
قیام پاکستان کے ۴ ماہ بعد دسمبر ۱۹۴۷ء میں صوبائی وزرائے تعلیم کا اجلاس (اُس وقت کے) دارالحکومت کراچی میں ہوا جس میں اردو کو قومی زبان بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ مشرقی بنگال کے نمائندوں نے اس فیصلے کی مخالفت کی اور تجویز پیش کی کہ بنگلہ (بنگالی) کو بھی قومی زبان کا درجہ دیا جائے۔ ان کی یہ تجویز سختی سے مسترد کردی گئی۔ ڈھاکہ میں بنگالیوں نے فوری اور شدید ردعمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے نیشنل لینگویج ایکشن کمیٹی تشکیل دے دی۔ تین ماہ بعد مارچ ۱۹۴۸ء میں قائد اعظم ڈھاکہ تشریف لے گئے اور وہاں اعلان کیا کہ صرف اردو پاکستان کی قومی زبان ہوگی۔ اس واضح اعلان سے بنگالیوں میں اردو کی بطور قومی زبان مخالفت کے جذبے میں نئی جان آگئی اور لینگویج موومنٹ بھرپور قوت کے ساتھ چلائی جانے لگی۔ اتحاد، اتفاق، آزاد اور بنگلہ زبان کے دیگر اخبارات نے لینگویج موومنٹ کو تقویت بہم پہنچائی۔ اس تحریک کو آگے بڑھانے میں تمدن مجلس اور دیگر سماجی تنظیموں نے بھی اہم کردار ادا کیا۔
بنگالیوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ معاملات کی نوعیت اور حقائق پر غور کرنے کے بجائے مخالف کرتے ہیں اور پوری شدت کے ساتھ مزاحمت کرتے ہیں۔ حقائق کے مطابق ترتیب نہ دیے جانے کی صورت میں تاریخ محض اختلافات ہی کو جنم دیا کرتی ہے۔ پڑھے لکھے بنگالیوں میں اردو سے محبت جس طرح آج پائی جاتی ہے اسی طرح اس دور میں بھی پائی جاتی تھی اور یہ معاملہ صرف مسلم لیگ سے تعلق یا ہمدردی رکھنے والوں تک محدود نہ تھا۔ اردو کو قومی زبان بنانے کے حق میں بات کرنے والے اور بہت سے تعلیم یافتہ بنگالی بھی محسوس کرتے تھے کہ بنگالیوں کی اکثریت ہوش و حواس میں رہتے ہوئے تو اردو کے خلاف نہیں جائے گی۔ اس زمانے میں یہ تاثر عام تھا کہ تمام نہ سہی، بیشتر بنگالی مسلمان اردو بول اور سمجھ سکتے ہیں اور جو یہ اہلیت نہیں رکھتے وہ بھی کچھ ہی مدت میں ذرا سی توجہ سے اردو سمجھنے کے قابل ہوسکتے ہیں۔ متحدہ پاکستان کی مختصر سی زندگی میں بنگالیوں نے یہ ثابت بھی کیا۔
پہلا احتجاج: ۱۹۰۶ء
مسلم لیگ نے ہندوستانی مسلمانوں کو علیٰحدہ تشخص قائم کرنے کی تحریک دی اور قوم پرستی کو پروان چڑھاکر دو قومی نظریے کی ترویج کی جو پاکستان کے قیام پر منتج ہوا۔ مسلم لیگ ۱۹۰۶ء میں ڈھاکہ کے ایک اجلاس میں قائم کی گئی تھی۔ کم لوگ جانتے ہیں کہ اس اجلاس کا ایجنڈا مسلمانوں کی کوئی علیٰحدہ جماعت قائم کرنا نہیں تھا بلکہ یہ تو سر سید احمد خان کی قائم کی ہوئی محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کا اجلاس تھا۔ ۱۹۰۵ء میں بنگال کی تقسیم عمل میں لائی گئی تھی اور ڈھاکہ کے دیہی علاقے کو راتوں رات اپ گریڈ کرکے دارالحکومت میں تبدیل کردیا گیا تھا۔ اس صورت حال نے ایک نئی سیاسی جماعت کی تشکیل کے لیے بھرپور میدان فراہم کیا تھا۔ محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کے اجلاس کا بنیادی مقصد بنگال اور بالخصوص مشرقی بنگال کے مسلمانوں کی تعلیم کے بارے میں غور کرنا تھا۔ زیادہ زور تعلیمی مواد پر نہیں بلکہ اس زبان پر تھا جس میں تعلیم دی جانی تھی۔ یعنی اردو یا فارسی کے آپشن پر غور کرنا تھا۔ بنگالی تو بیچ میں تھی ہی نہیں۔ نو تشکیل شدہ صوبے مشرقی بنگال اور آسام سے تعلق رکھنے والے ایک مندوب اور محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس (چٹاگانگ) کے مولوی عبدالکریم نے کہا کہ مشرقی بنگال کے مسلمان بنگالی کے بغیر نہیں جی سکتے۔ یہی ان کی بول چال کی زبان ہے اور اسی میں تعلیم حاصل کرنا کارگر ثابت ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ بنگالی زبان کو اپنانا خود کشی نہیں بلکہ بقاء کی ضمانت ہوگا۔ یہ پہلا موقع تھا جب بنگالی مسلمانوں نے واضح کردیا کہ وہ بنگالی کے بغیر نہیں جی سکتے اور یہ کہ وہ مسلم ہی نہیں، بنگالی بھی ہیں۔ اور یہی پہلا موقع تھا کہ جب لکھنؤ اور دہلی سے آنے والے بڑے بھائیوں پر علیٰحدہ شناخت واضح کردی گئی۔ ان بڑے بھائیوں نے ہم پر یہ جتایا تھا کہ بنگالی زبان صرف ہندوؤں کی ہے۔ پنجاب اور یوپی سے تعلق رکھنے والے اکابرین کا استدلال یہ تھا کہ صوبائی زبانوں میں تعلیم مسلمانوں کے لیے خود کشی کے مترادف ہے۔ ہمارے یہ بڑے بھائی صوبائی یا علاقائی زبانوں کے بارے میں اس قدر تحفظات کیوں رکھتے ہیں، اسے سمجھنے کے لیے اردو کی تاریخ پر نظر ڈالنی ہوگی۔ تیرہویں اور سولہویں صدی عیسوی کے دوران دلی سلطنت اور مغلیہ سلطنت کے ادوار میں دلی اور اتر پردیش کی چھاؤنیوں میں فوجیوں کو خیالات کے اظہار کے لیے ترکی، فارسی اور عربی زبان کے الفاظ سنسکرت کے ساتھ ملانے پڑتے تھے۔ صدیوں کے اس عمل میں اسی زبان نے پہلے ہندوستانی کا روپ اختیار کیا اور پھر اس کے بطن سے اسلامی ورژن پیدا ہوا جو اردو کہلایا۔
۱۸۵۷ء میں برطانوی راج کو ختم کرنے کی کوشش ناکام رہی اور حکمرانوں نے مسلمانوں کو مورد الزام ٹھہرایا۔ ناکام غدر یا جنگ آزادی میں مسلمانوں اور ہندوؤں نے مل کر حصہ لیا تھا مگر نزلہ مسلمانوں پر اس لیے گرایا گیا کہ وہ اپنی حکومت ختم ہونے کے بعد سے انگریزوں سے تعاون سے گریز کرتے رہے تھے جبکہ ہندو بھرپور تعاون کر رہے تھے۔ انگریزوں سے تعاون کا پہلا مرحلہ انگریزی سیکھنا تھا۔ مولوی صاحبان نے انگریزی سیکھنے کو کفر سے تعبیر کیا۔ نو آبادیاتی حکومت نے ڈبلیو ڈبلیو ہنٹر کو اس رجحان کے اسباب جاننے کا فریضہ سونپا۔ ان کی تحقیق پر مبنی کتاب ’’ہمارے بھارتی مسلمان‘‘ ۱۸۷۱ء میں شائع ہوئی جس میں اس امر پر بحث کی گئی تھی کہ کیا برطانیہ کی ملکہ کے خلاف بغاوت ہندوستانی مسلمانوں کا ناگزیر فریضہ ہے؟
انگریز مسلمانوں کی مدد کے لیے تیار تھے۔ مسلمانوں نے بھی مثبت انداز سے جواب دیا۔ سر سید احمد خان نے مسلمانوں کو سمجھایا کہ انگریزی نہ سیکھ کر وہ تعلیم، تجارت اور انتظام و انصرام کے معاملے میں ہندوؤں سے سو سال پیچھے رہ گئے ہیں۔ بس یہیں سے علی گڑھ تحریک شروع ہوئی۔ ۱۸۷۵ء میں سر سید احمد خان نے علی گڑھ میں اینگلو محمڈن اوری اینٹل کالج قائم کیا۔ ۱۸۸۶ء میں آل انڈیا ایجوکیشنل کانفرنس کا قیام عمل میں آیا جس کا ایک بنیادی مقصد انگریزی کے ساتھ ساتھ ترجمے اور طبع زاد تحریروں کے ذریعے اردو کو بھی فروغ دینا تھا۔
تیرہویں صدی عیسوی سے دلی سلطنت کی سرکاری زبان فارسی تھی۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے ۱۸۳۷ء میں اردو کو سرکاری زبان قرار دیا اور شمالی ہند میں انگریزی کو بھی سرکاری زبان کے طور پر استعمال کرنا شروع کیا۔ اس کے نتیجے میں ہندوؤں میں شدید اشتعال پیدا ہوا۔ وہ ہندی کو نظر انداز کیے جانے پر چراغ پا تھے۔ ایک تصور یہ تھا کہ اردو تو شرفا اور اشرافیہ کی زبان ہے جبکہ ہندی واہیات زبان ہے۔ اس تصور نے ہندوؤں کو مشتعل کیا اور ان میں زبان کے حوالے سے قوم پرستانہ رجحانات نے جنم لیا۔ اس صورت حال ہی نے ۱۸۶۰ء کے عشرے میں سر سید احمد خان کو علی گڑھ تحریک کی راہ سجھائی۔ اردو کے عربی اور فارسی رسم الخط کے تحفظ کو یقینی بنانے اور اسے ہند بھر کے مسلمانوں کے لیے رابطے کی زبان بنانے کی خاطر ۱۹۰۰ء میں اردو ڈیفنس ایسوسی ایشن اور ۱۹۰۳ء میں انجمن ترقی اردو کا قیام عمل میں آیا۔
دوسرا احتجاج: ۱۹۳۳ء
۱۹۲۶ء میں آل بنگال اردو ایسوسی ایشن کا قیام عمل میں لایا گیا۔ ایسوسی ایشن نے ۱۹۳۳ء میں کلکتہ میں اپنی کانفرنس میں اس بات پر زور دیا کہ صوبے بھر کے اسکولوں اور کالجوں میں مسلم طلبا کو اردو پڑھائی جائے۔ کانفرنس میں کہا گیا کہ بنگالی ہندوؤں کی زبان ہے جس پر سنسکرت کے اثرات نمایاں ہیں۔ مسلمانوں پر زور دیا گیا کہ وہ ایک زبان کے طور پر اردو کو اپنائیں۔ اور یہ کہ اس کے بغیر ان کی ثقافتی ترقی ممکن نہیں۔ کانفرنس کے اس مشورے پر ہر طرف سے تنقید ہوئی۔ ایک نوٹری پبلک امین الدین احمد نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ ہندو اور مسلم بنگالیوں کی ایک ہی زبان ہے اور وہ بنگالی ہے۔
اردو کے حامیوں کو شاید ڈبلیو ڈبلیو ہنٹر کی کتاب سے بھی مہمیز ملی تھی جس میں لکھا تھا کہ بنگالی مسلمان آدھے تیتر اور آدھے بٹیر ہیں اور انہیں ختنہ شدہ ہندوؤں سے زیادہ کچھ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ راقم کو بچپن کے ایسے واقعات بھی یاد ہیں کہ شادی کے لیے تیار کیے جانے والے تحائف میں دولہا والوں کی طرف سے سنکھا اور سندور شامل نہ کیے جانے پر شادی ٹوٹ جایا کرتی تھی۔ بہت سے لوگوں نے اپنے نام کے آگے سے ’’سری‘‘ ہٹاکر محمد لگانا شروع کیا۔ یہی سبب ہے کہ آج بنگلہ دیش میں محمد مسلمانوں کی غالب اکثریت کے ناموں کا ابتدائی جز ہے۔
اور یہ ’’آدھا تیتر آدھا بٹیر‘‘ والی حقیقت کی جڑ میں بھی بنگالی مسلمان ہیں۔ بنگالی مسلمانوں کی اکثریت نچلی ذات کے ہندوؤں پر مشتمل ہے۔ یہ شودر اور بے ذات کے لوگ اعلیٰ ذات کے مظالم سے بچنے کے لیے اجتماعی طور پر ایمان لائے۔ اور انہی کے دم سے مشرقی بنگال میں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ مگر اس سے طبقاتی تقسیم ختم نہیں ہوئی۔ ان نو مسلموں کو مسلمانوں کی ’’اطراف‘‘ کی ذاتوں (Atraf Class) ہی میں رکھا گیا اور اشرافیہ نے (محض اپنی سہولت کی خاطر) بنگالی زبان کو رابطے کی زبان کے طور پر اپنانے کے باوجود گھر میں اردو بولنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ ہاں، اتنا ضرور ہوا کہ بنگالی کے خلاف کوئی فتویٰ نہیں دیا گیا اور کوئی شاہی فرمان بھی جاری نہیں کیا گیا جس کے نتیجے میں لوگ اپنی مادری زبان سے محبت کرتے رہے۔ بنگالی مسلمانوں نے اپنی مادری زبان پر ہر حملے کے خلاف شدید احتجاج کیا ہے۔ ۱۹۱۳ء میں رابندر ناتھ ٹیگور کے گیتوں کے مجموعے ’’گیتانجلی‘‘ کو نوبل انعام ملا تو بنگالی تمام ہندوستانی زبانوں میں نمایاں ہوگئی۔ اس واقعے کی حقیقت کو سمجھنے میں اردو والوں کی ناکامی واقعی افسوسناک ہے۔
سیاست اور مذہب
موہن داس کرم چند گاندھی ۱۹۱۰ء کے عشرے میں جنوبی افریقا سے واپس آئے تو ہندوستان میں آزادی کی تحریک نئی راہ پر گامزن ہوئی۔ گاندھی مذہبی بنیاد پرست تھے اور شخصی نجات کو تمام امور پر مقدم سمجھتے تھے۔ انہوں نے جو کچھ کہا اور کرنا چاہا وہ ہندو قوم پرست تحریک کے لیے تو درست تھا مگر محمد علی جناح کے لیے زیادہ قابل قبول نہیں تھا۔ گاندھی جی کے خیر مقدم کے لیے منعقدہ ایک ٹی پارٹی کی صدارت محمد علی جناح نے کی جس میں گاندھی جی نے اپنے مذہبی عقائد پر زیادہ زور دیا۔ یہی وہ مرحلہ تھا جب محمد علی جناح نے ہندوستانی قوم پرست تحریک کو خیرباد کہہ دیا۔
۱۹۲۰ء کے عشرے میں محمد علی جناح گاندھی جی کے معتقد نہ ہونے کے باعث کانگریس سے دور ہوگئے اور خلافت تحریک کا ساتھ نہ دینے پر وہ مسلم لیگ کے لیے بھی قابل قبول نہ رہے۔ کانگریس اور تحریکِ خلافت نے ہاتھوں میں ہاتھ دیکر سیاست کا سفر طے کرنا شروع کیا اور محمد علی جناح کو گمنامی کی طرف دھکیل دیا۔ جناح کی نجی زندگی میں بھی طوفان برپا ہو رہے تھے۔ ان کی اہلیہ نے انہیں چھوڑ دیا اور دنیا سے بھی چل بسیں۔ جناح نے ہندوستان چھوڑا اور لندن میں سکونت اختیار کرلی۔ ۱۹۳۵ء میں برطانوی حکومت نے انڈیا ایکٹ نافذ کیا جس میں تمام اختیارات ہندوستانیوں کو سونپنے کی بات کہی گئی تھی۔ مسلم لیگ کی سرکردہ شخصیات نے جناح کو وطن واپسی پر راضی کیا۔ خود جناح بھی بدلی ہوئی صورت حال میں وطن واپسی کا ہی سوچ رہے تھے۔
تیسرا احتجاج: ۱۹۳۶ء
آل انڈیا مسلم لیگ نے ۱۹۳۶ء کے سالانہ اجلاس میں چند بنیاد پرستانہ فیصلے کیے جن کا مقصد مسلمانوں میں اتحاد اور یگانگت کو فروغ دینا تھا۔ ان میں ایک اہم فیصلہ اردو کو اپنانے سے متعلق تھا۔ طے کیا گیا کہ اردو زبان ہی کو نہیں، اس کے عربی اور فارسی رسم الخط کو بھی بچایا جائے گا۔ اردو کو مسلم لیگ کی سرکاری زبان بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اے کے فضل الحق نے اس کی مخالفت کی اور جواز یہ پیش کیا کہ اس فیصلے سے بنگالی مسلمان ناراض ہوں گے جو ہندوستانی مسلمانوں کا ایک تہائی ہیں۔ مگر ہمیشہ کی طرح اس بار بھی ان کا اعتراض مسترد کردیا گیا۔ ۱۹۳۷ء میں مسلم لیگ نے ہندی کے بجائے اردو کو ہندوستان بھر کی زبان بنانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگادیا۔
مارچ ۱۹۴۸ء میں جب محمد علی جناح بہت بھاری سامان کے ساتھ ڈھاکہ آئے تو انہوں نے کہا ’’پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہوگی، اور کوئی بھی زبان نہیں۔ اور اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ اردو میں مسلم ثقافت پوری طرح رچ بس گئی ہے اور دیگر اسلامی ممالک کی زبان سے بھی یہ قریب تر ہے۔‘‘ جناح نے اردو کو رابطے کی زبان (Lingua Franca) بھی قرار دیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت بھی بہت سے بنگالی اردو کو رابطے کی زبان قرار دیتے تھے اور آج بھی ایسی سوچ رکھنے والے بنگالی مسلمانوں کی کمی نہیں۔ کراچی کے اجلاس میں صوبائی وزرائے تعلیم نے طے کیا کہ ابتدائی تعلیم مادری زبان میں دی جائے گی، جہاں اردو مادری زبان نہیں ہوگی وہاں اسے چھ سال کی مدت میں مرحلہ وار اپنایا جائے گا اور اس دوران انگریزی محض اختیاری زبان کی حیثیت سے باقی رہے گی۔ اور ۱۹۵۵ء تک انگریزی کو ترک کرکے اردو کو سرکاری زبان کی حیثیت سے اپنالیا جائے گا کیونکہ تب تک جامعہ میں داخل ہونے والے طلبا انگریزی کو بھول کر اردو میں مہارت کے حامل ہوچکے ہوں گے۔ اردو کو اعلیٰ تعلیم کی زبان بنانا محض رابطے کی زبان بنانے سے کہیں بڑا اقدام تھا اور ظاہر ہے کہ بنگالی زبان کو دبادیا گیا۔ اسی کے ردعمل میں ڈھاکہ میں نیشنل لینگویج ایکشن کمیٹی تشکیل دی گئی۔ اور اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔
بنگالی زبان کے بلند معیار کا ذکر اپنی پارسائی بیان کرنے کی خاطر نہیں تھا۔ بنگالی نے بھی دوسری زبانوں سے بہت کچھ حاصل کیا ہے۔ زبانیں اسی طور فروغ پایا کرتی ہیں۔ یہ سب کچھ بیان کرنے کا مقصد صرف یہ دیکھنا تھا کہ ہم نے تاریخ سے کوئی سبق سیکھا ہے یا نہیں؟َ ہم نے آج بھی اپنی لگام دوسروں کے ہاتھوں میں دے رکھی ہے۔
[مصنف مغربی آسٹریلیا میں سکونت پذیر ہیں]
(روزنامہ ’’ہالیڈے‘‘ ڈھاکا۔ ۱۲ فروری ۲۰۱۰ء)
Leave a Reply