ہد ہد قدیم دنیا کا معروف پرندہ ہے۔ اس کو انگریزی میں Hoopoe کہا جاتا ہے۔ اس کا سائنسی نام UIpupa epops ہے۔ اس کی اب تک سات انواع کو دریافت کیا گیا ہے۔ اس کے سر پر نیم دائروی تاج جیسی ساخت Crest پائی جاتی ہے جو پروں سے بنی رہتی ہے۔ اس کے تاج میں موجود ہر پر کے آخری کنارے کالے رنگ کے ہوتے ہیں۔ اسی تاج اور پروں کی خاص ترتیب کے باعث اس پرندے کی خوبصورتی میں کافی اضافہ ہوتا ہے۔ جب کبھی یہ پرندہ تنائو میں رہتا ہے یا خطرہ محسوس کرتا ہے تو اس کے تاج کے پر عمودی حالت میں کھڑے ہو جاتے ہیں جس کی وہ سے اس کی خوبصورت بڑھ جاتی ہے۔ اس کے پیر چھوٹے ہوتے ہیں اور بآسانی زمین پر دوڑ یا چل سکتا ہے۔ یہ چلتے ہوئے بار بار اپنی چونچ زمین پر مارتا ہے اور غذا حاصل کرتا ہے‘ بڑے کیڑوں کو چونچ میں لے کر رگیدتا ہے اور اس کا خول علیحدہ کر کے اس کو چونچ میں لے کر اچھالتا ہے جو دیکھنے والے کے لیے عجیب دلچسپ منظر ہوتا ہے۔ اس کی چونچ لمبی اور اگلی جانب ہلکی سی مڑی ہوئی ہوتی ہے۔ اس کی آواز میں موسیقیت ہوتی ہے اور اس کا نام خود اس کی آواز کی دین ہے کہ اس کی آواز کا Rhythm خود اس کا نام بن گیا ہے۔ یہ اکیلا رہتا ہے۔ مخصوص حالات میں اس کے جوڑے بھی دکھائی دیتے ہیں۔ اس کی اڑان اونچی نہیں ہوتی لیکن شکاری پرندوں سے بچنے کے لیے یہ آسمان کی انتہائی اونچائی میں بھی اڑ سکتے ہیں۔ یہ درختوں کے کٹائو یا دیواروں کے سوراخوں میں رہتے ہیں۔ مادہ چھ تا آٹھ انڈے دیتی ہے۔ ۱۶ تا ۱۹ دن بعد بچے باہر آتے ہیں ان کا نر (Male) مادہ اور بچوں کی غذا کا انتظام کرتا ہے۔ بچوں کی پیدائش کے بعد بھی مادہ (Female) ان کو مزید دس دن گرم رکھتی ہے تاکہ بچے ماحول سے ہم آہنگی پیدا کر لیں۔
ہد ہد کا ذکر سورۃ النمل میں موجود ہے۔ اس کو مرغ سلیماں بھی کہا جاتا ہے۔ حضرت سلیمانؑ ایک جلیل القدر پیغمبر تھے۔ جن کو اﷲ نے ملک شام اور فلسطین پر حکومت عطا کی تھی۔ ان کی فوج میں اﷲ نے انسانوں کے علاوہ جنوں اور پرندوں کو بھی شامل کیا تھا۔ ویسے دنیا میں پرندوں کو فوج میں رکھنے کا عام رجحان پایا جاتا ہے تاکہ دشوار گزار علاقوں میں اطلاعات کو ایک مقام سے دوسرے مقام تک بہ آسانی پہنچایا جاسکے۔ مواصلات کی دنیا میں ترقی نے اب ان پرندوں کی اہمیت کو کم کر دیا ہے لیکن بعض ماہرین کے نزدیک محفوظ طریقہ ترسیل آج بھی پرندہ ہی ہے کہ اس کے سگنلز کو عام طور پر مقید نہیں کیا جاتا۔ قرآن میں ارشاد ہے کہ جب حضرت سلیمانؑ نے اپنی فوج کا جائزہ لیا تو ہد ہد کو غائب پایا کیونکہ یہ پرندہ فوج میں ایک اہم منصب پر فائز تھا۔ حضرت عباسؓ نے صحابہ کرام کے استفسار پر بتایا کہ ہد ہد میں زمین کے اندر بہنے والی نہروں کو پہچاننے کی صلاحیت ہوتی ہے اسی لیے جب کبھی لشکر کسی علاقے میں ٹھہر جاتا تو حضرت سلیمانؑ ہد ہد کو پانی کی تلاش کا حکم دیتے۔ جب یہ پرندہ پانی کی نشاندہی کرتا تو لشکر میں موجود جنوں کے ذریعہ زمین کھود کر پانی کو حاصل کیا جاتا۔ شاید لشکر کو پانی کی ضرورت آن پڑی ہو گی اسی لیے حضرت سلیمانؑ نے اس پرندے کو یاد کیا اور غیرموجود پاکر حضرت سلیمانؑ غصہ ہوئے اور فرمایا کہ اگر وہ معقول وجہ نہ بتا سکے تو اس کو سزا دی جائے گی۔ کچھ ہی دیر بعد جب ہد ہد واپس ہوا تو اس نے حضرت سلیمانؑ کو ملکہ سبا کا واقعہ سنایا۔ یہ ملک جنوبی عرب یعنی آج کے یمن کے مقام پر واقع تھا۔ اس کا صدر مقام شہر صنعاء سے ۵۰ کلو میٹر دور ’’معارف‘‘ تھا۔ ہدہد نے اس ملک کی ملکہ کے تخت کا ذکر کیا اور بتایا کہ وہاں لوگ سورج کی پرستش کرتے ہیں۔ حضرت سلیمانؑ نے ہدہد کی سچائی کو جانچنے کے لیے ملکہ سبا کے نام ایک خط بھجوایا۔ یہاں ہر شے کو عقل کی کسوٹی پر پرکھنے والے یہ اعتراض کرتے ہیں کہ ایک پرندہ کس طرح گفتگو کر سکتا ہے اس لیے ممکن ہے کہ ہدہد ایک آدمی کا نام رہا ہو گا۔ دراصل وہ خدا کی قدرت سے واقف نہیں ورنہ جاندار پر کیا موقوف کہ اگر قدرت چاہے تو بے جان بھی اپنے احساسات کا اظہار کرنے لگیں۔ ویسے اس قدر سائنسی ترقی کے باوجود انسان یہ کہنے سے قاصر ہے کہ مختلف جانداروں کی ذہنی صلاحیت کیا ہوتی ہے۔ علاوہ اس کے انسان اس بات کا بھی اب تک مکمل طور پر اندازہ نہیں لگا پایا کہ کیا جاندار بھی وہی دیکھتے اور سنتے ہیں جو ایک انسان سنتا ہے اور ان کا دماغ کس طرح کام کرتا ہے۔ گذشتہ دنوں مختلف سائنسدانوں نے اپنے مسلسل تجربات کے بعد بتایا کہ پرندے باربط گفتگو کرتے ہیں اور ان کی زبان کو برقی لہروں میں تبدیل کر کے انسانی زبان میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ اس مقصد کے لیے آلات کی تیاری کا کام جاری ہے جو برقی لہروں کی توانائی قابلِ فہم زبان کی لہروں میں بدل سکتے۔
(بحوالہ سائنس و ٹیکنالوجی ڈاٹ کام)
Bahut khub mashallah