
جولائی ۱۶, ۲۰۰۸ء کو صیہونی حکومت ایک اور تاریخی ہزیمت اور شرمناک پسپائی سے دوچار ہوئی۔ حزب اللہ لبنان نے اسرائیل کو اس کے دو مردہ فوجی حوالے کر کے اپنے پانچ اہم زندہ قیدی رہا کرائے۔ نیز ۱۹۹ شہدائے لبنان و فلسطین کی لاشیں بھی واپس لیں۔ صیہونی حکومت کے یہ سپاہی Ehud Goldwasser اور Eldad Regev تھے جنہیں حزب اللہ نے ۱۲ جولائی ۲۰۰۶ء کو اسرائیلی سرزمین میں آپریشن کر کے گرفتار کیا تھا۔ اس آپریشن جسے ’’رضوان آپریشن‘‘ کا نام دیا گیا تھا کا مقصد اسرائیل کی قید میں موجود لبنانی و فلسطینی قیدیوں کو رہا کرانا تھا۔ حزب اللہ نے جن ۵ زندہ قیدیوں کو اسرائیل کے چنگل سے آزاد کرائے ان میں سمیر القنطار کے علاوہ خالد زیدان، ماہر قرآنی، محمد سرور اور حسین سلیمان شامل ہیں۔ اسرائیلی حکومت نے ۲۹ جون ۲۰۰۸ء کو قیدیوں کے تبادلے کے حوالے سے فیصلہ کر لیا تھا۔ حزب اللہ نے آخر وقت تک ایہود گولڈ واسر اور ایلداد ریگیو کے انجام سے اسرائیل کو بے خبر رکھا۔
حزب اللہ نے انہیں اس حکمت عملی کے ذریعہ اسرائیل سے اس ڈیل میں زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا جس کے نتیجے میں حزب اللہ کے سامنے اسرائیل کی بے چارگی پہلے سے بھی زیادہ واضح ہو گئی۔ اسرائیل کے یہ وہی دو سپاہی ہیں جن کے اغواء کیے جانے پر اسرائیل نے لبنان کے خلاف جولائی ۲۰۰۶ء میں ایک بھرپو رجنگ چھیڑی تھی اور ۳۳ روز تک یہ جنگ جاری رہنے کے بعد بالآخر حزب اللہ کے ہاتھوں اسرائیلی پسپائی پر یہ جنگ ختم ہوئی۔ اس ۳۳ روزہ جنگ میں لبنان کے کوئی ۱۲۰۰ افراد جن میں بیشتر عام شہری تھے مارے گئے اور اسرائیل کے ۱۶۰ افراد جن میں بیشتر فوجی تھے ہلاک ہوئے۔ جولائی کے اوائل میں حزب اللہ لبنان کے قائد سید حسن نصراللہ نے قیدیوں کے تبادلے کے حوالے سے کہا تھا کہ اگر یہ معاہدہ طے پا جاتا ہے تو لبنان وہ پہلا عرب ملک ہو گا جو اپنے قیدیوں کا باب بند کرنے میں اہم پیش رفت کر چکا ہوگا۔ سب سے اہم کامیابی سمیر قنطار کی رہائی ہے۔ یہ فلسطینی محاذ آزادی کا رہنما ہے۔ اس پر تین اسرائیلیوں ڈینی ہیرن اس کی بیٹی اینات اور ایک اسرائیلی پولیس اہلکار کے قتل کا الزام تھا۔ سمیر قنطار نے اسرائیل کی تحویل میں سب سے لمبی قید کاٹی ہے۔ اسے ۱۹۷۹ء میں صرف ۱۶ سال کی عمر میں قید کیا گیا اور اس وقت اس کی عمر تقریباً ۴۶ سال ہے۔ یعنی تقریباً تیس سال کا عرصہ اس نے اسرائیلی قید میں گزارا ہے۔ چند ماہ قبل اسرائیل حزب اللہ کے ایک قیدی نسیم نصر کو بھی رہا کر چکا ہے اور یہ مجاہد بھی اسرائیلی جیل میں طویل قید کی سزا کاٹ چکا ہے۔ سمیر قنطار اور دیگر ساتھیوں کی رہائی پر حزب اللہ نے زبردست جشن منایا۔ اسرائیلی سرحدی علاقوں سے صیدون تک جو کہ پورٹ سٹی ہے، ہر طرف چراغاں کیا گیا۔
اس موقع پر سید حسن نصراللہ نے تقریر کرتے ہوئے کہاکہ ’’ہم وہ لوگ ہیں جو اپنے لوگو ں کو قید میں چھوڑنے کے روادار نہیں، یہ مزاحمت کا اسلحہ ہے جس کے ذریعہ ہم اپنے قیدیوں کو چھڑائیں گے‘‘۔ قیدیوں کی رہائی پر سید حسن نصراللہ نے روشنی ڈالتے ہوئے کہاکہ ایسے کئی مواقع آئے کہ قیدیوں کی رہائی بہت مشکل معلوم ہونے لگی لیکن بقول حسن نصراللہ قیدیوں کی رہائی میں ۱۲ جولائی ۲۰۰۶ء کو حزب اللہ کی طرف سے دو اسرائیلی فوجیوں کا اغواء کیا جانا اور اس کے بعد اسرائیل کی طرف سے لبنان پر مسلط کی جانے والی جنگ میں اسرائیل کی شرمناک شکست نے قیدیوں کی رہائی میں موثر عامل کا کردار ادا کیا۔ سید حسن نصراللہ کا کہنا ہے کہ اگر ہم اسرائیل کے دباؤ کے سامنے جھک جاتے تو آج سمیر، اس کے بھائی اور شہداء اپنے گھر میں یا گھر کے راستے میں نہ ہوتے۔ لبنان کی پسپائی کا مطلب پورے خطے کی پسپائی تھی جس کے بعد ہم ایک نئے مشرق وسطیٰ کے دور میں داخل ہو جاتے جو امریکیوں اور صیہونیوں کے مشترکہ منصوبے کا حصہ تھا۔ جب لبنانی پارلیمان کے اسپیکر نبی بیری نے قیدیوں کے تبادلے پر گفتگو شروع کی تو ان کو بہت زیادہ دباؤ کا سامنا کرنا پڑا۔ دنیا لبنان کی شرائط کو قبول کرنے پر تیار نہ تھی اور نہ ہی لبنان کی بات سننے پر آمادہ تھی۔ جو بھی وفود لبنان کے دورے پر آتے تھے وہ بھی اور پوری دنیا دونوں اسرائیلی سپاہیوں کی غیر مشروط رہائی کا مطالبہ کرتے تھے لیکن سیدحسن نصراللہ اور ان کے ساتھی اپنے مؤقف پر ڈٹے رہے اور اپنے قیدیوں کی رہائی کا پُرزور مطالبہ کرتے رہے۔ اپنی ۱۶ جولائی کی تقریر میں سید حسن نصراللہ نے تاکید کی کہ ’’ہمیں ان لوگوں کو ہر گز فراموش نہیں کرنا چاہیے جنہوں نے اس راہ میں ہماری مدد کی، خواہ وہ اگلے محاذ پر لڑے ہوں یا دوران مزاحمت زخم خوردہ ہوئے ہوں یا منزل شہادت پر فائز ہوئے ہوں۔ ہمیں اپنے محبوب دوست عماد مغنیہ کو ضرور یاد رکھنا چاہیے جنہوں نے اس راہ میں شہادت کو گلے لگایا۔ اللہ تعالیٰ کی رحمتیں ہوں اُن پر۔ ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ ہر ایک لبنانی نے بڑی دلیری سے مزاحمت کی ہے اور تاریخ رقم کرنے میں اپنا کردار ادا کیا ہے‘‘۔ سید حسن نصراللہ نے اس موقع پر بڑی خود اعتمادی سے کہاکہ اگر اسرائیل کو یہ خوف نہ ہوتا کہ ہمارے قیدیوں کی عدم رہائی کی صورت میں اس کے مزید سپاہی حزب اللہ کے ہاتھوں اغواء کیے جا سکتے ہیں تو وہ ہمارے قیدیوں کو خاص طور سے سمیر قنطار جیسے جانباز مجاہد کو رہا کرنے پر ہر گز رضامند نہ ہوتا۔ سید نے فرمایا کہ اگر سمیر کی رہائی کے لیے مزید صیہونی فوجیوں کے اغواء کی ضرورت پڑتی تو ہم اس سے ہر گز دریغ نہ کرتے۔
حالیہ تقریر پر غور کر کے بہت سے نتائج اخذ کیے جا سکتے ہیں مثلاً یہ کہ حزب اللہ لبنانی رہنما سید موسیٰ صدر کی رہائی کے لیے بھی گرم تعاقب کرنے کا ارادہ رکھتی ہے اور وہ اس کی شخصیت کو ہر گز فراموش نہیں کر سکتی جس نے لبنان میں اسلامی مزاحمت کی بنیاد رکھی۔ سید حسن نصر اللہ نے عالم اسلام سے اپیل کی ہے کہ وہ سید موسیٰ صدر اور اس کے بھائیوں کو لبنان واپس لانے کے لیے اپنا دست تعاون دراز کرے۔ سید حسن نصراللہ نے قیدیوں کی رہائی کے عوامل کا تذکرہ کرتے ہوئے قیدیوں کی ثابت قدمی کو خاص طور سے اجاگر کیا۔ قیدیوں نے تمام مصائب اور اذیتوں کو جھیل لیا لیکن دشمن کے سامنے کسی کمزوری کا مظاہرہ نہیں کیا۔ قیدیوں کی ثابت قدمی ہی تھی کہ جس کی وجہ سے ہم نے اسرائیل کے ساتھ ڈیل کرنے میں ذرہ برابر عجلت سے کام نہیں لیا۔ ایسا ہی رویہ قیدیوں کے عزیزوں کا بھی تھا انہوں نے بھی ہمیں ہدف کے حصول میں اپنا بھرپور تعاون دیا اور کبھی بھی ہمیں کسی عجلت سے کام لینے پر مجبور نہیں کیا۔
سید حسن نصراللہ نے اس موقع پر ایک واقعہ کا تذکرہ کیا جس کا مشاہدہ انہوں نے ٹی وی پر کیا کہ جب حزب اللہ کے مجاہدین کو اسرائیلی عدالت میں پیش کیا گیا اُن میں سے کسی ایک سے سوال کیا گیا کہ کیا وہ حسن نصراللہ کے کہنے پر دوبارہ لڑیں گے؟ تو اس مجاہد کا جواب تھا کہ اگر وہ دیکھیں گے کہ حسن نصراللہ دشمنوں کا مقابلہ کرتے ہوئے کسی سمندر میں اُتر گئے ہیں تو وہ بھی اُن کے کہے بغیر سمندر میں کود جائیں گے۔ سید حسن نصراللہ اپنے ساتھی کا یہ جواب سن کر آبدیدہ ہو جاتے ہیں۔
دریں اثناء سابق وزیراعظم لبنان رفیق حریری کی اہلیہ نازک حریری نے تحریک مزاحمت کو مبارکباد پیش کی ہے۔ روزنامہ النہار کی ایک رپورٹ کے مطابق نازک حریری نے سید حسن نصراللہ کے نام اپنے خط میں قیدیوں کے تبادلے کو لبنانی قوم کی عظیم فتح قرار دیا ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ سید حسن نصراللہ بہترین شخصیت ہیں جو قربانی کے مفہوم کا درک رکھتے ہیں اس لیے کہ وہ ملک کے لیے اپنے جوان فرزند ہادی کی قربانی پیش کر چکے ہیں۔ بجاطور سے لبنانی قوم سید حسن نصراللہ کی قیادت پر انحصار و اعتماد کر سکتی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ متعدد سروے رپورٹوں کی روشنی میں عالم عرب کی اس وقت سب سے محبوب و مقبول شخصیت سید حسن نصراللہ کی ہے۔سید حسن نصراللہ کی دانشمندانہ حکمتِ عملی کا ہی یہ ثمرہ ہے کہ آج لبنان ایک بار پھر سے متحد نظر آتا ہے۔ امریکا اور اسرائیل نے بہتیری کوششیں کر کے دیکھ لیں لیکن وہ لبنانی قوم میں شگاف ڈالنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ حزب اللہ کی جانب سے تحمل و بردباری کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج لبنان کے شیعہ، سنی، عیسائی اور دروزی سبھی متحد نظر آتے ہیں اور اسی اتحاد کی وجہ سے لبنان میں ایک یونٹی گورنمنٹ کی تشکیل ممکن ہو سکی ہے۔
بہرحال حسن نصراللہ اسرائیل کے حوالے سے جو بھی پیش گوئی کرتے ہیں وہ بالکل درست ثابت ہوتی ہے۔ لہٰذا اسرائیلی فوجی تجزیہ نگار اور فوجی ماہرین بھی حسن نصراللہ کی بات کو زیادہ اہمیت دیتے اور اپنے جنرلوں کے اندازوں پر حسن نصراللہ کی کہی ہوئی بات کو ہی فوقیت دیتے۔ سید حسن نصراللہ کی بات ایمان اور تجربے میں ڈوبی ہوئی ہوتی ہے۔ یہ دونوں چیزیں جب مل جائیں تو حیرت انگیز نتائج پیدا کرتے ہیں۔ سید حسن نصراللہ کے بیانات کی روشنی میں اگر اسرائیل کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو اس کی نابودی یقینی معلوم ہوتی ہے اور فلسطین و لبنان کی مزاحمتی تحریکوں کی کاوشیں جلد بار آور ہوتی دکھائی دیتی ہیں۔
Leave a Reply