ادیان کی گفتگو کا تاریخی پس منظر

اسلام اور عیسائیت کے درمیان گفتگو کا خیال ۱۹۲۳ء میں پیدا ہوا۔ حکومت فرانس نے اپنے کچھ نمائندوں کو الازھر یونیورسٹی‘ مصر بھیجا اور یہ تجویز پیش کی کہ ابراہیمی ادیان کے درمیان وحدت و اتحاد قائم کرنے کے لیے ایک عالمی کانفرنس تشکیل دی جائے۔ اس کے بعد ۱۹۳۳ء میں پیرس کانفرنس کا انعقاد عمل میں آیا جس میں ترکی‘ اسپین‘ پولینڈ‘ اٹلی‘ امریکا‘ سوئٹزر لینڈ برطانیہ اور فرانس کی یونیورسٹیوں سے وابستہ مبلغین اور ماہرینِ علومِ شرقیہ نے شرکت کی تھی۔ دوسری عالمی جنگ سے قبل ۱۹۳۶ء میں ایک ادیان کانفرنس منعقد ہوئی اس کے بعد ادیان کے درمیان مذاکرہ کا دوسرا مرحلہ ۱۹۶۴ء میں شروع ہوا جس میں پوپ پال ششم کا پیغام بھی پیش کیا گیا جس میں انہوں نے مختلف ادیان و مذاہب کے ماننے والوں کو گفتگو کی دعوت دی تھی۔ اس دعوت کے بعد ۱۹۶۹ء میں واٹیکن شہر سے ایک کتاب بھی شائع ہوئی جس کا عنوان تھا ’’عیسائیوں اور مسلمانوں کے درمیان گفتگو کے بنیادی اصول‘‘۔ ۱۹۸۰ اور ۱۹۹۰ کی دہائیوں کے درمیان ادیان و مذاہب اور فرہنگ و تمدن کے درمیان گفتگو پر مشتمل تیرہ اجلاس منعقد ہوئے جن میں سب سے زیادہ اہم ’’دین اور صلح‘‘ عنوان کے تحت منعقد ہونے والا دوسرا عالمی اجتماع ہے جو بیلجیم میں منعقد ہوا تھا اور جس میں مختلف ادیان و مذاہب کے ۴۰۰ سے زیادہ مندوبین نے شرکت کی تھی۔ دوسرا اہم اجتماع قرطبہ کانفرنس کے نام سے ۱۹۷۴ء میں اسپین میں منعقد ہوا تھا جس میں ۲۳ عیسائی اور اسلامی ملکوں کے مندوبین موجود تھے۔ اس کے بعد ۱۹۷۹ء میں تیونس (Tunisia) کے قرطاج نامی علاقے میں اسلامی عیسائی اجلاس منعقد ہوا تھا۔

بیسویں صدی کی آخری دہائی میں ادیان و مذاہب کے درمیان گفتگو کو بڑا فروغ حاصل ہوا۔ ۱۹۹۳ء میں جارڈن (اردن) میں عرب اور یورپی ممالک کی ایک کانفرنس منعقد ہوئی تھی۔ اس کے بعد ۱۹۹۴ء میں شہر خرطوم میں ادیان کانفرنس ہوئی۔ پھر ۱۹۹۵ء میں دو ادیان کانفرنس کی تشکیل عمل میں آئی۔ ان میں سے ایک سویڈن کے اسٹاک ہوم میں اور دوسری ارڈن کے عمان نامی شہر میں منعقد ہوئی۔ اس کے بعد بھی اردن میں آل البیت یونیورسٹی میں ۱۹۹۶ء میں اسلامی و یورپی ملکوں کے درمیان ایک کانفرنس کا اہتمام کیا گیا۔

اسلامی و عیسائی مذاکرات کا دسواں دور ۲۸ لغایۃ ۳۰ اکتوبر ۲۰۰۲ء میں بحرین میں منعقد ہوا جس میں فقط علماء ہی نہیں بلکہ تحریک مذاکرہ ادیان سے جڑی ہوئی بعض عظیم شخصیتوں نے بھی بھرپور شرکت فرمائی۔ ان سبھی کانفرنسوں کے انعقاد کا اہم ترین مقصد اور بنیادی سبب یہ تھا کہ ادیان کے درمیان اس گفتگو کی وجہ سے باہمی تال میل پیدا ہو جائے اور کمیونزم کے ذریعہ تمام مذاہب کو جو خطرہ محسوس ہو رہا تھا وہ زیادہ موثر ثابت نہ ہو۔ سبھی ادیان کی پیروی کرنے والوں نے یہ ضروری سمجھا کہ کفر و بے دینی کے مدمقابل اقدام کرنا لازمی ہے اور اس کام کے لیے ایک مشترکہ محاذ کی تشکیل زیادہ کارآمد ثابت ہو گی۔

مقاصد اور کامیابیاں

ہم لوگ جس دنیا میں زندگی بسر کر رہے ہیں وہ ’’عالمی‘‘ خصوصیات اور دیگر مختلف پہلوئوں کی حامل ہے۔ چنانچہ مالی اور صنعتی شعبوں میں ہم ’’عالمی تجارت‘‘ اور ’’عالمی اقتصاد‘‘ کی بات کرتے ہیں اور سیاست کے میدان میں ’’عالمی حکومت‘‘ اور ’’عالمی برادری‘‘ کی اصطلاح رواج پا چکی ہے۔ فوجی شعبہ میں بھی ’’عالمی محافظین صلح‘‘ جیسی عبارت اور علاقائی و عالمی سطح پر باہمی اتحاد عصری ضرورت کا رنگ و روپ اختیار کر چکی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ معاشرہ کے دیگر شعبوں کی طرح مذہب نے بھی عالمی حیثیت اختیار کر لی ہے۔ اگرچہ عالمی زندگی کے مختلف پہلوئوں میں سے مختصر سے حصے نے ادیان و مذاہب کو ایسے بے مثال مواقع فراہم کر دیے ہیں جس کو استعمال کرتے ہوئے ادیان و مذاہب کی سعادت آمیزی کو بڑی آسانی سے ساری دنیا تک پہنچایا جاسکتا ہے لیکن اس کے بعض حصے مذہبی معاشرہ کی پریشانی کا باعث بن گئے ہیں۔

۱۱ ستمبر کو رونما ہونے والے واقعات کے گہرے سایہ اور دنیا پر چھائی ہوئی جنگی فضا میں ۴ اور ۵ اکتوبر ۲۰۰۱ء کو اسلام اور عیسائیت سے وابستہ ایک اجلاس روم میں منعقد ہوا جس میں عالمِ اسلام کی عظیم مذہبی اور علمی شخصیتوں کے علاوہ نامور مسلم دانشوروں نے بھی شرکت کی‘ جیسے مفتی مصر نصر فرید واصل‘ شیخ یوسف قرضاوی‘ ڈاکٹر احمد کمال ابو المجد‘ مصری ماہرِ قانون ڈاکٹر محمد سلیم العواء‘ ڈپٹی چیف ایڈیٹر الاحرام اور یونیورسٹی پروفیسر فہمی ہویدی‘ شیخ زائد بن سلطان کے ثقافتی مشیر عزالدین ابراہیم‘ تنظیم اسلامی کانفرنس کے سیکرٹری ڈاکٹر عبداﷲ نصیف‘ مورٹیانا کے سابق ثقافتی وزیر ڈاکٹر محمد ولد‘ الجزائر کے سابقہ وزیر خارجہ احمد طاہر ابراہیمی اور دیگر علماء کرام وغیرہ۔ اس اجلاس میں ڈاکٹر عبدالمجید نے اعلان کیا کہ دنیا کے مختلف علاقوں میں اب تک سیکڑوں اجلاس منعقد ہو چکے ہیں جس میں ہزاروں افراد نے شرکت کی اور ان اجلاس میں مختلف تمدنوں کے درمیان فوری اور لگاتار گفتگو پر کافی زور بھی دیا گیا۔ ان اجلاس کے دوران مذاہب اور تمدنوں کے درمیان مشترکہ پہلوئوں کی نشاندہی بھی ہوئی تھی لیکن اس بات کا قوی امکان ہے کہ ۱۱ ستمبر کو رونما ہونے والے حوادث کی وجہ سے ان کامیابیوں کا بالکل خاتمہ ہو جائے اور دنیا پھر مقامِ صفر پر واپس آجائے۔ حالانکہ ان دھماکوں سے قبل تنظیم اقوامِ متحدہ کی جانب سے ایک دستاویز تیار کیا جاچکا تھا جس کی روشنی میں ایک ایسی خصوصی تنظیم کی تشکیل ہونی تھی جو تمدنوں کے درمیان گفتگو کی تقویت و حمایت کا کام انجام دیتی۔ ان اجتماعات کے دوران بہت سی تجاویز منظور ہوئیں۔ ذیل میں بعض سفارشات کا خلاصہ حاضرِ خدمت ہے۔

۱۔ توحیدی اور ابراہیمی ادیان کے درمیان مشترک پہلوئوں بالخصوص عقیدہ و اخلاق و ثقافت کی شناخت اور ادیان و ثقافتوں کے درمیان لازمی پہلوئوں پر تاکید۔

۲۔ حکومتوں کی سیاست اور قوموں کی ثقافت سے دشمن کے مفہوم کو پوری طرح نابود کرتے ہوئے ادیان و مذاہب کے درمیان باہمی صلح آمیز زندگی کی تشکیل کے لیے انسانی حقوق کے معیار پر مشترک میثاق کی تدوین۔

۳۔ بغض و کینہ اور عداوت و دشمنی کو حذف کرنے کے لیے تاریخ اور تعلیمی نظام پر نظرثانی اور دینی تعلیمات کے لحاظ سے ایسے انسانی اور اساسی علوم کی تقویت جس کے ذریعہ صبر و تحمل اور مشترکہ تفاہم کو فروغ حاصل ہو سکے۔

۴۔ بعض موضوعات کا اہتمام اور درج ذیل عناوین کے سلسلے میں مشترک نتائج اور مفاہیم تک رسائی حاصل کرنا: عدالت‘ صلح‘ عورت‘ انسانی حقوق‘ جمہوریت‘ اخلاق کار‘ کثرت گرائی‘ آزادی‘ عالمی صلح‘ باہمی صلح آمیز زندگی وغیرہ۔ جیسا کہ اس سے قبل کیا جاچکا ہے کہ سرد جنگ کے دوران ادیان و مذاہب کے درمیان گفتگو کمیونزم سے مقابلہ کے لیے نہایت ضروری تھی لیکن سوویت یونین کے بکھرائو اور سرد جنگ کے اختتام کے بعد دین و مذہب نے عالمی سطح پر اہم کردار ادا کیا ہے اور ثقافتی‘ سیاسی اور سماجی شعبوں میں یہ کردار زیادہ موثر رہا ہے۔ آخرکار ایک اہم عالمی سیاسی ادارہ کی حیثیت سے تنظیم اقوامِ متحدہ یہ فیصلہ کرتی ہے کہ عالمی اقتصادی اجتماع کے ساتھ ہی ساتھ مذہبی رہنمائوں کا بھی ایک بین الاقوامی اجتماع منعقد کیا جائے تاکہ عالمی سطح پر ادیان و مذاہب کے درمیان گفتگو ہو سکے۔ اس بین الاقوامی کائونسل کے ۱۳ رکن تھے جس میں دنیا کے مختلف ادیان اور مکاتبِ فکر کے لوگوں کو نمائندگی حاصل تھی اور مذہب اسلام کی نمائندگی اسلامی جمہوریہ ایران اور انڈونیشیا کے سپرد تھی۔

اگست ۲۰۰۰ء میں اقوامِ متحدہ میں یہ طے پایا کہ عالمی مسائل و مشکلات کا حل تلاش کرنے کے لیے یہ لازمی ہے کہ بلند مرتبہ سیاسی لیڈروں کے ساتھ ہی ساتھ عظیم المرتبت مذہبی علماء کا بھی ایک بین الاقوامی اجتماع منعقد ہوتا کہ مذہبی اور سیاسی علماء و ماہرین باہمی گفتگو کے ذریعہ مسائل و مشکلات کا حل تلاش کر سکیں اور عالمی انسانی برادری امن و سلامتی اور مسرت و خوشحالی کی زندگی بسر کر سکے۔ موجودہ دنیا میں دین و مذہب‘ سیاست کے میدان میں اہم اور قابلِ ذکر کردار ادا کر رہا ہے۔ دنیا کے تمام مذاہب کا مشترکہ خیال ہے کہ سبھی لوگ ایک طوفان زدہ کشتی میں بیٹھے ہوئے ہیں لہٰذا سب لوگوں کو مشترکہ کوشش اور مذاہب کے درمیان موجود مشترکات پر بھروسہ کرتے ہوئے جنگ اور لڑائی جھگڑے سے دور رہتے ہوئے اس کشتی کو ساحل نجات تک پہنچانے کی کوشش کرنا چاہیے۔

۱۹۶۴ء میں واٹیکن شہر میں منعقد ہونے والے دوسرے اجتماع کے دوران کیتھولک چرچ نے مذہب اسلام کے بارے میں جو خیال ظاہر کیا تھا‘ وہ اسلام اور کیتھولک عیسائیت کے درمیان گفتگو کی پہلی کرن تھی۔ اسلام اور عیسائیت کے درمیان موجود زیادہ مشترکات نے گفتگو کی زمین کو مزید ہموار کر دیا تاکہ وہ مغربی سامراج اور عیسائی مشنریوں کی حمایت سے رونما ہونے والی تلخ یادوں اور مخاصمانہ احساس پر غلبہ حاصل کر سکیں۔

واضح رہے کہ اسلام اور عیسائیت کے درمیان بہت سی مشترک باتیں پائی جاتی ہیں جیسے خداے خالق پر عقیدہ و ایمان‘ انبیاء علیہم السلام کا خدا کی طرف سے ارسال کیا جانا‘ وحی پر اعتقاد اور روزِ قیامت و روزِ عدل پر اعتقاد و ایمان وغیرہ۔ اسی طرح اسلام اور عیسائیت کے درمیان جن چیزوں میں اختلاف ہے وہ یہ ہیں۔ تثلیث کا مفہوم‘ جو عیسائی الٰہیات میں بڑی اہمیت کا حامل ہے‘ اسلام کی نظر میں قابلِ قبول نہیں ہے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا بیٹا کہنا مسلمانوں کے لیے قابلِ قبول نہیں ہے۔ دوسری طرف عیسائیت یہ تسلیم کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہے کہ قرآن آخری کلامِ الٰہی ہے اور اس کو دیگر آسمانی کتابوں پر فضیلت حاصل ہے۔

تیسری بات

اگرچہ گزشتہ دہائیوں کے دوران اس قسم کے اجتماعات میں ہونے والے روز افزوں اضافہ کا منظر ہماری نگاہوں کے سامنے ہے لیکن عالمِ اسلام میں اس موضوع کے سلسلے میں ایک رائے اور ہم خیالی نہیں پائی جاتی ہے بلکہ اس کے بارے میں مسلمان مفکرین کے درمیان استقطاب یعنی قطب خواہی (Polarisation) اور محاذ سازی و گروہ بندی کا مشاہدہ کیا جاچکا ہے اور اس میدان کے ایک قطب میں مخالفین کے ساتھ گفتگو نہ کرنے کا محاذ آمادہ ہو چکا ہے۔ مخالفین کی ایک جماعت کا عقیدہ و ایمان ہے کہ ادیان و مذاہب کے درمیان گفتگو کی تحریک نسبیت کی فکر کی بنیاد پر سربلند ہوئی ہے اور دین مبین اسلام کی حقانیت مطلقہ اور ایمان و عقیدہ کے ساتھ ہر گز میل نہیں کھاتی ہے۔ دوسرے گروپ سے وابستہ مفکرین و دانشور اس تحریک کے بنیادی اصول سے چشم پوشی کرتے ہوئے اس خیال کے حامل ہیں کہ ادیان و مذاہب کے درمیان گفتگو کی حمایت و طرفداری کرنے والے لوگ اپنی دعوت میں صداقت نہیں رکھتے ہیں بلکہ اس تحریک کے ذریعہ اپنے سیاسی اور سامراجی مقاصد میں کامیابی حاصل کرنے میں ہمہ تن سرگرمِ عمل ہیں۔ دوسری طرف ادیان کے درمیان گفتگو کی حمایت کرنے والوں نے علیحدہ موقف اختیار کر رکھا ہے۔ مفکرین اور دانشوروں کی یہ جماعت اس عقیدہ کی حامل ہے کہ حقیقت کی تلاش کے سلسلے میں مغرورانہ ٹھہرائو اور اپنے موقف پر اڑے رہنے کا زمانہ ختم ہو چکا ہے۔ آخرکار مناسب یہ معلوم ہوتا ہے کہ شک و تردید کی ترویج کے اس دور میں علماء دین ادیان کا تاریخی مطالعہ و تجزیہ کرتے وقت تواضع اور انکساری کی بنیاد پر اپنی دینی معلومات کی تردید کریں اور اسے ہرگز آخری اور قطعی معلومات قرار نہ دیں کیونکہ دین کی بنیاد اور دین کے پاکیزہ مقدس متن سے اپنی معرفت کے درمیان فرق و علیحدگی کی وجہ سے ان لوگوں نے دین کی حقیقی قداست و پاکیزگی کو اپنے لیے حرام کر رکھا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ انسانی عقل کی محدودیت و کوتاہی کو نگاہ میں رکھتے ہوئے حقیقت سے مکمل ناواقفیت کا اعتراف بھی کر رکھا ہے۔ اس مقالے میں اس بات کی کوشش کی جائے گی کہ عالمِ اسلام کے نامور مفکرین اور دانشوروں نے ادیان و مذاہب کے درمیان گفتگو کے سلسلے میں جو راہ و روش اختیار کر رکھی ہے‘ اس کا مکمل اور بھرپور تجزیہ پیش کرتے ہوئے نتیجہ قارئین کے سپرد کر دیا جائے۔

منفی راہ و روش

ادیان و مذاہب کے درمیان گفتگو کے سلسلے میں منفی راہ و روش رکھنے والے مسلمان علماء کا یہ عقیدہ و ایمان ہے کہ اس موضوع پر منعقد کیے جانے والے عظیم اجتماعات کا بنیادی مقصد اسلامی معاشروں پر مغربی قدروں اور نمونوں کو مسلط کرنا ہے تاکہ وہ مسلمانوں کی مذہبی حمیت اور ذہنی لگن کو زائل کر سکیں۔ واضح رہے کہ مختلف ادیان و مذاہب کے درمیان مشترکات کی شناخت کے ذریعہ موجودہ حقائق کو بالکل نظرانداز تو نہیں کیا جاسکتا۔

خفیہ مقاصد

مذاہب کے درمیان گفتگو ایسا اہم موضوع اور ایسی اہم تحریک ہے جس کے مراکز و میلانات اور اغراض و مقاصد کے بھرپور مطالعہ و تجزیہ کے بغیر کوئی حتمی فیصلہ ناممکن ہے اور اس سلسلے میں صرف تحریک کی جانب سے اعلان کیے گئے اغراض و مقاصد پر بھروسہ کرنا یقینا سادہ لوحی ہو گی بلکہ بہتر یہ ہو گا کہ تحریک کے خفیہ اور اعلان نہ کیے گئے اغراض و مقاصد کا بھی جس میں مذہب کے ذریعہ سیاسی و اقتصادی کامیابی کا حصول شامل ہے‘ باقاعدہ مطالعہ و تجزیہ کیا جائے۔ مثال کے طور پر جب مسئلہ فلسطین کے حل کے سلسلے میں تمام سیاسی اور اقتصادی ایجادات ناکام ہو گئیں تو ادیان و مذاہب کے نمائندے ایک علاقے میں دوبارہ جمع ہو کر ’’مسئلہ دہشت گردی‘‘ کے تجزیہ و حل و فصل میں سرگرم دکھائی دیتے ہیں بالکل اسی طرح جیسے اسرائیل میں عربوں اور صیہونیوں کے درمیان صلح کو جائز اور قانونی بنانے کے لیے مختلف ادیان و مذاہب کے نمائندے صحراے سینا میں ’’کوہِ طور‘‘ پر جمع ہوئے تھے۔

پس یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ یہ ایجاد کن پہلوئوں کی حامل ہے اور اپنے دامن میں کیسے کیسے اغراض و مقاصد چھپائے ہوئے ہے اور دہشت گردی کی آڑ میں خفیہ مقاصد کو حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ درحقیقت اس کا ایک مقصد ’’شہادت طلب سرگرمیوں‘‘ کو ظلم و دہشت گردی کے نام سے متعارف کروانا ہے تاکہ ’’عام شہریوں کی حمایت‘‘ کے بہانے صیہونیت کے ظالمانہ تسلط اور غاصبانہ قبضہ کو جاری رکھا جاسکے۔ واضح رہے کہ دین ایک لمبی مدت سے سیاسی اور سماجی میدان سے دور اور باہر رہا ہے اور اب اس کو دوبارہ میدان میں لاکھڑا کیا جارہا ہے اس مرتبہ مذہب سیاسی مقاصد کی تکمیل میں غیرمعمولی حمایت و طرفداری کی نیت سے میدان میں داخل ہوا ہے۔

ممکن ہے یہ بات کہی جائے کہ یہ گفتگو اسلامی اور عیسائی دینی اداروں کے ذریعہ منعقد کی جارہی ہے لہٰذا ان کے مقاصد کے بارے میں کسی قسم کی غلط فہمی نہ رکھنی چاہیے۔ لیکن اس حقیقت کو ہرگز نظرانداز نہیں کرنا چاہیے کہ عالمِ اسلام کے دینی ادارے حکومتوں کے زیرِ سایہ کام کر رہے ہیں۔ اگر بفرض محال کسی ملک میں کوئی ایسا ادارہ مل جائے جو حکومت کے دبائو سے دور آزادانہ طور پر کام کر رہا ہے تو اس ادارہ کے لیے بھی یہ بات بہت دشوار ہو گی کہ وہ حکومت یا مخصوص سیاسی و اقتصادی مقاصد کے لیے کام کرنے والے اداروں کی حمایت و سرپرستی کے بغیر کسی علاقائی یا بین الاقوامی اجتماع کی تشکیل کا کام انجام دے سکے بلکہ اس کے برعکس عالمی یا علاقائی سطح پر کسی اجتماع کے اہتمام کے لیے کسی نہ کسی حکومتی یا بیرونی ادارہ کی حمایت حاصل کرنا لازمی ہوتا ہے یہاں تک کہ مغربی دنیا کے ادارے بھی‘ جہاں سیکولر نظامِ حکومت کارفرما ہے‘ سیاسی سرگرمیوں سے الگ نہیں ہیں۔ جیسا کہ ہم لوگوں کو بخوبی معلوم ہے کہ مغربی اور عیسائی دنیا کی اہم ترین مذہبی شخصیت پوپ عالمی مسائل و موضوعات میں اہم سیاسی کردار کے حامل رہے ہیں‘ مثلاً انہوں نے جرمنی نازیوں کے خلاف یہودیوں کے مطالبہ کی بھرپور تائید فرمائی اور یہ کیتھولک گرجا گھروں (Catholic Church) کا ہی کرشمہ تھا جس نے پولینڈ کے مزدوروں کو مسندِ اقتدار تک پہنچا دیا۔ لہٰذا جب کمیونزم کے مقابلے میں جملہ مغربی نظام پوری طرح عاجز و ناکام ہو گئے تو انہوں نے عیسائی مذہب کو اشتراکیت کے خلاف ایک اہم وسیلہ و ذریعہ کے طور پر استعمال کیا اور اسی طرح سوویت یونین کو شکست دینے کے لیے اسلام سے اپنی دیرینہ عداوت کو ایک موثر اسلحہ کی حیثیت سے استعمال کیا۔

تحریک کی کامیابیاں

اگر ہم اس تحریک کے خفیہ مقاصد کی طرف سے چشم پوشی بھی اختیار کر لیں تو دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس تحریک نے گزشتہ دہائیوں کے دوران کیا کامیابی حاصل کی ہے؟ اگر ہم لوگ سیاسی کامیابیوں کو نظرانداز کر دیں اور صرف دینی و مذہبی کامیابیوں کو نگاہ میں رکھیں تو ہمیں یہ کہنے میں ذرہ برابر ہچکچاہٹ نہیں ہونی چاہیے کہ ان اجتماعات کی تشکیل سفارتی تکلفات اور بڑی بڑی شخصیتوں کے درمیان ذاتی کارڈوں کے تبادلہ کی حد تک ہی محدود رہی اور نہ کسی قسم کا کوئی مقصد حاصل ہو سکا اور نہ کسی شعبہ میں ذرہ برابر کامیابی محسوس ہوئی۔

یہ ایک کھلی ہوئی حقیقت ہے کہ آزاد مذہبی فقہا اور دینی مراجع جہاد اور قانونی و شرعی دفاع کے سلسلے میں اپنے رائے تبدیل کر دیں اور ظلم کو قبول نہ کرنے والی انسانی زندگی کے بنیادی حق سے دستبردار ہو جائیں۔ دوسری طرف یہودی ماہرین جو اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ ’’شہادت پسندانہ عمل‘‘ مذہبی علماء اور رہنمائوں کے فتوے کے بموجب ہی انجام پارہا ہے۔ دوسری طرف وہ لوگ اس کوشش میں ہمہ تن سرگرم ہیں کہ مخالف جماعت کے ہاتھوں سے اس کی کامیابی کا وسیلہ چھین لیں۔ عیسائی مذہبی رہنما عالمی رائے عامہ کو اپنے حق میں ہموار رکھنے کے لیے یہ مظاہرہ کر رہے ہیں کہ وہ صلح اور انسان دوستی کے طرفدار ہیں۔ اسی وجہ سے وہ مسلمانوں کی دہشت گردی و ہٹ دھرمی اور یہودیوں کے غاصبانہ تسلط دونوں کی مخالفت کرتے ہیں۔

(بشکریہ: ششماہی مجلہ ’’راہِ اسلام‘‘ دہلی۔ شمارہ۔ جولائی تا دسمبر ۲۰۰۵ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*