
ایک ہندوستانی خاتون کی حیثیت سے ستمبر میں تین ہفتوں تک برما کا دورہ میرے لیے نئے تجربوں سے بھرپور رہا جہاں میں لوگوں کی ہمدردی اور سخاوت سے کافی متاثر ہوئی۔ لیکن میرا یہ مضمون ان خصوصیات کے بارے میں نہیں، بلکہ جنوبی ایشیا کے اُن افراد کو خبردار کر دینے کے لیے ہے جو اپنے اس پڑوسی ملک کا دورہ کرنا چاہ رہے ہوں۔ برما، جو کئی دہائیوں کی سول وار کے بعد فوجی تسلط سے آزاد ہوا، اب بُری طرح فرقہ وارانہ تشدد کا شکار ہے۔ میں ایک دوست کے ساتھ سفر کر رہی تھی، جس کا تعلق جنوبی ایشیا سے ہے اور ہم دونوں ہی برما کے دور دراز علاقے تک جانے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ سابق صدر مقام ینگون میں واقع ہندوستانی سفارت خانہ کی طرف سے ہمیں خبردار بھی کیا گیا کہ دانشور اور بے غرض قسم کے حضرات کے لیے برما کے جنوب مغرب میں واقع رکھائن کی ریاست کا دورہ خطرناک ثابت ہو سکتا ہے، کیونکہ ان کا حلیہ مسلمانوں کی طرح ہوتا ہے۔ ہم نے سوچا کہ ہمارے لیے یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے کیونکہ ہم ہندو ہیں۔ پچھلے سال ایک راہب کی جانب سے اسلام مخالف مہم کی بنا پر ملک کے کئی بڑے شہروں میں فسادات پھوٹ پڑے۔ اس مہم کو ۹۶۹ کا نام دیا گیا۔ اس مہم کے تحت برما کی بدھ کمیونٹی سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ مسلمان تاجروں کا بائیکاٹ کریں، ان کے ساتھ دوستی نہ رکھیں اور ان کی تیار کی گئی کوئی چیز نہ خریدیں۔ ان لوگوں نے کلرز (جوکہ ہندوستانی اور بنگلہ دیشی مسلمانوں کو حقارت سے دیا گیا نام ہے) کے خلاف ہتھیار بھی اٹھا لیے۔ اس کے نتیجہ میں کم ازکم ہمارے جیسے مسلمان نظر آنے والے سیاحوں کے لیے پریشانی پیش آسکتی ہے، کوئی بھی برہم ہجوم ہمیں گھیر سکتا ہے اور ہم پر چاہے تشدد نہ کرے لیکن ہم سے چبھتے سوالات پوچھ سکتا ہے۔ ینگون سے رکھائن کے صدر مقام ہشوے کی جانب جاتے وقت ہم سے کہا گیا کہ ہم سیاحوں جیسے کپڑے پہنیں، دھوپ کے چشمے پہنیں، بڑے بڑے کیمروں کی رونمائی کرتے رہیں اور صرف انگریزی میں بات کریں۔ ہم نے مشوروں پر عمل کیا اور ہشوے کی شاہراہوں پر ہم پر کسے گئے ’’کلر‘‘ اور ’’موسلمان‘‘ کے نسلی ریمارک پر قہقہے لگاتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔ لیکن آگے تاریخی شہر ماروک او میں جو کچھ ہونے والا تھا، اس پر ہنس کر آگے بڑھ جانا ممکن نہ تھا۔ نوآبادیاتی قسم کے گیسٹ ہائوسز میں داخل ہونے کے بعد ہم اس تاریخی شہر میں ۱۴۰۰؍ عیسوی کے ماروک او سلطنت کے مختلف بدھ مندروں اور یادگاروں کودیکھنے کے لیے نکل پڑے۔ پہلے دن تو کوئی خاص بات نہیں ہوئی۔ متجسس دیہی لوگ ہمارے پاس آئے اور ہم سے پوچھا کہ ہم کہاں سے تعلق رکھتے ہیں، جب انہوں نے ہندوستان کے بارے میں سنا تو کافی خوشی سے ہماری مدد کی اور ہمیں راستے دکھائے۔ ایک خاندان نے تو ہمیں ناریل اور پانی بھی دیا۔ تاہم دوسرے دن ہم شہر کے گڑ بڑ والے علاقہ میں گئے۔ جب ہم نے گھومنا شروع کیا تو وہ ہماری جانب اشارے کرکے مقامی راکھائنی زبان میں بات کرنے لگے۔ وہ لوگ برہم تھے۔ ہم لوگوں کو خطرہ کی گھنٹی نظر آنے لگی۔ بارش شروع ہو چکی تھی اور ہم نے ایک بدھ مندر میں پناہ لینے کا فیصلہ کیا۔ گو کہ ہم اندر عبادت گاہ تک نہیں گئے، بارش سے بچنے کی جلدی میں ہم جوتوں سمیت مندر کی سیڑھیاں چڑھ گئے۔ عام حالات میں شاید ہمیں ہلکا سا ڈانٹ دیا جاتا، لیکن ہمارے حلیہ کی بنا پر ہمارا یہ اقدام ہجوم کے لیے اور بھی شک و شبہ کا باعث بن گیا۔ اب برہم لوگوں کی تعداد بڑھ چکی تھی اور انہوں نے اپنی زبان میں چِلّا کر ہم سے کچھ کہنا شروع کیا، لیکن ہماری سمجھ میں نہیں آیا۔ ہم لوگ محفوظ رہنے کی خاطر اپنے گیسٹ ہائوس کی جانب بڑھے، لیکن بھیڑ نے ہمیں پکڑ لیا اور ہمارے اطراف کھڑے ہو گئے۔ ایک خاتون مجھے کھینچ کر ایک عمارت کی جانب لے جانے لگی جو شاید پولیس اسٹیشن تھا۔ ایک انگریزی بولنے والے رکشا ڈرائیور نے ہمیں بتایاکہ لوگوں کو شبہ ہے کہ ہم مسلمان ہیں اور ان کی مقدس عبادت گاہوں کو تباہ کرنے، ان کے گائوں کے کنوئوں میں زہر ڈالنے اور ان کے بچوں کو اغوا کرنے کے لیے آئے ہیں۔ ہم نے اس سے کہا کہ وہ ہجوم کو بتائے کہ ہم لوگ ہندوستان سے آئے ہیں اور مذہبی لحاظ سے ہندو ہیں۔ مجمع کو تذبذب میں دیکھ کر ہم نے فرار ہونے میں ہی عافیت سمجھی۔ بدقسمتی سے نسلی ریمارکس اور غصہ بھری نظروں نے ہمارا پیچھا نہیں چھوڑا۔ کئی ریستورانوں میں ہمیں داخل نہیں ہونے دیا گیا اور سڑکوں پر لوگوں کی دوستانہ نظریں اب غیظ و غضب میں تبدیل ہو چکی تھیں۔ جب ہم گیسٹ ہائوس پہنچے تو وہاں پہلے ہی سے ایک پولیس والا کھڑا تھا۔ وہ ہم سے ہماری دستاویزات اور ہمارے غیر مسلم ہونے کا ثبوت پوچھنے لگا۔ ہم نے اسے اپنے پاسپورٹس دیے اور وہ انہیں لے کر گائوں والوں کو دکھانے گیا۔ گیسٹ ہائوس کے Receptionist نے بتایا کہ گائوں والوں کا خیال ہے کہ ہم لوگ مسلمانوں کی طرح نظر آتے ہیں لیکن گیسٹ ہائوس کے مالکان نے گیسٹ ہائوس میں ہمارے ٹھہرنے پر روک نہیں لگائی کیونکہ میری ناک چھدی ہوئی تھی۔ ان کے مطابق یہ ایک ایسی روایت ہے جس پر مسلمان خواتین عمل نہیں کرتیں۔ اس طرح حاشیہ پر دھکیل دیا جانا اور ایک حملہ کے لیے تیار رہنا ہمارے لیے ممکن نہ تھا۔ ہمارے لیے یہ تصور ہی سوہانِ روح تھا کہ اس ہمارے دشمن گائوں میں ہمیں ایک اور رات گزارنی ہے۔ تاہم، ہم نے منفرد چن گائوں کی کشتی پر ایک سیر کا منصوبہ بنا رکھا تھا جہاں کی خواتین اب بھی چہروں پر ٹیٹو بناتی ہیں۔ چنانچہ ہم نے طے کیا کہ اس سیر کے بعد ہم اگلے دن یہاں سے روانہ ہو جائیں گے۔ ایک اور سیاح جوکہ جرمن برطانوی ہیں اور ایک سابق بینکر ہیں، ہمارے ہی گیسٹ ہائوس میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ وہ بھی اس دورہ پر ہمارے ساتھ ہو گئے۔ مقامی لوگوں کا ان کے ساتھ تعلق دوستانہ تھا، جیسے ہی ہم مروک کو واپس پہنچے، مشتبہ افراد نے پھر ہمارا پیچھا شروع کیا۔ کچھ لوگوں نے تو ہمارے اوپر نفرت سے تھوکا، دیگر نے ہماری نقل کرتے ہوئے کہا ’’ہندوستانی، ہندوستانی؟‘‘ ہم خوفزدہ ہو گئے۔ اس جرمن برطانوی سیاح نے ہماری طرف آتی ایک بھیڑ کو دیکھ کر مذاق اڑایا اور کہا کہ اب ہم لوگوں کی خیر نہیں، لیکن وہ بچ جائے گا کیونکہ وہ جنوبی ایشیائی نہیں دکھتا۔ وہ سچ بات کہہ رہا تھا۔
علی الصبح جب میں اپنے کمرے کے باہر بیٹھی ہوئی تھی، ایک غصہ سے بھری چھوٹی سی لڑکی نے میری طرف دیکھ کر مقامی زبان میں کچھ چِلّانا شروع کیا۔ وہ مجھ پر پتھر پھینکنے لگی جیسا کہ کچھ برہم لوگوں نے بھی ہم پر پچھلی رات پتھر برسائے تھے۔ گیسٹ ہائوسز کے مالکان نے مجھے اندر کھینچا اور مجھے کمرے میں مقفل کرکے وہ ہجوم کو پرسکون کرنے کی کوشش کرنے لگے۔ قریب میں واقع ایک فوجی کیمپ سے کچھ سادہ لباس جوان ہمیں بچانے کے لیے آئے اور انہوں نے امن و امان برقرار رکھنے کے لیے کچھ پولیس والوں کو بھی بلا لیا۔ میں اپنے کمرے میں انتظار کرتی رہی اور دعا کرتی رہی کہ یہ ہجوم کم ازکم گیسٹ ہائوس کو آگ نہ لگائے۔ ایک گھنٹہ بعد کہیں جاکر ہجوم منتشر ہوا، لیکن سادہ لباس لوگ میرے ساتھ ہی رہے۔ دوسرے دن صبح ہونے سے پہلے ہی ہم تیز رفتار کشتی پر ہشوے کی جانب نکل پڑے۔ اگر ہمیں گیسٹ ہائوس کے مالکان کا تحفظ حاصل نہ ہوتا تو ہمارا بھی نام برما کے فرقہ وارانہ تشدد کا شکار ہونے والوں کی فہرست میں آجاتا۔ تین ہفتوں تک برما میں گھومنے پھرنے کے بعد میں یہاں کے قدرتی نظاروں اور لوگوں کی گرم جوشی سے مسحور ہو گئی، لیکن وہ منظر کئی دنوں تک میری یادداشت میں محفوظ رہا جب ہجوم نے میرے کمرے کو گھیر لیا تھا اور مجھ پر سنگ باری کی تھی۔ میں نے چار سال پہلے برما پر دور سے تحقیق کی تھی۔ لیکن برما کا یہ میرا پہلا دورہ تھا اور ایک عجیب و غریب لحاظ سے میری تحقیق مکمل ہو گئی تھی۔ میں نے اس خوبصورت ملک کی سب سے اچھی اور سب سے بدترین، دونوں چیزوں کا مشاہدہ کیا تھا۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’منصف‘‘ حیدرآباد دکن۔ ۲۵ نومبر۲۰۱۳ء)
Leave a Reply