
اس تقریب میں خیالات کا رُخ لازماً اس سوال کی طرف مڑ جاتا ہے کہ اس جدید دور میں ادیب کس صورتحال سے دوچار ہے؟ میں چاہتا ہوں کہ میں آپ کو ان سوچوں میں شریک کروں جو میرے دل و دماغ پر اس سے طاری ہوتی ہیں، جب میرا دھیان جدید دور میں صاحب قلم کے کردار کی طرف جاتا ہے، میں اس موقع پر صاحبِ قلم کی صلاحیت اور اس کی ذمہ داری کے متعلق گزارشات پیش کروں گا۔ میں ان محرکات کا بھی ذکر کروں گا، جو ادیب کی تخلیقی صلاحیت کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کر دیتے ہیں اور ان دکھوں کا بھی ذکر کروں گا جن کے چرکے صاحبِ قلم اس تنگ نظر اور بانجھ عہد میں کھا رہے ہیں، جس میں ہم رہتے ہیں۔ اگر آپ ٹھنڈے دل سے انسانی تاریخ کے بہاؤ پر غور کریں اور ان بنیادی قوتوں کے بارے میں سوچیں جنہوں نے اس تاریخ کی تشکیل کی اور اسے فیصلہ کن صلاحیت عطا کی، جس نے آدمی کو آدمی کہلانے کا سزاوار بنایا تو آپ اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ انسانیت کی قسمتوں کے فیصلے ہمیشہ چند عظیم انسانوں نے کیے ہیں جو انسانیت ہی کی کوکھ سے پیدا ہوئے اور یہ ضرب المثل تو بہت پرانی ہے کہ چند ہی ایسے ہوتے ہیں جو اس کرّہ ارضی کا سنگار کہلاتے ہیں۔
انسانی تاریخ کے عظیم ترین ہیرو وہ پیغمبر ہیں جو اس کائنات کی تاریخ میں الوہی روشنی کی کرنیں لے کر آئے اور جنہوں نے انسانیت کو زندگی کا راز آشنا بنانے میں بے پناہ مدد دی۔ وہ بلند آدرش بھی دیے جو زندگی کے ظالم کھیل میں ہمارے بچاؤ کی صورت پیدا کرسکتے ہیں۔ میرے خیال میں یہ پیغمبر انسانیت کے حقیقی معلم ہیں۔ اگر یہ نہ ہوتے تو ایک عام انسان کے لیے اپنے وجود کی ماہیت اور مقصد کو سمجھنا اور اپنی تکمیل کے لیے الوہیت (ایک سچا ادیب دراصل ایک سعی مجسم ہے خواہ اس کی سعی کا دنیا اعتراف کرے یا نہ کرے، ایک سچا ادیب سراپا تقدس ہے وہ کائنات کا اجالا ہے، وہ مقدس مشعل تھامے وقت کے ایک خرابے میں کائنات کا میر سفر ہے) کی طرف بڑھنا بہت مشکل ہو جاتا۔ لطافت و رعنائی اور روشن خیالی کی شعاعوں کا منبع صرف وہی ایک ذات ہے جس نے اس کائنات کو تخلیق کیا اور ہمیں بندگی بجا لانے کا فرض سونپا، ان پیغمبروں کی تعلیمات انسانیت کے عظیم مذاہب کے آسمانی صحیفوں میں ملتی ہیں۔ صحائفِ آسمانی سے مسلسل تعلق روحانی فیضان و ہدایت حیرت و استعجاب اور امید و انبساط کا لازوال سرمایہ عطا کرتا ہے۔
میرے نزدیک مذہبی سچائیاں ایک ایسی عدالت عالیہ کا درجہ رکھتی ہیں جو اس راہِ ہدایت کا تعین کرتی ہے جس کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے شخصیت کو آزاد ارتقا کا موقع ملتا ہے اور فرد زندگی کی بڑی اسکیم میں خواہ وہ قومی ریاست کی بنیاد پر ہو یا انسانی برادری کے وسیع تصور پر اپنا کردار ادا کرسکتا ہے۔ یہ ہم میں سے کسی کے لیے بھی ممکن نہیں کہ وہ مذہبی صداقتوں سے بے تعلق ہو کر اور صرف ظن و تخمین کے سہارے مذہبی تعلیمات سے آگے جاسکے جو کوئی ان حقیقتوں اور تعلیمات کو جھٹلانا چاہتا ہے وہ دراصل خدا کی حاکمیت کا منکر ہے اور اس قانون سے نبرد آزما ہے جس کے نظم میں تمام کائنات جکڑی ہوئی ہے۔
ادیب کا منصب
پیغمبروں کے بعد وہ لوگ آتے ہیں جنہیں کارلائل نے انسانیت کے مرشد کہا ہے، یعنی وہ لوگ جو کتابیں لکھتے ہیں۔ ان اہل علم کا کام بشرطیکہ وہ اپنے نام کی آبرو قائم رکھنے والے ہوں کسی نئی صداقت کا اظہار کرنے سے زیادہ اہم یہ ہے کہ وہ اپنے عصری تقاضوں کے مطابق ان سچائیوں کو پیرایہ اظہار بخشیں جو انبیائے کرام پہلے ہی انسانیت تک پہنچا چکے ہیں۔ جب انسانیت کا مذہبی ارتقا پیغمبر آخرالزماں کی تعلیمات میں سمٹ آیا تو وحی کا دور ختم ہوگیا۔ اگر کائناتی تاریخ کے سیاق و سباق میں دیکھا جائے تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کے عہد کو عمل پذیری کا دور کہا جاسکتا ہے، وہ اس لیے کہ اب تک انسانیت کے مذہبی معلمین تک جو کچھ پہنچایا گیا تھا اس کو صحیح معنوں میں عملی جامہ پہنانا تھا اور یہ مذہبی تعلیم، انسان اور اشیا اور انسان کے باہمی تعلقات پر اثرانداز ہونے والی تھی۔ یہ ضروری ہے کہ مذہبی سچائی جو پہاڑوں کی طرح اٹل اور قدیم ہے ہر مقام اور دَور میں معاشرے کے لمحہ بہ لمحہ بدلتے تقاضوں کے مطابق نیا پیرایہ اظہار اختیار کرتی رہے اور فرد بہرحال اس عمل کا ایک لاینفک جزو ہے۔ ہر اس ادیب کے لیے جو کارلائل کے ادیب سے، جسے اس نے انسانیت کا مرشد کہا ہے ہم آہنگ ہونے کا آرزو مند ہے۔ یہ انتہائی ضروری ہے کہ وہ ان بنیادی مذہبی سچائیوں کو پیش کرنے کا مقدس فرض ہمہ وقت بجا لاتا رہے جن کا ان کی زندگی اور اس کی منزل مقصود سے گہرا تعلق ہے اور جو روزمرہ کے برتاؤ میں ذوق و شوق کی کیفیت پیدا کرتی ہیں۔ کارلائل، ماورائی فلسفے سے بہت متاثر تھا۔ اس فلسفے کی تعلیم یہ ہے کہ اس کرۂ ارضی کی وہ تمام اشیا جو ہم دیکھتے ہیں اور جن کے ساتھ ہم زندگی بسر کرتے ہیں (ان اشیا میں لازمی طور پر ہم اور ہمارے ارد گرد کے تمام لوگ بھی شامل ہیں) ایک قسم کا حیاتی وجود رکھتی ہیں اور ان ظاہری پردوں کے پیچھے کائنات کے الوہی تصور کی روشنی چھپی ہوتی ہے۔ یہی وہ تصورِ الوہی ہے جو ان تمام ظواہر کا جوہر ہے۔ عام لوگوں کے لیے اس الوہی تصور کا ادراک بہت مشکل ہے۔ وہ اپنی روزمرہ کی حیاتیاتی ضرورتوں کو پورا کرنے میں اس قدر مصروف ہیں کہ نہ تو ان کے پاس اتنا وقت ہے اور نہ ہی ان میں اتنی صلاحیت باقی رہ جاتی ہے کہ وہ رازِ تحقیق سمجھ سکیں اور یوں ظاہری پردوں کو چیر کر اس مقام تک دیکھ سکیں جہاں وہ الوہی تصور روشنی بن کر پھیلا ہوا ہے۔ ایک عظیم ادیب ہمارے کائناتی تجربے کی ہمارے سامنے ایسی تشریح کرتا ہے کہ اس کا پنہاں الوہی پہلو ہمارے سامنے نمایاں ہو جاتا ہے۔ کارلائل نے ادیب کے اس منصب کو ان لافانی لفظوں میں بیان کیا ہے: ’’اہل قلم مرشدوں کا وہ سلسلہ ہیں جو عہد بہ عہد چلتا ہے۔ یہ تمام انسانوں کو یہی تعلیم دیتے ہیں کہ خدا تمہاری زندگیوں میں موجود ہے اور یہ تمام ظواہر جو ہم اس دنیا میں دیکھتے ہیں کائنات کے الوہی تصور کا مظہر ہیں۔ لہٰذا ایک سچا ادیب دراصل ایک سعی مجسم ہے، خواہ اس سعی کا دنیا اعتراف کرے یا نہ کرے (اس سے بھی بڑھ کر) ایک سچا ادیب سراپا تقدس ہے، وہ کائنات کا اجالا ہے۔ وہ مقدس مشعل تھامے وقت کے ایک خرابے میں کائنات کا میر سفر ہے‘‘۔
لکھنا اب روز کے معمولات میں ہے!
موجودہ دور میں چند مستثنیات کو چھوڑ کر ایسے ادیبوں کا ملنا مشکل ہے جو اس معیار پر پورے اترتے ہوں، اب لکھنے کے تخلیقی عمل کو بھی تجارت بنا دیا گیا ہے، گزارا چلانے کا ایک ذریعہ۔ اب ادیب لکھتے ہیں اس لیے نہیں کہ ان کو اپنے بھرپور جذبات کا اظہار کرنا ہے، بلکہ اپنی خالی جیب بھرنے کے لیے۔ یہ لفاظی کا دور ہے، صرف لفاظی کا، اور افسوس! ایسی لفاظی کا جس کا کوئی واضح مطلب نہیں نکلتا۔ ذرا دیکھیے کہ ساری دنیا میں چھپے ہوئے الفاظ کا کیسا طوفان ابل رہا ہے۔ اَن گنت کتابیں، رسالے، اخبار، جرائد اور کیاکچھ نہیں، لیکن لفظوں کے اس دریا کے طوفانی بہاؤ کے باوجود انسانیت کوئی ایسا وجدانی بول سننے کو ترس رہی ہے جو کسی عظیم روح کے ذہنی سفر کا سنگ میل ہو، لکھنا ایک تجارت ہے جو کام محض سکے کمانا ہے۔ انسانوں کی روحوں کو جیتنا نہیں، اشاعت و ابلاغ کے میدان میں وہ جنگجو جنہوں نے واقعی کسی بلند مقصد کا حصول اپنے پیش نظر رکھا ہو، تعداد میں اتنے کم ہیں کہ ان کو پہچاننا تقریباً ناممکن ہے۔ آج کی دنیا میں چھپے ہوئے الفاظ کے بے پناہ انبار میں کسی قابل توجہ چیز کا انتخاب روز بروز مشکل ہوتا جارہا ہے۔ انتخاب کا مسئلہ اہم ترین مسئلہ ہے، اور ایک عظیم استاد کے لیے کون سی چیز اس کی توجہ کے قابل ہے، یہ کوئی آسان کام نہیں، ان ہزاروں کتابوں میں سے جو تقریباً ہر مہینے ہمارے سامنے انباروں کی صورت میں پھینک دی جاتی ہیں۔ یہ تلاش کرنا مشکل ہے کہ وہ کون سی خاص کتاب ہے جس کا مطالعہ ہمارے لیے سودمند ثابت ہو سکتا ہے ہمارے ارد گرد اَن گنت لغو تحریریں بکھری پڑی ہیں۔ یہ تحریریں کا مکس سے شروع ہو کر سنسنی خیز مواد پر ختم ہو جاتی ہیں۔ آج کل ادیب یوں لکھتے ہیں جیسے لکھنا بھی روز کے معمولات کا ایک حصہ ہو اور اس حقیقت کے باوجود کہ دراصل ان کے پاس کہنے کو کچھ نہیں رہا وہ ایسی ایسی اکتا دینے والی تصنیفات عوام کے سامنے پیش کرنے سے باز نہیں رہتے جن میں کوئی بیش قیمت بات نہیں ہوتی۔
اس زوال پذیری کی کیا توجیہہ کی جاسکتی ہے؟ میکالے نے کہا جوں جوں تہذیب ترقی پذیر ہوتی ہے شاعری زوال پذیر ہوتی جاتی ہے۔ اس کی اس بات کا مطلب شاید یہ تھا کہ تہذیبی ارتقا کے ساتھ ساتھ انسان کے دل و دماغ مشینی ہوتے جاتے ہیں۔ وہ غیر فطری اور غیر ضروری بحث و تمحیص میں یوں الجھ کر رہ جاتا ہے کہ اس کے لیے سچائی تک پہنچنا اور خدائی تخلیق کے عظمت و میلان کو محسوس کرنا ناممکن ہوجاتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اپنے اس عہد میں عظیم ادیبوں کی کمی کا ایک بنیادی سبب اس دباؤ میں تلاش کیا جاسکتا ہے جو ہماری زندگیوں پر ہر روز زیادہ ہوتا جارہا ہے۔ آج کے انسان کو اتنا کچھ جاننا پڑتا ہے اس کے احساس کی صلاحیت ان حقائق کے وسیع دائرے میں حیران ہو کر رہ جاتی ہے جنہیں جاننا اس کے لیے ضروری سا ہوگیا ہے۔ جدید انسان کو اتنا وقت میسر نہیں کہ وہ اس دنیا کے ساتھ جس سے وہ معاملہ کرتا ہے ایک قابل اطمینان گہرا جذباتی رشتہ قائم کرسکے۔ اس کے علاوہ جدید انسان کے تجربے کی دنیا میں کئی انقلابی تبدیلیاں آچکی ہیں۔ یعنی اس کے تعلق کا پیمانہ وسیع ہو گیا ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ دنیا میں ظہور پذیر ہونے والے واقعات سے اس کے لگاؤ کی نوعیت بھی بہت کچھ بدل چکی ہے۔ پھر ذرائع آمدورفت نے یہ کرم کیا ہے کہ ہم واقعات کے ایک بڑے دائرے میں شامل ہونے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ اس خیال کو واضح کرنے کے لیے آیئے ذرا اس انسان کی زندگی کا تصور کریں جو آج سے ایک سو برس پہلے اس دنیا میں رہتا تھا۔ وہ ایک چھوٹے سے گاؤں یا قصبے میں رہتا اور آمدورفت کانظام کچھ ایسا تھا کہ وہ اسی گاؤں میں زندگی بسر کرتا، وہیں مر جاتا تھا اور اگر وہ کبھی باہر بھی جانا چاہتا تھا تو زیادہ دور جانے کا متحمل نہیں ہوسکتا تھا۔ اس کا سفر عموماً سو میل سے آگے نہیں بڑھتا تھا۔ اب ذرا اس انسان کا آج کے انسان سے مقابلہ کرکے دیکھیے اور اس کے سیر و سفر کے امکانات کا جائزہ لیجیے تو معلوم ہوگا کہ بیسویں صدی کے وسط کا انسان اپنی تیز پرواز کے باعث پورے کرۂ ارض کو زیر قدم سمجھتا ہے۔ اس کی یہ پرواز محض جیٹ طیارے پر ہی منحصر نہیں بلکہ ریڈیو اور جدید دور کے اخبارات نے ارضی زندگی کے تمام مناظر پوری تفصیلات کے ساتھ ہمارے سامنے رکھ دیے ہیں۔ وہ شخص جو بی بی سی سے تقریر کررہا ہوتا ہے مصنوعی اعتبار سے میرے گھر کا ہی ایک فرد بن جاتا ہے لیکن ساتھ والے گھر میں رہنے والا میرا حقیقی ہمسایہ مجھ پر بیتنے والے واقعات کا ایک اجنبی تماشائی بن کر رہ گیا ہے۔
جدید ٹیکنالوجی کا چیلنج
چند ہی لوگ ہیں جنہوں نے اس عظیم انقلاب کو محسوس کیا ہے۔ یہ درست ہے کہ ہمارے آباء اجداد ہمارے مقابلے میں کم لوگوں اور جگہوں کو جانتے تھے، لیکن ان جگہوں اور آدمیوں سے ان کی جان پہچان بہت گہری اور محسوساتی تھی، یہی وجہ تھی کہ وہ بھرپور زندگی بسر کرتے تھے اور گاؤں میں رہنے والے کسی بھی شخص کی خوشیوں اور غموں میں یوں شریک ہوتے تھے جیسے وہ خوشیاں اور غم ان کے اپنے دلوں پر وارد ہو کر ان کا ذاتی تجربہ بن گئے ہیں۔ ایسا جدید انسان کے لیے یقیناً ناممکن ہے کہ وہ ریڈیو سے نشر ہونے والے اور اخبارات میں چھپنے والے واقعات سے اپنا کوئی جذباتی رشتہ قائم کرسکے۔ ہمیں بہت کچھ جاننا پڑتا ہے، اس کامطلب یہ ہے کہ ہماری قوتیں اس چیلنج کامقابلہ نہیں کرسکتیں جسے جدید ٹیکنالوجی کی کوکھ سے جنم لینے والی اس اجنبی دنیا نے ہمارے سامنے بڑا بنا کر کھڑا کردیا۔ اس عجیب و غریب صورتحال کا نتیجہ یہ ہے کہ جدید انسان بھرپور زندگی گزارنے کی صلاحیت کھو بیٹھا ہے، وہ اب قابل نہیں رہا کہ اپنے گرد ہونے والے کسی بھی واقعہ کو اپنے احساسات میں مکمل طور پرجاگزیں کرسکے۔ اس نے ایک خارجی تماشائی بننے پر اکتفاکرلیا ہے جو کسی بھی واقعے میں کوئی دلچسپی نہیں لیتا۔ اس کے ذہن میں اب ایسی گنجائش نہیں رہی کہ وہ اشیا کی سچائی کو ایک جذباتی واردات کے روپ میں سمجھے، اس کی بجائے وہ ایک تجریدی اور مصنوعی دنیا میں رہتا ہے، اس دنیا اور اس کے واقعات کے متعلق ہم اگرچہ اپنے آباء اجداد سے بہت زیادہ جانتے ہیں لیکن اس کی وجہ سے ہمیں یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ ہماری جذباتی قوت ان واقعات کی وسیع سطح پر پھیل کر پایاب ہوگئی ہے اور اس طرح اپنے ارد گرد کی دنیا میں ہمارے رشتوں کا جذباتی رنگ اگر مٹا نہیں تو مدھم ضرور پڑ گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کی انسانی زندگی میں تصنع آگیا ہے اور وہ اس الوہی تصور سے ترکِ تعلق کر بیٹھا ہے جس کا ذکر کارلائل نہایت والہانہ انداز میں کرتا ہے۔ ہم اپنے آپ سے صرف اسی لیے بیگانہ ہوگئے ہیں کہ ہم واقعات کے اس لامتناہی سیل رواں کو دیکھنے میں مصروف ہیں جس کے ساتھ ہمارا کوئی جذباتی تعلق نہیں ہے۔
انسانی زندگی اسی وقت تکمیل پاسکتی ہے جب انسان کی شخصیت کا ہمہ پہلو اور متوازن ارتقا ہو ’’جذبہ‘‘ ایک ایسا آلہ ہے جو انسان کے مستقبل کی اسی چھوٹی سی گاڑی کو متحرک رکھتا ہے۔ یہ بات اتنی صحیح ہے کہ اس کو عالمی سچائی کا درجہ دیا جاسکتا ہے کہ ہر وہ واقعہ جو انسان کے لیے ایک جذباتی تجربہ نہ بن سکتا ہو اس قابل ہی نہیں کہ انسان اس کا ادراک کرسکے، ادراک محض ایک ذہنی عمل نہیں ہے عقل اور حقیقت کی آویزش علم کو تو جنم دے سکتی ہے لیکن ادراک کو نہیں۔ کسی شے کا ادراک اس صورت میں ہوسکتا ہے کہ آپ کی شخصیت کے تمام پہلو اس شے سے اثرپذیر ہوں۔ اس نام نہاد تہذیبی دور میں انسانی زندگی کی کیفیت میں زوال پذیری انسان میں اس صلاحیت کی کمی کی وجہ سے ہے جو اشیا کی حقیقت اور اشیا کے معانی کے تخلیقی ادراک میں مدد کرتی ہے۔ تمام الفاظ اس براہ راست احساس کے بغیرایک ایسی چیز کا مشینی اظہار بن جاتے ہیں جو کوئی وجود نہیں رکھتی، یہی وجہ ہے کہ جدید شاعری منطق اور نثر کی طرح سپاٹ ہے۔ کیونکہ یہ شاعری اب انسان کے اپنے اور اس کائنات کے جذباتی ادراک کا تخلیقی اظہار نہیں رہی، بہرحال ابلاغ کی صلاحیت اس سچائی کے تابع ہے جو ذاتی تجربے کے مرحلے سے گزر چکی ہو۔ جدید ادیب زندگی کے چھپے ہوئے گوشوں کی کامیاب ترجمانی صرف اسی لیے نہیں کرسکتا کہ وہ ان پہلوؤں کو خود بھی دریافت نہیں کرسکا ہے، چونکہ شاعر کی روح میں شعری صداقت موجود نہیں ہوتی اس لیے شاعری میں لفظوں کی مصنوعی نمائش کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا۔ جدید مصوری ڈرامے اور موسیقی کی بھی یہی کیفیت ہے۔ دراصل آرٹ کے جدید نقادوں نے قریباً قریباً یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ کسی فنی تخلیق میں کسی واضح مفہوم کی تلاش ایک نامسعود کوشش ہے اور آرٹ کی عدم معنویت میں اس کے معنی پنہاں ہیں۔
حکمران اور علم و فن
اس کے علاوہ ایک المیہ یہ ہے کہ ہم دولت کو قاضی الحاجات سمجھنے لگے ہیں۔ اس لادینی دور میں ہم یہ تسلیم کریں یا نہ کریں لیکن حقیقت یہی ہے کہ ہم لکشمی دیوی کو پوجتے ہیں۔ معاشی خوشحالی ہم سب کا فقہائے مقصود بن کر رہ گیا ہے اور ہم بھول جاتے ہیں کہ دولت سے تہذیب کی بجائے سوقیت اور اوچھا پن نشوونما پاتے ہیں۔ میں عرض کرتا ہوں کہ معاشی خوشحالی وہ چیز نہیں جس کو کوئی اہمیت حاصل ہو۔ انسانوں کو نورِ بصیرت کی ضرورت ہے اور جس قوم میں اربابِ بصیرت نہیں ہوتے وہ تباہ ہو جاتی ہے۔ ایک اور بات بار بار سننے میں آتی ہے کہ حکومت کو فنون کی سرپرستی کرنی چاہیے۔ یہ دور جس میں حکومت سے بہت کچھ امید کی جاتی ہے یہ خیال روز بروز جڑ پکڑ رہا ہے کہ حکومت عظیم آرٹسٹ اور ادیب پیدا کرسکتی ہے۔ یہ درست کہ ادیبوں کو بھی دوسرے آدمیوں کی طرح زندہ رہنا ہے اور اگر انہیں زندہ رہنے کے لیے مناسب وسائل میسر نہ ہوں تو ان کا ذہنی ردعمل آنا شدید ہوسکتا ہے کہ وہ عظیم ادب تخلیق ہی نہ کرسکیں۔ لیکن مناسب وسائل کا حصول ایک الگ بات ہے اور حکومت سے فنون کی سرپرستی کی درخواست کرنا ایک بالکل مختلف چیز ہے۔ وہ لوگ جو یہ یقین رکھتے ہیں کہ پیسے سے ہر چیز حاصل کی جاسکتی ہے ان کی خدمت میں کارلائل کے وہ الفاظ پیش کرتا ہوں جو اس نے اسی سوال سے بحث کرتے ہوئے کہے تھے:
’’میں یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ روپے کی صورت میں شاہی یا پارلیمانی امداد کی ضرورت نہیں۔ اربابِ علم کو وظائف دینا، تحفے عنایت کرنا اور ان کی طرف روپوں کی تھیلیاں بڑھانا ادب کی نشوونما میں معاون ثابت نہیں ہوسکتا۔ روپے کی قاضی الحاجاتی کے بارے میں سُن سُن کر کان پک چکے ہیں،تو میں یہ کہوں گا کہ ایک باصلاحیت انسان کے لیے غریب ہونا کوئی بُری بات نہیں اور یہ کہ اربابِ علم و فن کو غریب ہی ہونا چاہیے، تاکہ ان کی صلاحیتیں اجاگر ہوسکیں۔ گرجوں میں ایسے ادارے قائم کیے گئے تھے جن میں داخل ہوکر ایک اچھے خاصے بھلے انسان کو بھیک مانگنا پڑتی تھی اور یہ ادارے عیسائیت کی روح کے ایک فطری اور لازمی ارتقا کا نتیجہ تھے۔ یہ عیسائیت کی بنیاد ہی غربت، دکھ اور صلیب پر رکھی گئی تھی۔ دنیاوی تکلیف اور عاجزی کا ہر عنصر اس میں شامل تھا ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ جس نے ان اسباق کو اچھی طرح نہیں پڑھا اور ان چیزوں کے متعلق نہیں جانا اس نے اپنی تربیت کا ایک عمدہ موقع کھو دیا۔ بھیک مانگنا اور ایک کھردرا اونی کوٹ پہن کر اور اپنی کمر کے گرد رسیاں کس کر ننگے پاؤں چلنا اور ساری دنیا کی تحقیر کا نشانہ بننا کوئی خوبصورت کام نہیں تھا اور نہ ہی لوگ اسے قابل احترام سمجھتے تھے لیکن اس کے باوجود ان لوگوں کی شرافت، عالی ظرفی اور عظمت جنہوں نے یہ کام کیا بہت سے لوگوں کے لیے اس کام کو قابل احترام بنا گئی‘‘۔
عظیم اہل قلم خوشحال نہیں تھے!
’’فقر‘‘ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’میرے لیے قابل فخر ہے‘‘ افلاس وہ پہلا مکتب تھا جہاں اس بے سہارا اور یتیم بچے کی اولین تربیت ہوئی۔ بہترین یونیورسٹی دکھوں کا مکتب ہے۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں انسان کمال حاصل کرتا ہے۔ وہ عظیم اہل قلم جن پر انسانیت فخر کرتی ہے کوئی خوشحال لوگ نہیں تھے۔ انہوں نے غیر ارادی طور پر اپنا طرززندگی ہمیشہ درویشانہ ہی رکھا۔ اس میں شک نہیں کہ روپیہ بہت کچھ کرسکتا ہے، لیکن ایک اچھا فنکار پیدا نہیں کرسکتا۔ یہ تو خدا کی دین ہے جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے، لیکن خدا کی اس دین کے استحقاق کی شرط یہ ہے کہ اس میں دیانتدارانہ اور بے باک اظہار کی جسارت ہو، اپنے خیالات میں دیانتدار اور راسخ ہو، یا اس میں اتنا اخلاص اور جرأت ہو کہ وہ سچ کو جس طرح دیکھتا اور جانتا ہے اس کا اسی طرح اظہار کرسکتا ہو۔ دوام ایک فنکار کا بہت بڑا انعام ہے اور یہ انعام اس کو ملتا ہے جو تمام رکاوٹوں کے باوجود صرف اس لیے ریاضت اور جدوجہد کرتا ہے کہ خدا کی منشا غالب ہو، یہی وہ لوگ ہیں جو ہمیں بتاتے ہیں کہ کیا اہم ہے، کون سا گیت لافانی ہے اور کون سا گیت ہوا میں تحلیل ہو جانے والا ہے، کیا موزوں ہے اور کیا چیز اہمیت کی حامل ہے۔
کیا یہ صحیح نہیں ہے کہ یہ ہر لحظہ بدلتی ہوئی سوسائٹی جس کی تعمیر کی فکر ہمیں ہر وقت مضطرب رکھتی ہے، لطافتِ تخلیقی کی دشمن ہے؟ کیا یہ فرانسیسی ضرب المثل کہ ’’خوشحال لوگوں کی کوئی تاریخ نہیں ہوتی‘‘ درست نہیں؟ وہ شخص جو دولت جمع کرنے کے علاوہ اپنا کوئی مقصد نہیں رکھتا اپنی زندگی میں دولت کے انبار تلے دبا دیا جاتا ہے۔ اس کو ہر وقت دولت محفوظ کرنے اور دولت بڑھانے کی فکر رہتی ہے اور یہ ایک ایسا ہمہ وقتی کام ہے جس کے بعد اسے کسی اور کام کے لیے فرصت نہیں ملتی وہ آدمی جو بہت زیادہ دولت رکھتا ہے، خواہ مخواہ یہ سمجھتا ہے کہ اسے وہ تمام ذرائع میسر ہیں جن سے وہ اپنی تمام خواہشات پوری کر سکتا ہے۔ میرے نزدیک یہ صحیح ہے کہ جسم کی خواہشات مثلاً روٹی اور جنس، دولت سے حاصل کی جاسکتی ہیں لیکن انسان میں ایک خواہش اور بھی موجود ہے جو سکون کے لیے تڑپتی رہتی ہے۔ اس کو روحانی آرزو کہا جاتا ہے اور اس آرزو کی تکمیل صحیح طور پر کبھی بھی نہیں ہوسکتی، خواہ کسی کے پاس کتنی ہی دولت کیوں نہ ہو۔ وہ آدمی جو ان معنوں میں دولت مند ہے جس کا میں نے ابھی ذکر کیا وہ دنیا کے ساتھ جس میں وہ رہتا ہے، جھوٹا رشتہ قائم رکھتا ہے وہ یہ سمجھ ہی نہیں سکتا کہ مسرت اور حسن کی کیا قیمت ہے اور الہامی بصیرت و قوت کا مقام کتنا بلند ہے۔ وہ اسے صرف یہی سمجھتا ہے کہ یہ چیز اس کے یوں کام آسکتی ہے کہ وہ دوسرے انسانوں کی محنت اور دوسرے انسانوں کی صلاحیت کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرے اور یوں اپنی ذاتی بڑائی اور تعیشات کا سامان بہم کرے، اس جھوٹے رشتے میں اس کی شخصیت کی کوئی حقیقی نشوونما ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت عیسیٰؑ نے فرمایا: ’’ایک اونٹ کے لیے سوئی کے ناکے میں سے گزرنا آسان ہے، لیکن ایک آدمی کے لیے خدا کی بادشاہت میں داخل ہونا بہت مشکل ہے‘‘۔
وسائل… بوجھ نہ بننے پائیں!
مجھے امید ہے کہ جو کچھ میں کہہ رہا ہوں اس کا مطلب یہ نہیں لیا جائے گاکہ میں مذہب افلاس کی تبلیغ کر رہا ہوں۔ اگر یہ انتخاب کرنا ہو کہ افلاس اچھا ہے یا بے انتہا امارت، تو میں یقیناً افلاس کو ترجیح دوں گا، لیکن زندگی میں ہمیں صرف یہی ایک انتخاب نہیں کرنا پڑتا۔ ہمیں زندہ رہنے کے لیے مناسب وسائل چاہئیں، لیکن یہ وسائل اتنے زیادہ نہ ہوں کہ بوجھ بن جائیں۔ وہ شخص جو اس دنیامیں اپنا کوئی سنگ میل چھوڑنا چاہتا ہے اس کو چاہیے کہ وہ اپنی زندگی کو اپنی املاک کے بوجھ سے ڈھانپنے نہ دے۔ تاریخ پراثرانداز ہونے کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہماری نظریں آسمان کی رفعتوں کو چھو رہی ہوں اور ہم اس بات کی مسلسل کوشش کرتے رہیں کہ انسان نے اب تک جتنی اچھائیاں اور پاکیزگیاں حاصل کی ہیں ہم ان سے زیادہ حاصل کرنے کی کوشش کریں جس دور سے ہم گزر رہے ہیں۔ مادی لذتوں کا حصول فیشن قرار پاگیا ہے اور زندگی کے معیار کو بلند کرنے کی بجائے رہن سہن کے معیار کو بلند کرنے کا بہت چرچا ہے، یہی وجہ ہے کہ ہم حقیقی عظیم دماغوں کی کمی محسوس کررہے ہیں بہرحال آدمی زندگی سے وہی کچھ حاصل کرتا ہے جس کی اسے تمنا ہوتی ہے۔ اگر سؤروں سے پوچھا جائے کہ کیا چیز انہیں لذت اور تسکین دیتی ہے تو وہ ایسا جواب دیں گے جو ان کے نقطۂ نظر سے بالکل ٹھیک ہوگا، لیکن انسان کے لیے اس میں کوئی معقولیت نہیں ہوگی، کیونکہ انسان میں تو الوہیت کا عنصر موجود ہے اسی لیے کہا جاتا ہے کہ غیر مطمئن سقراط، مطمئن سؤر سے یقیناً بہتر ہے۔ تمام حساس دماغوں میں ایک ایسا الوہی اضطراب ہوتا ہے جو عظیم تمناؤں کو جنم دیتا ہے اور ان کی تکمیل کی صورت پیدا کرتا ہے، جب انسانیت زندگی کا یہ عظیم سبق پڑھ لے گی اس وقت ہم ایسے حالات پیدا کرنے کے قابل ہو سکیں گے جن میں عظیم ادیب اور فنکار جنم لیا کرتے ہیں۔
معاشرے کو اپنے حقیقی بہی خواہوں کا احترام کرنے دو کہ ایسے لوگ ہر دور اور ہر اقلیم میں ہوتے ہیں جوشہرت کی روشنی سے دور گمنامی کے اندھیروں میں گم رہتے ہیں لیکن یہی وہ صاحب نظر لوگ ہیں جو ہمیں باوقار زندگی بسر کرنے کا سبق دیتے ہیں، یہ دوسروں کا کام ہے کہ وہ انہیں پہچانیں۔ جب کوئی قوم انسانی تاریخ کے حقیقی عظما کا احترام کرنا شروع کردیتی ہے تو وہ انتشار اور بدامنی کی بلاؤں سے محفوظ ہو جاتی ہے اور اس صورت میں یہ وہ روشنی دیکھتی ہے جوزندگی کی تاریک راہ گزروں میں مددگار ثابت ہوتی ہے ادیب اگر عظیم بننا چاہتا ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ فی الحقیقت انسان ہو، کیونکہ عظمت و رفعت ایک عظیم روح کی آوازِ بازگشت ہے۔
(بحوالہ: ماہنامہ ’’سیارّہ‘‘ لاہور۔ جون ۱۹۶۵ء)
Leave a Reply