
شام میں چار برس سے جاری بھر پور عسکری مداخلت کے باوجود حزب اللہ ہمیشہ کی طرح طاقتور نظر آتی ہے، اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر حزب اللہ نے شام کی حکومت کو محفوظ رکھا ہے، القاعدہ اور داعش کے خلاف جنگ میں اسد کی موجودگی کو یقینی بنایا، ہتھیاروں کی فراہمی کے اہم راستوں کو محفوظ بنایا اور زبردست فوجی مہارت حاصل کی، قلمون کی پہاڑیوں پر ایک بفرزون قائم کیا اور لبنان کی طویل مشرقی سرحد کو جہادیوں کے حملوں سے محفوظ بنایا، اس معاملے پر شیعہ کمیونٹی کو اکٹھا کیا، اسکی وجہ شام میں ایک مخالف سنی حکومت کے قیام کا خوف بھی ہوسکتا ہے۔ حزب نے شاندار کامیابیوں کی بھاری قیمت ادا کی ہے، اس تنظیم نے دشمنوں اور اتحادیوں کے ساتھ مل کر تنازع کے فرقہ وارانہ پہلو کو ہوا دی، اس نے سنی جہادیوں کی بغاوت کو روکنے میں شام کی حکومت کی مدد کی ہے، جس نے حزب اللہ کو ایران کے علاقائی ایجنڈے کا اہم جز بنا دیا، ایران کے بجائے حزب اللہ اور لبنان کی شیعہ کمیونٹی جہادیوں کی آسان رسائی میں ہیں، جبکہ جنگ میں شامل ہوتے وقت تنظیم کا واضح مقصد انتہا پسند جہادیوں کو لبنان سے دور رکھنا بتایا گیا تھا، حقیقت میں شام میں مداخلت نے خطرے کو بڑھا دیا اور ان کو ۲۰۱۳ء سے ۲۰۱۵ء کے درمیان مسلسل حملوں کا سامنا کرنا پڑا۔ غیر لچکدار رویہ اپناتے ہوئے انہوں نے اسد کی شرائط تسلیم کرکے ہتھیا ر ڈالنے یا مرنے کے سوا باغیوں کے پاس کوئی راستہ نہیں چھوڑا، حزب اللہ اور اسکے اتحادیوں نے باغیوں کی قیادت کو ابھرنے ہی نہیں دیا کہ وہ بات چیت کرکے مسئلہ حل کرنے کے قابل ہوسکیں، کیونکہ معاہدے کی کمی اسد حکومت کو برقرار رکھے گی، یہ حکومت کو بچانے کے لیے حزب اللہ اور دیگر شیعہ عسکریت پسند کی ضرورت بھی ہے، روس بھی اس بدنام حلقہ میں شامل ہے، حزب اللہ کی عسکری صلاحیتیں پہلے ہی دباؤ کا شکار ہیں اور شام میں مداخلت نے تنظیم کے مالی مسائل میں اضافہ کیا ہے، ایک اہم مسئلہ جنگجوؤں کی کمی بھی ہے، حزب اللہ ۱۵۰۰ ؍سے زائد جنگجوؤں کو کھو چکی ہے، ان میں تجربہ کار کمانڈرز بھی شامل ہیں جن کا متبادل ملنا مشکل ہے، اس کے باوجود امکان ہے کہ تنظیم کو شام میں افرادی قوت کی فراہمی جاری رکھنا پڑے گی، اس صورتحال کو تبدیل کیے بغیر میدان جنگ میں مزید کامیابی کا امکان نہیں، دمشق او حمص میں ۲۰۱۷ء میں حکومت کی حامی فوج اور عوام پر ہونے والے مسلسل حملے شام میں نہ ختم ہونے والی خانہ جنگی کو ظاہر کرنے کے ساتھ ۲۰۰۳ء کے بعد کے عراق کی یاد دلاتے ہیں، شام میں حزب اللہ کی مداخلت نے دمشق اور تہران میں اسکی اہمیت میں اضافہ کیا ہے مگر اس سے تنظیم دوسرے فریقوں کے لیے ناقابل قبول ہوگئی، شاید تنظیم کے لیے جنگ کی یہ سب سے بڑی قیمت ہے، ایک وقت تھا کہ حزب اللہ کو اسرائیل سے تنازع کی وجہ سے اپنے ملک سمیت علاقائی سطح پر دوسرے فرقوں میں بھی مقبولیت حاصل تھی، جہادیوں کے تشدد کے خطرے سے یقینی طور پر لبنان کے شیعوں کی حمایت بڑھانے میں مدد ملتی ہے، خطے میں سنی اکثریتی ماحول بھی ایک وجہ ہے، حزب اللہ اور شیعہ کمیونٹی بظاہر عسکریت پسندی میں پھنسے رہیں گے۔ شیعہ سیاسی، سماجی اور اقتصادی فوائد برقرار رکھنے کے لیے پارٹی کی عسکری طاقت پر انحصار کرتے ہیں، شام میں مداخلت سے حزب اللہ کو اضافی جنگی تجربہ اور سازوسامان حاصل ہوا ہے مگر خطے میں الگ تھلگ ہونے کی وجہ سے ۲۰۰۶ء کے مقابلے میں حزب اللہ اسرائیل کے سامنے کمزور ہوگئی ہے، حزب اور اسرائیل کے درمیان مستقبل کی جنگ کو لبنانی سنی مسلمان اور شامی اپوزیشن ایک انتقام کے موقعے کے طور پر دیکھیں گے، جنگی میدان میں حاصل ہونے والی کامیابی کو سیاسی اثاثے میں تبدیل کرنے کے لیے حزب اللہ کو ایک کامیاب انخلا کی حکمت عملی کی ضرورت ہے، حالانکہ شام کے تنازع کو حل کرنے کا کوئی آسان طریقہ موجود نہیں، شام کے تنازع کو حل کرنے کے لیے پارٹی ایران کے ساتھ مل کر اہم اقدامات کر سکتی ہے، حزب اللہ کو فرقہ ورانہ جذبات میں کمی لانے کے ساتھ تہران کے ساتھ مل کر اپوزیشن کے تمام مسلح گروپوں کو تشدد پسند جنونی قرار دینا بند کر دینا چاہیے، یہ پالیسی جنگ بندی کرانے میں مدد کریگی اور غیر جہادی گروپوں کے ساتھ بات چیت کی راہ ہموار ہو جائے گی جس سے اقتدار کی منتقلی کے مختلف طریقوں پر اتفاق کیا جاسکے گا، اس سے دمشق کے قریب سنی اکثریتی علاقے اور ادلب میں شیعہ اکثریتی علاقے میں ایک دوسرے پر حملے اور پابندیوں کی شدت کم ہوجائے گی۔ حزب اللہ اور ایران کو صدر اسد پر سیاسی مفاہمت کے لیے دباؤ ڈالنا چاہیے، انہیں اسد کو اپوزیشن کے علاقے میں نئے حملے کرنے سے با ز رکھنا چاہیے، اس طرح کے حملے فرقہ ورانہ تقسیم کو مزید گہرا کر دیں گے، اگر مسئلے کے حل کے لیے عسکر ی طاقت کا استعمال جاری رہا تو حزب اللہ کی قیادت مشکل میں پھنس سکتی ہے، ۲۰۰۰ء سال قبل ایپرس کے بادشاہ سے منسوب قول ہے (اگر ہم نے ایک اور جنگ جیت لی تو ہم مکمل طور پر تباہ ہوجائیں گے)۔ حزب اللہ نے ۲۰۱۳ء میں بنیادی طور اپنے بچاؤ کے لیے جنگجوؤں کو شام بھیجا تھا، اگر امریکا کے حمایتی یافتہ علاقائی طاقتیں اسد حکومت کا خاتمے کر دیتی تو ان کو دمشق میں ایک مخالف سنی حکومت کا سامنا ہوتا اس طرح وہ ایران سے اسلحے کی فراہمی کے ضروری راستے سے محروم ہوجاتے، آج حکومت کی حفاظت کا بنیادی مقصد پورا ہوچکا ہے لیکن جنگ کا خاتمہ ہوتا نظر نہیں آتا، اگر ایران اور حزب اللہ جنگ کے خاتمے کی کسی حقیقت پسند حکمت عملی کے بغیر حکومت کی غیر مشروط حمایت جاری رکھیں گے تو عسکری طاقت کے باوجود مزید دلدل میں پھنس جائیں گے، انہیں ممکنہ طور پر زیادہ دشمن امریکی انتظامیہ کا سامنا ہوگا، کہا جاتا ہے کہ وہ ایرانی رسوخ کا خاتمہ چاہتے ہیں، حالانکہ وہ داعش کے خلاف زیادہ جارحانہ نقطہ نظر رکھتے ہیں اور ان سب کا مشترکہ دشمن داعش ہے، دلدل میں پھنسنے سے بچنے کے لیے ایک سمجھوتے کے سوا کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے، ایسا سمجھوتا جس میں روس کے ساتھ اپوزیشن کی حمایت کرنیوالے اہم ممالک شامل ہوں اور دمشق پر سمجھوتے کو نافذ کیا جائے۔ یہ رپورٹ اس حوالے سے ابتدائی اقدامات تجویز کرتی ہے تاکہ ایران اور حزب اللہ کو اس سمت لے جایا جاسکے، اس میں غیر جہادی باغیوں کو تسلیم کرکے ان سے بات چیت شروع کرنا، فرقہ ورانہ کشیدگی کو کم کرنا، اپوزیشن کے زیر انتظام علاقوں میں حملے روکنا شامل ہے تاکہ جب بھی کسی معاہدے پر پہنچا جائے تو غیر جہادی حریف معاہدہ نافذ کرنے کے قابل ہو۔ ایران کی حمایت کے بغیر حزب اللہ شام کی صورتحال تبدیل نہیں کر سکتی اور اس وقت تک یہ شام میں مداخلت کی بھاری قیمت ادا کرتے رہیں گے، لبنان میں اپنی عسکری طاقت کی حفاظت کے لیے سابق صدر حافظ اسد کی حکومت پر انحصار کرنا ان کے بیٹے کی شام میں حکمرانی کی بقا کے لیے مدد کی وجہ بنا ہے، مگر اب اسد کے ساتھ اتحاد ایک بوجھ بن چکا ہے، یہ وسائل کے زیاں، جہاد پسند گروپوں کو طاقتور بنانے کے ساتھ شامی عوام کی اکثریت اور خطے کے ممالک کو شکست دینے کی کوشش ہے، یہ اسرائیل کے خلاف کھڑی ہونے والی لبنانی تحریک مزاحمت کی شناخت کے لیے مزید نقصاندہ ہے، ۲۰۰۶ء میں لبنان جنگ کے دوران عربوں نے مشترکہ دشمن سے جنگ کی وجہ سے حزب اللہ کی تعریف کی مگر اب اسے ایک فرقہ پرست شیعہ عسکری تنظیم کے طورپر دیکھا جاتا ہے اور شام میں تو اسے ایک بے رحم قابض تصور کیا جاتا ہے۔ حزب اللہ نے شام میں مداخلت کا فائدہ اٹھا یا ہے، اس کی پوری کوشش رہی کہ حکومت برقرار رہے اس طرح سے وہ ایران کی سب سے مضبوط اتحادی بن گئی اور اس جنگ نے دونوں کے تعلقات کو مزید مضبوط کردیا، حزب اللہ نے اسرائیل سے مقابلے میں ایران کو اسٹریٹجک گہرائی دی ہے، شام میں حزب اللہ کے کردار نے اسے ایران کا ناگزیر اتحادی بنا دیا جس پر بہت کچھ داؤ پر لگا ہے، علاقائی تنازعات میں فرقہ پرستی کا رنگ گہرا ہورہا ہے، جس کے اہم مراکز ایران اور سعودی عرب ہیں، ایران حزب اللہ کو اسلحہ اور دیگر معاونت فراہم کرتا ہے تاکہ وہ اسرائیل سے لڑے اور عسکری طاقت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ملک پر اپنی سیاسی بالادستی قائم رکھے، اس بات سے شیعہ ہمیشہ انکار کرتے ہیں، حزب اللہ نے روس کے ساتھ تعلقات سے بھی فائدہ اٹھایا ہے، جس کے نتیجے میں ۲۰۱۵ء میں مداخلت کی گئی، یہ میدان میں اہم اتحادی ہے، روس کی فضائی مدد کے بغیر لڑنے والی فوج غیر موثر ہوچکی ہوتی، اس فوجی اتحاد کے ذریعے تنظیم نے اپنی عسکری اور تکنیکی مہارت میں اضافہ کیا ہے، پہلی بار کسی عالمی طاقت کے ساتھ تعلقات قائم ہوئے ہیں، یہ تعلقات دباؤ کا شکار ہیں کیونکہ ماسکو ایک سیکولر طاقت کے طور پر ایک اسلامی انتہا پسند اور مضبوط شامی ریاست کی مدد کرنے میں محتاط ہے، ماسکو کا شام میں اپنا ایجنڈا ہے جو اب حکومت کا وجود یقینی بنانے کے بعد ایران اور حزب اللہ سے مختلف ہے۔ حزب اللہ بھی اپنا ایجنڈا رکھتی ہے اس لیے اسے اپنی سیاسی حکمت عملی کی ضرورت ہے، دیگر کھلاڑیوں کے ساتھ یہ بھی عسکری طاقت کا استعمال جاری رکھے ہوئے ہے، اس سے صرف تنازعہ بڑھے گا اور انتہا پسندی میں اضافہ ہوگا، غیرجہادی باغیوں کی شکست سے اصل جہادیوں کو مدد ملے گی اور حقیقی حزب اختلاف کا خاتمہ ہو جائیگا، جس سے آپ بات چیت کرکے معاہدے پر عمل درآمد کرا سکتے ہیں، روس اور ایران کے مدد سے ۲۰۱۶ء میں حلب میں فتح حزب اللہ کے حوصلے بلند کرسکتی ہے اور زیادہ زمین حاصل کرنے کی کوششوں میں اضافہ ہوسکتا ہے، شورش کے دوران دشمن کے آبادی والے کسی علاقے پر قبضہ کرنا مہنگا پڑتا، خون اور پیسہ دونوں تیزی سے خرچ ہوتے ہیں، اسے روک کر پارٹی کو بچایا جاسکتا ہے، اس جال سے نکلنے کے لیے حزب اللہ کو ایران کے ساتھ مل کر کشیدگی کم کرنے کے لیے فوری طور پر اقدامات کرنے چاہییں، روس، ترکی اور ایران نے جنوری ۲۰۱۷ء میں آستانہ میں امن عمل کا آغاز کیا، انہیں ملک بھر میں جنگ بندی میں مدد کرنی چاہیے، انہیں غیر جہادی مخالفین کے ساتھ بات چیت کا راستہ کھولنا چاہیے تاکہ شام کو تقسیم کیے بغیر اپوزیشن کے زیر قبضہ علاقوں میں انتظامی معاملات چلائے جا سکیں، انہیں صدر اسد پر دباؤ ڈالنا چاہیے کہ وہ سیاسی حل کے لیے بات چیت کریں، نئے حملے کرکے اجتماعی سزا دینے سے اجتناب کریں اور آبادیوں کے محاصرے ختم کردیں، معاہدے کے بدلے میں پارٹی کے اہم مفادات ضرور حاصل کیے جائیں، اسکے لیے اپنی عسکری صلاحیت پر سمجھوتا کرنے کی بھی ضرورت نہیں، تنظیم اسلحہ سپلائی کے راستے محفوظ کرنے، شام میں شیعہ مزاروں کی حفاظت، لبنان میں شیعہ آباد ی اور اپنے جنگجوؤں کے خلاف حملے کی روک تھام کے لیے اقدامات جاری رکھ سکتی ہے، اگرچہ مسلح حزب اللہ پر دنیا کے شدید تحفظات موجود ہیں مگر شام میں معاہدے کے لیے تنظیم کو غیر مسلح کرنے سے منسلک نہیں کیا جاسکتا ہے، حزب اللہ کو بھی لبنان میں مقامی مخالفین کے خدشات کو کم کرنے کے لیے کام کرنا چاہیے اور دفاعی حکمت عملی پر دوبارہ مذاکرات شروع کرنے چاہییں، شام میں مداخلت کے خاتمے کے ساتھ حزب اللہ کے ہتھیاروں کے استعمال کو ریگولیٹ کیا جاسکے گا، اس میں تنظیم کی جانب سے مقامی افراد کے خلاف ہتھیار کا استعمال نہ کرنے کا وعدہ اور اسرائیل کے خلاف اشتعال انگیزی نہ کرنے کا وعدہ بھی شامل ہے، ان میں سے کوئی کام بھی آسان نہیں ہے مگر دوسرا راستہ حزب اللہ اور خطے کے لیے اس سے بدتر ہے، یہ حزب اللہ کے لیے بھاری جانی نقصان کے ساتھ سب سے مہنگی اور ایک نہ جیتی جانے والی طویل جنگ ہے، حزب اللہ کو ہمیشہ شیعہ کمیونٹی میں متحرک رہنا ہے اور اس کے صبر اور حمایت کی بھی کوئی حد ہے، نئے بھرتی ہونے والے نوجوانوں میں عزم اور نظم و ضبط کی بھی کمی ہے، نظم و ضبط اور عزم نے ہی حزب اللہ کو مضبوط عسکری طاقت بنایا ہے، حزب اللہ ۱۹۸۲ء میں اسرائیل کے لبنان پر قبضے کی پیداوار ہے، فرقہ ورانہ کارڈ استعمال کیے بغیر لبنانی شیعوں میں تنظیم کی مقبولیت میں اضافہ ہوا، ۱۹۹۰ء میں خانہ جنگی کے اختتام پر تنظیم لبنانی نظام کے اندر سیاسی جماعت کا کردار ادا کرنے کے ساتھ اسرائیل کے خلاف مسلح اسلامی مزاحمتی تحریک کا کردار بھی ادا کر رہی تھی، ۲۰۱۱ء میں شام میں خانہ جنگی کے بعد حزب اللہ فرقہ ورانہ رنگ میں رنگ گئی، ایک ایسی لبنانی شیعہ تنظیم جس نے اپنی طاقت سرحد پار تک پھیلا دی ہو، اگر چہ ماضی میں بھی حزب اللہ لبنان سے باہر سرگرم رہ چکی ہے، جس میں شام، عراق اور یمن شامل ہیں، مگر ان ممالک میں حزب اللہ کی موجودگی کو ہمیشہ قیاس آرائی ہی سمجھا گیا، لبنانی مبصر کا کہنا ہے کہ’’میرے حزب اللہ کے دوستوں کے لیے شام اور یمن جیسے ممالک اہم ترین بن گئے ہیں اور لبنان انکے مباحثے میں ثانوی حیثیت اختیار کر گیا ہے‘‘۔ شام ایک انتہائی اہم ملک ہے جہاں پہلی بار تنظیم کا مقابلہ عرب دشمن سے ہوا ہے، بغاوت کے ابتدا میں ہی حزب اللہ اور ایران نے واضح کر دیا تھا کہ وہ حکومت میں کوئی بنیادی تبدیلی قبول نہیں کریں گے، خاص طور پر سیکورٹی اور انٹیلی جنس کے محکموں میں، جس کے بعد اسٹریٹجک مفادات کے مطابق حزب اللہ کی عسکری سرمایہ کاری میں اضافہ ہوا، آج تنظیم اور بشارالاسد کی حکومت کی قسمت کا انحصار ایران سے شام تک اسلحے کی فراہمی کے راستوں پر ہے، حزب اللہ دمشق سے اچھے تعلقات پرانحصار کرتی ہے اور تنظیم کی فوجی مدد اسد حکومت کے لیے بہت اہم ہے، شام میں بغاوت کے ابتدائی دنوں میں حزب اللہ کے حکام کہا کرتے تھے کہ ’’انہوں نے حکومت کو تشدد سے باز رکھنے کی کوشش کی اور مظاہرین کے جائز مطالبات پر غور کیا، مگر جب انکے مشورے کو نظر انداز کر دیا گیا تو انہوں نے حکومت کی عسکری اور لوجسٹک مدد کی، ۲۰۱۲ء کے آغاز میں پر امن بغاوت کے دوران مظاہرین کے خلاف سفاکانہ کریک ڈاؤن میں حکومت کا کردار کم نہیں تھا، جس کے بعد یہ بغاوت بیرونی مدد سے مکمل پراکسی جنگ میں تبدیل ہوگئی، اس کے بعد حزب اللہ اور ایرانی پاسداران انقلاب کے عسکری مشیر بڑی تعداد میں پہنچ گئے اور اپنے دعوے کے مطابق سنی جہادیوں سے حکومت کو بچانے کی کوشش کرنے لگے،پھر حکومت کو برقرار رکھنے کے لیے تنظیم کا کردار اہمیت اختیار کر گیا، حزب اللہ نے فرقہ ورانہ جنگ کی پیش گوئی اپنے ہاتھوں پوری کی، تنظیم کو افرادی قوت میں کمی کا سامنا بھی کرنا پڑا، پیشگی دفاع کے لیے انتہاپسندی پر اکسانا ایک جعلی دعویٰ ہے، جب ملک کے اہم ترین علاقوں پر حکومتی گرفت کمزور ہوگئی تو ۲۰۱۳ء میں مکمل فوجی مداخلت کی گئی کیونکہ شکست تنظیم کی اپنی بقا کے لیے خطرہ تھا، حزب اللہ کے رہنما تسلیم کرتے تھے کہ یہ مداخلت شام اور عرب خطے میں تنظیم کی ساکھ اور جنگجوؤں کے لیے بہت زیادہ نقصاندہ ہوگئی، جنگجوؤں کی ہلاکتوں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، مئی ۲۰۱۶ء میں حزب اللہ کے ایک رکن کے بقول ۱۷۰۰ ؍سے ۱۸۰۰ ؍جنگجوں شام میں ہلاک ہوچکے ہیں، انہوں نے دوست کھو نے شروع کردیے ہیں، انہوں نے آبادی کے اہم حصوں کو بھی تقسیم کر دیا، حزب اللہ پر عوامی بغاوت کے معاملے پر دوہرا معیار رکھنے کا الزام لگایا جاتا ہے، خاص طور پر تیونس، مصر،لیبیا، بحرین اور یمن کے معاملے میں بغاوت کرنے والوں کی حمایت مگر شام میں بیرونی سازش کے نام پر اسے کچل دینا، شام کی اپوزیشن کے ساتھ ان کی دشمنی زیادہ سخت ہے، تنظیم کے رہنما الزام لگاتے ہیں کہ مظاہرین اسرائیل، مغرب، ترکی اور خلیج کے مفادات کے لیے یہ خدمت انجام دے رہے ہیں، شام کے اخوان المسلمون کے ساتھ بھی تعلقات کشیدہ ہیں، صرف اس لیے نہیں کے اخوان مخالفت میں سرگرم ہے بلکہ اس کی وجہ حماس بھی ہے، اردن سے بیدخلی کے بعد فلسطینی اخوان المسلمون کا مرکزی دفتر ۱۹۹۹ء سے دمشق میں موجود تھا، عسکری فتح کے لیے تو ایران،روس اور حزب اللہ کی مداخلت کامیاب رہی، انہوں نے مل کر کمزور ترین حکومت کو برقرار رکھا، شام کے وسطی اور مغربی علاقوں کو محفوظ کرکے انہوں نے سرحد کے دونوں اطراف کامیاب بفر زون قائم کر دیا، شام میں باغیوں کے علاقوں سے لبنان میں ہونے والے حملوں میں نمایاں کمی کردی، تنظیم نے ایران اور روس کی عسکری سرپرستی میں آپریشنل مہارت بھی حاصل کرلی، ان کی اہم عسکری مدد مستقبل کے مذاکرات میں سیاسی کردار میں تبدیل بھی ہوسکتی ہے، یہ تبدیلی براہ راست اور ایران کے ذریعے ہوسکتی ہے، حکومت کی تبدیلی کے معاملے پر امریکا، ترکی، قطر اور سعودی عرب کا کردار خطے میں طاقت کا توازن تبدیل کر سکتا تھا، ان ممالک نے اپنی زیر سرپرست تنظیموں کو مضبوط کیا، شام میں مداخلت کے بعد حزب اللہ کی حکمت عملی اور ساکھ میں بہت تبدیلی آچکی ہے، اسرائیل سے جنگ اور مظلوموں کی حفاظت کی روایتی شناخت ختم ہوچکی، اب تنظیم کا بنیادی مقصد سنی انتہاپسندوں سے لڑنا بن گیا ہے، اس سے قبل اسرائیل کے معاملے پر حزب اللہ مشترکہ ریلیف فورس تھی، لیکن خطے میں بڑھتی ہوئی تقسیم کے بعد آپریشن جاری رکھنے کے لیے حزب اللہ کا انحصار مکمل طور پر شیعہ کمیونٹی پر ہوگیا، بغیر کسی تفریق کے سارے شامی باغیوں کو تکفیری سمجھنا، اپنے لبنانی، شامی مخالفین کو مغربی اور اسرائیلی ایجنٹ کہنا، پھر کہنا کہ یہ جنگ فرقہ ورانہ نہیں،یمن میں سعودی، مغربی اتحادیوں کے ہاتھوں ہونے والی شہری ہلاکتوں کی مذمت کرنا اور شام میں اسے نظر انداز کرنا، خاص طور پر شام میں بے رحم حکمت عملی اپنانا، آبادیوں کا محاصر ہ کرکے انہیں بھوکا مرنے پر مجبور کرنا، اپنی جنگی اخلاقیات کی خود تعریف کرنا، اپنی روایتی ظالموں کا مقابلہ کرنے والی طاقت ہونے کی سوچ سے چمٹے رہنا، عجیب اور تضادات سے بھرا موقف ہے، حزب اللہ کو امید تھی کہ اس جنگ کو تکفیریوں کے خلاف لڑائی کے طور پر پیش کرکے دوسری جماعتوں کو بھی اپنے ساتھ شامل ہونے پر قائل کرلے گی، اس طریقے سے اسد کو سنی جہادیوں کے خلاف اہم اتحادی کے طور پر پیش کیا جائے گا اور جنگ میں بین الاقوامی سطح پر اتحادیوں کی وسیع حمایت حاصل ہو جائیگی، خاص طور پر روس کی، حقیقت میں تنظیم کا ایجنڈا بہت وسیع ہے، حزب اللہ پورے شام میں پھیل چکی ہے، جہادی اور غیر جہادی عناصر کو ایک جیسا نقصان پہنچایا جارہا ہے تاکہ مذاکرات کی صورت میں بھی اپنے اتحادی کی برتری قائم رہے، اگرچہ حزب اللہ بار بار کہتی رہی ہے کہ وہ سیاسی حل کی حمایت کرتی ہے مگر تنظیم اور اسکے اتحادیوں نے حکومت کے مدد کرتے ہوئے پوری ڈھٹائی کے ساتھ زیادہ سے زیادہ فوجی طاقت کا استعمال کیا ہے تاکہ شکست خوردہ باغی حکومتی شرائط پر سمجھوتا کرنے پر مجبور ہوجائیں، اگر وہ اس پالیسی کو تبدیل نہیں کرتے تو یہ ایک خطرناک صورتحال ہے، اسطرح تو جن گروپس سے بات چیت کی جانی ہے وہی بری طرح شکست کھا جائیں اور معاہدے کو نافذ کرنے کی صلاحیت سے بھی محروم ہوجائیں گے، اسطرح تو بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ اپوزیشن کے باقی گروپس بھی جہادیوں میں شامل ہوسکتے ہیں، دوسری طرف اکثریتی آبادی نے حکومت کو مسترد کردیا ہے تو سوال اٹھتا ہے کہ یہ حکومت کرنے کے قابل کیسے ہوں گے؟ حزب اللہ کے لیے اسکے ممکنہ نتائج بھی خطرناک ہیں، جنگ سے بہت زیادہ دباؤ پیدا ہوگیا ہے، حزب اللہ نے حکومت کی جنگی نااہلیت اور افرادی قوت کی کمی کو ہزاروں جنگجو بھیج کر پورا کیا، اگرچہ پارٹی رہنما اس بات کو کم اہمیت دیتے ہیں مگر یہ حزب اللہ کے لیے سب بڑا چیلنج رہا ہے، ایک اندازے کے مطابق اسرائیل کے قبضے کے خلاف اٹھارہ سالہ جدوجہد میں تنظیم کے ۱۲۰۰ ؍جنگجو ہلاک ہوئے، جبکہ اس جنگ میں انتہائی کم وقت میں بہت زیادہ ہلاکتیں ہوئی ہیں، اب تک ۱۷۰۰ ؍سے ۱۸۰۰ ؍جنگجو ہلاک ہوچکے ہیں، تنظیم افرادی قوت کے مسئلے پر قابو پانے کے لیے لبنان کی شیعہ کمیونٹی میں بھرتی میں تیزی سے اضافہ کررہی ہے، وہ نئے بھرتی ہونے والوں کو پیسہ اور تربیت بھی فراہم کر رہی ہے، پارٹی رہنما دعویٰ کرتے ہیں کہ ’’اگر ہم شام میں سنی انتہا پسندوں سے جنگ نہ کریں تو ہمیں اپنے گھر میں یہ جنگ کرنا ہوگی، جبکہ ۲۰۱۳ء میں حزب اللہ کی شام میں عسکری مداخلت سے قبل لبنان میں وسیع پیمانے پر تشدد پھیلا ہوا تھا، جسے بیرونی مدد بھی حاصل تھی، بہرحال حسن نصراللہ کا یہ نقطہ نظر جلد ہی غلط ثابت ہوگیا جب حزب اللہ کی مداخلت کے جواب میں شامی خود کش حملہ آوروں نے لبنانی شیعوں کو نشانہ بنایا، جولائی ۲۰۱۳ء میں بیروت میں شیعہ اکثریتی علاقے میں کار بم دھماکا ہوا جس میں ۵۳ ؍افراد زخمی ہوئے، جبکہ اگلے مہینے ہونے والے خود کش حملے میں ۱۵ ؍افراد ہلاک اور ۲۰۰ سے زائد زخمی ہوئے، یہ واقعات حزب اللہ کو اپنا کردار تبدیل کرنے پر مجبور کرتے ہیں، شروع میں تو عوامی سطح پر تسلیم ہی نہیں کیا گیا تھا کہ تنظیم کے جنگجو شام میں موجود ہیں، جانی نقصان کے بعد ہلاکتوں کے اعلان کے لیے ایک غیر واضح اصطلاح استعمال کی جاتی تھی کہ’’جہاد فرض ہے‘‘۔ اس سے جنگجوؤں کے کردار کی تعریف شروع ہوجاتی اور جنگ کے لیے مقبول حمایت میں مزید اضافہ ہوجاتا، تنظیم کو افرادی قوت کے مسئلے پر قابو پانے کے لیے زیادہ سے زیادہ عوامی حمایت کی ضرورت بھی ہے، تنظیم نے نئے بھرتی ہونے والے جنگجوؤں کے لیے تربیت کا معیار بھی ختم کر دیا ہے، ایک معاہدے پر نوکری اور پھر مختصر تربیت کے بعد لمبے عرصے کے لیے محاذ جنگ کے لیے روانگی، شام میں جنگ کرنیوالے شیعہ نوجوان تازہ دم ہونے کے لیے لبنان لوٹتے ہیں اور عام زندگی گزارتے ہیں، جنگجوؤں کے پاس لڑائی میں شامل ہونے کی کئی وجوہات ہیں، کچھ لوگوں کے لیے مالی مقاصد اہم ہوتے ہیں لیکن زیادہ تر کے نزدیک فرقہ واریت میں اضافہ اور سنی جہادیوں کا خوف سب سے اہم وجہ ہے، ایک ایسا ملک جہاں ریاست اپنے شہریوں کی بنیادی ضرورت پوری کرنے، بہتر مستقبل اور وقار کا احساس فراہم کرنے میں ناکام ہے، وہاں شام میں جہادیوں سے لڑنا بڑا مقصد فراہم کرتا ہے، ۲۰۱۳ء میں حزب اللہ میں شامل ہونے والے جنگجو کا کہنا ہے کہ ’’حزب اللہ میں شامل ہونے سے قبل میری زندگی بے مقصد تھی، جب سے میں تنظیم میں شامل ہوا، میرے پاس لڑنے کا ایک مقصد ہے، میں نے اپنی کمیونٹی میں عزت اور اہم مقام حاصل کیا ہے، میں اپنی سماجی اور فوجی فرائض ادا کرنے کے ساتھ مذہبی ذمہ داری بھی ادا کرکے اپنے لوگوں کی خدمت کر رہا ہوں‘‘۔ حزب اللہ نے اس کو منافع بخش بنا دیا ہے، نئے بھرتی ہونیوالے جنگجوؤں کو تنظیم سے تعلق کا بہتر احساس اور مالی انعام دیا جاتا ہے، جنگ میں مرنے کی صورت میں یہ سب انکے خاندان کے لیے ہے، پارٹی کی ہدایت کے تحت شیعہ کمیونٹی شہدا کو خراج تحسین پیش کرتی ہے اور انکے خاندانوں کو جذباتی اور مالی مدد فراہم کرتی ہے، شہدا کی ماں کو خاص عزت دی جاتی ہے، اس طرح کی سماجی اور مذہبی رسموں سے جنگجوؤں کے خاندانوں کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے، جس کے نتیجے میں تیزی سے فرقہ واریت میں اضافہ ہورہا ہے اور اپنے بچوں کی قربانی دینے کے لیے دوسرے خاندانوں کی حوصلہ افزائی ہورہی ہے، لبنانی شیعوں کی اکثریت تاحال تنظیم کے پیچھے پوری مضبوطی کے ساتھ کھڑی ہے، شام میں بڑھتے ہوئے تشدد کا ایندھن بننے کے بعد شکست کی آوازیں بھی اٹھ رہی ہیں، جو تنظیم کی فوجی ہنر مندی اور جنگجوؤں کی فتح کے ساتھ جلد گھر واپسی پر سوال کر رہی ہیں، مئی ۲۰۱۶ء میں قالامون کے علاقے میں حزب اللہ کی فتح کے بیان پر بھی شک کا اظہار کیا جارہا ہے، پارٹی سے تعلق رکھنے والے ایک یونیورسٹی پروفیسر کا کہنا ہے کہ ’’حالیہ دنوں میں انہوں نے بہت سارے اسٹراٹیجک فوائد حاصل کیے ہیں جس میں سے ایک حیران کن ہے کہ کس طرح انہوں نے اپنی پہلی جگہ پر اسٹراٹیجک حیثیت کو کھو دیا ہے‘‘ اسرائیل کے ساتھ مقابلے کا پرکشش ماضی رکھنے کی وجہ سے حامیوں میں موجود بے چینی اعلیٰ قیادت سے چھپی ہوئی نہیں، ایک جنگجو کا کہنا ہے کہ ’’میں یقینی طور پر اسرائیل کے ساتھ جنگ کرنا چاہتا ہوں نہ کہ ایک ایسے تنازع میں پڑنا جو عرب دنیا کو تقسیم کر دے‘‘ فوجی تحرک بھی تنظیم کو سماجی طریقے کو نرم کرنے پر مجبور کرتا ہے، اسرائیل کے خلاف لڑنے والے ایک سابق جنگجو کا کہنا ہے کہ’’پہلے ہماری نسل جنگ میں جانے سے قبل ساری رات نماز ادا کیا کرتی تھی، آجکل آپ دیکھتے ہیں کہ شام جانے سے قبل لڑکے کیفے اور شیشہ پینے میں مصروف رہتے ہیں‘‘ بے شک حزب اللہ کی ساکھ کو سب سے زیادہ نقصان فرقہ ورانہ کارڈ کھیلنے سے پہنچا ہے، یہ صورتحال حزب اللہ اور وسیع شیعہ کمیونٹی کے تعلقات خطرے میں ڈال سکتی ہے، حزب اللہ سے تعلق رکھنے والے ایک عراقی عالم کا کہنا ہے کہ ’’شام میں جنگ کے لیے نوجوان لبنانی شیعوں کو کیا بات مجبور کر رہی ہے؟ بشارالاسد اور ایران کی خاطر لڑنے والے بہت کم ہوں گے، سیدہ زینب کا دمشق میں موجود مزار واحد وجہ ہے جو ان کو متحرک رکھتی ہے، مگر طویل عرصے تک اس صورتحال کا برقرار رہنا خطرناک ہوسکتا ہے، ایک دن رہنما مذاکرات کی میز پر بیٹھ سکتے ہیں مگر فرقہ پرستی کی دراڑ کو بھرنا بہت مشکل ہوگا‘‘۔ حزب اللہ کی جانب سے شام کے دو سنی اکثریتی گاؤں کا محاصر ہ کرنا ویسی ہی فرقہ ورانہ منطق ہے جیسے سنی باغیوں نے ادلب میں دو شیعہ اکثریتی گاؤں کا محاصرہ کر رکھا ہے، حزب اللہ اور سنی باغی دونوں نے مسلسل راکٹ بازی اور حملوں کے ذریعے ان گاؤں کے رہائشوں کو نشانہ بنایا، ستمبر ۲۰۱۵ء میں حزب اللہ اور حکومت مخالفین کے ساتھ ایک معاہدے پر پہنچی، معاہدے میں چار گاؤں میں امداد کی فراہمی اور زخمیوں کے انخلا پر اتفاق کیا گیا مگر دونوں جانب سے اس پر بار بار عملدرآمد روکا گیا، اگر ایران کی جانب سے فروغ دیے جانے والے شیعہ ازم کو دیکھا جائے تو حزب اللہ اور دیگر شیعہ عسکریت پسندوں کا تعلق مخالف مکتبہ فکر سے ہے، ایرانی شیعہ ازم کو اپنانے والوں کے پھیلاؤ کا اندازہ لگانا مشکل ہے، یہاں شکست کی وجوہات ہیں، شام میں شیعہ آبادی ایک فیصد سے بھی کم ہیں، یہاں شیعہ مذہبی طریقوں کو فروغ دینے کا بہت کم امکان ہے، جیسے عاشورہ کا منایا جانا، یہ واضح طور پر مسلک کی بنیاد پر اشتعال انگیزی کا باعث بنتی ہے، دمشق میں موجود ایک امدادی کارکن کا کہنا ہے ’’شیعہ مسلک اپنانے والوں کے حوالے سے سوال کا جواب دینا مشکل ہے مگر شیعوں کی جانب سے اپنی مذہبی رسومات کا اظہار کرنے کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے، ہم نے اس سے قبل شام میں کبھی عاشورہ کے اتنی زیادہ تقریبات نہیں دیکھی تھیں، اگر آپ باب ٹوما (دمشق کے پڑوس میں موجود عیسائی آبادی) جائیں تو آپکو بڑی تعداد میں شیعوں کی مذہبی علامات نظر آئیں گی، یہاں تک کہ عیسائیوں نے شیعوں کی بڑی تعداد میں موجودگی کی شکایت بھی کی ہے‘‘۔ حکومت کے بہت سارے مخالفین کو یقین ہے کہ لبنانی شیعہ اکثریتی وادی باقا کے قریب واقع سنی اکثریتی سرحدی علاقے کو خالی رکھنا حزب اللہ کے طویل مدتی حکمت عملی ہے۔ تاثر یہی ہے کہ حزب اللہ ابھی تک شام میں اپنے کردار کو پہنچنے والے نقصان کے حوالے سے کچھ سوچنا شروع نہیں ہوئی ہے، طویل مدتی جنگ کا نفسیاتی اثر ہوتا ہے، تنظیم کے ایک سینئر رہنما کا کہنا ہے کہ ’’جب تک ضروری ہوا ہم جنگ کرتے رہیں گے، اگر اسکا کا مطلب دس یا بیس سال ہیں تو ہم اسکے لیے تیار ہیں، ہمارے نوجوانوں کا حوصلہ بلند ہے، ویسے بھی ہمارے پاس متبادل کیا ہے؟‘‘ بظاہر حزب اللہ نے ’’صبر اور فتح کا انتخاب کیا‘‘ اکتوبر ۲۰۱۶ء میں عاشورہ کے لیے یہی اسکا نعرہ تھا، تنازع ختم کرنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟ اس پر سوچنے کا آغاز ابھی تک نہیں ہوا ہے، تنظیم کے ایک سینئر رہنما کا کہنا ہے کہ جنگجو لبنان واپس لوٹ جائیں گے کیونکہ تنظیم کا خیال ہے کہ سیاسی سمجھوتا حکومت کو برقرار رکھے گا، اسطرح حزب اللہ اور ایران کے مفادات کو مستحکم رکھا جائے گا اور ویسے بھی سیاسی حل بہت دور ہے۔ شام میں عوامی سطح پر حزب اللہ جوا کھیل رہی ہے، ایسے لوگ بھی ہیں جو اختلافات کے باجود اپنی سلامتی کے لیے حکومت کی حمایت کرنے پر مجبور ہیں، لبنان میں موجود شامی پناہ گزین (اکثریت سنی) سے تعلقات میں حزب اللہ نے تحمل کا مظاہرہ کیا ہے، اپنے زیر اثر علاقوں میں انکا استقبال کیا، ان کی سیاسی سرگرمیوں پر نظر رکھی، اپنے حامیوں اور پناہ گزینوں کے درمیان تصادم نہ ہونے کو یقینی بنایا، اپنی اچھی ساکھ کو فروغ دینے کے لیے حزب اللہ کی سماجی تنظیموں اور بلدیاتی اداروں میں کام کرنے والے عہدیداروں نے مل کر شیعہ اکثریتی علاقوں میں شامی پناہ گزینوں کی خدمت کی ہے، پارٹی کو یقین ہے کہ جنگ ختم ہوجانے کے بعد اس سے مستقبل میں ان کی حمایت میں اضافہ ہوگا، حزب اللہ اور اسکے اتحادیوں کو لبنان اور شام میں سنی جہادیوں کے خطرے کا سامنا ہے، پورا خطہ فرقہ ورانہ ناسور کی عکاسی کر رہا ہے، یہ سب سعودی عرب، ایران اور ترک حریفوں کے درمیان جاری ہے، یہ اس ناسور کو ٹھیک ہونے سے روکتا ہے۔
(ترجمہ: سید طالوت اختر)
“Hizbollah’s Pyrrhic Victories in Syria”. (“crisisgroup.org”. July 3, 2017)
Leave a Reply