
مزید عمل اور پیش قدمی کی ضرورت:
بہت کچھ کرنے کے باوجود بھی اس امر کی ضرورت ہے کہ تحریک اسلامی اپنی حکمت عملی میں حسبِ موقع و ضرورت تبدیلیاں لاتی رہے، اپنی جدوجہد میں اضافہ کرے اور اپنی کوششوں میں تیزی لائے تاکہ اس سے وابستہ امیدیں برگ و بار لاسکیں۔
تحریک کو چاہیے کہ وہ اب اعلانات اور دعوئوں سے بڑھ کر، عمل کے مرحلے میں داخل ہو۔۔۔ اور ہم مسلمانوں کو اس آفت سے آزاد کرائے جو ہمارا ظاہری شیوہ بن چکی ہے اور ہماری پیش قدمی کی راہ میں سنگِ گراں بنی ہوئی ہے۔ وہ آفت ہے ہماری سُوئی کا ماضی پر اٹک جانا اور حال سے غفلت اور اس پر بہت کم توجہ دینا… حالانکہ رونے پیٹنے سے مردہ زندہ ہو سکتا ہے اور نہ مٹ جانے والی عظمت ہی واپس لوٹ سکتی ہے۔
ہماری دوسری مصیبت یہ ہے کہ ہم میں درد کی شکایت کرنے والے زیادہ ہیں، لیکن درد کی دوا دینے اور علاج کرنے والے بہت قلیل ہیں۔ اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو اندھیروں کی ملامت کرتے ہیں، مگر کم ہی ہیں جو چراغ جلانے والے ہوں۔
شِکوۂ ظلمتِ شب سے تو کہیں بہتر ہے
اپنے حصہ کی کوئی شمع جلاتے جائیں
بے شک شکایات بہت بڑھ گئیں اور درد و آلام یکے بعد دیگرے آتے جا رہے ہیں حتیٰ کہ کوئی بھی ایسا نہیں جو شکایت نہ کر رہا ہو۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شکایت کس سے کی جائے؟ ہم سب خود شکایت کرنے والے، خود شکایت سننے والے اور خود ہی دوا رکھنے والے بھی ہیں۔ بس دوا بروئے کار لانے پر توجہ کی ضرورت ہے نہ کہ محض سوز خوانی کی۔
ایک روایت میں یوں آتا ہے کہ کسی واعظ نے نہایت بلیغ خطبہ دیا جس کے اثر سے لوگ رو پڑے۔ خطبہ ختم ہونے کے بعد خطیب صاحب اپنی کتاب کی طرف متوجہ ہوئے تو معلوم ہوا کہ کتاب تو چوری ہو گئی۔ خطیب صاحب مجمع کی طرف خاص نظروں سے دیکھنے لگے جو ابھی رو رہا تھا۔ اس امید کے ساتھ کہ شاید ان کے چہروں میں سے کسی کا چہرہ جرم کے آثار ظاہر کر دے۔ لیکن وہ سخت پریشان ہوگیا کہ سب کے سب رو رہے ہیں۔ ایسی حالت میں اس نے ان رونے والوں سے پوچھا: ’’صاحبو! تم تو سب رو رہے ہو۔ آخر کتاب کسی نے تو چرائی ہوگی؟‘‘
تحریک اسلامی کے لیے لازم ہے کہ وہ زمانے کو ملامت کرنے اور شکوہ شکایت کی روش چھوڑ کر عمل اور اصلاحِ احوال کی طرف توجہ مرتکز کرے۔ ایسا عمل جو اسلام کی میزان کے مطابق اورزمانے کے حالات سے ہم آہنگ ہو۔ وہ ایسا معیاری اور بھرپور عمل ہو جو مخالف ادیان کے لیے کام کرنے والوں کے معیار اور کوالٹی سے کم نہ ہو۔ ایسا عمل جو حاضر اور مستقبل دونوں کے لیے مفید ہو۔ ایسا عمل جس سے عمارت تعمیر ہو اور گرنے سے محفوظ رہے۔
ہم اللہ تعالیٰ کے حساب، لوگوں کے محاسبے، تاریخ کے استفسار اور ضمیر کی ملامت سے یہ کہہ کر جان نہیں چھڑا سکتے کہ: ’’ہم تو ان اسلام دشمن قوتوں کے جہنمی منصوبوں کی بھینٹ چڑھ گئے جو باہر سے بنائے جاتے رہے اور جنہیں ان کے ایجنٹ اندر سے نافذ کرتے رہے‘‘!! آخر ہم کب تک دشمن کے منصوبوں کے لیے تجربہ گاہ بنے رہیں گے؟ کب تک اپنے خلاف دوسروں کی سازشوں کا شکوہ کرتے رہیں گے اور اپنے لیے کوئی قابل عمل منصوبہ نہ بنائیں گے؟ ان کے تباہ کن منصوبوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ہم اپنے منصوبے کیوں نہ بنائیں؟ کیونکہ لوہے کو لوہا ہی کاٹتا ہے، منصوبے کا مقابلہ منصوبے سے، عمل کا جواب عمل!!
خواص اور عوام دونوں کو جمع کرنے کی ضرورت:
تحریک اسلامی کے لیے لازم ہے کہ وہ جمہور عوام اور چیدہ افراد کے قلب تک پہنچنے کے لیے عزم صمیم اور سنجیدگی کے ساتھ کام کرے۔ اس دیوار کو ہٹانے کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہے جو ایک طرف تو تحریک اور چیدہ افراد کے درمیان حائل ہے اور دوسری طرف تحریک اور جمہور کی بڑی تعداد کے درمیان رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔
جدید تعلیم یافتہ اور خوشحال افراد کی بڑی تعداد کو بیرونی فکر نے متاثر کر رکھا ہے جس کی تاثیر ان کے خیالات اور سوچ و فکر میں سرایت کر چکی ہے۔ اسی طرح ان کے احساسات اور تعلقات بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے۔ اب اسلام کے بارے میں ان کی سوچ اور فہم ایسی ہی ہے جیسے کسی مغرب کے مسیحی کی سوچ ہو۔ وہ اپنے اسلام سے ان چیزوں کو خارج کر دیتے ہیں جن کو اہل مغرب نے اپنی عیسائیت سے خارج کیا ہے۔ اب وہ اسلام اور علم کے درمیان اور شریعت اور ترقی کے درمیان تصوراتی جنگ کو فرض قرار دیتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ دین کی جگہ فرد کے ضمیر میں ہے یا مسجد کی چھت کے نیچے ہے۔ اس سے بڑھ کر اور اس سے آگے کچھ نہیں۔ وہ اپنے روایتی ورثہ کو عداوت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جبکہ مغرب سے آنے والی ہر شے کو مقدس سمجھتے ہوئے اس سے اپنی دوستی کا اظہار کرتے ہیں۔
تحریک اسلامی کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنے مدارس، اداروں، جماعتوں اور شخصیات کے ذریعے ممتاز اہلِ علم اور طبقۂ اعلا تک رسائی حاصل کرے اور ان میں نفوذ کی خاطر ہمہ گیر جدوجہد کرے۔ انہیں قائل کرنے کے لیے ان کی زبان میں بات کرے، ان کے ذہنوں پر چھائے شکوک و شبہات معلوم کرے اور ان شبہات کو علمی زبان میں دور کرے، نہ کہ الزامات اور اتہامات کی زبان میں۔ انہیں سوالات کرنے کا موقع دے اور ان کا جواب فراہم کرے۔ ایسا علمی مکالمہ شروع کیا جائے جو دونوں فریقوں میں پھیلا ہوا ہو لیکن اس کا انداز حکیمانہ اور لہجہ نرم و گداز ہو۔ پھر ممکن نہیں کہ ان لوگوں میں ایک بڑی تبدیلی پیدا نہ ہو، بلکہ کسی حد تک یہ تبدیلی پیدا ہو بھی چکی ہے… بہت سے ایسے تھے جن پر مغربی فکری یلغار اپنے سائے پھیلا چکی تھی، لیکن ان کی سوچ کے دھارے بدل گئے اور ان کی اکثریت نے اسلامی رنگ اختیار کر لیا۔
جمہور عوام، جن کی بنیاد پر یہ تحریک آگے بڑھ سکتی ہے جس کا مقصد یہ تھا کہ وہ ان کے اندر موجود جہلاء کو تعلیم دے، ان کے مظلوموں کو انصاف مہیا کرے، لیکن تربیت یافتہ اور مکار مخالفین ان کی بڑی تعداد کو تحریک سے ڈرانے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ انہیں تحریک سے متنفر کر رہے ہیں، ایسے جھوٹے الزامات عائد کیے اور جھوٹ پھیلائے جارہے ہیں کہ لوگ تحریک کے قریب آنے سے کتراتے ہیں یا کم ازکم اس کے روشن مستقبل سے مایوس ضرور ہو جاتے ہیں۔
تحریک کے لیے لازم ہے کہ وہ سخت کوشش کے ساتھ، دوری کی اس رکاوٹ کو ہٹانے اور حائل دیوار کو توڑنے کے لیے کام کرے اور جمہور کے قلب تک پہنچنے کی کوشش کرے، کیونکہ اس کا اصل ہدف یہی جمہور عوام ہیں۔ تحریک ان سے ہے، ان کی طرف برپا ہے اور آئندہ بھی ان کے ذریعے برپا ہوگی۔
عوام کو تحریکِ اسلامی کی پشت پر لاکھڑا کرنا ناگزیر ہے۔ ہمارے عوام فطرتی اور تاریخی اعتبار سے ایماندار اور اسلام پسند ہیں۔ وہ تو اسلام اور اسلامی تحریک کی پکار پر لبیک کہنے والے ہیں۔ جس کا ثبوت واقعات و حقائق اور مسلمانوں کی تاریخ میں موجود ہے۔
ہماری تحریک اس وقت کامیاب ہوگی جب یہ تحریک دنیا بھر کے تمام مسلمانوں کی تحریک بن جائے گی، نہ کہ مسلمانوں کے ایک گروہ کی تحریک!!!
اسلامی بیداری کے لیے راہنمائی:
تحریک اسلامی کے لیے یہ امر اشد ضروری ہے کہ وہ فکری اور عملی طور پر احیاء اسلام کی راہنمائی کے لیے جدوجہد تیز تر کر دے تاکہ وہ صحیح خطوط پر آگے بڑھ سکے۔ مختلف قسم کی رکاوٹوں اور لغزشوں سے بچ سکے، غلو اور افراط و تفریط سے دور رہ سکے۔ وہ ان گڑھوں میں بھی نہ گرنے پائے جو ان کے مخالفین کھود رہے ہیں یا وہ خود اپنے لیے غلط اندازوں اور جائزوں کی بدولت کھود رہی ہے۔
مشاہدات اور واقعات نے ثابت کیا ہے کہ کچھ ایسی مخالف بیرونی قوتیں موجود ہیں جو خفیہ طور پر بڑی سنجیدگی اور چالاکی کے ساتھ کام کر رہی ہیں، جو اندھیروں میں اور خفیہ طور پر ایسی تدابیر کر رہی ہیں کہ اسلام کے موجودہ احیاء کو سازشوں کے ایسے جال میں پھنسا دیا جائے کہ اسے باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہ مل پائے۔ اسے ایسے معرکوں میں دھکیل دیاجائے کہ جن کا کوئی انجام نہ ہوسکے۔ اسے فرائض سے ہٹا کر نوافل میں لگا دیا جائے، اصولوں کی بجائے فروعات میں مشغول کر دیا جائے۔ جوہر اور مغز سے ہٹا کر ظاہری شکلوں پر متوجہ کر دیا جائے۔ متفق علیہ امور کی بجائے مختلف فیہ امور کی طرف پھیر دیاجائے۔ اسی طرح وہ اپنی ایجاد کردہ اصطلاح ’’دینی انتہا پسندی‘‘ کو بھی غذا فراہم کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں اور خوب بڑھا چڑھا کر پیش کر رہے ہیں تاکہ اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کرسکیں۔
میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو ہر اس چیز کو (جو ہمارے معاشرے میں نمودار ہوتی ہے) بیرونی اثرات اور شیطانی منصوبوں کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ مثلاً: صہیونی، صلیبی یا اشتراکیت کی طرف۔ ان تصورات کو بعض مقامی طاقتیں ضرور استعمال کرتی ہیں چاہے اِن کو محسوس کیا جائے یا نہ کیا جائے۔ کیونکہ اگر ہم ان تصورات کا یقین کر لیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم دوسروں کے اشاروں پر چلنے والے لوگ ہیں، نہ کہ خود سوچنے والے، جیسا کہ فرقہ جبریہ دینیہ والوں کا خیال ہے۔ یا پھر ہم شطرنج کے وہ مہرے ہیں جنہیں بڑی طاقتیں حرکت میں لاتی اور جگہیں بدلتی رہتی ہیں (ہمارے ارادوں کے بغیر) جیسا کہ فرقہ ’’جبریہ سیاسیہ‘‘ والوں کا خیال ہے۔
اس معاملے کو جسے وہ ’’دینی انتہا پسندی‘‘کا نام دیتے ہیں، کئی اسباب نے ہوا دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان کرداروں کا ذکر میں نے اپنی کتاب ’’الصحوۃ الاسلامیہ‘‘ (اسلام کی نشاۃ ثانیہ) میں تفصیل سے کردیا ہے۔ یہ اسباب و عوامل بھی دراصل باہر سے وارد شدہ نہیں، بلکہ ہمارے اندر ہی پائے جاتے ہیں۔ لیکن مجھے اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کہ یہاں وہ مخالف قوتیں موجود ہیں جو اسلامی طاقت کو برداشت نہیں کر پا رہی ہیں۔ وہ اسلام کے اپنی اجتماعیت کی طرف لوٹنے کی راہ میں سخت مزاحمت کر رہی ہیں۔ ان قوتوں نے ’’انتہا پسندی‘‘ کی اصطلاح کو خوب ڈھٹائی سے استعمال کیا اور پوری کوشش کی ہے کہ اسے زندہ رکھنے کے لیے ایندھن کی فراہمی جاری رہے تاکہ ان کا یہ مذموم حربہ خوب چلے اور اس کی آگ بھڑکتی رہے۔ اس طریقے سے وہ جو فوائد حاصل کرنا چاہتے ہیں ان میں سے بعض کا ذکر ذیل میں کیا جارہا ہے:
۱۔ عامۃ الناس کو اسلام کے مظاہر سے متنفر کرنا، کیونکہ اس طرح جو لوگ اسلام کی بیداری کی طرف دعوت دیتے اور جدوجہد کرتے ہیں وہ خود تشدد اور سختی کو اختیار کرنے والے بن جاتے ہیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے دین میں آسانی اور وسعت رکھ دی ہوئی ہے۔ یہ لوگ اس آسانی کومشکل بنا دیتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو دی ہوئی ہے۔ اس طرح یہ لوگ رسول کریمﷺ کی اپنے صحابہؓ کو دی گئی تعلیم کے بھی خلاف چلے جاتے ہیں، جیسا کہ فرمایا:
انما بعثتم میسرین ولا تبعثوا معسرین
(بخاری، ابودائود، ترمذی)
’’تمہیں آسانی پیدا کرنے کے لیے بھیجا گیا ہے نہ کہ سختی پیدا کرنے کے لیے‘‘۔
اس طرح عوام، جو آسانی کو پسند اور سختی کو ناپسند کرنے والے ہوتے ہیں، نہ صرف اس بیداری کی لہر سے الگ تھلگ ہو جاتے ہیں، بلکہ حریفانہ اور مخالفانہ رویہ اپنا لیتے ہیں۔ اس طرح تحریکِ اسلامی کا عامۃ الناس میں نفوذ بڑھ نہیں پاتا اور یقینا اس میں تو بہت بڑا خسارہ ہے۔
۲۔ ان نوجوانوں کو جواسلامی بیداری کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں، جزوی مسائل اور غیر ضروری معاملات میں الجھا دیا جاتا ہے۔ اُن کی فکری و عملی مساعی کو منتشر کر دیا جاتا ہے۔ دعوتی میدان میں سرگرم عمل توانائیوں کو فروعی مسائل میں ضائع کر دیا جاتا ہے جہاں وہ بحث مباحثوں اور جھگڑوں میں زندگی ضائع کر دیتے ہیں۔ اس طرح انہیں بڑے بڑے عصری مسائل سے بے پروا کر دیا جاتا ہے جن کا تعلق اسلام کی بقاء، امت کی سیادت، ان کے ملکوں کی آزادی اور شریعت کی حاکمیت سے ہوتا ہے۔
۳۔ متحرک اسلامی قوتوں کو اپنے مشترکہ دشمن کے سامنے صف آراء ہونے کے بجائے باہم ایک دوسرے سے ایسا الجھا دینا کہ آپس کے جھگڑوں اور لڑائیوں سے ہی فارغ نہ ہو سکیں، اور ان کا زیادہ وقت ایک دوسرے پرالزام تراشیوں اور بدگمانیوں میں گزر جائے۔ ان کی یہ کیفیت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ وہ ایک دوسرے کے خلاف کفر تک کے فتوے صادر کر رہے ہیں۔ اس طرح وہ ایک دوسرے کو کمزور اور اپنے گھروں کو اپنے ہاتھوں تباہ کر رہے ہیں۔ دوسری طرف دشمن تماشائی بنا انتظار میں کھڑا ہے اور نظریں جمائے دیکھ رہا ہے کہ کب اسے موقع ملے تو وہ باقی رہ جانے والی قوت کا بھی خاتمہ کر دے۔
۴۔ ان حکومتوں کو (جنہیں دعوت اسلامی سے کھٹکا لگا رہتا ہے اور اس سے سخت برہم رہتی ہیں) یہ بہانا فراہم کرنا تاکہ پوری تحریک کو ضرب کاری اور سارے اسلامی کاز کو زَک پہنچا سکیں۔
’’انتہا پسندی‘‘ اور ’’دہشت گردی‘‘ کی چھتری کے نیچے اور دہشت گردی سے دفاع کے بہانے اس تحریک میں شامل ان سب لوگوں کو رگڑا لگا سکیں جو اس میں کھلے طور پر ملوث ہیں یا کسی حد تک ساتھ دیتے ہیں۔
۵۔ اسلام اور اس کے مبلغین سے آخرکار لوگوں کو نتائج کے حوالے سے مایوس کرنا۔ مثلاً یہ کہ اسلام کا پھیلائو بالآخر جزیروں تک جاکر رُک جاتا ہے، اور یہ کہ اسلام کی بیداری بالآخر نیند پر جاکر ختم ہو جاتی ہے، اور یہ کہ کسی اسلامی اسکیم کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ آخری مرحلے پر اس اسکیم کو یا تو باہر سے کوئی دھچکا لگتا ہے یا داخلی طور پر وہ اسکیم خود ہی ختم ہو جاتی ہے۔
میری نصیحت:
تحریک اسلامی کو میری نصیحت یہ ہے کہ وہ موجودہ اسلامی بیداری کواپنے تصرف میں لینے کے بجائے، اس کی مناسب راہنمائی کرے۔
تحریک، بیداری، اور امت مسلمہ سب کی خیر اسی میں ہے کہ ’’احیاء اسلام‘‘ کا موجودہ عمل غیر جانبدار اور آزاد رہے۔ کسی جماعت یا حزب کی طرف اس کی نسبت نہ ہو۔
یہ غیر جانبداری ایک ایسی ضرورت ہے جس کی موجودگی سے معاشرے کے مختلف گروہوں اور فرقوں میں اسلامی کام کو بڑھانے میں مدد ملتی ہے۔ اس انداز کی وجہ سے بہت کم نفسیاتی، معاشرتی اور سیاسی رکاوٹوں کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ کیونکہ دعوت کو عام کرنے میں جو رکاوٹیں حائل ہوتی رہتی ہیں، وہ عموماً معروف نام، خاص دائرے یا مکتب فکر اور معروف تاریخیں ہوتی ہیں، جن کے دشمن تقلیدی ہوتے ہیں اور بہت سارے حریف اور مدمقابل ہوتے ہیں۔
اس ’’بیداری‘‘ کو یوں آزاد رکھنے کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ بیداری کی لہر استبدادی قوتوں کے ردعمل سے محفوظ رہ سکتی ہے۔ کیونکہ مخالف طاقتیں اس بیداری پر آسانی کے ساتھ ہاتھ نہیں ڈال سکیں گی اور نہ اسے ختم کر سکیں گی۔ جب بیداری کی لہریں اور سُوتے ہر طرف چل اور جابجا پھوٹ رہے ہوں گے تو ان پر قابو پالینا یا انہیں بند کردینا کسی کے بس میں نہ ہوگا۔
تحریک احیائے اسلام کے لیے راہنما اصول:
’’الجزائر اسلامی فکر‘‘ کے تحت منعقد ہونے والی ایک کانفرنس میں، جس کا موضوع ’’اسلامی بیداری‘‘ تھا، مجھے شرکت کا موقع ملا۔ وہاں میں نے موجودہ بیداری کے مستقبل پر، امید اور خوف کے بین بین رہتے ہوئے گفتگو کی۔
میں نے جو کچھ اس کانفرنس میں پیش کیا وہ بیداری کی راہنمائی کے لیے تھا۔ اسے لغزشوں، بحرانوں اور کوتاہیوں سے محفوظ رکھنے کے لیے تھا تاکہ اس سے وابستہ امیدیں پوری ہو سکیں اور وہ خطرات سے بچ کر ایک مرحلے سے دوسرے مرحلے تک پہنچ سکے۔
تحریک بیداریٔ امت اور احیائے اسلام کا ہر طرف ایک اثر اور غلغلہ ہے۔ طول و عرض اور معاشروں کی گہرائیوں تک اس کی وسعت ہو چکی ہے، خصوصاً پڑھے لکھے نوجوانوں میں۔
اس انتقالی مرحلے اور تطور کے پروگرام کو میں نے بیس نکات میں محدود کیا ہے، جنہیں اگر قبول کرکے ان پر عمل کیا گیا تو یہ نکات موجودہ تحریکِ بیداری کو امت کی قیادت سنبھالنے کا اہل بنا سکیں گے۔ یہ نکات اس تناقض کو بھی دور کرنے میں مدد دیں گے جو بیداری کے عقیدے اور واقعیت کے درمیان پایا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے اسلام کو معاشرے پر حکومت کرنے اور زندگیوں میں نفوذ کرنے سے محروم و معزول کر رکھا گیا ہے۔
یہاں اس قدر کافی ہوگا کہ میںان بیس نکات کے صرف عنوانات کی طرف اشارہ کروں، جو موجودہ بیداری کے مستقبل کے لیے راہنما اصول فراہم کرتے ہیں۔ جن سے اسلام کو سمجھنے اور اس کی طرف دعوت دینے میں مدد ملتی ہے۔
یہ نکات تحریک بیداریٔ امت کے لیے کام کرنے والوں کے تعلق کا، امت سے الگ تھلگ رہنے والی نسل کا، اس بیداری سے نابلد رہنے والے اور اس سے خائف گروہوں کا، بیداری کے خواہش مندوں کا اور امت سے باہر کے حاسدوں اور بغض رکھنے والوں کا تجزیہ کرتے ہیں۔ نکات کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ اہتمام اور تذکیر کا دائرہ منتقل ہو۔
یہ نکات درج ذیل ہیں، جن میں ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف انتقال اور حرکت کرنے کی تاکید کی گئی ہے:
۱۔ فروعات اور جزئیات سے اصول اور کلیات کی طرف،
۲۔ نوافل سے فرائض کی طرف،
۳۔ مختلف فیہ سے متفَق علیہ کی طرف،
۴۔ اعضائی اعمال (ظاہر) سے قلبی اعمال (باطن و داخل) کی طرف،
۵۔ غلو اور افراط و تفریط کے کناروں سے توازن اور اعتدال کی طرف،
۶۔ نفرت اور تنگی سے آسانی اور بشارت کی طرف،
۷۔ جمود اور تقلید سے اجتہاد اور تجدید کی طرف،
۸۔ باتوں، دعووں اور جدل سے عطا اور عمل کی طرف
۹۔ چھچھورے پن، سطحیت اور غیر سنجیدگی سے علمیت، گہرائی اور منصوبہ سازی کی طرف،
۱۰۔ مخالفین کی رائے کے ساتھ تعصب سے تسافح اور برداشت کی طرف،
۱۱۔ جذباتیت سے تفقہ کی طرف، یعنی واعظین کے اسلوب سے فقہاء کے اسلوب کی طرف، یا منبر کے جوش سے حلقہ کے سکون کی طرف،
۱۲۔ کمیت سے کیفیت کی۔ طرف (عددی اضافے سے معیاری بڑھوتری اور تربیت پر توجہ کی طرف)،
۱۳۔ خوابوں کے بے پایہ ہوائی محلوں سے واقعاتی و زمینی حقائق کی طرف (مثالی و مجوزہ سے ممکن اور موجود کی طرف)،
۱۴۔ معاشرے پر فوقیت حاصل کرنے کے بجائے اس کے لیے زندہ رہنے کی طرف (الزامات لگانے اور اعتراضات جَڑنے والے کے رویے سے طبیب و تیماردار کے سے رویے کی طرف)،
۱۵۔ سابقہ پر اکتفا کر بیٹھنے سے حاضر کی زندگی اور مستقبل کی تیاری کی طرف،
۱۶۔ سیاسی و اجتماعی کاموں میں مستغرق ہو رہنے سے معاشرتی عمل کی طرف،
۱۷۔ باہمی بغض و عداوت اور اختلافات سے مختلف الانواع تعاون کی طرف،
۱۸۔ معاملاتِ زندگی کے ساتھ لاپروائی والے مزاج سے ان میں مہارت حاصل کرنے کو عبادت سمجھنے کی طرف،
۱۹۔ صوبائیت اور علاقیت سے وسیع عا لمیت کی طرف،
۲۰۔ اپنے آپ پر فخر کرنے سے اپنے نفس کے محاسبے کی طرف،
یہ وہ بیس اصول ہیں جو اسلامی بیداری کی راہنمائی کے لیے ورک پیپر اور فریم ورک کی حیثیت رکھتے ہیں اور تحریک اسلامی کے لیے تو من باب اولیٰ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ بِلاشبہ ان نکات میں سے ہر ایک نکتہ تشریح، تحدید اور تفصیل کا محتاج ہے۔ امید ہے کہ اللہ تعالیٰ مستقبل میں ان کا معالجہ کرنے کی توفیق بھی دے گا۔ (۔۔۔جاری ہے!)
☼☼☼
Leave a Reply