبتاََ بہتر ہے۔دنیا میں کوئی بھی چیز بالکل درست نہیں ہوتی۔مجھے اس بات کی فکر ہے کہ پاکستانی سرمایہ کاروں کو یکساں مواقع نہیں مل رہے۔ مجھے امریکیوں یا چینیوں کو مراعات دینے سے کوئی اختلاف نہیں ہے لیکن ہمیں سب سے پہلے اپنے لوگوں کو مراعات دینی چاہییں۔

سوال: مغرب میں لوگ اصولوں کی بنیاد پربنے عالمی نظام کی بات کرتے ہیں۔ان کی مراد ایک ایسے نظام کی ہے، جس کا انحصار امریکا پر ہو۔جو کہ اس وقت عدم استحکام کا شکار ہے۔ کیا اسے بچایا جا سکتا ہے؟

جواب: میں نے کبھی اس نظام کو حقیقی معنوں میں اصولوں پر مبنی نہیں دیکھا۔ میرا خیال ہے کہ اس نظام کو بنایا ہی اس طرح گیا تھا کہ کمزور اس پر عمل کریں اور طاقتور اس کو نظر انداز کردیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت سے پہلے بھی امریکا خود کو ان اصولوں سے بالاتر سمجھتا تھا۔یہ ایسے ہی ہے کہ آپ خود تو انسانی حقوق کا درس دیتے پھریں لیکن ’’سلامتی کونسل‘‘کی منظوری کے بغیر عراق پر حملہ کردیں۔ آپ ڈرون حملے کرتے ہوئے بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اڑا دیں اور گوانتاناموبے اور دیگر جیلوں میں تفتیش کے وہ طریقے استعمال کریں جو انسانی حقوق کے منافی ہوں۔ تاہم اگر اصولوں پر مبنی نظام سے مراد یہ بھی ہے کہ طاقت ور ممالک ماحولیاتی تبدیلی کے مسائل اور عالمی تجارت کے فروغ کے حوالے سے اپنا کردار ادا کریں تو یہ کام امریکا کئی دہائیوں سے کر رہا ہے۔

لیکن اب امریکا نہ صرف اس کردار سے پیچھے ہٹ رہا ہے بلکہ وہ اس نظام کوبھی کمزور کر رہا ہے۔یہ بہت ہی خطرناک حالات ہیں۔کیوں کہ ہمارے پاس اس نظام کا کوئی متبادل نظام موجود نہیں۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ عالمی نظام میں دراڑیں پڑ رہی ہیں اور یہ اتنی گہری ہیں کہ میں نے اپنی زندگی میں آج سے پہلے کبھی ایسے حالات نہیں دیکھے۔دنیا ہماری آنکھوں کے سامنے تبدیل ہورہی ہے۔صدر ٹرمپ جو زبان استعمال کر رہے ہیں میرے خیال میں اس سے ان کی قوم تقسیم ہو رہی ہے۔

سوال: اقوام متحدہ مفلوج ہوکر رہ گئی ہے اور امریکا اپنے مفادات کے حصول کے لیے کوشاں ہے۔آپ کے خیال میں اس صورت حال میں عالمی امن اور تحفظ کو کون یقینی بنائے گا؟

جواب: ہم ایک ایسے وقت کی طرف پیش قدمی کر رہے ہیں، جہاں مذہب اور نسل کی تقسیم مزید گہری ہوجائے گی۔ جب میں گزشتہ چند دہائیوں کو دیکھتی ہو ں تو مجھے ایک ایسی دنیا نظر آتی ہے جس کے خیال میں ہر قسم کے فرق کو مٹا کر تمام انسانوں سے یکساں سلوک کرنا چاہیے۔لیکن اب گزشتہ چند برسوں سے ہم پیچھے کی طرف جا رہے ہیں۔اب لوگ چاہتے ہیں کہ ان کی پہچان ان کے ملک،مذہب اور نسل سے ہو۔

سوال: یہ ایک عمومی بیا ن ہے۔آپ کے خیال میں اس سے کس طرح بچا جاسکتا ہے؟

جواب: آج کے دور میں ہماری ذہن سازی لا تعداد ذرائع سے حاصل ہونے والی معلومات سے ہوتی ہے۔ہم ایک ایسے مقام پر کھڑے ہیں جہاں کوئی چیز بھی پوری طرح واضح نہیں ہے۔آج کے دور میں بد تہذیبی اور دوسروں کو نیچا دکھانے میں کوئی شرم محسوس نہیں کی جاتی۔مجھے امید ہے کہ ہم اس صورت حال سے باہر نکل آئیں گے اورلوگوں کی عزت کرنا اور انسانی حقوق کو اہمیت دینا سیکھ جائیں گے۔

سوال: پاکستان میں ۱۹۸۸ء میں بے نظیر بھٹو وزیر اعظم بنیں۔ آپ پاکستان کی پہلی خاتون وزیر خارجہ تھیں۔ آپ کے خیال میں پاکستانی حکومت کس طرح موثر طریقے سے خواتین کے حقوق کی فراہمی کو بہتر کر سکتی ہے؟

جواب: میرے نزدیک سب سے اہم چیز یکساں مواقعوں کی فراہمی ہے۔ملکی قانون میں بھی یہ بات موجود ہے لیکن اس پر عمل نہیں ہو رہا ہے۔تاہم حالات رفتہ رفتہ تبدیل ہو رہے ہیں۔عوام چاہتے ہیں ریاست حقوقِ نسواں کی فراہمی کو یقینی بنائے۔

(ترجمہ: محمد عمید فاروقی)

(“The World Today”. October-November, 2018)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*