لفظ ہند اور ہندو کے لسانی پہلوؤں پر گفتگو سے پہلے ہند آریائی تہذیب کے چند مزید پہلوئوں کا ذکر خالی از دلچسپی نہ ہوگا۔ مہا بھارت کی کوکھ سے جنم لینے والی اس تہذیب میں عورت محض ’’مرد کی تفریحِ طبع کا ایک ناگزیر عنصر‘‘ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس ضمن میں سب سے نمایاں مثال کرشن جی مہاراج کی ہے جن سے رادھا کی قربت کے فسانے ہندو مت کی مذہبی روایات کا حصہ ہیں۔ کرشن مراری کی بنسری کی تان پر رادھا اور اس کی گوپیاں (سہیلیاں جو گئوپال گھرانوں سے تھیں) اس طرح بے خود ہو جاتیں کہ پھر کنھیا جی ہوتے اور وہ۔ یہ وہ تہذیب تھی جس میں بڑے بھائی کی بیوی سے اس کے تمام چھوٹے بھائی ازدواجی تعلقات جاری رکھ سکتے تھے۔ ایسی خواتین کے ذکرِ خیر سے آرین لٹریچر بھرا پڑا ہے۔ مثالی بیوی وہ تھی جو اپنے شوہر کے ساتھ زندگی میں اس کی فداکار بن کر رہے اور شوہر مر جائے تو اس کے ساتھ چتا میں جل مرے اور ستی ہو جائے۔ ایسی ہی خواتین ستی ساوتری یعنی سچی اور کھری کہے جانے کے لائق تھیں۔ سیتاجی کو جب لنکا کا بادشاہ نہ جانے کس طرح اغوا کر کے لے گیا تو رامچندرجی کی مدد کو پورے آریہ ورت سے کوئی نیک نہاد راجہ یا شہزادہ نہیں اٹھا۔ وہ تو بھلا ہو ہنومان جی اور ان کی بانُر سینا یا بندروں کی فوج کا جس نے لنکا ڈھایا اور راکھشس راون کی گرفت سے سیتاجی بازیاب ہوئیں۔ اگر وہ بازیاب نہ ہوتیں تو نہ جانے رامائن کی کتھا کا کیا بنتا! عورت کو اس تہذیب نے کبھی وراثت کا حق نہیں دیا، اس کے بڑے بڑے مندروں میں برہمن کے جنسی تلذّذ کے لیے جن دوشیزاؤں کو رکھا جاتا انہیں احتراماً دیوداسی کہا جاتا، جنہیں انگریز مؤرخین نے Religious Prostitues کا نام دیا ہے۔ بہ الفاظِ دیگر، شہوت رانی برہمن کرے تو اس تہذیب میں وہ بھی مقدّس ہو جاتی ہے۔ مشہور ہندوستانی مؤرخ، سفارت کار اور فارسی کے عالم ڈاکٹر تارا چند نے اپنی بلند پایہ تصنیف ’’تاریخِ ہند‘‘ میں محمود غزنوی کی بطور خاص توصیف کی ہے کہ اس نے سومنات کے مندر کی اینٹ سے اینٹ بجا کر ہزاروں دیوداسیوں کو آزاد کیا اور زر و جواہرکے انبار جن پر برہمن سانپ بنا بیٹھا تھا، اسے اس کے تصرّف سے نکال کر ریاست غزنہ میں فلاحی کاموں پرصرف کیا۔ ڈاکٹر تاراچند نے غزنوی فتوحات کے حوالے سے محمود کو محمود اعظم کا خطاب بھی دیا کہ اگر فتوحات کی کثرت کی بنا پر سکندر کو سکندرِ اعظم کہا جا سکتا ہے تو پھر محمود غزنوی کے لیے یہ خطاب کیوں موزوں نہیں۔
طبقاتی نظام پر مبنی اس تہذیب نے مفتوحہ اقوام کو تاخت و تاراج تو کیا ہی تھا اپنی عملداری میں اس نے برہمن کو کلیتًا تمام معاشی، معاشرتی اور مذہبی اختیارات تفویض کر دیے تھے جن کے نتیجے میں برہمن مذہبی پیشوا بھی تھا، سیاسی اور معاشرتی بالا دست قوت بھی۔ اس کا ہاتھ بٹانے کو کھشتری اور ویش کے طبقات وضع کیے گئے تھے جو معاشی اور معاشرتی امور میں محض اس کے کار پرداز کی حیثیت رکھتے تھے جب کہ غالب اکثریت ان کمّی کمینوں کی تھی جنہیں شودر کہا جاتا تھا۔ روز مرّہ کے کام کاج وہی انجام دیتے، مگر ان کم نصیبوں کے لیے انتہائی سخت گیر غیر انسانی قوانین بنائے گئے تھے۔ مَنُو سے منسوب سمرتیوں یا قواعد و ضوابط کے مطابق تمام مذہبی اور معاشرتی معاملات میں ان نچلے طبقات کا کوئی حصہ نہیں تھا۔ انہوں نے زندہ اس لیے رہنا تھا کہ وہ اونچی ذات کے ہندوؤں کے لیے زندگی آسان بنائیں۔ یہ پیدائشی اچھوت غلطی یا عقیدت سے اگر کہیں مقدّس ویدوں کا کوئی اشلوک سن لیتا تو حکم تھا کہ اس کے کانوں میں پگھلا ہوا سیسہ انڈیل دیا جائے۔ ان کے مندر الگ، پنگھٹ الگ اور آبادیاں بستی کے گندے ترین علاقے ہوتے۔ یہی وہ نظام تھا کہ جب محمد بن قاسم اپنے چار سالہ دورِ حکومت کے اختتام پر دیبل سے ملتان تک کا علاقہ اسلام کی کرنو ں سے منور کر کے واپس جا رہا تھا تو سندھ کے وہ باسی جنہیں پہلی بار ایک نئی حیات آفریں تہذیب و تمدن سے فیض یاب کا ہونے کا موقع ملا تھا دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے۔ فرطِ عقیدت و محبت سے فاتح سندھ کا لقب انہوں نے ’’لکھ داتا‘‘ رکھ دیا تھا اور جا بجا مندر بنا کر عملاً وہ اس کے نام کی پوجا کرنے لگے تھے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو ڈاکٹر تارا چند کی ’’تاریخِ ہند‘‘ [میکمیلن کلکتہ کی مطبوعہ یہ شاہکار علی گڑھ مسلم یونیوسٹی کے میڑک کے نصاب میں شامل تھی جہاں ۱۹۵۸ میں صاحبِ مضمون کے زیر مطالعہ رہی۔ کاش یہ عالمانہ تصنیف ہمارے پاکستانی طلبہ اور اہل دانش کو بھی میسر ہوتی]۔ جس قوم نے نسلاً خود اپنی قوم کے نچلے اور پس ماندہ طبقات کا یہ حشر کیا تھا، اس نے مقامی آبادیوں کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا ہو گا اس کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ یہی وہ شودر طبقہ ہے جسے مسیحی مبلغین نے برطانوی دور میں عیسائی بنا کر تاجِ برطانیہ کے ہوا خواہوں میں اضافہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ وہ ازخود وقتاً فوقتاً کثرت سے مشرّف بہ اسلام بھی ہوتے رہے مگر بدقسمتی سے اپنی طویل عملداری میں ہند کی مسلم ریاست یا یہاں کے علما کی طرف سے ایسی کسی دعوتی مہم کا پتا نہیں چلتا ورنہ اس کے اثرات ایسے انقلاب آفریں ہوتے کہ آج دیار ِ ہند کا سیاسی اور تہذیبی نقشہ یکسر مختلف ہوتا۔ گاندھی جی کی ’’سیاسی بصیرت‘‘ نے جب دیکھا کہ ہندو قوم کی عددی برتری کہیں اس طرح اقلیت میں تبدیل نہ ہو جائے تو شودروں کو ہندو سماج میں سمونے کے لیے ’’ہری جن‘‘ یعنی اولادِ باری تعالیٰ کے دل فریب نام سے نوازا گیا اور چند خصوصی مراعات دی گئیں مگر کیا کیا جائے صدیوں سے قائم اس استحصالی نظام کا جس میں اچھوتوں کی قسمت تو کیا بدلتی ناتھورام گوڈسے نے برہمن روایات سے بغاوت کے جرم میں بنیا ذات کے گاندھی جی کا کام تمام کر دیا اور آج جدید ہندوستان میں ہمیں ’’دلیت پینتھرز‘‘ اور مختلف دوسرے ناموں سے اِنہیں پسماندہ اقوام کی مسلّح جدوجہد کی خبریں پڑھنے کو ملتی رہتی ہیں۔
اس لسانی اور تہذیبی پس منظر میں سب سے حیرت انگیز بات ’’ہندو‘‘ کے حوالے سے سامنے آتی ہے۔ برصغیر کی یہ اکثریتی قوم جو خود کو ہندو اور اپنے دھرم کو ہندومت کہتی ہے، اب تک یہ بتانے سے قاصر ہے کہ آخر یہ نام اور نسبت انہیں کہاں سے ملی، کیوںکہ نہ چاروں ویدوں میں، نہ اپنشد، پران، رامائن یا بھگوت گیتا میں کسی رام، کرشن، منو، رشی اور مہارشی نے کبھی انہیں اس نام سے موسوم کیا اور نہ انہیں تلقین کی کہ تمہارا دھرم ہندومت ہے۔ تین ہزار سالہ ہند آریائی تہذیب میں سنسکرت اور پھر پالی زبانوں کا راج رہا۔ سنسکرت دیوتاؤں کی زبان تھی اسی بنا پر ہندوؤں کا تمام مذہبی لڑیچر اسی میں مدوّن ہوا۔ پالی جسے مشرقی ہند (بہار) کی نسبتاً عوامی زبان کہا جاسکتا ہے، اسے بدھ مت نے توقیر بخشی اور بدھ لڑیچر اس میں پایا جاتا ہے۔ ان دونوں قدیم آریائی زبانوں میں ’’ہند‘‘، ’’ہندو‘‘ یا ’’ہندوستان‘‘ نام کے کسی لفظ کا کھوج کوئی بڑے سے بڑا ہندو وِدوان نہ لگا سکا ہے اور نہ کبھی لگا سکے گا کہ یہ سرے سے مقامی زبانوں کے الفاظ ہیں ہی نہیں۔ سفارت خانۂ پاکستان، قاہرہ سے وابستگی کے دوران مضمون نگار نے بھارتی سفارت خانے کے تحت قائم مولانا آزاد کلچرل سینٹر کے سربراہ کو بطور چیلنج یہ بات کہی تھی۔ یہ صاحب مصری طالبانِ علم کو ہندی بول چال کے نام سے اردو بول چال کا درس دیا کرتے تھے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ہندوستان کے لیے لفظ ’’بھارت‘‘ سرکاری سطح پرشمالی ہند میں تو مستعمل ہے مگر ملک کے طول وعرض میں آج بھی اسے ’’انڈیا‘‘ یا ’’ہندوستان‘‘ ہی کہا جاتا ہے، حالانکہ رابندر ناتھ ٹیگور کی وہ دعائیہ نظم جسے وہاں کا قومی ترانہ قرار دیا گیا اور جو آریہ نسل کے مخصوص قومی جذبات کی عکاس ہے اس میں بھارت کا لفظ ہی استعمال ہوا ہے؟ اس ترانے میں ٹیگور ’’بھارت بھاگیا ودھاتا‘‘ یعنی بھارت کی تقدیر سنوارنے والے کی جے کار بلند کر رہے ہیں۔ یمنا، گنگا، پنجاب، سندھ، گجرات، مراٹھا، اٹکل (اڑیسہ)، بنگا (بنگال) یعنی آریہ ورت کے تقریباً تمام حوالے اس میں آ گئے ہیں، ہاں جو آریہ عملداری میں نہیں تھے وہ اس سے خارج ہیں، مثلاً وادي کاویری و نربدا، مدراس، تلنگانہ، میسور، کیرالا، آسام وغیرہ۔ ضمناً یہاں ایک دلچسپ حقیقت کی نشاندہی مناسب رہے گی کہ اس فہرست سے بہار جو آریاؤں کا تہذیبی مرکز رہا ہے وہ بھی خارج ہے۔ اس کی وجہ بظاہر بنگلہ عصبیت کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے اوّلین مرکز کے طور پر مغربی بنگال کے بالادست برہمن ہندوؤں کو جن کے نمائندہ ٹیگور بھی تھے، علمی اور سیاسی میدانوں میں بے پناہ فروغ حاصل ہوا اور وہ دیکھتے ہی دیکھتے نسبتاً پسماندہ پڑوسی صوبہ بہار کے تمام کلیدی مناصب پر فائز ہو گئے، وہاں کی معدنی دولت ان کے لیے لوٹ کا مال ثابت ہوئی، جبکہ سرکاری دفاتر میں وہی حکمران بھی تھے۔ بنگال اور بہار کی اس آویزش نے آزادی کے بعد خاصی شدّت اختیار کی جو بعد کے ادوار میں جمہوری عمل کے تسلسل سے فرو ہوئی۔ یہ بات کہ لفظ بھارت کو شمالی ہند کے سوا پورے ملک میں عوامی مقبولیت کیوں حاصل نہیں ہو سکی، تو اس کا سادہ سا جواب یہی ہے کہ آریہ ورت کے باہر وہ تمام علاقے جو مسلم ہندوستان کی باقیات تھے وہ نہ کبھی بھارت کا حصہ رہے اور نہ تہذیبی اور سیاسی لحاظ سے انہوں نے کبھی اس خواہش کا اظہار کیا کہ انہیں بھی بھارت کا حصہ سمجھا جائے۔
اب آخر میں لفظ ہند کے لسانی پہلو پر گفتگو ہو جائے۔ المنجد یا کسی بھی مستند عربی قاموس میں جب ہم اس لفظ کی ساخت و پرداخت پر نظر ڈالتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ کلیتاً عربی زبان کا لفظ ہے۔ ابتداء ًصحرائی عرب سَو یا اُس سے اوپر اونٹوں کے گلّہ کے لیے ھند کا لفظ استعمال کرتا تھا۔ یہ گلّہ چھوٹا ہوتا تو اس کی تصغیر ھُنَیدہ استعمال کی جاتی۔ بعد کے ادوار میں ھند اور ھندہ ہر اس چیز کو کہا جانے لگا جو محبوب اور دل پسند ہو۔ مرورِ ایّام سے یہ لفظ عربوں میں بطور خاص خوا تین کے نام کے طور پر مقبول ہو گیا۔ ماضی بعید سے آج تک بطور اسم علم ھند، ھندہ اور ھندی اور اس کی تصغیر ھُنیدی عربوں میں قبولیت عام حاصل کر چکے ہیں۔ عرب جہاز رانوں کی جولاں گاہ جب خلیجِ عقبہ کی فلسطینی بندرگاہ ایلہ (موجودہ اسرئیلی ایلات) سے بحر احمر کی ساحلی پٹی عبور کرتے ہوئے عدن اور پھر ساحلِ مکران، مالا بار، سراندیب (حالیہ سری لنکا) اور مشرق بعید میں جاوا اور سماٹرا تک وسیع ہوئی تو انہوں نے اس سر زمین کو جہاں سے انہیں گرم مسالے، لوبان اور سب سے بڑھ کر ان کی شہ زوری کا نشان تلوار حاصل ہوتی تھی ھند کے نام سے یاد کرنا شرع کر دیا۔ مگر چونکہ ھند بجائے خود نہ کسی جغرافیائی وحدت کا نام تھا اور نہ کوئی سیاسی وجود، انہوں نے اس خطے کو ’’بلاد الھند و السند‘‘ کا نام دیا (ملاحظہ ہو بلاذری کی فتوح البلدان)، ھند کی نسبت ان کی محبوب تلوار اور عطریات کی مناسبت سے اور سند دریائے سندھ کا معروف و معلوم حوالہ جس سے وہ زمانہ قدیم سے واقف تھے۔ واضح رہے کہ سندھ مقامی زبان کا ہی لفظ ہے جو دریا کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ قاضی نذر الاسلام کا مشہور مرثیۂ سیّدنا امام حسین ’’بشادھ شندھو‘‘ کے نام سے مشرقی بنگال میں مقبول ہے جس کا لفظی ترجمہ ہے ’’خون کا دریا‘‘۔ تلوار صیقل کرنے کے عمل کو عربی میں تہنید کہتے ہیں۔ اسی مصدر سے اس کے اسم مفعول کے ساتھ ’’السیف المُھنّد‘‘ یعنی تیغِ برّاں آج بھی مستعمل ہے۔ اس لیے یہ بات پایۂ ثبوت تک پہنچی ہوئی اور ناقابلِ تردید تاریخی حقیقت ہے کہ ہند اپنے تمام مشتقّات (Derivatives) کے ساتھ عربی الاصل ہے۔ علامہ سید سلیمان ندوی نے انتہائی رواروی میں جو ھند کو فارسی زبان کا لفظ کہہ دیا تھا تو اغلباً ان کے سامنے حافظ شیرازی کی وہ ’’غلط بخشی‘‘ ہوگی جس میں انہوں نے محبوب کے کالے تل کے عوض ثمرقند و بخارا وار دینے کا ذکر کیا ہے (بخال ہندوش بخشم ثمر قند و بخارا را)۔ اس مصرع میں لفظ ’’ھند‘‘ کالی رنگت کے مفہوم میں مجازاً استعمال ہوا ہے کہ اہلِ فارس کو گنگاباسی بجا طور پر کالے ہی نظر آنے چاہییں۔
وہ عہدِ زرّیں جس نے اس پراگندہ انسانی جزیرے کو پہلی بار ایک سیاسی وحدت اور ریاست کی شکل دی، عربی لغت سے مستعار اسے اس کا نام دیا، ایک جداگانہ شناخت اور عظیم الشان تہذیب بخشی، اس میں آباد اقوام کو ایک تہذیبی اور ثقافتی لڑی میں پرو دیا، دل جیتے، دماغوں کو مسخر کیا، فکر کو جِلا دی، لوگوں کو سر اٹھا کر چلنے کی ادا سکھائی، اس کی اپنی بھانت بھانت کی بولیوں اور مردہ زبان کی خاک سے نئی بول چال اور ایک بلند آہنگ بین الانسانی زبان منصہ شہود پر ابھری، یہ سب کچھ ہند اسلامی تہذیب کے وہ تاریخ ساز اور گراں قدر کارنامے ہیں جنہیں مقامی سطح پر ہندوستان اور عالمی سطح پر انسانیت کی عظیم خدمت سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ تقسیم برّصغیر کے موقع پر جس قوم کو اپنی تہذیبی شناخت اور سیاسی وحدت کی جستجو میں بالآخر خارپشت سیکولرازم کے سائے میں پناہ لینی پڑی کہ اس کا مذہب حقیقتاً لادینیت پر ہی مبنی ایک ثقافتی وجود ہے وہی آج ’’ہندوتوا‘‘ کے نام سے اپنے ماضی کے احیاء کے لیے سرگرم نظر آتی ہے۔ مگر اسے خود نہیں معلوم کہ اگر خیرالقرون سے نسبت نے اسے ھند کے نام سے موسوم نہ کیا ہوتا تو وہ نہ خود کو ہندو کہہ سکتی تھی اور نہ اپنے دیس کو فخر سے ہندوستان۔ ھندی بے چاری توآخر کس گنتی میں ہے کہ نہ اس کا کوئی علمی پس منظر ہے اور نہ اردو سے الگ کوئی تہذیبی روایت۔ امیر خسروؒ ہوں یا ملک محمد جائسی، میر و غالب ہوں کہ منشی پریم چند، کرشن چندر اور عصمت چغتائی دیوناگری کے بھیس میں بھی وہ اردو ہی کے قطب مینار نظر آتے ہیں۔
ہندی کے حوالے سے میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ اردو کے حرم سرا سے دیوناگری کا گھونگھٹ چڑھا کر اغوا کی گئی یہ وہ کنّیا (دوشیزہ) ہے جس کے مقدّر میں انجام کار بھارت کی چتا پرسَتی ہونا لکھا ہے۔ ہندی جوآج بھارت کی قومی زبان ہے وہ فی الواقع ایک سیاسی وجود سے زیادہ کچھ نہیں۔ تاریخی لحاظ سے سات دہائی قبل جو عوامی رابطے کی زبان تھی وہ کم از کم ہندی نہ تھی بلکہ اردو ہی تھی جو اپنے صدیوں کے ارتقائی مرحلے میں عربی، ترکی اور فارسی زبانوں کے ذخیرۂ الفاظ سے خود کو مالا مال کرتے ہوئے مقامی سطح پر شمالی ہندکی عوامی بولیوں پراکرت اور برج بھاشا سے میل ملاپ کے نتیجے میں ہندوی، ہندوستانی، ریختہ اور پھر اردو بن کر ابھری۔ ہندی تو نہ اصلاً کوئی زبان ہے اور نہ اُس کی اپنی کوئی لغت۔ اردو سے عربی اور فارسی زبانوںکے الفاظ حتی الوسع خارج کر کے سنسکرت سے ماخوذ لفظوں کی بیساکھیاں دے کر اور دیوناگری رسم الخط کا ملبوس چڑھا کر جو زبان کھڑی کی گئی ہے وہ محض آزاد بھارت کی جداگانہ شناخت کی جستجو کا ایک حصہ ہے، بالکل اس طرح جیسا کہ قدیم عبرانی سے جدید ہبریو کی کلونگ کی گئی ہے کہ وہ اسرائیل کی ایک ناگزیر سیاسی ضرورت تھی۔ یہی وجہ ہے کہ پچاس سے ساٹھ فیصد الفاظ و تراکیب آج بھی ہندی میں اردو ہی کے مستعمل ہیں اور ایک علاقائی سپر پاور کی قومی زبان ہوتے ہوئے بھی آریہ ورت سے باہر جنوبی ہند اُس کی عمل داری سے مکمل طور پر باہر ہے۔ آج اگر بھارت اور اسرائیل کا سیاسی وجود ختم ہوجائے تو یہ دونوں زبانیں بھی سنسکرت اور عبرانی کے طرح اپنے اپنے مردہ خانوں میں پہنچ جائیں گی۔
علاّمہ اقبال نے جس ہندوستان کا ترانہ گایا تھا اور جو آج بھی ان کا دوسرا قومی ترانہ ہے، یہ وہی ہندوستان تھا جس کے متعلق علاّمہ نے بجا طور پر فرمایا ہے کہ ’’میرِؐ عرب کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے‘‘ اور جس کے زوال کے بعد پاکستان اس کا حقیقی وارث بن کر ابھرا۔ مگر جیسا کہ عربی مقولہ ہے ’’کُلُّ شئی یرجع الی اصلہ‘‘ یعنی ہر چیز اپنی اصل کی طرف لوٹتی ہے تو گمان غالب ہے کہ گم گشتۂ جادۂ حق یہ قوم بھی شاید کبھی اپنی اصل کی طرف لوٹ آئے۔ خانوادۂ عامر عثمانی دیوبندی کے فاضل محقق محترم شمس نوید عثمانی اور دیگر اصحابِ علم نے جو گراں قدر علمی تحقیقات بالخصوص رگ وید کے حوالے سے انجام دی ہیں ان سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ وہ قوم نسلاً جن کے ڈانڈے سام بن نوح سے ملتے ہیں اور جس کی کتابوں میں منوجی اور ان کے بلاخیز طوفان کا حوالہ ہے وہ سیدنا نوح علیہ السلام ہی کے متوسّلین میں سے ہیںکہ سلسلۂ کوہ ارارات جس کی ایک چوٹی پر کشتی نوح ٹھہری تھی یہ اسی کے دامن میں واقع ایشیائے کوچک سے نکلی تھی۔ جدید تحقیقات کے مطابق رگ وید میں بہت سے ایسے اشلوک ہیں جن کا صحیح تناظر میں ترجمہ کیا جائے تو وہ قرآن و حدیث میں وارد بنیادی آفاقی حقائق کے ترجمان نظر آتے ہیں۔ در اصل کتاب اور معلّم کتاب کو الگ کر دیا جائے تو ایک طرف کتاب بے جان الفاظ کا گورکھ دھندا رہ جاتی ہے اور دوسری طرف معلّم کتاب کی حیثیت چیستاں بن جاتی ہے۔ یہ حادثہ یہود و نصاریٰ اور ہندو اقوام کے ساتھ یکساں پیش آیا ہے۔ دین حق کا معاملہ چوںکہ مختلف تھا اور مولائے کائنات نے خود اس کے تحفظ کا ذمّہ اپنے اوپر لے لیا ہے اس لیے یہاں ایسی کوئی کوشش کبھی کامیاب نہیں ہو سکی۔ دوسری قوموں کی چوںکہ یہ اپنی ذمّہ داری تھی اور آخری پیغام اور پیغام رساں نے آنا تھا تو وہ یہ کام نہ کر سکیں۔ بطور مثال سنسکرت کے ایک معروف عام لفظ ’’اگرنی‘‘ کو لیجیے جو رگ وید کی رو سے قابلِ پرستش ہے۔ ہندو قوم نے اس کا مطلب ’’اگنی‘‘ سمجھا اور اس کی پرستش شروع کر دی مگر تحقیق سے پتا چلا کہ یہ تو ’’سب سے آگے‘‘ یا اوّلین ہستی کے معنوں میں آیا ہے یعنی ’’ھوالاوّل‘‘ تو لفظ و معنی کی دنیا ہی بدل گئی۔
حالیہ برسوں میں الہ آباد یونیورسٹی کے ایک ہندو برہمن پروفیسر پنڈت وید پرکاش نے بڑی تحقیق و جستجو سے اس ’’کالکی اوتار‘‘ کا پتا لگانے کی کوشش کی ہے جس کی بشارت ویدوں میں تسلسل سے ملتی ہے، بھگوان کا وہ آخری اوتار جو پوری دنیا کو سیدھی راہ دکھائے گا اورجس کا ظہور ’’جزیرہ‘‘ سے ہوگا، اس کے باپ اور ماں کا نام، برق رفتار گھوڑے کا ذکر جس پر وہ ساتویں آسمان تک پہنچے گا، جو گھوڑ سواری، تلوار زنی اور تیر اندازی کا ماہر ہوگا اور جسے دل جیتنے کا ہنر آتا ہوگا۔ جب پنڈت ویدپرکاش نے اپنی تمام مذہبی کتابوں کو کھنگالا تو ان پر واضح ہوا کہ اللہ کا یہ آخری اوتار تو پیغمبرؐ اسلام کی ذات اقدس ہے۔ وید پرکاش نے اپنی تحقیق آٹھ دیگر ہندو علماء کے سامنے پیش کی جنہوں نے کتاب میں درج تمام حوالہ جات کو مستند اور درست قرار دیا۔ یہ کتاب اب چھپ چکی ہے اور قارئین کے استفادے کے لیے موجود ہے۔ یہاں ’’اوتار‘‘ کے حوالہ سے بالخصوص مسلمانوں میں اشکال پیدا ہو سکتا ہے کیوںکہ ہندوؤں میں جو اوتار کا تصور ہے اس کی رو سے یہ ان شخصیات کے لیے بولا جاتا ہے جن کے متعلق ان کا خیال ہے کہ باری تعالیٰ کی ذاتِ اقدس خود ان میں اتر آئی تھی، یا حلول کر گئی تھی، یعنی رام اور کرشن (عیاذا ًباللہ) اللہ تعالیٰ کا جسمانی ظہور تھے۔ مگر ’’اگرنی‘‘ کی طرح یہاں بھی اصل حادثہ وہی گم کردگیٔ راہ حقیقت ہے۔ لفظ اوتارکا اصل مفہوم ہے ’’اتارا ہوا‘‘ یا قرآنی اصطلاح میں ’’مُرسَل‘‘ اور اسی طرح ’’کالکی اوتار‘‘ کا مطلب نبیؐ آخر الزمان بنتا ہے۔ ان حقائق و شواہد سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ یہ قوم اپنی اصل کی طرف ان شاء اللہ یقینا رجوع کرے گی اور اقبال کا ’’نغمہ ہندی‘‘ بالآخر ’’حجازی لے‘‘ میں ڈھل کر رہے گا۔۔۔ (ختم شد)
☼☼☼
Leave a Reply