
مغرب اب تک عرب دنیا کو سمجھنے میں کامیاب نہیں ہوسکا ہے۔ اس وقت شام میں بھی ہم اپنی مرضی کے چھوٹے چھوٹے نسل پرستانہ نقشوں کو بروئے کار آتے ہوئے دیکھنے کے خواہش مند ہیں۔ بشارالاسد کا آبائی علاقہ قرداحۃ (Qardaha) ایک بھیانک تصویر پیش کرتا ہے۔ اب پھر ذہنوں میں سوال ابھر رہا ہے کہ کیا بشار الاسد کی (علوی) کمیونٹی اقتدار پر قبضہ برقرار رکھنے میں کامیاب ہوگی جبکہ وہ ملک کی آبادی میں بارہ فیصد ہے؟ ہم نے عراق کے بارے میں بھی غلط اندازے قائم کیے تھے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ مغرب کے دانشور عراق میں شیعوں کو سب سے نیچے، سُنیوں کو وسط اور کردوں کو بلندی پر رکھا کرتے تھے۔ لبنان کے معاملے میں بھی یہی ہوا۔ وہاں آبادی مختلف علاقوں میں بٹی ہوئی ہے اور مغرب کے جاری کردہ نقشوں میں یہی سب کچھ بیان کیا جاتا رہا ہے۔ یعنی سب سے نیچے شیعہ، مشرق میں شیعہ اور سیدون اور ٹریپولی (Sidon and Tripoli) میں سنی اور بیروت کے مشرق اور شمال میں عیسائی۔ آج تک مغربی دنیا کے کسی نقشے میں بریڈ فورڈ (برطانیہ) کی آبادی کو عیسائی اور مسلم کے روپ میں تقسیم نہیں کیا گیا۔ کسی نقشے میں واشنگٹن کی آبادی کو سفید فام اور سیاہ فام میں منقسم نہیں دکھایا گیا۔ کیونکہ اس سے تو یہ تاثر ملے گا کہ مغرب کی آبادی کو نسل اور قبیلے کی بنیاد پر تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ صرف عرب دنیا ہماری طرف سے پیش کی جانے والی لسانی اور نسلی تقسیم کے میرٹ پر پوری اترتی ہے!
مشکل یہ ہے کہ شام، جو سیکولر رہا ہے، کسی بھی اعتبار سے مذہبی بنیاد پر تقسیم کا حامل نہیں رہا۔ شام سُنّیوں، عیسائیوں اور علویوں کا مرکز رہا ہے۔ علوی یہاں بہت پہلے سے بسے ہوئے ہیں۔ وہ پہاڑی علاقوں کے رہنے والے ہیں۔ ان کا تعلق بنیادی طور پر ترک صوبے ہاتے (Hatay) میں الیگزینڈریٹا سے رہا ہے۔ وہ چاہے کہیں بھی رہتے رہے ہوں، اُن کے ماضی کے بارے میں ہمیں کم ہی معلوم ہے اور فرانس کا معاملہ تو خیر جانے ہی دیجیے۔
فرانس کی مصنفہ اور محقق سیبرینا مرون (Sabrina Mervin) نے علویوں کے بارے میں تحقیق کی ہے اور بتایا ہے کہ ان کا تعلق بنیادی طور پر شیعہ فرقے ’’نصیریہ‘‘ سے ہے۔ اس فرقے کا بانی محمد ابن نصیر تھا جس نے نویں اور دسویں صدی عیسوی میں اپنے فرقے کو فروغ دیا۔ یہ دور عرب دنیا میں شیعیت کے فروغ کے حوالے سے سنہرا دور کہلاتا ہے۔ سیبرینا مرون کی ’’تحقیق‘‘ کو فرانس کے مشہور ادارے ’’لی مونڈ ڈپلومیٹک‘‘ نے شائع کیا ہے۔ اس کتاب میں سیبرینا نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ علویوں کو مختلف ادوار میں شدید مخالفت اور ایذا رسانی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
زیادہ پرانی نہیں، ۱۹۰۳ء کی بات ہے۔ بیلجین نژاد مستشرق اور جیسوئٹ ہنری لیمینز (Henri Lammens) علویوں کو سابق عیسائی سمجھتا تھا۔ اُس کا یہ تصور ایک شیخ سے ملاقات تک برقرار رہا۔ یہ شیخ شیعہ عقائد کا علم بردار تھا۔ لیمینز استعمار پسند ذہن کا مالک تھا۔ علوی بظاہر ارواح کے حلول پر یقین رکھتے تھے اور اُن کے ہاں بھی تثلیث تھی جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم، علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر مشتمل تھی۔ لیمینز نے یہ تصور پیش کیا کہ فرانس اگر تھوڑا ساتھ دے تو علویوں کو حلقہ بگوش مسیحیت کیا جاسکتا ہے۔ اس کے مشورے کی روشنی میں فرانس نے بعد میں علویوں کی تھوڑی بہت حمایت اور سرپرستی کی۔
عثمانی ترکوں نے بھی علویوں کو اپنے اندر سمونے کی کوشش کی۔ سیبرینا مرون کی تحقیق کے مطابق سُنّی اکثریت نے علویوں پر مظالم ڈھائے اور اُنہیں علم کی دنیا سے بھی دور رکھا۔ ۱۹۱۰ء تک علویوں کے عمائدین اور زُعما نے لبنان اور شام کے شیعوں سے تعلقات استوار کرنا شروع کردیے تھے اور وہ خود کو علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نسبت کی بنیاد پر علوی کہتے تھے اور خود کو نصیری کہلانے سے یکسر گریز کرنے لگے تھے۔ شام پر جس دور میں فرانس کا قبضہ تھا، تب فرانسیسی حکام نے علویوں کو سُنّیوں سے الگ کرنے کی کوشش کی۔ اُسی دور میں یہ تاثر اُبھرا کہ شام کے سُنّی تو آزادی کے لیے لڑ رہے تھے جبکہ علویوں نے فرانسیسی قابض فوج کا ساتھ دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ علویوں کے ایک گروپ نے صالح العلی کی قیادت میں دسمبر ۱۹۱۸ء سے ۱۹۲۱ء کے دوران فرانسیسی فوج سے ٹکر لی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ۱۹۴۶ء میں آزاد شام کی پہلی جمہوری حکومت نے صالح العلی کو قومی ہیرو قرار دیا۔ علویوں کی ایک نمایاں شخصیت سلیمان المرشد کو ۱۹۴۶ء ہی میں غدّاری کے جرم میں پھانسی دی گئی۔
فرانس کے اقتدار کے حوالے سے علویوں میں بھی اختلافِ رائے تھا۔ کچھ علوی ایسے تھے جو فرانس کی حکومت کو درست سمجھتے تھے کیونکہ فرانسیسی حکام نے مختصر مدت کے لیے علویوں کے اقتدار والا ایک الگ علاقہ قائم کیا تھا۔ دیگر علوی شام کے سُنّیوں کے ساتھ مل کر آزادی کی جنگ لڑنے کے حامی تھے۔ یہ لوگ سلیمان الاحمد کی قیادت میں آزادی کے لیے فرانسیسی فوج کے خلاف لڑے۔ ۱۹۳۶ء میں یہ اسلام کے دائرے میں آگئے اور فلسطین کے مُفتیٔ اعظم امین الحسینی نے فتوے کے ذریعے اُنہیں اُمت کا حصہ بنادیا۔ یہ وہی شیخ امین الحسینی تھے جنہوں نے جرمن آمر ایڈولف ہٹلر سے ملاقات کی۔ ویسے اس ملاقات کا علویوں سے کوئی تعلق نہ تھا۔
عراقی شیعوں کی مدد سے علویوں نے اپنے معبد تعمیر کیے اور لٹریچر شائع کیا۔ ۱۹۵۲ء میں شام کے مُفتیٔ اعظم نے اِنہیں قبولیت کی سند دی۔
علویوں اور شیعوں میں تعاون جاری رہا۔ اور پھر ۱۹۷۳ء میں شام میں پہلی بار علویوں کی حکومت قائم ہوئی، جب حافظ الاسد صدر مقرر ہوئے۔ لبنان میں سب سے زیادہ سیاسی سمجھے جانے والے شیعہ لیڈر امام موسیٰ صدر نے (جو ممکنہ طور پر معمر قذافی کے حکم سے قتل کیے گئے) یہ اعلان کیا کہ علوی بھی مسلمان ہیں۔ اسی دور میں شام کے دارالحکومت دمشق کے نواح میں سیدہ زینب نامی علاقے میں شیعوں نے مذہبی تعلیمات کے فروغ کے لیے مدارس کھولے۔ یہیں سے شام کی ’’شیعائزیشن‘‘ (Shia-Isation) کی کہانی شروع ہوئی۔ شامی فوج میں بیشتر جرنیل سُنّی تھے مگر پھر یہ ہوا کہ فوج اور حکمراں بعث پارٹی میں علوی نمایاں عہدوں تک پہنچ گئے۔
مگر خیر علوی فرقے سے تعلق رکھنے والے لوگوں میں سبھی کو بہتر زندگی بسر کرنے کے مواقع نہیں ملے۔ حافظ الاسد اور بشارالاسد کے دور میں قبائلی بنیاد پر بننے والی تنظیموں اور مذہبی جماعتوں کا زور ٹوٹا۔ بہت سے روایتی خانوادوں کا بھی یہی حال ہوا۔ دمشق کے شمال میں اب بھی علویوں کی اکثریت والے علاقے میں غیر معمولی افلاس ہے۔ فرقہ وارانہ بنیاد پر علویوں کا تذکرہ ممنوع ہے۔
ویسے شامی باشندوں میں علویوں کا تذکرہ کرنے کا ڈھنگ سب سے سفّاک ہے۔ اُنہیں ’’جرمن‘‘ کہا جاتا ہے۔ خیر، نام میں کیا رکھا ہے؟ مگر ہاں، مزید کِسی نقشے کی زحمت نہ کریں۔
(“Alawite History Reveals the Complexities of Syria that West does not Understand”…
“The Independent” London. March 4th, 2013)
Leave a Reply