
آج کل ایک بہت دلچسپ کتاب زیرمطالعہ ہے، جو زمین پر زندگی کے بارے میں سوچنے کے کچھ نئے رخ سامنے لارہی ہے۔ اسرائیلی ماہرِ تاریخ و سماجیات یووال نوح ہراری کی کتاب ’Homo Deus (انسانی خدا۔۔ مستقبل کی ایک مختصر تاریخ) اپنی پہلی اشاعت کے بعد سے اب تک لاکھوں کی تعداد میں فروخت ہوئی ہے اور اس کی وجہ اس کتاب میں پیش کیے گئے انسانوں کے ماضی اور مستقبل کے بارے میں غیر روایتی اور غیرمعمولی تصورات ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ان خیالات کو پڑھتے ہوئے لگتا ہے کہ یہ تو بالکل سامنے کی بات تھی، اس طرف ہمارا دھیان کیوں نہیں گیا۔ یاد رہے کہ اس سے پہلے ۲۰۱۱ء میں وہ ایک کتاب بعنوان ’سیپینز۔۔۔ انسانوں کی مختصر تاریخ‘ لکھ چکے ہیں، جسے اس دوسری کتاب کا مقدمہ کہا جاسکتا ہے۔ مستقبل کی ممکنہ تاریخ کے موضوع پر پیشگوئی کرتی ہوئی دوسری کتاب کا آغاز اس سوال سے ہوتا ہے کہ اصل میں انسان کا مستقبل کا ایجنڈا ہے کیا؟
مصنف کا کہنا ہے کہ صدیوں سے تین بڑے مسائل انسان کے ایجنڈے میں سرفہرست رہے ہیں اور ان تینوں مسائل کا تعلق اس کی بقا سے ہے، یعنی قحط ، وبا اور جنگ۔ دوسرے لفظوں میں بھوک، بیماری اور آپس کا جنگ و جدل۔ یہ وہ تین آفات ہیں جو ہمیشہ سے لاکھوں کی تعداد میں انسانوں کا خاتمہ کرتی آئی ہیں۔ یہ وہ آفات ہیں جنہوں نے پورے پورے خطوں سے انسانی زندگی کا صفایا کیا ہے، انسانوں کی پوری نسلوں کو ملیا میٹ کیا ہے اور یہ مسائل ہمیشہ انسانیت کا سب سے بڑا چیلنج رہے ہیں۔ لیکن تیسرے ہزاریے کے آغاز تک انسان ان تینوں آفات پر قابو پانے میں کامیاب ہوچکا ہے اور اب وہ بقائے دوام کے ایجنڈے پر گامزن ہوچکا ہے۔ مثال کے طور پر تاریخ میں پہلی دفعہ ہوا ہے کہ اب لوگ بھوک سے زیادہ نہیں مرتے بلکہ زیادہ کھانے سے مر جاتے ہیں۔ زیادہ تر لوگ بیماریوں سے نہیں بلکہ بڑھاپے سے مرتے ہیں۔ اب لوگ جنگوں، دہشت گردوں اور مجرموں کے ہاتھوں مجموعی طور پر اتنے نہیں مرتے جتنے لوگ خود کشیاں کر کے مر جاتے ہیں۔ اکیسویں صدی کے آغاز میں ایک عام انسان کو قحط ، وبا یا القاعدہ کے حملے میں مرنے سے زیادہ خطرہ یہ ہے کہ کہیں وہ میکڈونلڈ کے ریستوران میں بسیار خوری سے نہ مر جائے۔ اگرچہ اب بھی عالمی راہنماؤں اور ماہرین معیشت و سیاست کے ایجنڈوں کا غالب حصہ اقتصادی بحرانوں اور دنیا میں جاری جنگی تنازعات سے نمٹنا ہے لیکن تاریخ کے کائناتی پیمانے پر دیکھا جائے تو اب انسان اپنی نظریں اٹھا کر نئے افق تلاش کر سکتا ہے۔ مصنف کا خیال ہے کہ اب جب کہ ہم نے قحط ، وبا اور جنگ پر بڑی حد تک قابو پالیا ہے تو ہماری اگلی منزل کیا ہوگی؟ اکیسویں صدی میں ہمارے سامنے سب سے بڑا سوال کیا ہے؟ ایک ایسی دنیا میں جہاں صحت ، خوشحالی اور امن کی منزل حاصل کی جا چکی ہے۔(یا جب ہم اس منزل کے بہت قریب پہنچ چکے ہیں ، جس کی تفصیل کسی آئندہ مضمون میں پیش کی جائے گی) تو کیا چیز ہے جو ہماری توجہ اور ذہانتوں کا امتحان لے گی؟ بایو ٹیکنالوجی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے میدانوں میں ہونے والی پیش رفت کے تناظر میں یہ سوال اور بھی اہم اور فوری جواب طلب ہے کہ ہم نے جو طاقت حاصل کر لی ہے اس کا ہم کریں گے کیا؟
سچی بات یہ ہے کہ اس وقت دنیا میں جو افراتفری ، مسابقت ، جنگی تنازعات ، غربت اور بھوک ہمیں نظر آتی ہے اس کو دیکھتے ہوئے یہ دعویٰ کہ ہم نے قحط ، بیماری اور جنگ پر بڑی حد تک قابو پا لیا ہے ایک بہت بڑی جسارت معلوم ہوتا ہے۔ کچھ لوگوں کے نزدیک یہ دعویٰ بے وقوفی کی حد تک سادگی اور دنیا کو درپیش ان بڑے بڑے مسائل سے آنکھیں چرانے کے مترادف محسوس ہوگا۔ مطلب کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ ابھی بھی دنیا میں اربوں لوگ روزانہ دو ڈالر سے کم پر یا اس سے بھی نیچے کی غربت کی سطح پر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ کیا اس سے انکار کیا جاسکتا ہے کہ افریقا میں ایڈز کی وبا نے انسانوں کی زندگیوں کو بے انتہا تکلیف اور معدومیت کے خطرے سے دوچار کر رکھا ہے؟ کیا شام اور عراق میں ہونے والی جنگیں قصے کہانی کی بات ہے؟ دہشت گردی وہ آسیب ہے جس سے ہم انفرادی طور پر اپنے گھر، دفتر، اسکول، مسجد ، بازار ہر جگہ خوف زدہ ہیں اور قومی اور عالمی سطح پر جس کے سدباب کی کوئی تدبیر عالمی طاقتوں اور انسانی مشاہیر کو نہیں سوجھ رہی اور دنیا کی ہر حکومت اس کے مقابلے کے لیے حکمت عملیاں اور موزوں پالیسیاں بنانے میں مصروف ہے، اور پھر بھی ناکام ہے۔ کیا یہ ایک ایسی دیومالائی کہانی ہے، جو ہم اپنی دادی اماں سے سنتے سنتے سو گئے ہیں اور پریوں کے ایک ایسے دیس میں پہنچ گئے ہیں جہاں راوی چین ہی چین لکھتا ہے اور حسن و لطافت کی دیویاں ہمیں پنکھا جھل رہی ہیں؟ کیا اس بات میں کوئی منطق ہے کہ ہم روزانہ کی بنیاد پر ہونے والی انسانوں کی تذلیل ، اور ان کی جان ، مال، عزت و آبرو کو درپیش خطروں سے آنکھیں چراتے ہوئے قحط ، بیماری اور جنگ پر قابو پالینے کا دعویٰ کریں اور اپنی ان بے مثال انسانی کامیابیوں پر جشن منائیں؟
مصنف کا خیال ہے کہ ان سوالوں کا جواب موجود ہے لیکن اس کے لیے ہمیں اوائل اکیسویں صدی کی دنیا پر ایک گہری نظر ڈالنی ہوگی اور پھر ہم آنے والی دہائیوں میں انسانوں کے ممکنہ مستقبل کا جائزہ لے سکیں گے۔
کیا ہم نے قحط پر قابو پا لیا ہے؟
صرف چند صدیاں قبل دنیا میں قحط ایک بہت بڑی آفت تھی۔ ۱۶۹۴ء میں فرانس کے شہر بیواس میں ایک فرانسیسی افسر نے اس وقت فرانس میں جاری قحط کے اثرات اور خوراک کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے بارے میں لکھا کہ اس پورے ضلع میں لاتعداد لوگ اتنے غریب ہیں جنہیں مسلسل بھوک نے لاغر اور ضرورتوں نے مرنے کے قریب پہنچا دیا ہے۔ ان کے پاس نہ کوئی کام ہے نہ وہ کوئی خوراک خریدنے کی سکت رکھتے ہیں۔ اپنی زندگی کو برقرار رکھنے کے لیے اور شدید بھوک مٹانے کے لیے وہ بلیوں اور کوڑے کے ڈھیروں سے اٹھا کر مرے ہوئے گھوڑوں کا گندا گوشت کھا رہے ہیں۔ یا وہ پودوں کی سوکھی جڑیں ابال کرجسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔صرف ایک شہر میں نہیں پورے فرانس میں یہی صورت حال تھی۔ ۱۶۹۲ء سے ۱۶۹۴ء کے درمیان تقریبا اٹھائیس لاکھ فرانسیسی (پوری آبادی کا ۱۵؍فیصد) بھوک سے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرگئے۔ اگلے سال ۱۶۹۵ء میں ایسٹونیا میں قحط پڑ گیا اور آبادی کا پانچواں حصہ (۲۵ فیصد) ہلاک ہوگیا۔ اس سے اگلے سال ۱۶۹۶ء میں فن لینڈ کی باری آگئی جہاں ایک چوتھائی سے ایک تہائی لوگ قحط سے مر گئے۔ ۱۶۹۵ء سے ۱۶۹۸ء کے درمیاں سکاٹ لینڈ میں بدترین قحط سے کچھ اضلاع میں ۲۰ فیصد کے قریب لوگ ہلاک ہوئے۔
ہم میں سے بہت سے لوگ جانتے ہیں کہ ایک وقت کا کھانا چھوٹ جائے تو کیا محسوس ہوتا ہے، یا رمضان میں ایک دن کے روزے کے بعد شام تک کیا حالت ہوجاتی ہے۔ یا چند دن صرف سبزی کے سوپ پر گزارا کرنا پڑے تو طبیعت پر کیا اثرات پڑتے ہیں۔ لیکن اس بات کا اندازہ کرنا مشکل ہے کہ اگر کئی روز تک مسلسل کچھ کھانے کو نہ ملے اور یہ بھی پتا نہ ہو کہ کھانے کا اگلا نوالہ کب تک دستیاب ہو سکے گا تو کیا حالت ہوتی ہے اور کس طرح جان لبوں پر آتی ہے۔ ہم سے پہلے گزرنے والی نسلوں کو اس کا اچھی طرح اندازہ تھا۔
گذشتہ سو سالوں میں ٹیکنالوجی نے اتنی ترقی کر لی ہے اور اتنی معاشی اور سیاسی پیش رفت ہو چکی ہے کہ دنیا میں اس طرح کی قحط کی صورت حال پر کافی حد تک قابو پایا جا چکا ہے۔ ابھی بھی دنیا کے بعض خطوں میں وقتاً فوقتاً بھوک اور قحط جو تباہی لاتی ہے وہ استثنائی ہے اور اس کی وجہ کسی قدرتی آفت سے زیادہ انسانی سیاست ہے۔ اب جو قحط موجود ہیں وہ قدرتی نہیں بلکہ سیاسی ہیں۔ اگر شام، سوڈان اور صومالیہ میں لوگ بھوک سے مر رہے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ کچھ سیاستدان ایسا چاہتے ہیں۔
فرانس میں آج بھی غربت اور بھوک ہے۔ لاکھوں لوگ غذا کی کمی کا شکار ہیں، جنہیں دو وقت کا مکمل کھانا ملنے کا یقین نہیں ہوتا۔ لیکن اب اکیسویں صدی کے فرانس میں اور ۱۶۹۴ء کے فرانس میں بہت فرق ہے۔ اب لوگ اس وجہ سے نہیں مرتے کہ انہیں ہفتوں تک کچھ کھانے کو نہ ملا ہو۔ اور بھی کئی ممالک کی مثالیں موجود ہیں۔ آج کی عالمی طاقت اور سب سے زیادہ آبادی کے ملک چین کی مثال لے لیں۔ ہزار سالوں تک قحط نے زرد بادشاہتوں سے لے کر سرخ کمیونسٹوں تک چین کی ہرحکومت کا پیچھا کیا ہے۔ کچھ دہائیاں پہلے تک چین کا نام خوراک کی کمی کے مترادف تھا۔ ۱۹۵۸ء میں چیئرمین ماؤ زے تنگ نے چین میں صنعتی ترقی کے لیے ’دی گریٹ لیپ فارورڈ‘ کے نام سے پانچ سالہ منصوبہ بنایا تھا جس نے چینیوں کو پانچ ہزار خاندانوں کی چھوٹی آبادیوں یا کمیونیٹیوں میں تقسیم کر کے صنعتی ترقی کے چھوٹے چھوٹے کاموں میں لگا دیا۔ نتیجے میں زراعت نظر انداز ہوگئی اور چین نے اگرچہ صنعتی پیداوار میں کسی حد تک لیکن غیر معیاری اضافہ کیا تو دوسری طرف فصلیں نہ ہونے کے باعث غذا کی شدید کمی کا شکار ہوگیا۔ کچھ رپورٹس کے مطابق صرف ۱۹۶۰ء کے ایک سال میں دو کروڑ سے زیادہ چینی بھوک، خوراک کی کمی اور اس سے متعلقہ بیماریوں سے مر گئے۔
۱۹۷۴ء میں پہلی ورلڈ فوڈ کانفرنس روم میں منعقد ہوئی تو دنیا کے سامنے خوراک کی کمی کے خوفناک منظر نامے پیش کیے گئے۔ پیشگوئی کی گئی کہ چین کے پاس کوئی راستہ نہیں ہے کہ وہ اپنے ایک ارب لوگوں کو خوراک مہیا کر سکے۔ ایک بڑی تباہی ان کی منتظر تھی۔ لیکن درحقیقت یہی وہ وقت تھا جب چین تاریخ کے سب سے بڑے اقتصادی معجزے کی طرف بڑھ رہا تھا۔ ۱۹۷۴ء کے بعد سے کروڑوں چینیوں کو غربت کے گہرے کنویں سے نکال لیا گیا ہے۔ اگرچہ ابھی بھی یہاں کروڑوں لوگ خوراک کی کمی اور غربت کا شکار ہیں لیکن معلوم تاریخ میں پہلی بار چین کو قحط سے آزاد خطہ قرار دیا جا سکتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ آج بہت سے ملکوں میں بسیار خوری، بھوک اور قحط سے بڑا مسئلہ بن چکی ہے۔ اٹھارویں صدی میں فرانس کی آخری ملکہ نے فاقوں سے مرتے عوام کو سمجھایا تھا کہ اگر انہیں روٹی نہیں ملتی تو وہ کیک کھا لیا کریں۔ آج زیادہ تر غریب لوگوں نے ان کی اس نصیحت کو پلّے باندھ رکھا ہے۔ آج جب بیورلے ہل پر رہنے والے دنیا کے امراء سلاد، چٹنی اور سوپ پر گزارا کرتے ہیں، چھوٹی آبادیوں اور کچی بستیوں میں رہنے والے غریب کیک، برگر اور پیزے اڑاتے پھرتے ہیں۔ ۲۰۱۴ء میں ۸۵۰ ملین لوگ دنیا میں خوراک کی کمی کا شکار تھے جبکہ ان کے مقابلے میں دو ارب سے زیادہ لوگ موٹاپے، یعنی وزن کی زیادتی کا شکار تھے۔ اندازہ ہے کہ ۲۰۳۰ء تک دنیا کی آدھی آبادی موٹاپے کے آزار میں مبتلا ہوجائے گی۔ ۲۰۱۰ء میں قحط اور غذا کی قلت سے لگ بھگ ایک ملین (دس لاکھ) لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، جبکہ اسی سال موٹاپے سے مرنے والوں کی تعداد تین ملین (تیس لاکھ) تھی۔
وباؤں کا عذاب!
قحط کے بعد انسانوں کا دوسرا سب سے بڑا دشمن وبائی امراض تھے ،جو کسی ایک علاقے میں پھیلتے تو انسانوں کی نسلوں کی نسلیں تباہ کردیتے۔ وہ گنجان آباد شہر جہاں تاجروں اور سیاحوں کی بہتات ہو ،وہ اگر ایک طرف انسانی تہذیب و ثقافت کا مرکز بن جاتے تو دوسری طرف جان لیوا وبائی امراض کی آماج گاہ ہوتے۔ کسی وبا کا شکار ہوجانے کا خوف اکثر لوگوں کو رہتا۔ چودھویں صدی کی تیسری دہائی میں بلیک ڈیتھ کے نام سے مشہور ہونے والی وبا سے دنیا بھر میں کروڑوں لوگ ہلاک ہوگئے تھے۔ قریب بیس سال کے عرصے میں یہ وبا ایشیا سے یورپ، شمالی افریقا سے لے کر بحرالکاہل کے ساحلوں تک پہنچ چکی تھی۔ اس وبا سے ۷۵ ملین سے لے کر دو سو ملین (بیس کروڑ) لوگ تک ہلاک ہوگئے۔ انگلستان میں دس میں سے چار لوگ اس کا شکار ہوئے اور وہاں کی آبادی ساڑھے تین ملین سے کم ہو کر سوا دو ملین رہ گئی۔ فلورنس کے ایک لاکھ شہریوں میں سے پچاس ہزار مارے گئے۔ حکام اس کا حل ڈھونڈنے میں مکمل ناکام ہوچکے تھے اور بڑے بڑے دعائیہ اجتماعات میں خدا سے اس عذاب سے نجات کی دعائیں کی جاتیں۔
جدید دور کے آنے تک کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ معمولی مکھی، مچھر اور پانی کے ایک قطرے سے اتنی بڑی اور خوفناک بیماریاں پھیل سکتی ہیں۔ اس سے پہلے تک اسے وہ زیادہ سے زیادہ بُری آب و ہوا کو ذمہ دار ٹھہراتے یا اس کا الزام جنوں، بھوتوں اور دیوتاؤں کی ناراضی کو دیتے، بلکہ ایسی وباؤں سے غیر مرئی مخلوقات پر ان کا ایمان اور پختہ ہوجاتا۔ پھر بلیک ڈیتھ ہی واحد وبا نہیں جو انسانوں پر عذاب بن کر نازل ہوئی۔
مارچ ۱۵۲۰ء میں کیوبا کے ساحل سے ایک اسپینی بحری جہاز میکسیکو پہنچا اور اپنے ساتھ چیچک کے وائرس کے شکار ایک فوجی کو بھی لایا جسے کچھ معلوم نہیں تھا کہ اس کے جسم کے کروڑوں خلیوں میں سے کسی ایک میں ایک ایسا وائرس چھپا ہے جو کسی بڑے سے بڑے ہتھیار سے زیادہ خطرناک ہوسکتا ہے۔ میکسیکو پہنچ کر چیچک نے اس کے پورے جسم کو ڈھانپ لیا۔ اسے جس مقامی خاندان کے گھر میں علاج کے لیے لے جایا گیا ،وہ بھی اس کا شکار ہوگیا اور پھر اس سے ان کے پڑوسی تک پہنچا اور یوں وہ پوری آبادی میں پھیل گیا۔ صرف دس دن میں آس پاس کی پوری آبادی قبرستان میں تبدیل ہو چکی تھی۔ اور پھر گاؤں گاؤں، قریہ قریہ پھیلتی اس بیماری نے پورے میکسیکو اور اس کے باہر تک کے علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ لوگوں میں اس کے ساتھ عجیب و غریب افواہیں اور ضعیف الاعتقادی پھیل گئی کہ بدی کے تین خدا راتوں کو مختلف علاقوں میں پرواز کرکے جاتے ہیں اور وہاں یہ عذاب نازل کردیتے ہیں۔ مختلف فرقوں کے پیروکار ایک دوسرے کے خداؤں کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتے۔ جادو ٹونے، عملیات اور عبادات پر زور دیا جاتا۔ لاشیں گلیوں اور سڑکوں پر بکھری ہوتیں اور کوئی انہیں دفنانے کی ہمت نہ کرتا۔ آخر حکام نے حکم دیا کہ آس پاس کے مکانوں کو ان لاشوں پر گرا دیا جائے۔ کچھ علاقوں میں نصف سے زیادہ آبادی اس کا شکار ہوئی۔ مارچ ۱۵۲۰ء میں جب یہ جہاز میکسیکو پہنچا تھا، میکسیکو کی آبادی ۲۲ ملین تھی۔ دسمبر تک یہ آبادی کم ہو کر صرف ۱۴؍ملین رہ گئی۔ چیچک تو صرف ایک وبا تھی لیکن اس کے بعد پے در پے بخار، خسرہ وغیرہ کئی اور وبائیں یہاں پھوٹیں اور ۱۵۸۰ء تک یہاں کی آبادی صرف دو ملین رہ چکی تھی۔
دو صدیوں بعد برطانوی سیاح کیپٹن جیمز کک جب ۱۸؍جنوری ۱۷۷۸ء کو ہوائی کے جزیرے پر پہنچا تو وہاں کی آبادی ۵ لاکھ کے لگ بھگ تھی۔ وہاں کے لوگ اس وقت تک یورپ اور امریکا سے دور اپنے جزیرے پر الگ تھلگ رہتے تھے اور یورپی اور امریکی بیماریوں سے بھی ناواقف تھے۔ تاہم جب کیپٹن کک اور اس کے آدمی وہاں پہنچے تو اپنے ساتھ بخار، ٹی بی اور سوزاک جیسی بیماریاں بھی لائے۔ پھر مزید یورپی سیاحوں نے یہاں کا رخ کیا اور یہاں کے لوگوں کو ٹائیفائڈ اور چیچک سے متعارف کرا دیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ۱۸۵۳ء تک ہوائی کے جزیرے پر زندہ بچ جانے والوں کی تعداد پانچ لاکھ سے کم ہو کر ستر ہزار رہ گئی۔ بیسویں صدی کی دوسری دہائی میں ایک اور جان لیوا وباء ’اسپینش فلو‘ کے نام سے پھیلی تھی۔ چند ماہ میں دنیا کی تقریباً ایک تہائی آبادی یعنی قریب نصف ارب لوگ اس کے وائرس کا شکار ہوئے (بیمار ہوئے)۔ انڈیا کی پانچ فیصد آبادی (۱۵؍ملین لوگ) ہلاک ہوگئے۔ کسی جزیرے کے پندرہ فیصد، کسی کے بیس فیصد اور کسی کا پانچواں حصہ ختم ہوگیا۔ کل ملا کر ایک سال میں پچاس ملین سے ایک سو ملین تک لوگ اس وبا سے ہلاک ہوئے۔ یاد رہے کہ مقابلتاً ۱۹۱۴ء سے ۱۹۱۸ء تک جاری رہنے والی پہلی جنگ عظیم میں چالیس ملین لوگ مارے گئے تھے۔
ان بڑی اور عالمی سطح پر تباہی پھیلانے والی وباؤں کے علاوہ بے شمار چھوٹی بڑی وبائیں مختلف علاقوں میں پھیلتی رہتیں جن سے لاکھوں لوگ ہر سال ہلاک ہوجاتے۔ گذشتہ صدی میں آبادی میں اضافے اور سفر کی سہولیات کی وجہ سے بھی وباؤں کا ایک سے دوسری جگہ جلدی سے پہنچ جانے کا خطرہ مزید بڑھ گیا۔ تاہم گذشتہ چند دہائیوں سے وباؤں کے اثرات اورپھیلنے کی رفتارمیں ڈرامائی کمی آچکی ہے۔ سب سے بڑھ کر بچوں کی اموات کی شرح اس وقت تاریخ میں سب سے کم ہے۔ اب یہ شرح دنیا میں پانچ فیصد سے بھی کم رہ گئی ہے اور ترقی یافتہ ملکوں میں یہ شرح ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ یہ معجزہ بیسویں صدی میں ہونے والی طبی دریافتوں، ویکسین، اینٹی بایوٹک اور بہترین طبی سہولیات کی فراہمی کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔
مثال کے طور پر ۱۹۷۹ء میں عالمی ادارہ صحت نے چیچک کے خلاف جنگ جیت لینے کا اعلان کیا۔ یہ وہ پہلی خطرناک وبا تھی، جس کا زمین سے خاتمہ ممکن ہوا۔ ۱۹۶۷ء تک بھی پندرہ ملین لوگ اس سے متاثر ہوئے تھے، جن میں سے دو ملین ہلاک ہوگئے تھے۔ لیکن ۲۰۱۴ء میں چیچک کا کوئی ایک بھی مریض سامنے نہیں آیا۔ یہاں تک کہ عالمی ادارے نے لوگوں کو چیچک کی ویکسین لگانا بند کردی۔ ابھی بھی ہر چند سال بعد کوئی نئی وبا پھوٹتی ہے جیسے ۲۰۰۲ء میں سارس، ۲۰۰۵ء میں برڈ فلو، ۲۰۰۹ء میں سوائن فلو، ۲۰۱۴ء میں ایبولا۔ لیکن جدید میڈیکل سائنس نے یہی ممکن بنایا کہ ان وباؤں کو پہلے کی طرح بے قابو ہونے سے روکا جاسکا۔ حتیٰ کہ ایڈز جیسے موذی مرض کے علاج کے سلسلے میں بھی قابل لحاظ پیش رفت ہوچکی ہے۔
کیا جنگوں کا خاتمہ ممکن ہے؟
ایک اچھی خبر یہ ہے کہ دنیا سے جنگوں کا خاتمہ ہو رہا ہے۔ تاریخ کے تمام ادوار میں جنگ ایک لازمی اور امن ایک عارضی حقیقت تھی۔ بین الاقوامی تعلقات میں جنگل کا قانون رائج تھا، جس کے مطابق دو ملکوں کے درمیان حالت امن میں بھی جنگ کا آپشن ہمیشہ موجود رہتا تھا۔ مثلاً ۱۹۱۳ء میں اگرچہ فرانس اور جرمنی میں امن تھا لیکن ۱۹۱۴ء میں سب جانتے تھے کہ ان میں کسی بھی وقت جنگ شروع ہو سکتی ہے۔ سیاستدانوں، جرنیلوں، تاجروں اور عام لوگوں کی طرف سے مستقبل کی کسی بھی منصوبہ بندی کا مطلب جنگ کی منصوبہ بندی تھا۔ پتھر کے زمانے سے انجن اور بھاپ کے زمانے تک، قطب شمالی سے صحارا تک زمین پر ہر شخص ہر وقت اس خدشے کا شکار رہتا تھا کہ نہ جانے کس وقت ان کا پڑوسی ملک ان پر حملہ کردے، ان کی فوج کو شکست دے دے اور ان کے لوگوں کا قتل عام کر کے ان کی زمین پر قبضہ جما لے۔
بیسویں صدی کے دوسرے نصف میں جنگل کا یہ قانون اگرچہ ختم نہیں ہوسکا لیکن کمزور ضرور پڑ گیا۔ اکثر خطوں میں جنگ کا امکان کم ہوگیا۔ قدیم زرعی معاشروں میں پندرہ فیصد لوگ جنگوں اور انسانی کشت و خون سے ہلاک ہوتے تھے، بیسویں صدی میں انسانی تشدد اور جنگ سے مرنے والوں کی تعداد پانچ فیصد رہ گئی اور اکیسویں صدی کے آغاز میں صرف ایک فیصد لوگ جنگ و جدل کا نشانہ بنے۔ ۲۰۱۲ء میں پوری دنیا میں مرنے والے لوگوں کی کل تعداد ۵۶ ملین تھی۔ ان میں سے ۶ لاکھ ۲۰ ہزار افراد انسانی تشدد سے ہلاک ہوئے جبکہ ایک لاکھ ۲۰ ہزار لوگ جنگوں میں مارے گئے اور ۵ لاکھ لوگ جرائم کا شکار ہوئے۔ اس کے مقابلے میں خودکشی کرنے والوں کی تعداد ۸ لاکھ تھی اور ۱۵؍لاکھ لوگ ذیابیطس (شوگر) کی بیماری کے ہاتھوں جان سے گئے۔ اس وقت شوگر بارودی ہتھیاروں سے زیادہ خطرناک ہوچکی ہے۔
بہت سے لوگ اس لیے بھی جنگ کو ناقابل تصور سمجھنے لگے ہیں کہ نیوکلیئر ہتھیاروں کے بعد یہ ایک اجتماعی خودکشی کے مترادف ہو سکتا ہے۔ اسی خوف نے طاقتور قوموں کو تنازعات کے حل کے متبادل اور پرامن راستوں کی طرف مائل کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ عالمی معیشت مادی اشیا سے زیادہ علم کی بنیاد پر استوار ہورہی ہے۔ اس سے قبل دولت کمانے کے ذرائع مادی اثاثوں ،مثلا سونے کی کانوں، گندم کے کھیتوں اور تیل کے کنوؤں پر مبنی ہوتے تھے۔ آج دولت کے حصول کا بنیادی ذریعہ علم بن چکا ہے۔ آپ تیل کے کنویں پر جنگ کے ذریعے قبضہ کر سکتے ہیں لیکن آپ اس طریقے سے علم حاصل نہیں کرسکتے۔ دولت اور وسائل کے حصول کے لیے علم بنیادی ذریعہ قرار پانے سے یہ فائدہ ہوا ہے کہ جنگ کی منافع خیزی میں کمی آئی ہے۔ اب جنگیں انہی خطوں تک محدود ہورہی ہیں مثلاً مشرق وسطیٰ اور وسطی ایشیا وغیرہ جہاں معیشت ابھی تک مادی وسائل کے پرانے ذریعوں پر انحصار کر رہی ہے۔ ایک مثال دیکھیے۔ موبائل فون اور لیپ ٹاپ وغیرہ کی مینوفیکچرنگ کے لیے کولٹن نامی سیاہی مائل دھات کی ضرورت ہوتی ہے۔ دنیا میں کولٹن کے ۸۰ فیصد ذخائر کانگو میں ہیں۔ کانگو کے پڑوسی ملک روانڈا نے ۱۹۹۸ء میں کولٹن دھات لوٹنے کے لیے کانگو پر حملہ کردیا۔ روانڈا نے اس لوٹی گئی کولٹن سے ۲۴۰ ملین ڈالر سالانہ کمائے۔ روانڈا جیسے غریب ملک کے لیے یہ ایک بڑی رقم تھی۔ دوسری طرف چین کو اس کا کوئی فائدہ نہیں تھا کہ وہ کیلیفورنیا کی سلیکان ویلی پر جنگ کے ذریعے قبضہ کرلیتا، جو دنیا میں موبائل اور لیپ ٹاپ ٹیکنالوجی کا گڑھ ہے۔ اگر بالفرض وہ ایسا کربھی لیتا تو وہاں لوٹنے کے لیے کوئی مائنز نہیں تھیں۔ اس کے بجائے چین نے ایپل اور مائکروسافٹ جیسی وہاں کی بڑی بڑی کمپنیوں کے ساتھ تعاون کر کے، ان کا سافٹ ویئر خرید کر اور مینوفیکچرنگ کے ٹھیکوں سے اربوں ڈالر کما لیے۔ روانڈا نے کانگو کی کولٹن لوٹ کر جتنی رقم ایک سال میں بنائی، چین نے اتنی رقم تعاون پر مبنی پرامن معیشت کے ذریعے ایک دن میں کمالی۔
مطلب یہ کہ لفظ ‘‘امن’’ کا ایک نیا مفہوم سامنے آیا ہے۔ پہلے زمانے میں امن کا مطلب تھا، عارضی طور پر جنگ کا نہ ہونا۔ آج ہم اسے جنگ کے خدشے کو معدوم کرنے کے مترادف کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ ۱۹۱۳ء میں جب لوگ کہتے تھے کہ فرانس اور جرمنی میں امن ہے تو اس کا مطلب ہوتا تھا کہ ان دونوں ملکوں کے درمیان عارضی طور پر جنگ رکی ہوئی ہے۔ کسی کو کچھ خبر نہیں تھی کہ اگلے سال کیا ہونے والا ہے۔ جب آج ہم کہتے ہیں کہ فرانس اور جرمنی میں امن قائم ہے تو ہمارا مطلب یہ ہوتا ہے کہ مستقبل میں آنے والے ممکنہ حالات میں ان دونوں کے درمیان جنگ کا کوئی امکان نہیں ہے۔ یہ نیا حاصل ہونے والا امن محض کسی تخیل کی پیداوار نہیں ہے۔ طاقت کی بھوکی حکومتیں اور لالچی کارپوریشنز بھی اب امن پر بھروسہ کرتی ہیں۔ جب مہنگی کاروں کی کمپنی مرسڈیز مشرقی یورپ میں اپنی کاروں کی فروخت کی حکمت عملی بناتی ہے تو وہ اس امکان کو مسترد کردیتی ہے کہ اب کبھی جرمنی پولینڈ پر حملہ کرسکتا ہے۔ جو کمپنی فلپائن سے کم اجرت لینے والے مزدور بلاتی ہے تو اس کو یہ خدشہ نہیں ہوتا کہ اگلے سال انڈونیشیا فلپائن پر چڑھ دوڑے گا۔ اب بجٹ اجلاس میں برازیل کا وزیر دفاع میز پر مکہ مار کر یہ مطالبہ نہیں کرسکتا کہ یوراگوئے کو فتح کرنے کے لیے انہیں پانچ ارب ڈالر دیے جائیں۔ یقینا ًاب بھی دنیا میں ایسے ممالک ہیں، جہاں کے وزیر دفاع اور فوج کے جرنیل ایسے مطالبے کرتے ہیں، اور جہاں ابھی نیا امن حاصل نہیں ہوسکا، لیکن یہ اب استثنائی مثالیں ہیں۔
(بحوالہ: ’’تجزیات ڈاٹ کام‘‘۔ ۳ جولائی ۲۰۱۸ء)
Leave a Reply