دنیا نے غم و اندوہ کے ساتھ ہمارے زمانے کے ایک زبردست انقلابی رہنما ہوگو شاویز کی موت کا مشاہدہ کیا۔ ہوگو شاویز جو کہ وینزویلا کے صدر جمہوریہ تھے ۵ مارچ ۲۰۱۳ء کو اس دنیائے فانی سے کوچ کرگئے۔ جو لوگ حقوقِ انسانی اور جمہوریت کے قدر دان ہیں، جن میں امریکی حکومت بہرحال شامل نہیں ہے وہ ہوگو شاویز کی کمی کو بہت ہی شدت سے محسوس کریں گے۔ امریکی برِاعظم میں امریکی بالادستی اور تسلط پسندی کے خلاف جنگ کرنے والے ایک عظیم رہنماکی حیثیت سے ان کی شناخت تھی۔ ہوگو شاویز نے اپنے عوام کو متنبہ کیا تھا کہ ’’ہم سبھوں کویہ جان لینا چاہیے کہ ہمارے وطنِ عزیز وینزویلا کے خلاف استعماری خطرہ زندہ اور پسِ پردہ ہے۔‘‘ جونہی کہ اس انقلابی رہنما کی بے وقت موت کی خبر منظرِ عام پر آئی، امریکا کی چاکری کرنے والا ایک گروہ وینزویلا کی حکومت کے خلاف فوجی بغاوت برپا کرنے کے لیے سازشوں میں سرگرم ہوگیا۔ چنانچہ نائب صدر نیکولس مادورو (Nicholas Maduro) نے اعلان کیا کہ ایک امریکی ائیرفورس اتاشی اور ایک اور سفارتی افسر کو حکومت کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی سازش میں ملک سے نکالا جارہا ہے۔ واضح رہے کہ امریکا اپریل ۲۰۰۲ء میں پہلے بھی صدر شاویز کے خلاف ایک بغاوت برپا کرچکا تھا تاہم عوام کے بھرپور احتجاج کے نتیجے میں وہ دو روز کے اندر ہی پھر سے عہدہ ٔصدارت پر متمکن ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ امریکی آئل کارپوریٹس کے خلاف سخت موقف اختیار کرتے ہوئے صدر شاویز نے ایکزون موبل کے اوری نوکوبیلٹ میں موجود بھاری اثاثوں کو ۲۰۰۷
ء میں قومیا لیا تھا اور اس تنازعہ کے نتیجے میں بعد میں جو مقدمہ چلا تھا اس میں وہ فتحیاب بھی ہوئے تھے۔
حسبِ توقع وال اسٹریٹ کے تیل کے سرمایہ داروں کو ان کی موت سے بہت خوشی ہوئی ہے اور اس کی واضح علامت یہ ہے کہ شاویز کی موت سے نیویارک اسٹاک ایکسچینج میں غیر معمولی تیزی دیکھی گئی جو بلاشبہ اُن کے اس بے جااعتماد کا نتیجہ ہے کہ وہ یعنی امریکی سرمایہ دار شاویز کے بعد پھر سے وینزویلا پر اپنا تسلط جمانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ کارپوریٹ پارٹی کے دونوں ہی دھڑوں سے تعلق رکھنے والے امریکی سیاستدانوں نے اس افسوسناک خبر پر خوشیاں منائیں۔ ریپبلکن نمائندہ ایڈروائس نے بیان دیا کہ ’’شاویز کی موت سے امریکا مخالف بائیں بازو کے جنوبی امریکائی رہنماؤں کو سخت دھچکا لگا ہے۔‘‘ خاص طور سے کانگریس رکن ٹام کاٹن کا بیان قابلِ توجہ ہے کہ جس نے انتہائی تلخ انداز میں یہ اعلان کیا کہ ’’ہوگو شاویز کی موت کی خوشخبری کے بعد … ہم ہاؤس میں اس ایجنڈے پر کام کرنے کی تیاری کررہے ہیں کہ جس میں وینزویلا کے اندر ایک آزاد، جمہوری اور امریکا نواز حکومت کے قیام کو یقینی بنایا جاسکے‘‘۔ اس موقع پر امریکی صدر اوباما نے ایک رسمی احترام کا بادلِ ناخواستہ اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’صدر شاویز کی موت سے پیدا شدہ مشکل کے اس وقت میں امریکا وینزویلا کے عوام کی حمایت کے عزم کا ایک بار پھر اعادہ کرتا ہے نیز وینزویلا کی حکومت سے اپنے تعمیری تعلقات کی استواری میں دلچسپی کا اظہار کرتا ہے۔ ‘‘ایک امریکی سیاستدان جوزای سیرینو امریکا کے سیاسی ہوس پرستوںکے ذریعہ اگلے جانے والے زہریلے جملوں کے برعکس وینزویلا کے آنجہانی رہنما کو یوں خراجِ عقیدت پیش کرتا ہے:
’’شاویز کی یہ فکر تھی کہ ملک کی حکومت کو عوام نہ کہ چند مخصوص طبقات کو مضبوط کرنے کا وسیلہ ہونا چاہیے۔ اُس نے جمہوریت اور بنیادی انسانی خواہشات کو ایک باوقار زندگی کے ذرائع کے طور پر درک کیا تھا۔ اُس کے ورثے کے تحفظ کو اُس کی قوم اور نصف امریکی کرہ میں یقینی بنایا جائے گا تاکہ وہ لوگ جو اس کے افکار و کردار سے متاثر ہوئے غریب اور پسماندہ لوگوں کی بہتر زندگی کے لیے اپنی جدوجہد کو جاری رکھیں۔ ‘‘میڈیا جو سرمایہ داروں کے زیرِ تسلط ہے شاویز کی تحقیر کرتے ہوئے مسلسل اُسے ”Theatrical Leader” (تماشائی رہبر)، ”Showman” (نمائشی شخص )اور ”Insane” (دیوانہ) جیسے الفاظ سے متعارف کرارہا تھا بلکہ بسا اوقات اس سے بدتر الفاظ کا استعمال کیا گیا۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ صدر شاویز نے اپنے ملک میں ترقی کی بہت عمدہ روایت چھوڑی ہے۔ گزشتہ آخری دہائی میں وینزویلا میں غربت کی شرح ۲۰ فیصد کم ہوئی، آمدنی کے فرق میں دو فیصد کی کمی آئی جیسا کہ Gini Index سے ظاہر ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں بے روزگاری کی شرح میں ۵۰ فیصدکمی آئی۔ طبی سہولیات عوام کے اُن طبقات کو بھی فراہم کی گئیں، جن کے پاس ایک کلینک جیسی سہولت بھی میسر نہیں تھی پھر یہ کہ اس ملک میں لوگوں کو انٹرنیٹ تک مفت رسائی فراہم کی گئی۔ اس ساری پیشرفت کا سہرا صدر شاویز کی روشن فکر قیادت کو جاتا ہے جس نے ایک ایسی حکومت قائم کی جس کی آمدنی کا ۶۰ فیصد حصہ عوامی فلاح و بہبود کے منصوبو ں پر خرچ کیا جاتا ہے نہ کہ ثروت منداشرافیہ کے مفاد میں۔ تدفین کے موقع پر Jesse Jackson نے بجا طور سے اپنے تعریفی کلمات میں فرمایا کہ ’’ہوگوشاویز نے بھوکوںکو کھانا کھلایا، غریبوں کو اوپر اٹھایا اور ان کی امیدوں اور آرزوؤں کو بلند کیا نیز اس نے اپنے عوام کے خوابوں کی تکمیل میں ان کی مدد کی۔
اس کے انسانی منصوبوں میں غریب امریکیوں کو مفت Heating Oil کی فراہمی ہے جو نفع خور امریکی آئل کمپنیوں کی اونچی قیمتوں کو برداشت نہیں کرسکتے تھے۔یہ پروگرام ۲۰۰۵ء میں شروع کیا گیا جب بش انتظامیہ اپنے یہاں کترینہ نامی طوفان کے متاثرین کی مدد کرنے میں بری طرح ناکام ہوئی تھی۔امریکا میں اس پروگرام کے تحت کوئی ۴؍ لاکھ لوگوں کی مدد کی گئی، جو ریٹائرڈ اور ضعیف لوگوں کے لیے لائف لائن کی حیثیت رکھتا تھا لیکن جو لوگ ان کے علاوہ تھے انہیں Low Income Energy Assistance Program(LIEAP) پر انحصار کرنا پڑا جس کے بجٹ میں اوباما انتظامیہ نے ۲۵ فیصد کمی کردی۔ بہرحال ۲۰۱۰ء میں طوفانی بارشوں کے نتیجے میں وینزویلا کے اندر جب ایک لاکھ تیس ہزار لوگ بے گھر ہوگئے تو صدر شاویز نے گریٹ ہاؤسنگ مشن کے نام سے ایک منصوبے کا آغاز کیا، جس کا مقصد قابلِ حصول قیمت پر۲۰ لاکھ گھروں کی تیاری تھی جنھیں سات سال کے اندر ضرورت مند خاندانوں کو حوالے کیا جانا تھا۔ اس وقت تقریباً ۳؍لاکھ گھر زیرِ تعمیر ہیں۔ یہ پروگرام ۲۰۰۸ء کے مالی بحران پر امریکی ردِعمل کے بالکل برعکس ہے، جس کے تحت امریکا کے مالی اداروں کو بچانے کے لیے حکومت کی طرف سے رقوم فراہم کی گئیں جن کے دیوالیہ پن کی وجہ لٹیرے سرمایہ داروں کو واپسی کی ٹھوس ضمانت کے بغیر قرضوں کی بے مہارفراہمی تھی اور مارگیج زدہ بانڈز کی غیر اخلاقی تجارت تھی۔ مختصر یہ کہ ہوگوشاویز نے اپنے دوست عوام کے لیے بہت عاقلانہ سرمایہ کاری کی، جب کہ اوباما نے اپنے دوست بینکروں کے لیے حریصانہ سرمایہ کاری کی۔
ہوگوشاویز کی اقتصادی پالیسیوں کی حکمت کا اندازہ سامنے آنے والے نتائج سے لگایا جاسکتا ہے۔ اس کے باوجود کہ دنیا کی معیشت میں سخت مندی کا رجحان پایا جاتا ہے، وینزویلا نے گزشتہ ۸ ؍ربع مدت یعنی ۲۴ مہینوں میں مجموعی قومی پیداوار میں لگاتار اضافے کا مشاہدہ کیا ہے جب کہ ۲۰۱۲ء کے آخری تین مہینوں میں اس کی مجموعی قومی پیداوار کی شرح ۲ء۵ فیصد رہی ہے جو کہ ایک پرکشش رفتارِ ترقی ہے۔ بے روزگاری کی شرح مستقل کم ہوتی رہی ہے جب کہ تنخواہوں میں ہر سال اضافہ ہوتا رہا ہے۔ آئل سیکٹر نے ۶ء۱ فیصد کی شرح سے ترقی کی جب کہ تعمیرات، مالیات، ذرائع نقل وحمل، منافع سے عاری کمیونٹی سروسز اور مواصلات کے سیکٹرمیں ترقی مجموعی قومی پیداوار کی ترقی سے ہم آہنگ رہی۔ ہم دوبارہ وینزویلا کی ترقی کے اعداد و شمار کا امریکا کی ترقی کے اعدادو شمار سے موازنہ کرتے ہیں۔ سال۲۰۱۲ ء کے ایک ربع یعنی اکتوبر تا دسمبر امریکا کی مجموعی قومی پیداوار کی شرحِ ترقی ۱ء۰ فیصد رہی۔ ۲۲؍ انڈسٹریل سیکٹرز میں سے ۱۲؍ سیکٹر میں مندی رہی اس لحاظ سے خوردہ تجارت اور مصنوعات کی پائیداری روبہ زوال رہی اور جنوری ۲۰۱۳ء میںان سیکٹرز سے متعلق افراد اپنی قابلِ خرچ آمدنی میں ۴ فیصد کی کمی سے دوچار ہوئے۔
۲۰۱۲ء کے تیسرے ربع میں جب کہ امریکی معیشت کی صورتحال انتہائی ناگفتہ بہ رہی ٹھیک اس کے برعکس امریکی مالیاتی کارپوریشنوں کے منافعوں میں ۱ء۶۸ بلین ڈالر کا اضافہ ہوا اور یہ کارپوریشن ہنوز بہت اچھا منافع کما رہی ہیں، جس کا اندازہ وال اسٹریٹ کی شرحِ ترقی کے اونچے ریکارڈ سے لگایا جاسکتا ہے۔
صدر ہوگوشاویز نے اپنے پیچھے ملک کو ایسی حالت میں چھوڑا ہے جسے فخریہ دوسرے ممالک کے لیے معیارِ ترقی قرار دیا جاسکتا ہے، بالخصوص منصفانہ اور شفاف جمہوری انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے۔۷؍ اکتوبر ۲۰۱۲ء کے تازہ ترین انتخاب کے معائنے پر مامور ایک ٹیم جو پوری دنیا سے آئے ہوئے ۲۴۵ وکلا، انتخابی افسران، دانشوران اور منتخب نمائندگان پر مشتمل تھی نے متفقہ طور سے یہ گواہی دی کہ اس انتخاب میں ووٹروں کی شمولیت ۸۰ فیصدتھی۔ وینزویلا کا انتخابی نظام اپنی پیشہ ورانہ اور تکنیکی مہارتوں کے لیے قابلِ تعریف ہے یعنی یہاں انتخاب میں جدید ووٹنگ مشینیں استعمال کی جاتی ہیں، جو ووٹروں کی شناخت ان کے فنگر پرنٹس سے کرلیتی ہیں جسے لازماً ان کے شناختی کارڈ کے نمبر سے ہم آہنگ ہونا چاہیے۔ اس طریقے سے عملاً یہاں انتخابی دھاندلی کا امکان معدوم ہوجاتا ہے۔
اسلحے کی ملکیت کے دقیانوسی قوانین سے نجات پانے کے لیے امریکا معقول اصلاحات کو متعارف کرانے کے لیے ہنوز کوشاں ہے جب کہ صدر ہوگوشاویز کی قیادت میں وینزویلا سال ۲۰۱۲ ء میں پچا س ہزار سے زائد برآمد شدہ آتشیں اسلحوں کو تباہ کرچکا ہے۔ صدر شاویز نے ’’وینزویلا زندگی سے پُر ‘‘ نامی ایک پروگرام کا آغاز کیا جس کے تحت مہلک اسلحوں کی درآمدپر اپنے شہریوں کے تحفظ و سلامتی کو مستحکم کرنے کی خاطرایک سال کی پابندی عائد کردی۔ ۲۰۰۹ء میں شاویز انتظامیہ کے تحت وینزویلا کی قومی پولیس نے عوام کے تحفظ، جرائم کی روک تھام اور شہریوں کو مثبت سرگرمیوں میں مصروف رکھنے کے لیے بہت ہی اہم کردار ادا کیا۔ دوسرا اہم کام جو صدر شاویز نے کیا وہ وینزویلا کے آئین میں مقامی لوگوں کے حقوق کو شامل کرنا ہے۔ ۱۹۹۹ء میں منظور شدہ اس آئین کی شق ۱۱۹ کے مطابق :
’’ریاست مقامی عوام اور برادریوں کے وجود نیز ان کی سماجی، سیاسی اور اقتصادی تنظیم، علاوہ ازیں ان کی ثقافتوں، ان کے مراسم، روایات، زبانوں اور مذاہب کو تسلیم کرتی ہے۔ ساتھ ہی ان کی جائے رہائش اور ان زمینوں پر ان کے مالکانہ حقوق، کہ جسے انہوں نے اپنے اسلاف سے روایتی طریقے سے وراثت میں پایا ہے اور جوان کے طرزِ زندگی کی ضمانت و نشوونما کے لیے ضروری ہے، کو بھی ریاست تسلیم کرتی ہے۔‘‘ اس کے علاوہ وینزویلا کی قومی اسمبلی میں دیسی آبادی کی نمائندگی کی بھی ضمانت دی گئی ہے، جب کہ امریکا کے آئین میں آرٹیکل ایک اور سیکشن ۲ کے تحت مقامی آبادی کو نمائندگی دینے سے انکار کیا گیا ہے کیونکہ امریکی آئین آزاد شخصیت کی حیثیت، جن لوگوں کو عطا کرتا ہے اُن سے مراد صرف سفید فام لوگ ہیں۔ صدر شاویز نے لیبر قوانین کے ایک جامع مجموعے کو پاس کرانے کے لیے بہت ہی محنت کی۔ یہ لیبرقوانین مزدوروں کے حقوق کی پوری طرح نگہبانی اور محافظت کرتے ہیں۔ یکم مئی ۲۰۱۲ء میں ونیزویلا میں ایک قانون کی منظوری دی گئی جس میں مزدوروں کی غیر منصفانہ برطرفی کی ممانعت کی گئی ہے اور ساتھ ہی مزدوروں کو ’’تنخواہِ جدائی ‘‘ادا کرنے کی تاکید ہے خواہ ملازمت سے برطرفی کی وجہ کچھ بھی ہو۔اسی طرح لیبر منسٹری کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ ایسی تجارتی کمپنیوں پر پابندیاں عائد کرسکتی ہے، جو مزدوروں کے حقوق کی خلاف ورزی کرتی ہیں۔
اس کے علاوہ قومیت اور جنسی تفریق کی بنیاد پرلیبر یونین میں رکنیت دینے کے حوالے سے جو رکاوٹ تھی اسے دور کیا گیا اور اس طرح دوسری رکاوٹوں کو بھی برطرف کیا گیا۔ جب کہ امریکا کے لیبر قوانین میں ’’کام کرنے کے حق ‘‘ کے قوانین کے تحت مزدوروں کو اپنی تنظیم بنانے سے روکا گیا ہے اور مالکوں کو ’’مرضی کے مطابق بھرتی ‘‘کے قانون کے تحت اپنے ملازمین کو کسی بھی وجہ سے برطرف کردینے کا مجاز قرار دیا گیا ہے۔ البتہ کچھ حدود وقیود کا مالکان کو ضرور پابند کیا گیا ہے لیکن ثبوت کی فراہمی کے حوالے سے ملازمین کو جو دشواریاں پیش ہوتی ہیں اس کی بنیاد پر وہ قانونی چارہ جوئی کی زحمت برداشت نہیں کرپاتے ہیں۔
ہوگوشاویز ایک صاحبِ بصیرت رہنما تھے۔ ایسے رہنما شاذ و نادر ہوتے ہیں، جو اپنے عوام کا اس قدر خیال رکھتے ہوں اور اپنے معاشرے کی ترقی و نشوونما کے لیے اس قدر فکر مند رہتے ہوں۔ ہوگو شاویز ایک ایسے معاشرے کے قیام کے علمبردار تھے کہ جس میں معاشرے کے تمام لوگ مستفید ہوتے ہوں نہ کہ محض چند لوگ۔ ہوگوشاویز اس دنیا کو چھوڑ کر چلے گئے لیکن ان کی چھوڑ ی ہوئی روایت ہمارے ساتھ ہے اب یہ ہمارے اوپر ہے کہ ہم میںسے کون لوگ ان کے منصفانہ معاشرے کے قیام کے پاکیزہ مقصد کی تکمیل کے لیے برسرِ جدوجہد رہتے ہیںاور اس وقت تک رہتے ہیں جب تک کہ استعماری سرمایہ داری کی ظالمانہ زنجیر ٹوٹ نہیں جاتی ہے؟
یہاں یہ ذکر بے محل نہ ہوگا کہ ہوگوشاویز مظلوم فلسطینیوں کے مسائل میں بھی دلچسپی لیتے تھے چنانچہ آنجہانی شاویز نے ۱۷؍ ستمبر ۲۰۱۱ء کو اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون کے نام جو خط لکھا تھا اس میں ایک آزاد فلسطین کے قیام کی وینزویلا کی طرف سے مکمل حمایت و وکالت کا اعلان کیا تھا۔
☼☼☼
Leave a Reply