تیسری اور آخری قسط
معاشرتی کام (Social Work):
تحریک اسلامی کے لیے انتہائی ناگزیر ہے کہ وہ کام کی ایسی ترجیحات کا انتخاب کرے جن سے دین اور ملت کی خدمت ہو سکے، اس کا سارا وقت اور تمام جدوجہد صرف سیاست میں ہی نہ ضائع ہو جائے۔ عملی میدانوں میں سے ایک معاشرتی یا سماجی کام (Social Work) کا میدان بھی ہے جس سے مسلمانوں نے بہت حد تک لاپروائی برتی ہے۔
مسلمانوں کے مقابلے میںان کے دشمنوں نے اس فیلڈ کو بھرپور طورپر استعمال کیا اور اپنے محرف ادیان کو ہماری امت کے بھوکوں، مریضوں، اَن پڑھوں اور تارکین وطن تک پہنچانے میں کامیاب رہے۔
اسی صورت حال نے ہمیں مجبور کیا ہے کہ ہم بھی ایک ’’عالمی اسلامی امدادی کمیٹی‘‘ قائم کریں جو اپنی تمام قوتوں اور وسائل کے ساتھ بھوکے کو کھانا، ننگے کو لباس، مریض کو دوا ، یتیم کو تحفظ، معذور کو سہارا، اَن پڑھ کو تعلیم، بے روزگار کو کام، اور کارکن کو تربیت مہیا کرے اور اسلامی معاشروں کو داخلی طور پر نشوونما دینے میں فعال کردار بھی ادا کرے۔
ہم نے امام البناء شہیدؒ جیسے ائمہ کو دیکھا ہے کہ وہ تحریک و دعوت کے عمل میں سوشل ورک کو خصوصی اہمیت دیتے تھے اور اس ہدف کو اپنی ترجیحات اور مقاصد میں شامل کرتے تھے۔ وہ تحریک کے ہر شعبے میںاجتماعی خدمت اور عام بھلائی والے کاموں کے لیے ایک برانچ تشکیل دیتے تھے جس کا کام خدمت خلق کی سرگرمیوں کو منظم کرنا اور اس کے لیے موقع بہ موقع آواز دینا ہوتا تھا۔
بعض اسلامی تحریکیں اور احزاب اور اُن سے وابستہ شخصیات تو لوگوں کی بھلائی کے کام کرنا اور ان کی مدد کرنا اپنے اوپر حرام سمجھتی ہیں تا آں کہ اسلامی حکومت وجود میں آجائے۔ ان کی سب سے بڑی کوشش ہے ’’انتظار‘‘۔۔۔ جس طرح لوگ امام مہدی کے انتظار میں رہتے ہیں، جو زمین پھٹنے یا آسمان ٹوٹ پڑنے پر ایک دن یا رات ظاہر ہو جائیں گے۔ ہمارے لوگوں کا مہدیٔ منتظر تو اسلامی ریاست اور اسلامی حکومت ہے۔ پس وہ لائن میں لگے ہوئے منتظر کھڑے ہیں، بغیر کوئی قابلِ ذکر عمل کیے، تا آں کہ وعدے پورے ہو جائیں۔۔۔ حتیٰ کہ ان میں سے بعض غلو پسندوں نے یہاں تک کہہ دیا:
لَا جِہَادَ اِلَّا تَحْتَ رَایَۃِ الدَّوْلَۃِ الاِسْلَامِیہَ فَلَا دَولَۃَ فَلَا جِہَادَ۔
’’جہاد اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک اسلامی ریاست کا جھنڈا سایہ فگن نہ ہو، اور جب تک اسلامی ریاست نہ ہوگی تو کوئی جہاد وغیرہ نہیں ہوسکتا‘‘۔
دوسرے الفاظ میں یوں کہ جہاد امام کے جھنڈے تلے ہوتا ہے اور امام ہی نہیں تو جہاد کیسے؟ نہ امر بالمعروف اور نہ نہی عن المنکر، جب تک مجوزہ اور متصورہ ریاست کاسایہ سر پر نہ ہو!! اب صرف یہ کہنے کی دیر ہے کہ:
لَا صَلَاۃَ وَلَا زَکَاۃَ اِلَّا بعد قیامِ الدَّوْلَۃَ۔
’’نماز ہے نہ زکوٰۃ، جب تک ریاست قائم نہ ہو جائے‘‘۔
کام، کام۔۔۔ لیکن سب کی طرف سے:
ہماری بہت ساری مصیبتوں میں سے ایک مصیبت یہ ہے کہ ہم میں تماشائیوں کی کثرت ہے۔ بس دوسروں کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔ حالانکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم میں سے ہر ایک اپنی استعداد، استطاعت اور طاقت کے مطابق کام کرے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان اور حکم ہے:
فَاتَّقُوا اللّٰہَ مَا اسْتَطَعْتُمْ… (التغابن: ۱۶)
’’جہاں تک تمہارے بس میں ہو، اللہ سے ڈرتے رہو‘‘۔
یہ بات مناسب نہیں کہ ہم صرف حکمرانوں، علماء، اصحاب الاموال یا اصحاب الجاہ سے ہی کام کی امیدیں باندھے رکھیں۔ بلکہ فعلاً ہم اس وقت کامیاب ہوں گے جب تمام جمہور مسلمانوں کو اسلام کے ساتھ اور اسلام کے لیے متحرک کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ جیسا کہ یہودیوں نے کیا۔۔۔ جب پوری دنیا کے یہودیوں کو ارضِ موعود (اسرائیل) کے لیے متحرک کر دیا گیا، اس کے باوجود کہ وہ دنیا کے ہر حصے میں منتشر اور زمین کے مختلف ٹکڑوں میں بکھر چکے تھے۔
پس ہم پر واجب ہے کہ ہم تمام مسلمانوں کو جگائیں، اٹھائیں، ابھاریں اور متحرک کریں، تاکہ ہر ایک اپنی حیثیت اور قدرت کے مطابق آگے بڑھ کر اپنا حصہ ادا کرے۔ مرد کے لیے اپنا کردار، عورت کے لیے اپنا کردار، چھوٹے اور بڑے کے لیے اپنا کردار، غنی اور فقیر کے لیے اپنا کردار ہو۔
بہرحال، کام سب کو کرنا چاہیے اور ہر ایک کو اس کی صلاحیت، قابلیت، استعداد اور استطاعت کی مناسبت سے بروئے کار لایا جائے۔ اگر کسی کو راستے سے صرف کانٹا اٹھانے کی قدرت ہے تو ضرور اٹھائے۔ اور جسے زمین میں ایک دانہ بونے کی طاقت ہے تو وہ ضرور یہ کام کرے۔ جو صرف ایک روپیہ عطیہ دے سکتا ہے وہ ضرور دے، لیکن پیچھے نہ رہے۔ اس معاملے میں تبصرہ و طنز اور طعن و تشنیع کرنے والے منافقین کی بالکل پروا نہ کرے۔ قرآن کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’(وہ خوب جانتا ہے اُن کنجوس دولت مندوں کو) جو برضا و رغبت دینے والے اہلِ ایمان کی مالی قربانیوں پر باتیں چھانٹتے ہیں اوران لوگوں کا مذاق اڑاتے ہیں جن کے پاس (راہِ خدا میں دینے کے لیے) اس کے سِوا کچھ نہیں ہے جو وہ اپنے اوپر مشقت برداشت کر کے دیتے ہیں۔ اللہ ان مذاق اُڑانے والوں کا مذاق اُڑاتا ہے اور ان کے لیے دردناک سزا ہے‘‘۔ (التوبہ: ۷۹)
کون جانتا ہے؟ اخلاص سے اور تنگ دستی میں دیا گیا ایک روپیہ اللہ کی میزان میں ایک ہزار روپے سے، بلکہ ایک لاکھ سے زیادہ وزنی ہو! رسول اللہﷺ کی حدیث ہے:
’’ایک درہم لاکھ درہم پر سبقت لے گیا۔ ایک شخص نے پوچھا: یا رسول اللہﷺ یہ کیسے؟ فرمایا: ایک آدمی کے پاس بہت مال ہے جس میں سے اُس نے صرف ایک لاکھ نکالا اور اللہ کی راہ میں دے دیا۔ جبکہ دوسرا آدمی ہے جس کے پاس دو درہم کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ اس نے ایک درہم لیا اور اسے (راہِ خدا میں) خرچ کر دیا، گویا کہ اس نے اپنا نصف مال دے دیا‘‘۔ (رواہ النسائی والحاکم و صحیح)
لہٰذا اسلام عمل صالح کی کسی بھی مقدار کو حقیر نہیں جانتا، اگرچہ اس کا حجم کم تر ہی کیوں نہ ہو یا اس کی ساخت چھوٹی ہی کیوں نہ ہو اور تعداد قلیل ہی کیوں نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ تو یہ فیصلہ دے رہا ہے کہ اس کے ہاں ذرّے اور رائی کے دانے کے برابر بھی بھلائی کا عمل ضائع نہیں ہوتا۔ اللہ کے ہاں تو یہ دیکھا جاتا ہے کہ عمل کے ساتھ روح و باطن کی کیفیت اور نیت کیا ہے۔ یہی بات قرآن کریم نے صراحت کے ساتھ یوں بیان کر دی ہے:
’’اللہ کسی پر ذرّہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا۔ اگر کوئی ایک نیکی کرے تو اللہ اُسے دوچند کرتا ہے اور پھر اپنی طرف سے بڑا اجر عطا فرماتا ہے‘‘۔ (النساء:۴۰)
مزید ارشادِ باری ہے:
فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَّرَہُo
’’پھر جس نے ذرّہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا‘‘۔ (الزلزال:۷)
’’قیامت کے روز ہم ٹھیک ٹھیک تولنے والے ترازو رکھ دیں گے، پھر کسی شخص پر ذرّہ برابر ظلم نہ ہوگا۔ جس کا رائی کے دانے برابر بھی کچھ کیا دھرا ہوگا، وہ ہم سامنے لے آئیں گے۔ اور حساب لگانے کے لیے ہم کافی ہیں‘‘۔ (الانبیاء:۴۷)
آخری بات
ان صفحات اور اپنی گزارشات کے اختتام پر ہم ایک مرتبہ پھر اپنے اصلی سوال کی طرف لوٹتے ہیں کہ خلل کہاں ہے؟ واپس جاکر اور جواب کو مختصر کرتے ہوئے ہم کہیں گے کہ:
خلل دراصل عمومی اور شمولی نوعیت کا ہے۔ ذمہ داری سب پر منقسم ہے، اگرچہ اس ذمہ داری کی مقدار کم و بیش ہے۔ خلل صرف تحریکِ اسلامی ہی میں نہیں ہے، بلکہ پوری اُمتِ مسلمہ اس میں مبتلا ہے۔
اگر آپ اجازت دیں تو ہم ذرا صراحت کے ساتھ یوں کہیں گے کہ خلل دراصل ہم سب کے اندر موجود ہے، ہمارے نفس میں ہے جو ہمارے پہلوئوں کے اندر موجود ہے، ہماری اپنی ذات میں موجود ہے جس سے ہم محبت کرتے اور اس کے گرد یوں طواف کرتے ہیں جیسے کوئی بت پرست بت کے گرد گھومتا ہے۔ خلل ہماری اس جان میں ہے جس کو بچانے پر ہم پورا زور لگاتے ہیں اور تمام ذمہ داریاں دوسروں پر ڈالتے ہوئے اپنی جان چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم میں سے ہر ایک اپنے بھائی کی آنکھ میں تنکا دیکھ لیتا ہے جب کہ اپنی آنکھ میں پڑی ہوئی لکڑی بھی اسے نظر نہیں آتی!!
بے شک خلل ہم سب میں ہے، کیونکہ ہم سب کا مطالبہ ہے کہ ہمارے علاوہ سب مسلمان کام کریں، لیکن ہم فارغ رہیں۔ سب جہاد فی سبیل اللہ کریں لیکن ہم بیٹھے رہیں۔ سب انفاق فی سبیل اللہ کریں، لیکن ہم کنجوسی کریں۔ سب قربانیاں دیں، لیکن ہم تماشا دیکھتے رہیں!!
خلل ہم سب میں ہے، کیونکہ ہم سب اللہ پر ایمان رکھتے ہیں، لیکن اللہ کا کوئی حکم ماننے کے لیے تیار نہیں۔ سب اللہ کے رسولﷺ سے محبت کرتے ہیں، لیکن رسول اللہﷺ کے طریقے پر چلنا نہیں چاہتے۔ سب جنت میں جانا چاہتے ہیں، لیکن اس کے حصول کے لیے کوشش نہیں کرتے۔ سب آگ سے بچنا چاہتے ہیں، لیکن راستے جہنمیوں کے اختیار کیے ہوئے ہیں۔ سب اسلام سے اپنی نسبت جوڑنے میں فخر محسوس کرتے ہیں، لیکن اسلام کی نصرت کے لیے عمل نہیں کرتے۔
پس شادمانی اور بشارت ہو اس کے لیے جس نے اصلاح کا آغاز اپنے نفس سے کیا، پھر دوسروں کو دعوت دی، اور اپنا ہاتھ اس شخص کے ہاتھ میں دیا جو کسی بھی شکل میں اہل خیر و بھلائی میں سے ہے۔ جو اپنے آج سے تنگ دل اور کل سے مایوس نہیں ہے۔ جو اپنے نفس پر اعتماد کرتا ہے، اپنے دین پر فخر اور رب پر ایمان رکھنے والا ہے۔ جو اس نصرتِ الٰہی سے پرامید ہے جس کا وعدہ اہل ایمان سے کیا گیا ہے۔
کیا اس خلل کا علاج ممکن ہے؟
اس کے باوجود کہ خلل کا دہانہ اور شگاف بہت چوڑا ہو چکا ہے، لیکن اسے بند کرنا اب بھی ممکن ہے۔ ہمارے لیے فتح کی امیدوں کے اسباب و عوامل، یاس و قنوطیت سے زیادہ روشن ہیں۔
مستقبل کے حوالے سے ہماری توقعات کو جو چیزیں سہارا اور تقویت فراہم کر سکتی ہیں وہ کچھ یوں ہیں:
۱۔ ہمارے ساتھ وہ ’’حق‘‘ ہے جس کے بَل پر زمین و آسمان قائم ہوئے۔ جس حق کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اپنا آخری پیغمبرﷺ بھیجا، جس کے ساتھ اپنی آخری کتاب بھیجی، جس میں فرد کے لیے ہدایت، خاندان کے لیے سعادت، معاشرے کے لیے مضبوطی اور انسانیت کے لیے بھلائی ہے۔
۲۔ ہمارے ساتھ اسلام کی ’’فطرت‘‘ ہے، جس فطرت پر اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو پیدا کیا، جس فطرت کی طرف روزانہ لوگوں کی بڑی تعداد لوٹ لوٹ کر آتی ہے، گمراہی کے بعد ہدایت حاصل کرتی اور گناہ کے بعد تائب ہوتی، فکر اور سلوک میں انحراف کے بعد استقامت اختیار کرتی، غفلت اور لمبی تان کر سونے کے بعد ہوش میں آتی ہے۔ یہ گروہوں کے گروہ روز بروز لوٹ لوٹ کر اسلام کی کشتی میں سوار ہوتے جاتے ہیں۔
۳۔ ہمارے ساتھ ’’امت اسلامیہ‘‘ کے وہ طبقات ہیں جنہیں اسلام نے ایک لڑی میں پرو کر رکھ دیا ہے۔ اور اب ان شعوب کے نزدیک دینِ اسلامی عقلی، سیاسی اور اجتماعی زندگی کے لیے جزو لاینفک بن چکاہے۔ ان کے لیے زندگی اور اپنی ذات کی بقا اسلام کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ انہیں کوئی طاقت اتنا متحرک نہیں کرسکتی جتنا کلمۂ اسلام کر سکتا ہے۔ ان اسلامی شعوب اور گروہوں کو بیرونی طاقتوں نے رام کرنے کی بڑی کوششیں کیں اور ان پر اپنے مختلف نظام نافذ کر کے بھی دیکھا (مشرق میں بھی اور مغرب میں بھی)، لیکن ان کی تمام امیدوں پر پانی پھر گیا۔ آخر کار اسلام کے علاوہ کوئی ایسا حل کارگر نہ ہوسکا جو انہیں نجات دے سکے، جو انہیں مطمئن کر سکے۔
۴۔ ہمارے ساتھ انسانی ’’مصلحت اور بھلائی‘‘ ہے۔ جس انسانیت کو مختلف بشری فلسفوں، نظریوں اور زمینی نظاموں نے بدحال و مجروح کر دیا اور اس کی سعادت اور کامیابی کو ہدایتِ سماوی کے علاوہ کوئی نہ لوٹا سکا۔ انسانی نظاموں میں کوئی نظام بھی ایسا نہیں جو صاف اور بے آمیز ہو، ماسوائے پیغام محمدﷺ کے جو انہوں نے خالقِ کائنات سے لیا ہے۔ جس میں کسی طرف سے بھی باطل کا داخلہ نہیں ہوسکتا، نہ سامنے سے نہ پیچھے ہے۔
۵۔ ہمارے پاس سب سے پہلے اور بعدہٗ اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی تائید و نصرت ہے جس نے اپنی مدد کا وعدہ کر رکھا ہے۔ اور اس کا وعدہ یہ ہے کہ وہ اپنا دین تمام ادیان پر غالب کر کے چھوڑے گا، چاہے مشرکوں اور کافروں کو ناگوار ہی کیوں نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ کا نور، یعنی دینِ حق مکمل ہو کر رہے گا، چاہے چالیں چلنے والے ایڑی چوٹی کا زور ہی کیوں نہ لگا دیں:
’’یہ لوگ چاہتے ہیں کہ اللہ کی روشنی کو اپنی پھونکوں سے بجھا دیں۔ مگر اللہ اپنی روشنی کو مکمل کیے بغیر ماننے والا نہیں ہے، خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔ وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسولﷺ کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے پوری جنسِ دین پر غالب کردے، خواہ مشرکوں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو‘‘۔ (التوبہ:۳۲۔۳۳)
☼☼☼
Leave a Reply