بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے جب مئی میں اپنے منصب کا حلف اٹھایا تھا تب پورے جنوبی ایشیا کے رہنماؤں کو تقریبِ حلف برداری میں شرکت کی دعوت دی تھی۔ تمام رہنما یہی سوچ کر آئے تھے کہ ایسا کرنے سے خطے میں ہم آہنگی، مفاہمت، امن اور خوش حالی کی راہ ہموار ہوگی۔ بھارت کی معیشت تیزی سے پنپ رہی ہے۔ جنوبی اور جنوب مشرقی ایشیا کے بیشتر ممالک اِس ترقی کو پُرامید نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ جس طرح بھارت نے ترقی کی ہے، اسی طرح ان کے ممالک بھی ترقی کریں۔
کیا واقعی ایسا ہے کہ بھارت خطے کے تمام ممالک کا بھلا چاہتا ہے؟ جو لوگ ایسا سوچ رہے ہیں، اُنہیں یہ جان کر انتہائی دُکھ اور حیرت کا سامنا ہوا ہوگا جب انہیں یہ پتا چلا ہوگا کہ نریندر مودی کی آبائی ریاست گجرات میں اسکول کے بچوں کو تاریخ کی نئی درسی کتب پڑھائی جارہی ہیں جس میں ’’اکھنڈ بھارت‘‘ کا تعارف کرایا گیا ہے۔ اس اکھنڈ بھارت میں پاکستان، سری لنکا، نیپال، میانمار (برما)، تبت، بنگلہ دیش، افغانستان، مالدیپ، بھوٹان سبھی شامل ہیں۔ تاریخ کی جن متنازع کتابوں کو اسکولوں میں پڑھانے کی تجویز پیش کی گئی ہے، وہ ۸۵ سالہ سابق ٹیچر اور ثقافتی جنگ کے سپاہی دینا ناتھ بترا نے لکھی ہیں۔ یہ کتابیں چالیس ہزار سے زائد اسکولوں میں پڑھانے کی سفارش کی گئی ہے۔ اِن کتابوں کی حیثیت اضافی مواد کی ہوگی۔ اِن کتابوں میں تاریخ کو خالص ہندو قوم پرستانہ نقطۂ نظر سے دیکھا اور پیش کیا گیا ہے۔ اِن میں ہندو مذہبیت کو بنیاد بنایا گیا ہے تاکہ بچوں کے ذہن میں مذہب کو سب سے بڑا درجہ ملے۔ ساتھ ہی ساتھ ہندو قوم پرستی کو بھی نمایاں مقام دیا گیا ہے۔ اِن درسی کتب میں کہیں کہیں مواد کو پیش کرنے کا انداز پروپیگنڈے کا رنگ اختیار کرتا دکھائی دیتا ہے۔
نریندر مودی نے ہمیشہ بھارتی معیشت کو فروغ دینے کی بات کی ہے۔ ان کی تقریروں میں کہیں بھی فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور مفاہمت کا ذکر نہیں اور اگر ہے بھی تو محض اشارے کے طور پر، رسمی انداز سے۔ پریشان کن بات یہ ہے کہ جن نئی درسی کتب کو اسکولوں میں پڑھانے کی سفارش کی گئی ہے، ان میں نریندر مودی کا وہی انداز جھلکتا ہے جو انہوں نے دیگر مذاہب اور نسلوں کے لیے اپنایا ہے۔ انہوں نے سب سے پہلے بھارت کا نعرہ لگاکر ملک بھر کے عوام کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ بھارت ہی ان کے لیے سب سے بڑھ کر ہے۔ حقیقت یہ نہیں ہے۔ وہ ہر حال میں ہندوتوا کو اولیت دینا چاہتے ہیں تاکہ دیگر فرقوں اور مذاہب کے لوگوں کو سائیڈ لائن کرنا آسان ہوجائے۔ انہوں نے عظیم تر بھارت کا تصور اسی انداز سے پیش کیا ہے جس انداز سے ’’عظیم تر روس‘‘ یا ’’عظیم تر جرمنی‘‘ کی بات کی جاتی رہی ہے۔ جب کوئی رہنما اپنے ملک کو ’’عظیم تر‘‘ کے تصور کے ساتھ پیش کرنے کی بات کرتا ہے تو اُس کے ذہن میں یہ بات بھی ہوتی ہے کہ ایسا کرنا اُسی وقت ممکن ہے جب دوسروں کی نفی کردی جائے، انہیں زیادہ اہمیت نہ دی جائے یا اُن کے وجود کو حقیقی مفہوم میں سِرے سے تسلیم ہی نہ کیا جائے۔ ایسے ممالک بڑی تعداد میں ہیں جہاں اقلیتیں بڑی تعداد میں ہیں۔ اُن معاشروں میں اقلیتوں کے حقوق کا خیال رکھنا اور انہیں مرکزی دھارے سے قریب کرنا ناگزیر ہوتا ہے کیونکہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں معاشرہ انتشار اور بگاڑ کا شکار ہوتا ہے۔ بھارت کو بھی بہت سی اقلیتوں کا سامنا ہے۔ مسلمان، سکھ، عیسائی اور بُدھ بڑی تعداد میں ہیں۔ اِنہیں مساوی حقوق دینا بنیادی مسئلہ ہے۔ ہندو اکثریت اب تک اس بات کی خواہش مند رہی ہے کہ مسلمان اور دیگر اقلیتیں اپنے بنیادی مذہبی حقوق سے دست بردار ہوں اور مرکزی دھارے سے مل جائیں۔ مرکزی دھارے سے ملنے کا مفہوم یہ ہے کہ وہ اقلیتوں کو اقلیت کی حیثیت سے دیکھنے کے لیے تیار نہیں۔ مسلمانوں کو دوبارہ ہندو بننے کا مشورہ کئی بار دیا گیا ہے۔ مسلمانوں کو عبادات اور دیگر متعلقہ امور میں اپنی روایات ترک کرنے کے لیے ڈرایا دھمکایا بھی جاتا رہا ہے۔ ایسے میں نریندر مودی کے ایجنڈے سے خوف ہی آسکتا ہے۔ وہ اپنی انتخابی مہم کی تقریروں میں کئی بار ہندوتوا کی بات کرچکے ہیں۔ وزیر اعظم بننے کے بعد اُن کے پاس اپنے ارادوں کو عملی جامہ پہنانے کا اختیار بھی ہے۔ وہ چاہیں تو اپنی مرضی کے مطابق معاشرے کو کسی بھی سمت لے جاسکتے ہیں۔
اقلیتوں کی تعداد اور تنوع کے لحاظ سے بھارت سب سے بڑا اور سب سے منفرد ملک ہے۔ نریندر مودی سے جب بھی بھارتی اقلیتوں کے بارے میں سوال کیا گیا ہے، اُنہوں نے سوال کو فرقہ وارانہ قرار دیتے ہوئے مسترد کیا ہے اور یہ بات زور دے کر کہی ہے کہ اُن کی وزارتِ عظمیٰ کے دور میں کسی بھی اقلیت سے کوئی زیادتی نہیں ہوگی، کسی بھی اعتبار سے امتیازی سلوک روا نہیں رکھا جائے گا۔
اگر نریندر مودی واقعی اپنے کہے پر عمل کرنا چاہتے ہیں تو پھر دینا ناتھ بترا کی تیار کی ہوئی تاریخ کی کتب کیا ہیں، کس مقصد کے لیے ہیں؟ جو لوگ نریندر مودی کو اب عمل کی دنیا میں دیکھنا اور پرکھنا چاہتے ہیں، وہ یہ بھی دیکھنے کے لیے بے تاب ہیں کہ امتیازی نوعیت کے مواد پر مبنی درسی کتب کو وہ کس طور اسکولوں میں پڑھواتے ہیں۔ نریندر مودی کو جس ملک اور سماج نے منتخب کیا ہے، وہ یقینی طور پر ہندوتوا کا فروغ نہیں چاہتا۔ اگر نریندر مودی نے ہندوتوا کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کی کوشش کی تو یقینی طور پر ان کے بارے میں شکوک و شبہات بڑھیں گے۔ اب تک تو قوم یہی سوچ رہی ہے کہ مودی ملک کو معاشی طور پر زیادہ سے زیادہ مستحکم کرنے پر توجہ دیں گے۔ درسی کتب میں اکھنڈ بھارت کا نظریہ بچوں کے ذہنوں پر مسلط کرنے کی کوشش اپنے مینڈیٹ سے رُو گردانی کے سِوا کچھ نہیں۔ کیا نریندر مودی ابھی سے ۲۰۲۴ء کے انتخابات کا سوچ رہے ہیں؟ کیا وہ ابھی سے ۲۰۲۴ء کے جواں سال ووٹرز کی ذہن سازی کرنا چاہتے ہیں؟
جو لوگ درسی کتب میں بچوں کو اکھنڈ بھارت کے بارے میں بتائے جانے کو اوور ری ایکشن سمجھتے ہیں، وہ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ایک طویل جنگ کے لیے ابھی سے بھرپور تیاری کا آغاز کیا جارہا ہے۔ بھارتی معاشرے کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے سیکولراِزم، قوم پرستی، فرقہ واریت اور دیگر پہلوؤں کی روشنی میں تاریخ کی جنگ ہمیشہ نمایاں رہی ہے۔ ہر فریق چاہتا ہے کہ تاریخ کو اُس کی دی ہوئی عینک سے دیکھا جائے۔
بھارت کے ماضی کی کئی پرتیں ہیں۔ یہاں بسنے والی نسلیں اور مذہبی گروپ آپس میں دست بہ گریباں رہے ہیں۔ ہر فریق اپنے ماضی سے جان چھڑانا چاہتا ہے مگر اِس کے لیے وہ نظریں چُرانے کو اولیت دیتا ہے۔ ہندو سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں نے اُن سے زیادتی کی ہے۔ مسلمان یہ محسوس کرتے ہیں کہ ہندو اُنہیں ہمیشہ غلط سمجھتے آئے ہیں۔ ایسے میں اِس بات کی بہت اہمیت ہے کہ سب کچھ توازن کے ساتھ ہے۔ بھارت میں تاریخ کی ایسی درسی کتب کی تیاری ہمیشہ مسئلہ رہی ہے جن میں ہر قوم اور نسل کو پورے توازن کے ساتھ پیش کیا گیا ہو اور مواد اس طور تیار کیا گیا ہو کہ کوئی بھی معترض نہ ہو۔
بھارت میں تاریخ مرتب کرنے کے اصولوں اور ان میں پائے جانے والے تناقض کے حوالے سے بہت سی کتابیں مارکیٹ میں ہیں۔ سیکولر عناصر اس بات پر زور دیتے رہے ہیں کہ تاریخ کی کتب فرقہ وارانہ نقطۂ نظر سے نہ لکھی جائیں۔ ہندوتوا کے حامی اور علم بردار چاہتے ہیں کہ ہر حال میں ہندو مذہب اور مذہبیت کو اولیت دی جائے اور پورے معاشرے کو ہندوتوا کے رنگ میں رنگ دیا جائے۔
۱۹۸۰ء کے عشرے میں ہندوتوا نے سَر اٹھایا۔ تب تک سیکولر عناصر تاریخ کو غیر جانب دار انداز سے لکھنے اور پڑھنے پر زور دیتے رہے تھے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے ہندوتوا کو بنیادی ایجنڈے میں تبدیل کیا اور تاریخ کی کتب پر بھی اِسی حوالے سے اثر انداز ہونے کی کوشش کی۔ اِس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تاریخ کے حوالے سے نئی بحث چھڑ گئی۔ امرتیہ سین کی ’’ہسٹری اینڈ کی انٹر پرائز آف نالج‘‘ اس حوالے سے بہت اہم ہے۔ رومیلا تھاپر کی ’’اِن ڈیفنس آف ہسٹری‘‘ اور ولیم ڈیلرمپل کی ’’انڈیا: دی وار اوور ہسٹری‘‘ اِس حوالے سے بہت اہم ہیں۔ معروف صحافی ایم وی کامتھ نے ایک جملے میں بہت کچھ بیان کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہندوتوا کوئی لفظ نہیں بلکہ تاریخ ہے۔
اِس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ دو ڈھائی عشروں کے دوران ہندو انتہا پسندوں نے ہندوتوا کو بہت کچھ بنا کر پیش کر دیا ہے۔ اب اِس فیکٹر کو آسانی سے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ جو لوگ ہندوتوا کو محض انتخابی نعرہ سمجھتے ہیں، وہ سادہ لوحی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ اُنہیں سمجھنا ہوگا کہ ہندوتوا اب محض مذہبیت کا یا اقتدار کے حصول کے ذریعے کا نام نہیں بلکہ یہ تاریخ ہے۔ اب بھارت میں تاریخ سے متعلق مواد ہندوتوا کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے لکھا جارہا ہے۔ میں ہندو ہوں اور اس بات کو اچھی طرح سمجھتا ہوں کہ اگر اسکول کے بچوں کو ہندوتوا کا تصور کسی بھی قسم کی بحث کے بغیر پڑھایا جائے تو اِس کے انتہائی خطرناک نتائج برآمد ہوں گے۔ بچوں کے ذہنوں میں ایسے بہت سے سوالات ابھریں گے جن کے جواب ان کے پاس نہیں ہوں گے اور وہ ان سوالوں کے جواب اپنے اساتذہ سے بھی نہیں پاسکیں گے۔ ماضی کے بارے میں شدید تحفظات کا پیدا ہونا بچوں کے ذہنوں کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ دنیا بھر میں اِس کی بیسیوں مثالیں موجود ہیں۔
دینا ناتھ بترا نے ہندوتوا کی روشنی میں ہندو اقدار ہی کو بنیادی بھارتی اقدار بناکر پیش کیا ہے جو بے دیانتی کی مثال ہے۔ بھارتی آئین میں واضح طور پر درج ہے کہ بھارتی سرزمین اور معاشرے کی اقدار لازمی طور پر وہ نہیں جو ہندوؤں کی مقدس کتب میں درج ہیں۔ اس نکتے کو نظر انداز کرکے بھارت میں اچھا اور متوازن معاشرہ قائم نہیں کیا جاسکتا۔
بھارت کی آنے والی نسل کو ان اقدار کے بارے میں بتانے کی ضرورت ہے جن میں رواداری کی بات کی گئی ہے، ایک دوسرے کو قبول کرنے کا تصور موجود ہے۔ اگر صرف ہندوتوا کی اقدار کو بنیادی اقدار کی حیثیت سے متعارف کرایا جائے گا تو عین ممکن ہے کہ نئی نسل کا ذہن زیادہ الجھ جائے۔ ایسی صورت میں بھارت کو متوازن معاشرے میں تبدیل کرنے کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں کیا جاسکے گا۔
جو کچھ دینا ناتھ بترا اور ان کے ہم خیال لوگ پیش کرنا چاہتے ہیں، اُسے آسانی سے ہضم نہیں کیا جاسکتا اور یہ لوگ بھی ہندوتوا کے بنیادی تصور پر کسی حملے کو آسانی سے برداشت نہیں کرسکتے۔ سال رواں کے دوران وینڈی ڈونیگر کی کتاب ’’دی ہندوز: این آلٹرنیٹیو ہسٹری‘‘ کو اس کے پبلشر نے واپس لے کر یہ اشارہ دے دیا ہے کہ ہندوتوا کے نام پر جو کچھ بھی پیش کیا جائے گا، وہ آسانی سے قبول یا ہضم نہیں کیا جائے گا۔
(نئی دہلی میں سکونت پذیر چندر ہاس چوہدری مشہور ناول نگار اور بلوم برگ ویو کے قلمی معاون ہیں۔)
“History wars restarted to hook schoolchildren”. (“The Japan Times”. August 4, 2014)
Leave a Reply