ہانگ کانگ: کمیونسٹ پارٹی اور عوام، مدمقابل

کمیونسٹ پارٹی کو سانحہ تیان آن من کے بعد سخت چیلنج درپیش ہے۔اس بار چین کی حکمراں جماعت کو ہوش مندی سے فیصلے کرنا ہوں گے۔

تاریخ عالم پر نظر ڈالی جائے تو دس خونی واقعات میں دو عالمی جنگیں ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر آٹھ میں سے پانچ واقعات چین میں رونما ہوئے۔ایک ہی ملک میں اس قدر خوں ریزی اور اتنے بڑے پیمانے پر قتل عام،کسی اورقوم کے لیے اس کا ادراک بھی ممکن نہیں۔ اُنیسویں صدی کے وسط میں تائی پنگ بغاوت میں مبینہ طور پر دوکروڑ سے زیادہ افراد کی جان گئی،ایک دہائی بعد چین کے قدیم باشندوں اور مسلمانوں کے خونی تنازع نے مزید اَسّی لاکھ سے ایک کروڑ بیس لاکھ افراد کی جان لی۔ بیسویں صدی میں ماوزے تنگ کی جدوجہد کے دوران دو سے تین کروڑ افراد مبینہ طور پر قتل کیے گئے یا سفاکانہ نظام حکومت اور بدنظمی کے باعث قحط سالی کی بھینٹ چڑھ گئے۔

اس میں توکوئی شک و شبہ نہیں کہ چین کی کمیونسٹ پارٹی کے قائدین اقتدار اپنے پاس ہی رکھنا چاہتے ہیں۔ چین کی بے رحم تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات واضح طور پر سمجھ آتی ہے کہ کمیونسٹ پارٹی ہانگ کانگ میں دھرنا دینے والوں کو موقع دینے کے لیے کیوں تیار نہیں۔مظاہرین چاہتے ہیں کہ ہانگ کانگ کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ وہ اپنی مرضی سے کریں۔ دوسری جانب چین کے صدر شی جن پنگ اور ان کے ساتھی سمجھتے ہیں کہ اقتدار پر کمیونسٹ پارٹی کا کنٹرول ہی چین کے استحکام کی ضمانت ہے۔انہیں خدشہ ہے کہ اقتدار کی باگ ڈور پارٹی کے ہاتھ سے نکلی تو چین تباہی اور بربادی کی جانب بڑھے گا۔

ایک طرح سے ان کا موقف درست بھی ہے، اس طرز حکومت سے ملک کو کچھ وقت کے لیے تو مستحکم رکھا جاسکتا ہے، لیکن چین کی تاریخ کو مدنظر رکھا جائے تو اس کے دور رس نتائج اچھے نہیں۔ کسی بھی مستحکم ملک کے واحد ضامن اس کے عوام ہوتے ہیں جو اپنی حکومت سے مطمئن ہوتے ہیں۔ چین کا معاملہ یہ ہے کہ حکمراں جماعت کمیونسٹ پارٹی پر عوام کا عدم اطمینان بڑھ رہا ہے۔

براشگون

ہانگ کانگ کی احتجاجی تحریک،جسے چھتریوں والے انقلاب کا نام دیا جارہا ہے،اس وقت شروع ہوئی جب اگست کے آخر میں چین نے فیصلہ کیا کہ ہانگ کانگ کے لیے چیف ایگزیکٹو کا انتخاب کمیونسٹ پارٹی کے حامیوں پرمشتمل ایک کمیٹی کرے گی۔مظاہرین کا موقف ہے کہ ہانگ کانگ میں حقیقی جمہوریت کا وعدہ پورا کیا جائے، جو حکمراں کمیونسٹ جماعت نے ۱۹۹۷ء میں برطانیہ سے ہانگ کانگ کے حصول کے وقت کیا تھا۔احتجاج کے دوران زیادہ تر مظاہرین منظم ہی رہے۔پولیس سے را ت بھر جھڑپوں کے بعد صبح ہوتے ہی طلبہ سڑکوں پر بکھری پلاسٹک کی بوتلیں جمع کرتے۔ کچھ مظاہرین کے لیے جمہوریت ہی اصل بنیاد ہے۔دیگر لوگ خاص طور پر چین کا متوسط طبقہ رہائش، تعلیم اور روزگار کے لیے فکر مند ہے۔وہ طرز حکمرانی سے نالاں ہیں اور اپنی نمائندگی چاہتے ہیں۔اسباب جو بھی ہوں، یہ احتجاجی تحریک کمیونسٹ پارٹی کے لیے بڑا خطرہ بنی ہوئی ہے۔مظاہرین قاہرہ سے کیف تک اٹھنے والی تبدیلی کی لہر اور اس کے نتیجے میں آمریت کے اختتام سے ہی باخبر نہیں،وہ پچیس برس پہلے تیان آن من اسکوائر میں مظاہرہ کرنے والے طلبہ سے بھی واقف ہیں۔ان مظاہرین پرگولیاں چلانے کے فیصلے سے امن تو بحال ہوگیا لیکن بے اعتمادی کی ایسی فضا قائم ہوئی، جو آج بھی چین کے دوسرے ملکوں اور اپنے شہریوں سے تعلقات میں حائل ہے۔

ہانگ کانگ میں، حکمراں جماعت اشتراکی اور نوآبادیاتی دور کے ہتھکنڈے استعمال کررہی ہے۔کمیونسٹ پارٹی کے ترجمان نے الزام لگایا کہ مظاہرین سیاسی انتہاپسند اور چین کے دشمنوں کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔مظاہرین نے جو بویا ہے، وہ انہیں کاٹنا ہی پڑے گا۔الزام تراشی پر مبنی بیان بازی کمیونسٹ پارٹی کا خاصہ ہے۔اسی طرح کے الفاظ پہلے تیان آن من میں احتجاج کرنے والوں کے لیے بھی استعمال کیے گئے۔یہ رویہ ہانگ کانگ یا چین کے کسی دوسرے حصے میں مظاہرین سے مذاکرات کے لیے حکومت کی عدم دلچسپی ظاہر کرتا ہے۔ اس تاثر کو بھی تقویت ملی ہے کہ حکمراں جماعت کے قائدین بین الاقوامی شہرت اور آزادی اظہار کے لیے مشہور ہانگ کانگ کو بھی چین کے دیگر حصوں کی طرح سمجھتے ہیں، جہاں غیرملکی ایجنٹوں سے خفیہ تعلقات کا الزام لگاکر ناقدین کو چپ کرایا جاسکتا ہو۔ چین کے صدر شی جن پنگ نے ہانگ کانگ سے متعلق کمیونسٹ پارٹی کی پالیسی کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔انہیں اس سب کا بہتر طور پر علم ہونا چاہیے۔

کمیونسٹ پارٹی اس موقع پرچھوٹی چھوٹی مشکلات سے نمٹنے کے لیے بھی استعماری قوتوں کے ہتھکنڈے استعمال کررہی ہے۔برطانیہ نے بھی احتجاجی تحریک دبانے کے لیے بزنس ٹائیکون کی مدد حاصل کی۔یہی کام اب کمیونسٹ پارٹی کررہی ہے، صدر شی جن پنگ نے جمہوریت سے متعلق حکومتی موقف کی حمایت حاصل کرنے کے لیے بیجنگ میں ہانگ کانگ کے ستر مالدار کاروباری حضرات سے ملاقات کی۔ہانگ کانگ میں پارٹی کے حمایتیوں کی یہ دلیل ہے کہ ان حالات میں تجارت ومعیشت پر توجہ ملکی استحکام کے لیے بہتر ہے۔دوسری جانب اپنے حقوق کے حصول کے لیے سڑکوں پر موجود لوگوں نے اس ملاقات پر غم و غصے کا اظہار کیا ہے۔

بات چیت کے ذریعے معاملات طے کرنے اور طاقت کا استعمال کرنے کے باوجود حکومت اب تک سڑکیں مظاہرین سے خالی کرانے میں ناکام رہی ہے۔حکومت کو اب انتظار ہے کہ مظاہرین تنگ آکر خود ہی گھروں کو چلے جائیں۔ لیکن صدر شی جن پنگ اگراس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ کمیونسٹ پارٹی کا کنٹرول دوبارہ موثر بناکر ہی چین کااستحکام یقینی بنایا جاسکتا ہے، تو اس کا امکان موجود ہے کہ وہ مظاہرین کے خلاف پھرطاقت استعمال کریں گے۔یہ خون خرابہ ہانگ کانگ کے لیے تباہی کا باعث بنے گا اور اس سے صدرشی جن پنگ کا مسئلہ بھی حل نہیں ہوگا کیوں کہ چین کے دیگر حصوں میں بھی بے چینی بڑھ رہی ہے۔

کمیونسٹ پارٹی کے رہنماؤں کی بھرپور کوشش ہے کہ ملک کے دیگر حصوں تک ہانگ کانگ کے احتجاج کی خبرپہنچنے نہ دی جائے۔اس کے باوجود،مظاہروں کی خبریں ہانگ کانگ کی سڑکوں سے نکل کر چین تک پہنچنے کی راہیں تلاش کریں گی۔اس معاملے سے جس طرح نمٹا جارہا ہے وہ اس بات کا تعین کرے گا کہ حکومت کے اپنے عوام سے تعلقات کیسے ہوں گے۔

کمیونسٹ پارٹی کے لیے مشکلات بڑھ رہی ہیں،ملک کے دیگر حصوں سے سامنے آنے والی علامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ عوام مکمل جمہوریت کی خواہش رکھتے ہیں۔مقامی انتظامیہ کے خلاف آئے روز احتجاج اورسماجی رابطے کی ویب گاہوں پر بڑھتی ناپسندیدگی سے ظاہر ہوتا ہے کہ چین کے عوام نظام حکومت سے مطمئن نہیں۔حکومتی دباؤ، مختلف ترغیبات اور طاقت کے استعمال سے شاید ہانگ کانگ کے مظاہرین کو خاموش کرانے میں کامیابی مل جائے لیکن جلد ہی اس نوعیت کے مظاہرے چین کے دیگر شہروں میں بھی ہوں گے۔

جدا طرزِحکمرانی

صدر شی جن پنگ نے اقتدار سنبھالتے ہی واضح کردیا تھا کہ وہ مغربی انداز کی جمہوریت کو ہرگز برداشت نہیں کریں گے۔عوام کی غالب اکثریت کے مطالبے کو طاقت کے ذریعے مسترد کرکے چین کو عارضی استحکام دیا گیا، حالانکہ بعض اوقات اس کے انتہائی برے نتائج برآمد ہوئے۔چین ایسا طریقہ تلاش کرے، جس کے ذریعے شہریوں کو اختیار دیا جائے کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق نظام حکومت ترتیب دیں اور احتجاج کی راہ اختیار کرکے ملکی سالمیت کے لیے کسی قسم کا خطرہ نہ بنیں۔ہانگ کانگ،جہاں ماضی میں شہریوں کو اظہار رائے کی آزادی تھی،اس طرح کے تجربے کے لیے موزوں مقام ہے۔صدر شی جن پنگ کو اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔وہ ملکی استحکام اور سلامتی کے لیے سابق حکمرانوں اور کمیونسٹ قائدین کے مقابلے میں زیادہ بہتر انداز میں چین کی خدمت کرسکتے ہیں۔

(مترجم: سیف اﷲ خان)

“Hong Kong protests: The Party v the people”. (“The Economist”. Oct. 4, 2014)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*