
اردو کے حوالے سے اپنے سابقہ مضمون مطبوعہ ’’اخبارِ اردو‘‘ کے ضمن میں احباب کی رائے تھی کہ اردو – ہندی آویزش اور خود لفظ ’’ھند‘‘ اور اس کے مشتقّات پر بھی ان کے لسانی اور تہذیبی تناظر میں گفتگو ہو جائے، سو خیالِ خاطرِ احباب باعثِ تحریر ٹھہرا۔ زیر نظر مضمون کا جو تحقیقی اور فکری پس منظر ہے اس بنا پر اس کا زیادہ سے زیادہ افراد تک پہنچنا غالباً نہایت مناسب ہو گا۔
پاکستان کے پس منظر میں جب اس جیسے کسی موضوع پر قلم اٹھایا جائے گا تو صاحبِ مضمون پر ملّی، وطنی یا لسانی عصبیت کی تہمت تو لازمی لگنی ہے مگر تاریخی اور علمی حقائق کو بَھلا کون جھٹلا سکتا ہے۔ ہماری سہل ا نگاری اور خود فراموشی نے بدقسمتی سے قومی زبان کے حوالے سے اتنے مفروضات جنم دئیے ہیں کہ اگر آج ان سے ہٹ کر یا ان کے بر عکس بات کی جائے تو فوری ردّ عمل تشکّک اور پھر انکار کا ہوتا ہے مگربہر حال حقائق تو کسی کی پسند اور نا پسند کے تابع نہیں۔
گفتگو کا آغاز پاکستان ہی سے کرتے ہیں۔ مملکت خدا داد پاکستان بیسویں صدی کی ایک عظیم تاریخ گر اور عہد ساز حقیقت ہے۔ یہ بات درست ہے کہ اس نام کی کوئی ریاست سات دہائی قبل اس خطے میں کہیں نہیں پائی گئی اور نہ یہاں پہلے کسی منظم سیاسی وحدت کا سراغ ملتا ہے۔ مگر تاریخی اور جغرافیائی حقیقت یہ بھی ہے کہ وادی سندھ کا ہزاروں مربع میل پر پھیلایہ خطّہ ازمنۂ قدیم سے برّ صغیر جنوب ایشیا سے زیادہ وسطی اور غربی ایشیا سے جڑا دکھائی دیتا ہے۔ شمالی کشمیر کے مرغزاروں سے جنوب میں دیبل کے ساحل تک اور مغرب میں خاران، پنجگور اور تفتان سے مکران کی طویل ساحلی پٹی عبور کرتا جنوب مشرق میں سندھ ڈیلٹا کے اُس پار خلیج کَچھ تک کا یہ علاقہ اپنی جداگانہ تہذیب و تشخّص کی بنا پربرّ صغیر میں ہمیشہ ایک منفرد مقام کا حامل رہا ہے۔ اگر اس کا ایک دریچہ وادی گنگا کی طرف کھلتا ہے تو کئی دروازے سجستان (موجودہ افغانستان)، خراسان، فارس، کاشغر اور ثمر قند و بخارا کی جانب کھلتے ہیں۔ بالائی وادی سندھ سے ابھرنے والی شاہراہِ ریشم نے ایک طرف اسے دیارِ چین اور کہستانِ قفقاز سے مربوط کر رکھا ہے تو دوسری جانب ساحلِ دیبل و مکران سے پھوٹنے والی آبی شاہراہوں نے شرقِ اوسط، خلیجِ عدن اور وادی نیل سے اسے جوڑ رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس ارضِ پاک کو وسطی، غربی اور جنوبی ایشیا اور مشرقِ بعید اور چین کے درمیان بجا طور پر ایک قدرتی پل کا مقام حاصل رہا ہے۔ یہ وہ مقا م ہے جو وادی گنگا یا کاویری و نربدا کی گذر گاہوں کو کبھی نصیب نہیں ہوا۔ تاریخ کے آئینے میں جھانکتے ہیں تو موہنجو داڑو سے ہڑپہ تک پھیلے آثار درج بالا حقائق کی گواہی دیتے نظر آتے ہیں۔
شاید ہم میں سے کم لوگوں کو معلوم ہو، کیونکہ ہم نے کتابوں کے خزینوں میں یہ معلومات اس طرح دفن کر رکھی ہیںکہ عامّۃ الناس تو کجا دانشورانِ قوم اور جامعات و کلّیات میں معاشرتی علوم کے مروج نصاب تک یہ راز نہیں پا سکیں، کہ وادی سندھ اور وادی نیل چار ہزار سال قبل تہذیبی لحاظ سے ماں جائی (sister civilizations) تھیں۔ رمسیس دوئم کا مصر اور موہنجو داڑو دورکا سندھ بھر پور تجارتی اور ثقافتی روابط میں مربوط تھے۔ خام کپاس اور پارچہ جات سے لدی بڑی بڑی بادبانی کشتیاں اِدھر سے اُدھر دوڑتی پھرتی تھیں،حتیٰ کہ پہلی بار وادی نیل میں کپاس کے بیج بھی یہیں سے پہنچے جنہیں نیل کے پانی نے یوں پروان چڑھایا کہ آج اس کے پودے ان کے یہاں ہم سے زیادہ دراز قد اور توانا ہیں۔موہنجو داڑو سے ملنے والی پختہ مٹی کی مہروں پر درج جو تصویری عبارت یا نقوش (Hieroglyphs) ہیں، وہ مشہورماہر سندھیات مولانا ابو الجلال ندوی مرحوم کے تحقیق و تجزیہ کے مطا بق مصر کے آثار پر کندہ ہیرو غلف سے بڑی حد تک مشابہ ہیں۔ حتیٰ کہ موہنجو داڑو سے برآمدہ پروہت (Chief Priest) کے مجسمے (Bust) کے نقوش اور ملبوس رمسیس عہد کے اس کے ہم عصر سے ملتے جلتے ہیں، جبکہ خواتین کے زیورات بھی کم و بیش اسی طرز کے ہیں جیسا کہ مصری آثار الصنادید میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ یہ جو ارض پاک پر بسنے والوں کے خدّ و خال اور بود و باش کے طور طریقے جنوب ایشیا والوں سے کم کم اور وسط ایشیا اور شرق اوسط سے زیادہ مشابہت رکھتے ہیں یہ کوئی اتفاقی حادثہ تو نہیں۔
تیرھویں صدی قبل مسیح سے ۲۰۰ قبل مسیح تک کم و بیش گیارہ صدیوں پر محیط طویل دورانیے میں اگر ایشیائے کوچک سے آریاؤں کا ٹڈّی دل فارس و خراسان کو تاخت و تاراج کرتا وادی سندھ میں نہ در آتا تو اس کی یہ تہذیب شاید فنا کے گھاٹ نہ اترتی۔ قاضیٔ ازل کا مگر فیصلہ کچھ اور ہی تھا۔ وہی سر زمینِ سندھ پھر ۷۱۲ میلادی میں باب الاسلام بنتی ہے اور آریہ نسل کا بحری قذّاق راجہ داہر اپنے انجام کو پہنچتا ہے اور اس کے ساتھ وہ استحصالی برہمنی نظام بھی جس نے اس خطّے کے اصل مکینوں کے حقوق سلب کر رکھے تھے۔ قائد اعظم نے یوں ہی تو نہیں کہا تھا کہ پاکستان اسی وقت وجود میں آ گیا تھا جب سندھ کی سرزمین پر اولین مسلمان نے قدم رکھا تھا۔ موہنجو داڑو اور ہڑپہ کی کوکھ سے ایک نئی نسل، نئی زبان، نئی روایات اور بالآخر ایک نئی ہند اسلامی تہذیب جنم لیتی ہے جو بارہ صدیوں بعد اپنے نقطۂ کمال تک پہنچتی ہے اور اس طرح وادی سندھ کا یہ وسیع و عریض خطہ ریاستِ مدینہ کا وارث بن کر مملکت خداداد پاکستان کی شکل میں منصہ شہود پر جلوہ گر ہوتا ہے۔ وہ سیاسی اور ثقافتی وحدت جس سے یہ جغرافیائی حقیقت ہمیشہ محروم ر ہی تھی بالآخر قسّامِ ازل سے اسے وہ بھی عطا ہو جاتی ہے۔
اب آئیے دیار ھند کی بادیہ پیمائی کی جائے۔ خلیفہ دوئم سیّدنا فاروقؓ اعظم کے زرّیں دور میں جو کشور کشائی کا دور تھا اور پھرسیّدنا عثمان ذی النّورین کے عہدِ مسعود میں جب اسلامی ریاست وقت کی سب سے بڑی عالمی طاقت تھی اور اس کے سفینے بحرہند کی موجوں پر رواں دواں تھے، فتح سندھ سے بھی بہت پہلے صحابہ کرام کا دعوتی قافلہ پہلی صدی ہجری میں ساحل مکران پر فروکش ہو چکا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ ان کے ہمراہ حبشی نژادخدّام بھی تھے جو بعد ازا ں یہیں رچ بس گئے۔ مرورِ زمانہ نے اس دور کے آثار تو کچھ زیادہ نہیں چھوڑے مگر چند قبروں کی نشاندہی وہاں آج بھی کی جاتی ہے جو صحابہ کرام سے منسوب ہیں، اور پھر ہمارے مکرانی اہل وطن اس عہد کی زندہ و تابندہ نشانی ہیں۔ سندھ جب باب الاسلام بن گیا اور دیبل سے ملتان تک بقول حضرت قائدِ اعظم علیہ الرحمۃ پہلا پاکستان وجود میں آ گیا تو پھر یہاں سے وہ موجِ سبک خرام اٹھی جس نے آنے والی صدیوں میں ایک خطۂ بے نام کو ایک سیاسی وحدت میں پر و دیا۔ غزنوی،غوری، تغلق، خلجی، خاندانِ غلاماں اور مغلیہ دور تک آتے آتے پورا بر صغیر ایک متحدہ ریاست میں ڈھل گیا۔ ہند اسلامی تہذیب کی برکتوں سے مقامی لوگوں کے رہن سہن، بود و باش، کھانا پینا،آرائش و زیبائش، زبانیں الغرض کہ جینے کے تمام رنگ ڈھنگ بدلے۔نیم برہنگی نے خوش لباسی کا جامہ اوڑھا، عربی، ترکی اور فارسی آھنگ نے مقامی زبانوں اور بولیوں کو نئے اسالیبِ فکر و بیان عطا کیے۔ ایک نئی او ر منفرد ثقافت وجود میں آئی اور پاکستان بننے سے بہت پہلے، ہند اسلامی تہذیب نے اس کی تہذیبی او ر تمدّنی بنیادیں استوار کر دیں اورچند صدیاں بھی نہ گزری تھیں کہ اس تہذیب کی لسانی اور ثقافتی شناخت اردو کو وہ مقام عطا ہو گیا کہ جو بالآخر ایک عالمگیر زبان بن کر ابھری۔ اگر ہند اسلامی تہذیب کا سورج بارہ سو سال قبل پور ی آب و تاب سے طلوع نہ ہوا ہوتا تو پاکستان تو بظاہر کبھی نہ بنتا کہ اس کی غایت ہی باقی نہ ر ہتی، مگر ہند یا ہندوستان نام کی کسی تمدّنی وحدت اور سیاسی اکائی کا بھی ہرگز کوئی وجود نہ ہوتا، کسی ایسی ریاست کا وجود نہ ہوتا جس کی سرحدیں مشرق میں اراکان، اکیاب اور تکناف سے مغرب میں غزنی و قندھار تک اور شمال میں وادی کشمیر سے جنوب میں راس کماری تک وسیع ہوں۔
آریاؤں نے صدیوں کی بادیہ پیمائی اور مقامی آبادیوں کی بیخ کنی کے بعد بالآخر شمالی ہند میں وادی گنگا کے میدانی علاقے میں اپنا معاشی اور معاشرتی مستقربنایا۔ سرسبز و شاداب ہونے کی بنا ء پر یہ علاقہ ان کے لیے اور ان کے مال مویشی کے لیے یکساں اہمیت کا حامل تھا۔ کروکشیتر اور گڑھ مکٹیسر سے پاٹلی پتر(موجودہ پٹنہ)، راج گڑھ (موجودہ راجگیر) اور مگدھ (بہار کاضلع گیا اوراس سے ملحقہ علاقہ جات)تک کا یہ ایک نسبتاً چھوٹا سا خطہ تھا جو آریہ ورت کے نام سے موسوم ہوا۔ یہیں تقریباً چھٹی اور ساتویں صدی قبل مسیح میں چاروں وید (رگ وید، یجر وید، اتھر وید، سام وید) ترتیب پائے۔ منوجی کی “سمرتی “(ضابطہَ اخلاق) یہیں وجود میں آئی۔ دوسری صدی قبل مسیح میں یہیں ویاس نامی لوک کوی نے وہ منظوم داستان ترتیب دی جسے ہندو دھرم میں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ “مہابھارت” وہ خون آشام خانہ جنگی تھی جو آریا پرکھوں کے عم زاد کورو اور پانڈوکے درمیان برپا ہوئی۔ محدود گروہی مفادات کے سوا اس جنگ میں کسی اعلیٰ و ارفع مقصد کی بطور محرّک نشاندہی نہیں کی جا سکتی۔اس طویل لوک داستان کا سب سے اہم حصہ اٹھارہ ابواب اور ہزاروں اشلوک پر مشتمل ’’بھگوت گیتا‘‘ یا مقدّس نغمہ وہ رزمیہ ہے ہندوؤں کے نزدیک تقدس میں جس کا کوئی ثانی نہیں۔ تمام تر افراط و تفریط اور طول طویل افسانہ طرازیوں سے بھر پور ویاس سے منسوب یہ رزمیہ، جس میں وقت کے ساتھ ترامیم و اضافے بھی ہوتے رہے، اپنے ہیرو یا مرکزی کردار سری کر شن جی کے فرمودات پر مشتمل ہے جن کا مخاطب ارجن دیو ہیں جو اس جنگ میں کرشن جی کے دست راست تھے۔ اس لوک داستان کے حوالے سے دلچسپ بات یہ سامنے آتی ہے کہ جس قوم نے کول، بھیل، سنتھال، دراوڑ، اور بیشمار دوسرے مقامی قبائل اور نسلوں کو خون میں نہلا کر بالآخر مشرقی اور جنوبی برصغیر کے دور دراز اور دشوار گزار جنگلوں اورگھاٹیوں میں پناہ گزین ہونے پر مجبور کر دیا تھا وہ آخر کار زمین اور اقتدار کی ہوس میں خود آپس میں گتھم گتھا ہو گئی۔ بھگوت گیتا کے ضمن میں بہت سی باتیں انتہائی باعث حیرت ہیں۔سب سے پہلے تو جس کوی کی زبانی کرشن جی مہاراج کے پند و نصائح پر مبنی یہ رزمیہ ترتیب پائی خود اس کے حدود اربعہ کا کسی کو کچھ علم نہیں۔بظاہر وہ کرشن جی کا معاصر بھی نہیں۔ پھر اس کہانی کا راوی پانڈوؤں کے فریق مخالف کا وہ فرد ہے جو میدان ِ جنگ میں کرشن جی کے حریف کورووں کے نابینا بادشاہ دھرت راشٹر کا رتھ بان ہے۔ گیتا میںسنجیویا سنجے نام سے اس کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس راوی کا اصل کام تو یہ تھا کہ وہ اپنے نابینا فرماںروا کو جنگی صورت حال سے با خبر رکھے مگر عملًا وہ کرشن جی مہاراج اور ان کے ساتھی ارجن کاقصیدہ خواں بن کرسامنے آتا ہے اور پوری کتھا کا واحد ترجمان یا تو وہ ہے یا پھر ان تمام کرداروں کا خالق کوی ویاس۔ تیسری حیران کن بات یہ ہے کہ کرشن جی کے پند و نصائح اپنی تمام تفصیلات کے ساتھ ان کے مخالف کیمپ میں کس طرح پہنچے کہ راوی انہیں یوں بیان کرتا ہے گویا وہ دھرت راشٹر نہیں بلکہ کرشن جی کا رتھ بان ہو۔ اس سے بھی حیرت انگیز بات یہ ہے کہ عین حالتِ جنگ میں ارجن کے ساتھ یہ طویل مکالمہ کیونکر ممکن ہوا گویا وہ جنگ کا میدان نہیں بلکہ کرشن جی کی محل سرا ہو۔ یہ اور اس نوعیت کے ڈھیروںسوالات ہیں جن کا ہمیں گیتا کے سیاق و سباق سے کوئی جواب نہیں ملتا۔ کرشن جی کے وعظ سے جو فلسفہ جنگ، بشرطیکہ اسے فلسفہ کہا جاسکے، اخذ کیا جاسکتا ہے وہ بس اتنا ہے کہ جنگ جیتنے کے لیے کسی اخلاقی اصول یا انسانی اقدار کی پاسداری لازمی نہیں۔ دشمن کو بہر حال تہس نہس ہونا چاہیے۔ در حقیقت یہی وہ فکر ہے جو ہمیشہ آریا قوم کا رہنما اصول رہا ہے۔
سری کرشن جی سے تقریباً دو صدی قبل رام چندر جی کا ظہور ہو چکا تھا۔ شخصیت گو کہ ان کی بھی تاریخی سے زیادہ دیومالائی ہے مگر ان کا اخلاقی پہلو کم از کم رادھا اور اس کی سہیلیوں کے دوست ’’مکھن چور‘‘ کرشن مراری کی طرح داغدار نہیں۔ وہ پاٹلی پتر کے راجہ دسرتھ کے بڑے صاحبزادے تھے جو راج پاٹ کی آویزش سے خود کو الگ کر کے ایک فرماںبردار بیٹے کی طرح بارہ برس کا بن باس لے لیتے ہیں۔ یہاں ان کی بیوی سیتا جی کے ساتھ وہ واقعہ پیش آتا ہے جو کہانی کا مرکزی حصہ ہے۔ اس داستان تک بھی ہماری رسائی بالمیکی نام کے داستان گو کے ذریعہ ممکن ہوئی جس کی تصنیف ’’رامائن‘‘تقدس میں گیتا کے ہم پلّہ ہے۔ ویاس کی طرح کسی کو نہیں معلوم بالمیکی نام کے سنیاسی کا زمانہ رام چندر جی سے کتنا قریب یا کتنا دور تھا اور وہ رام کہانی کس طرح اس تک پہنچی۔ یہ بھی یقینا سینہ بہ سینہ ہی پہنچی ہوگی جیسا کہ لوک داستانوں کا خاصّہ ہے۔ مگر کہیں کوئی تو اس کا ماخذ یا چشم دید راوی ہونا چاہیے۔ رامائن اور مہابھارت کا جو مقام ہندو مذہب میں ہے اس کو دیکھتے ہوئے قدیم یونانیوں پر حیرت ہوتی ہے جو خود بھی صنمیات زدہ تہذیب کے فرزند تھے کہ انہوں نے آٹھویں صدی قبل مسیح کے اپنے عظیم پیدایشی نابینا شاعر ہومر کی شاہکار رزمیہ داستانوں ایلیڈ (Iliad) اور اوڈیسی (Odyssey) کو تقدس کا وہ مقام کیوں نہیں بخشا، جب کہ ان کا کم ازکم ادبی پہلو بالمیکی اور ویاس کی تصانیف سے بہت بلند ہے۔
برہمنی استبداد کے خلاف ردّعمل کے طور پر بر صغیر کی وہ اصلاحی تحریک اٹھی جو حقیقتاً ہند آریائی تہذیب کے خلاف اعلانِ جنگ تھا۔ پہلے مہاویر جین اور پھر مہاتما بدھ (۵۶۳۔۴۸۳ ق م)کی قیادت میں اس پر امن تحریک نے ذات پات کے برہمنی نظام کی چولیں ہلا دیں اور قریب تھا کہ آریہ ورت اس اخلاقی انقلاب کے آگے سپر انداز ہو جائے مگر عیّار برہمن نے پہلے مہاویر جین اور پھر مہاتما بدھ کو اوتار کا روپ دے کر برہمنیت کے دامنِ عافیت میں لینا چاہا، جیسا اس نے چند صدی بعد رام اور کرشن کے ساتھ کیا۔ جین تو ہندومت کی ایک ذیلی شاخ بن کر اس میں کھپا دیے گئے مگر مہاتما بدھ زیادہ سخت جان نکلے۔ ان کے پیروکاروں کو اسی بنا پر دیس نکالا دے دیا گیا اور پھر وہ آریہ ورت کی تنگنائے سے نکل کر پورے مشرق بعید میں پھیل گئے۔ آج بدھ مذھب خود اپنے جنم بھومی میں اجنبی ہے اور اس کی حیثیت سیاحتی اہمیت کے حامل آثارِ قدیمہ سے زیادہ نہیں۔ کپل وستو یا بعد کے ادوار کا پاٹلی پتر مہاتما بدھ کا جنم بھومی تھا جہاں سے وہ شہزادہ سدھارتھ کے روپ میں نکلے اور پٹنہ شہر سے تقریباًسوکلومیٹر جنوب گیا کے جنگلوں میں ایک طویل عرصہ گیان دھیان کی ریاضت میں مشغول رہے اور پھر وہ فلسفہ اخلاق پیش کیا جس کی رو سے ہر قسم کا تشدد اور جنگ و جدال حرام قرار پائے۔ دلچسپ تاریخی حقیقت یہ بھی ہے کہ بر صغیر کا وہ حصہ جو بطور خاص بدھ مت سے متاثر ہوا وہ آریہ ورت سے باہربالائی پنجاب اور سرحدکا شمالی علاقہ تھا جہاںاس فکر پر مبنی گندھارا تہذیب ایک مختصر عرصہ کے لیے پھلی پھولی اور پھر یہیں سے مزید شمال میں لدّاخ اور تبت کو اس نے اپنا ٹھکانہ بنایا۔
بارہ تیرہ صدیوں پر محیط اس تمام عرصے میں ہمیں ہند، یا ہندوستان نام کی کسی متحدہ ریاست کا کوئی نام و نشان نہیں ملتا۔ اس پورے عرصے میں گنتی کے صرف چند حکمران گذرے جنہوںنے کلّی یا جزوی طور پر پورے برصغیر پر حکمرانی کی۔ ان میں ممتاز ترین چندر گپت موریہ، اس کا پوتامہاراجہ اشوک اور پھرہرشن وردھن ہیں مگر انکی سلطنت کا نام کیا تھا اور اس کے اثرات کتنے دیر پا ثابت ہوئے تاریخ یہ بتانے سے قاصر ہے۔ کالنگا، موجودہ اڑیسہ کی خوںریز جنگ جیت کر کشت و خون کی آریائی روایت سے مہارا جہ اشوک ہمیشہ کے لیے تائب ہو گیا اور اس نے بدھ مت اختیار کر لیا۔ وہ اس نئے مذھب کا ایسا مخلص علمبردار بنا کہ اپنی وسیع و عریض مملکت کے طول و عرض میں اس اصلاحی تحریک کا پیغام فولادی یا سنگی ستونوں (Stupas) پر کندہ کر وا کر جا بجا نصب کروا دیا۔ مسلمانوں کی آمد سے قبل وہ بلاشبہ بر صغیر کا ایک عظیم حکمران تھامگر پھر اس کے ساتھ بھی برہمن سامراج نے وہی کیا جو ہمیشہ غیر برہمنوں کے ساتھ اس کا وطیرہ رہا ہے۔ مسلم فرماںرواؤں کی عالی ظرفی سے اشوک کے یہ دعوتی ستون نہ صرف محفوظ رہے بلکہ انہیں نمایاں مقامات پر بطور خاص نصب کیا گیا۔ اس ضمن میں سلطان قطب الدین ایبک اور سلطان شمس الدین التمش کی عظیم الشان مسجد قوّت الاسلام (مہر ولی) میں عین مسجد کے وسیع و عریض صحن کے ایک گوشہ میں قطب مینار کے زیر سایہ نصب اشوک کی لاٹ آج بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ یہی کام فیروز شاہ تغلق نے اپنے نو تعمیر کوٹلہ فیروز شاہ میں سر انجام دیا جہاں مرکزی دروازہ کے عین سامنے اس مقصد سے بنائے گئے ایک بلند چبوترہ پر اشوک کا سنگی ستون نصب کیا گیا جو قدیم و جدید دھلی کے سنگم پر واقع اس کوٹلہ یا فوجی کیمپ میں داخل ہونے والے ہر شخص کی توجہ کا مرکز آج بھی ہے۔ نتیجہ ظاہر ہے کہ اشوک کے ستون تو محفوظ رہ گئے مگر اس کے بعد پھر بدھ مت کا کوئی پیرو کار یہاں کا حکمران نہ بن سکا، سوائے راجہ کنشک کے مختصر دور حکومت کے جس نے شمالی ہند اور کشمیر میں بدھ مت کی احیاء کی کوشش کی۔ اپنی شناخت کی جستجو میں جدید ہندوستان نے اشوک چکر کو بطور نشان اپنے ترنگے میں جگہ تو دے دی مگر ہندو عوام و خواص میں جو مقام کٹّر قوم پرست حکمران وکرما جیت اول (AD655) اوراس کے پوتے وکرما جیت دوئم (AD740) کو حاصل ہے وہ کسی اور کو نہیں جبکہ ان کے رجواڑے کا حدود اربعہ قنوج، مالوہ اور گجرات تک محدود تھا اور انہوں نے اپنے پیچھے کوئی قابل ذکر کارنامہ بھی نہیں چھوڑا سوائے اس کے کہ وہ آریائی تہذیب کا غلبہ چاہتے تھے۔ ہندوؤں کی عوامی جنتری ’’بکرمی‘‘ انہیں کی طرف منسوب ہے۔۔۔ جاری ہے!
☼☼☼
Leave a Reply