ہندوستان میں مسلمانوں کا دورِ حکومت ایک طویل عرصہ تک قائم رہا اور اس دور میں سرزمین ہند نے مختلف میدانوں (Fields) میں تعمیر و ترقی کی اعلیٰ منزلیں طے کیں۔ مسلمانوں کے طرزِ فکر و عمل نے اس خطے کی انفرادی و اجتماعی زندگی پر گہرے اثرات ثبت کیے۔ ہندوستانی تاریخ کا مسلم عہد برصغیر کا زریں دور تھا۔ لیکن بدقسمتی سے تاریخِ ہندوستان کی ترتیب و تدوین ایسے لوگوں نے کی جن کے اذہان و قلوب مخصوص سیاسی عزائم و مقاصد کے حامل تھے‘ جس کے باعث تاریخ نویسی و تاریخ بیانی کے بجائے ’’تاریخ سازی‘‘ کو اختیار کیا گیا۔ تاریخِ ہندوستان کے یہ مرتبین‘ مدونین اور مستشرقین (Orientalists) ہیں جو دنیائے عالم میں استعماری اقتدار کے علمی و فکری محافظ کے طور پر سامنے آئے۔ استشراقی محققین نے اسلام‘ پیغمبرِ اسلامﷺ، تاریخِ اسلام اور اسلامی تہذیب و تمدن کو خاص طور پر اپنی تحقیقات کا مرکز بنایا اور پھر استعمار نے ان کے نتائجِ تحقیق کو عالم گیر سچائیوں کے طور پر پیش کیا۔
ہندوستانی تاریخ کو اپنی تحقیقات کا موضوع بنانے والے استشراقی علماء میں جیمس مل (James Mill) الفنسٹن (Elphinstone) ہنری ایلیٹ (Henry Elliot) اور لین پول (Lanepoole) نمایاں اہمیت کے حامل ہیں۔ ان جدید مؤرخین نے تاریخِ ہند کے صرف وہی پہلو اجاگر کیے ہیں‘ جو استعماری رجحانات و تعصبات سے متصادم نہ تھے اور اہلِ ہند کے باہمی تعلقات میں کشیدگی کا باعث بن سکتے تھے۔ انہوں نے ذہنی مفروضات کو تاریخی واقعات کے روپ میں پیش کیا اور تاریخِ ہند کی غیرحقیقی صورت گری کی۔ مستشرقین کا طریقہ تحقیق بیان کرتے ہوئے علامہ اسد ان کے اسی فکری تعصب کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
’’مستشرقین تحقیق میں وسعت نظری سے کام نہیں لیتے اور پہلے سے طے شدہ مبنی برتعصب نتائج سے تحقیق کا آغاز کرتے ہیں۔ اسی طرح وہ اپنے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے لیے تاریخی واقعات کو سیاق و سباق سے کاٹ کر پیش کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔‘‘
تاریخِ ہند سے متعلق جانے والے مستشرقین کی اوّلین کتب میں جیمس مل کی کتاب ’’تاریخِ برطانوی ہند‘‘ (History of British India) ہے جو ۱۸۱۷ء میں شائع ہوئی۔ جیمس مل وہ پہلا مؤرخ ہے جس نے تاریخ کو مسلم اور ہندو ادوار میں تقسیم کر کے ہندوئوں اور مسلمانوں کے سماجی نظام کے اختلافی پہلوئوں کو اجاگر کیا‘ جس کا مقصد باہم نفرت کو فروغ دینے اور اتحاد و اتفاق کی راہیں مسدود کرنے کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ مل کی طرح نظریہ افادیت (Utilitarianism) کے تحت تاریخ لکھنے والے مورخین میں ایچ جی کین (H.G.Keen) بھی شامل ہے جو برطانوی اقتدار کو ہندوستانیوں کے لیے مسیحا کے طور پر پیش کرتا ہے اور ماقبل ادوار کو ظلم و جور اور قتل و غارت گری کا زمانہ قرار دیتا ہے۔ وہ لکھتا ہے:
’’انگریز ہندوستان کے نجات دہندہ بن کر آئے۔ ورنہ اس سے قبل کی صدیاں ایک مسلسل منظرنامے سے عبارت تھیں اور وہ تھا قتل اور تباہ کاری۔ اس ہلاکت خیز عہد کا انگریزوں کے ہاتھوں ہندوستان کی فتح سے خاتمہ ہو گیا۔ انگریزی حاکمیت کا عہد بے مثال مبنی بر نرمی‘ انسانی اور منصفانہ تھا بہ نسبت ان تمام حکومتوں کے جن کے تحت ہندوئوں کو کبھی رہنا پڑا تھا۔‘‘
گویا کین کے مطابق اہلِ ہند انگریزی اقتدار سے قبل دورِ ظلمت میں رہ رہے تھے اور نئی حکومت کے تحت انہیں حقیقی قدر و منزلت اور عدل و انصاف میسر آیا۔ حالانکہ تاریخی ادب کے مطالعے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اہلِ ہند فکر و نظر کے بُعد کے باوجود برسوں سے امن و سکون سے جی رہے تھے اور انگریزی حکومت سے قبل ہندو مسلم تعلقات کی کشیدگی اس سطح کی نہیں تھی جس سطح پہ اس نئے اقتدار کے تحت سامنے آئی۔
الفنسٹن نے ہندوستان کی مفصل تاریخ ’’تاریخِ ہند‘‘ (History of India) کے نام سے لکھی۔ مستشرقین کا مقصدِ وحید چونکہ برطانوی اقتدار کو جواز فراہم کرنا تھا‘ اس لیے الفنسٹن نے بھی استعماری اقتدار سے قبل کی حکومتوں کو ظلم و زیادتی کی حامل قرار دیا۔ مثلاً مسلمان حکمراں محمود غزنوی کو ظالم اور غارت گر ذکر کرنے کے بعد وہ شہاب الدین غوری کو غزنوی سے بڑھ کر سفاک قرار دیتا ہے۔ وہ لکھتا ہے:
’’شہاب الدین غوری محمود غزنوی سے زیادہ خوں خوار تھا‘‘۔
الفنسٹن کا یہ قول استعماری فکر کی غمازی کرتا ہے‘ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ غزنوی و غوری کے ہندوستان کی ترقی و عروج کے لیے کیے گئے اقدامات قابلِ توصیف ہیں اور تاریخ کی مستند کتابوں میں محفوظ ہیں۔
تاریخِ ہند کی مشہور کتاب ہنری ایلیٹ کی مرتب کردہ ہے جو History of India as told by its own historians کے نام سے ۸ جلدوں میں ۱۸۶۶ء میں شائع ہوئی۔ ایلیٹ نے مختلف تاریخوں سے اقتباسات اکٹھے کیے ہیں اور اس کتاب کے لیے تاریخی مواد اس طرح اخذ کیا ہے کہ اختلاف، جنگ و جدل اور ظلم و جبر کی داستانوں کو انگریز سے ماقبل دور میں مرکزی حیثیت حاصل ہو گئی ہے۔ یہی وہ کتاب ہے جسے کلیات و جامعات کے نصاب و مابعد کی کتاب تاریخ کے لیے مصدر و ماخذ قرار دیا گیا۔ ہنری نے اصل حقائق سے چشم پوشی کرتے ہوئے بعض جزوی واقعات کو اس طرح پیش کیا کہ وہی اصل حقیقت معلوم ہونے لگے۔ اسی کتاب نے اہلِ ہندوستان کی شگفتہ زندگی میں زہر گھولا اور کئی نسلوں کو متاثر کیا۔ پروفیسر خلیق احمد نظامی اس کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’برطانوی حکومتِ ہند کی سامراجی ضروریات کی تکمیل کی کوشش میں سَرہنری ایلیٹ نے ہمارے تاریخی پس منظر کو دھندلا دیا اور نہایت ہوشیاری سے اپنی شک انگیز عبارتوں کے ذریعہ ہمارے قومی زندگی کے چشمۂ صافی کو نَسلوں تک کے لیے زہر آلود کر دیا۔ اس کی تحریر کردہ یہ جِلدیں ہندوستانی تاریخ پر اَن گنت نصابی کتب کی بنیاد بن گئیں۔ اِن میں ایلیٹ کے غیرمحسوس انداز میں داخل کردہ وائرس نے ہماری تین نسلوں کے ذہن و فکر کو خطرناک حد تک متاثر کیا۔‘‘
ہندوستان کی تاریخ لکھنے والے مستشرقین میں ایک اہم نام اسٹین لین پول ہے‘ جس کی کتاب ’’عہدِ وسطیٰ کا ہندوستان‘‘ (Medieval India) کو کتبِ تاریخِ ہند میں ایک نمایاں مقام حاصل ہے۔ لین پول کو عموماً معتدل اور غیرجانبدار مؤرخ بتایا جاتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ بھی کئی مقامات پر تاریخی معروضیت (Objectivity) کو مدنظر نہیں رکھتا اور واقعات کی غیرحقیقی صورت گری کرتا ہے مثلاً مسلمان سلاطین ’’غزنوی و غوری‘‘ کی فتوحات ہند پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے:
’’محمود غزنوی اور شہاب الدین غوری ۳۰‘ ۳۰ سال سرزمینِ ہند کو تاخت و تاراج اور پامال کرنے کے ارادے سے ہندوستان کا رخ کرتے رہے۔‘‘
لین پول کی یہ دو سطریں تعمیر و ترقی کے عظیم دور کو تخریب و فساد کا زمانہ ثابت کرنے کی ایک کوشش ہے‘ جو یقینا تاریخی حقائق کے منافی ہے۔ انگریز حکومت نے ہندوستان پر قائم اپنے اقتدار کو جواز فراہم کرنے اور اسے دوام بخشنے کے لیے استشراقی تحقیقات کو ہندوستانیوں تک منتقل کرنے کے لیے شعبۂ تعلیم کا انتخاب کیا۔ کیونکہ یہی وہ شعبہ تھا جس کے ذریعے ہندوستان کی پروان چڑھتی نسلوں کی ذہن سازی مخصوص زاویۂ نگاہ کے مطابق کی جاسکتی تھی۔ سید سلیمان ندوی اس اقدام پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’سرکاری مدارس میں تاریخِ ہند کی تعلیم کا اضافہ بظاہر علم کے اضافہ کے لیے ہے۔ مگر درحقیقت یہ اقوامِ ہند کے قدیم اختلافات و نزاعات میں اضافہ کے لیے ہے۔ ہماری یونیورسٹیوں کی تاریخِ ہند کی کتابوں میں ڈھونڈ ڈھونڈ کر ایسی ہی باتیں جمع کی جاتی ہیں جن سے ان دونوں قوموں (ہندوئوں اور مسلمانوں) کے جذبات میں مزید اشتعال پیدا ہو اور ان کا اتفاق آئندہ مشکل سے بڑھ کر محال ہو جائے۔ حالانکہ اس ملک کی تاریخ میں ایسے واقعات کی کمی نہیں جن کے پڑھنے سے ان دونوں قوموں کے درمیان اختلاط و محبت کے جذبات پیدا ہوں‘‘۔
مشہور ہندو رہنما پنڈت جواہر لال نہرو مستشرقین کی لکھی ہندوستانی تواریخ کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’انگریز مصنفوں کی لکھی ہوئی ہندوستان کی تاریخیں جو ہم میں سے اکثر کو مجبوراً پڑھنی پڑی ہیں‘ عام طور پر انگریزی حکومت کی طرف سے صفائی کی بحثیں اور اس کی شان میں لمبے چوڑے قصیدے ہیں۔ اس عہد سے پہلے کے ہزاروں سال کے حالات کا ذکر ان میں ایک حقارت کے انداز سے ہوتا ہے۔ حقیقت میں ان کے نقطۂ نظر سے تو تاریخ انگریزوں کی ہندوستان آمد کے بعد سے شروع ہوتی ہے۔‘‘
مستشرقین کی کتب تاریخ انگریزی عہد سے قبل کے دور کو ظلم و بربریت اور فساد و بگاڑ کا زمانہ ثابت کرتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کا مرتب کردہ ذخیرہ کتب تحریف و تدلیس کا ایسا مجموعہ ہے کہ جس کا مقصد نئی نسلوں کو اپنی تاریخ و روایت سے بدگمان کرنا ہے۔ اکیسویں صدی عیسوی میں سماجی علوم (Social Sciences) کے فروغ کی وجہ سے ’’تاریخ‘‘ کی اہمیت کو بھی نمایاں کیا گیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تاریخ نویسی اور تاریخ بیانی کے لیے تاریخی معروضیت کو مدنظر رکھا جائے اور مستند کتب تاریخ سے اخذ و استفادہ کیا جائے۔ ہندوستان کی تاریخ ازسرِ نو ترتیب و تدوین کی متقاضی ہے تاکہ تاریخ کا طالب علم حقیقی سرمایہ تاریخ سے واقف ہو سکے۔
(مضمون نگار رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی اسلام آباد میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں)
(بحوالہ: ماہنامہ ’’زندگی نو‘‘ دہلی۔ نومبر ۲۰۰۹ء)
Leave a Reply