’’سزاے موت‘‘ کی تاریخ

دنیا میں انسان کی پیدائش کے دن سے ہی اس کی موت کا آغاز ہو گیا تھا۔ جہاں اس کی پیدائش فطری رہی‘ وہیں انسان کی موت بھی فطری ہوتی ہے لیکن موت کے عوامل مختلف ہوتے ہیں۔ اسی تناظر میں کہا جاسکتا ہے کہ فطری موت کا ذمہ دار تو پیدا کرنے والا ہے لیکن غیرفطری موت کا ذمہ دار ’مارنے والا‘ ہے۔ دنیا میں صرف انسان ہی ایسا جانور ہے جو انتقام‘ پیار‘ غصہ‘ اپنی خوشی‘ پیسہ اور عورت کی خاطر دوسرے انسان کی جان لیتا ہے۔ بہرحال اسی حیوانیت کا مظاہرہ کرنے والوں کو سماج دشمن قرار دے کر موت کے گھاٹ اتارا جانا آہستہ آہستہ قانون بن گیا۔ ابتدا میں موت کی سزا دینے کے جو طریقے اپنائے گئے وہ خود موت سے بھی زیادہ بھیانک تھے۔ مثلاً زندہ جلا کر مار دینا‘ کسی گاڑی کے نیچے دبا کر ہلاک کر دینا یا پھر گلا گھونٹ کر موت کی نیند سلا دینا۔ پہلے تو معمولی سی معمولی بات کے لیے انسان کو مار دیا جاتا تھا لیکن زندگی اور موت کے درمیان کے فاصلے کو کم کرنے کی راہ میں انسان نے ترقی کی اور سزاے موت کے طریقے کو ترقی یافتہ بنا دیا گیا۔ چنانچہ ۱۹۷۲ء میں فرانس میں گلوٹین کے ذریعہ سزا دینے کا طریقہ رائج کیا گیا۔ فرانس کے انقلاب کے بعد یہ طریقہ شروع ہوا۔

ڈاکٹر گلوٹین نے اس طریقے کو اپنایا اور فرانسیسی پارلیمنٹ نے اس کی منظوری دے دی۔ اس پر وقتاً فوقتاً عمل کیا جاتا ہے۔ اس طریقے میں مجرم کو ایک تیز دھار والی مشین کے نیچے بٹھا دیا جاتا ہے اور اس کی گردن آگے کر دی جاتی ہے اور ایک بڑا وزن دار ہتھیار اس کے اوپر سے گرایا جاتا ہے اور لمحہ بھر میں اس کی گردن دور جاگرتی ہے۔ اسی دوران اسپین میں Gacrotte کا طریقہ اپنایا گیا۔ جرمنی میں تلوار کے ذریعہ گردن اڑائی جاتی تھی تو برطانیہ نے پھانسی کا راستہ اپنایا۔ پھانسیوں کی تعداد کے بارے میں اعدد و شمار تو معلوم نہیں ہو سکے تاہم یہ بھی نہیں معلوم ہو سکا کہ بنی نوع انسان کو پھانسی کے پھندے پر سب سے پہلے کب اور کس نے لٹکایا۔

مشہور جوزف ڈلاوے سائی نے اپنی کتاب “History of Pilgrim and Puritans” میں لکھا ہے کہ امریکا میں جو تارکینِ وطن آباد تھے انہوں نے پھانسی کا طریقہ اپنایا اور انہیں اپنے آبائو اجداد اینگلو سیکزین سے یہ طریقہ وراثت میں ملا تھا اور اس کی ابتدا جرمنوں سے ہوئی تھی۔ اس کتاب کے مطابق پہلی پھانسی ۱۶۳۰ء میں پلے موتھ کے مقام پر جان بلنکٹن نامی ایک نوجوان کو دی گئی تھی جس نے جان یوکومین پر گولی چلائی تھی اور وہ مر گیا تھا۔ جہاں تک برطانیہ کا تعلق ہے اس بات کی شہادت ملتی ہے کہ وہاں ہنری دوم کے دور میں مجرمین کو پھانسی دی جاتی تھی اور برطانیہ اور دوسرے ملکوں میں ۱۸۶۸ء تک برسرِ عام پھانسی پر چڑھانے اور لاسوں کو عام مقامات پر لٹکانے کا رواج عام تھا تاکہ دوسرے لوگ عبرت حاصل کر سکیں۔

مغربی ملکوں میں جان لینے کے نئے نئے طریقے ایجاد کیے گئے جس میں بجلی کے جھٹکے دے کر ہلاک کرنا‘ گیس کے چیمبر میں بٹھانا اور گولی سے اڑا دینا۔ اس ترقی یافتہ دنیا کی دین ہے۔ بجلی کی کرسی پر بٹھا کر جھٹکے دینے کا طریقہ یہ بتایا گیا کہ مجرم کو ایک کرسی سے باندھ دیا جاتا تھا اور اس کرسی میں Volts2000 بجلی دوڑائی جاتی اور فوراً ہی اس کی طاقت 500 Volts تک گرا دی جاتی۔ بجلی کی بڑھتی گھٹی طاقت کے نتیجہ میں دو منٹ کے اندر مجرم ہلاک ہو جاتا تھا۔ جہاں تک گیس چیمبر کا تعق ہے یہ بے حد مہنگا امریکی طریقہ ہے۔ اس میں ایک چیمبر میں Cynide بھر دیا جاتا تھا اور اس سے مجرم زہریلی سانس لے کر لمحہ بھر میں دم توڑ دیا کرتا تھا۔ اس طریقے کو دوسری عالمی جنگ کے دوران کثرت سے استعمال کیا گیا۔ کچھ امریکی ریاستوں نے پھانسی کے طریقے کو ہی بہتر سمجھا۔ بجلی کی کرسی پر بٹھا کر ہلاک کرنے کا طریقہ نیویارک میں ۱۸۸۸ء میں شروع ہوا تھا۔ کچھ ملکوں نے موت کی سزا کا طریقہ ختم ہی کر دیا۔ سویڈن میں آخری پھانسی ۱۹۱۰ء میں دی گئی اور ۱۹۲۱ء میں سزاے موت کا طریقہ بند کر دیا گیا۔ فن لینڈ میں ۱۹۴۹ء میں سزاے موت ختم ہوئی اور آخری انسان ۱۸۲۲ء میں پھانسی پر چڑھایا گیا۔ ۱۸۶۷ء تک پرتگال سمیت دس ملکوں نے سزاے موت کا طریقہ ختم کر دیا تھا۔ ۱۹۴۹ء میں برطانیہ نے اس فیصلہ پر عمل کیا۔ امریکا میں آخری پھانسی ۱۹۳۶ء میں کننکی کے مقام پر دی گئی تھی۔

فی الحال دنیا کے نصف ممالک نے سزاے موت ختم کر دی ہے لیکن ان ملکوں میں بھارت شامل نہیں ہے۔ بھارت میں آخری پھانسی اگست ۱۹۹۱ء میں دی گئی تھی جبکہ مغربی بنگال کے سوکمارا برمن اور کارتک Seal کو ایک خاندان کے چار افراد کے قتل کے الزام میں پھانسی پر چڑھایا گیا تھا۔ دنیا کے دنیا کے ۸۰ ملکوں نے تمام قسم کے جرائم کے لیے سزاے موت ختم کر دی ہے جبکہ ۱۵ ملکوں نے جنگی جرائم اور ایسے ہی خطرناک جرائم کے لیے سزاے موت کو برقرار رکھا ہے۔ ۲۳ ملک ایسے ہیں جنہوں نے قانون کے ذریعہ سزاے موت کو باقی رکھا ہے لیکن پچھلی ایک دہائی سے اس پر عمل درآمد نہیں کیا گیا ہے۔ اس طرح کُل ملا کر ۱۱۸ ممالک ایسے ہیں جنہوں نے سزاے موت کو منسوخ کر دیا ہے یا اس پر عمل نہیں کرتے۔ اس کے برخلاف ۷۸ ملک ایسے ہیں جنہوں نے موت کی سزا کو برقرار رکھا ہے لیکن جن لوگوں کو موت کی سزا دی گئی ہے ان کی تعداد بے حد قلیل ہے۔ مثال کے طور پر ۲۰۰۳ء میں ۲۸ ملکوں میں ایک ہزار ایک سو چھیالیس افراد کو موت کی سزا دی گئی۔ یہ تو سرکاری اعداد و شمار تھے لیکن ایمنسنی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ یہ تعداد اور زیادہ تھی۔ ۲۰۰۳ء میں چین‘ ایران‘ امریکا اور ویت نام میں ۸۴ فیصد مجرمین کو سزاے موت دی گئی۔ سنگاپور میں جس کی آبادی تقریباً چالیس لاکھ ہے ہر سال تقریباً ۷۰ افراد کو موت کی سزا دی جاتی ہے ان میں زیادہ تر منشیات کا کاروبار کرنے والے ہوتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکا میں سپریم کورٹ نے ۱۹۷۲ء میں فیصلہ کیا کہ سزاے موت غیرآئینی ہے۔ لیکن ۱۹۷۶ء میں سپریم کورٹ نے اپنے پہلے فیصلہ کو کالعدم قرار دے دیا اور ریاستوں کو یہ اختیار دے دیا کہ وہ سزاے موت کا طریقہ شروع کر سکتے ہیں۔ اب امریکا کی پچاس ریاستوں میں سے ۳۸ ریاستوں میں موت کی سزا دی جاتی ہے۔ اس سے بھی زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکی صدر جارج بش جب ٹیکساس کے گورنر تھے تو ان کی ریاست میں ۱۵۲ افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔ امریکا میں یہ شرمناک کام بھی انجام دیا گیا کہ ۱۹۹۰ء میں انیس ایسے افراد کو سزاے موت دی گئی جن کی عمریں اٹھارہ سال سے کم تھیں۔

بہرحال انسانیت کی یہ ٹریجڈی آج کوئی نئی بات نہیں ہے۔ سیکڑوں برس سے انسان اپنی ترقی کے اوزاروں‘ اپنے اقتدار‘ اپنے انتقام‘ اپنے خوف‘ اپنی مسرت اور اپنے ضمیر کی خاطر آگ اور خون کی ہولی کھیلتا آیا ہے اور جب تک یہ دنیا قائم ہے‘ انسان کے پھر سے انسان بننے کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔ ہاں حیوانیت اور درندگی روز بروز بڑھتی جارہی ہے۔ آج دنیا کے گوشہ گوشہ سے زخمی اور درد سے تڑپتی ہوئی انسانیت کی آہ و بکا اور پکار سنائی دے رہی ہے۔ ایک ایسی چیز جس کا مقصد شاید فضائوں میں بکھر جانا ہے‘ نام نہاد ترقی یافتہ دور نے جیتے جاگتے انسانوں کو سرسری انداز میں اپنے مقصد کے لیے بنائے ہوئے قانون کا سہارا لے کر موت کی نیند سلا دیا ہے۔ قتل کا بدلہ قتل قانون میں تو ٹھیک ہو سکتا ہے لیکن کسی حیوان صفت مجرم کی سزا‘ موت نہیں ہے۔ اصل سزا تو یہ ہونی چاہیے کہ وہ زندگی بھر موت کا انتظار کرے‘ وہ گڑگڑا کر موت موت مانگے لیکن موت اس پر قہقہ لگاتی رہے۔ تڑپ تڑپ کر‘ سسک سسک کر وہ جینے اسے زندہ رکھا جائے اور اس کی زندگی‘ موت سے بھی بدتر ہو اور یہی شاید کسی بدترین مجرم کی بہترین سزا ہو سکتی ہے۔

(مصطفی علی اکبر۔ آل انڈیا ریڈیو اردو سروس)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*