
بھارتی دارالحکومت نئی دہلی کے آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز میں زیر علاج آٹھ سالہ آصف کو بہلانے، اس کا دھیان بٹانے اور نْورِ بصارت کے بغیر زندگی گزارنے کی تیاری کروانے کے لیے اس کے والد عبدالرشید جب بچے کو صبرکی تلقین کرنے کی باتیں سناتے ہیں، تو شقی القلب انسان بھی خون کے آنسو رونے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ شوپیاں کی ۱۴؍سالہ انشاء کا پورا چہرہ چھلنی ہے۔ پیلٹ گنوں سے شدید مجروح پانچ مریضوں کو سرینگر سے یہاں ریفرکیا گیا ہے۔کانگریس کے نائب صدر راہول گاندھی نے چند روز قبل جب اس ہسپتال کا دورہ کیا تو وارڈ میں اب بینائی سے محروم اور اپنے کنبے کے واحد کفیل سوپورکے آٹو ڈرائیور ۲۵ سالہ فردوس احمد ان کو بتارہے تھے کہ ’’کشمیر میں اس جیسے سیکڑوں افراد مصیبت میں مبتلا ہیں۔ وہ آنکھوں کے نور سے محروم ہے تو کیا ہوا، اگر اس کی بینائی سے محرومی بھارت کے سیاسی رہنماؤں کی آنکھیں کھول دیتی ہے تو یہ سودا برا نہیں‘‘۔ اس صابر نوجوان کے سوال پر کانگریسی لیڈر گردن جھکا کر چلے گئے۔ بھارت کے امراض چشم کے معروف ترین سرجن ڈاکٹر ایس نٹراجن کے مطابق اس طرح کے کیسزکے ساتھ ان کا واسطہ پہلی بار پڑا ہے۔ دنیا کے کسی بھی جنگ زدہ خطے میں اس طرح کے واقعات دیکھنے میں نہیں آتے۔
جموں کشمیر ہائیکورٹ کے سابق جج جسٹس حسنین مسعودی کے مطابق سرینگر کے صدر اسپتال میں امراض چشم کا وارڈ اس وقت کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہیں کیونکہ بیشتر زخمیوں کو کئی بار جراحی کے عمل سے گزرکر بھی نور بصارت واپس ملنے کی امید بہت کم ہے۔ وارڈ نمبر۸ کا منظر کسی بھی ہاررفلم سے کم نہیں، جہاں مضروب نوجوان اپنی آہٹ اور پرچھائیوں سے بھی خوف محسوس کرتے ہیں۔ وارڈ میں ان دنوں جراحت سے گزرنے والے غیر معمولی مریضوں کی بڑی تعداد زیر علاج ہے۔ بیشتر زیر علاج زخمیوں کو دو بار عمل جراحی سے گزرنا پڑا ہے، تاہم ابھی تک ان کی آنکھوں میں بصارت نہیں لوٹی۔ ایسے مریض بھی ہیں جن کے ساتھ کوئی تیماردار نہیں اور ایسے زخمیوں کی بھی وارڈ میں بھرمار ہے جن کے ساتھ درجنوں تیماردار موجود ہیں۔ بیشتر بستروں پر زیر علاج زخمیوں کی آنکھوں پر پٹیاں بندھی ہیں اور متعدد کی آنکھوں پر سیاہ چشمہ چڑھا ہوا ہے۔ والدین اپنے بچوں کی حالت پر رو رہے ہیں اور ان کا مستقبل تاریک ہونے پر افسردگی کے سمندر میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ جج صاحب کے بقول ہر طرف آنکھوں پر پٹیاں باندھے ہوئے کم عمر بچوں کو دیکھ کر دل خون کے آنسو رونے لگتا ہے۔
قتل وغارت اور آہ و بکا کے اس عالم میں ایک بات باعثِ طمانیت ہے کہ عوام کا انفرادی اور اجتماعی سطح پر جذبہ ایثار و ہمدردی برقرار ہے۔ سیکڑوں جوان اورکئی ایک رضاکار تنظیمیں زخمیوں کی امداد میں مصروف ہیں۔ تیمارداروں کے لیے کھانے پینے کا انتظام ہو رہا ہے۔ سیکڑوں جوانوں نے خون کا عطیہ دیا یا خود کو اس کے لیے رجسٹر کروایا۔ آج کشمیریوں نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ وہ حکومت پر بھروسہ کیے بغیرکسی بھی آفت اور مصیبت کا خود مقابلہ کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔
مجھے یاد ہے کہ ۲۰۱۰ء میں کشمیر ایسی ہی صورت حال سے دوچار تھا کہ اس دوران بھارت کے سینئر صحافیوں کے ہمراہ مجھے اسرائیل اور فلسطین کے دورے کا موقع ملا۔ تل ابیب میں اسرائیلی وزیر اعظم کے مشیر ڈیوڈ رائزنر بریفنگ دے رہے تھے۔ وہ اسرائیلی فوج میں اہم عہدیدار رہ چکے تھے، لبنان کی جنگ میں ایک بریگیڈ کی کمان بھی کی تھی، اس کے علاوہ انتفاضہ کے دوران بھی فوج اور پولیس میں اہم عہدوں پر براجمان رہے تھے، اس لیے بھارتی صحافی ان سے یہ جاننے کے لیے بے تاب تھے کہ آخر وہ غیر مسلح فلسطینی مظاہرین سے کیسے نمٹتے ہیں۔ انہوں نے کہا ۱۹۸۷ء کے انتفاضہ کے دوران ان کی آرمی اور پولیس نے پوائنٹ ۴ کے پیلٹ گن استعمال کیے تھے، مگر اس کے نتائج کا تجزیہ کرنے کے بعد ان پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ ان ہتھیاروں کی کھیپ کو اب اسلحہ خانے میں زنگ کھا رہا ہے۔ جس کمپنی نے یہ ہتھیار بنائے، اس نے حکومت کو پیشکش کی تھی کہ وہ پوائنٹ ۹ کے پیلٹ سپلائی کرے گی جو نسبتاً کم خطرناک ہونگے، مگر اس وقت تک اسرائیلی حکومت نے کوئی فیصلہ نہیں کیا تھا۔ رائزنر نے تسلیم کیا کہ مسلح جنگجوؤں کے برعکس مظاہرین سے نمٹنا آسان نہیں ہوتا، خصوصاً جب عالمی میڈیا اس کی رپورٹنگ بھی کر رہا ہو۔ حیرت ہے کہ ہمارے دورے کے چند ماہ بعد ہی یہ ہتھیار جو اسرائیل کے اسلحہ خانوں میں زنگ آلود ہو رہے تھے، کشمیر میں استعمال کرنے کے لیے بھارت کی وزارت داخلہ نے درآمد کر لیے۔
رائزنرنے بتایا تھا کہ انہوں نے ربر سے لپٹی ہوئی اسٹیل کی گولیوں اور بے ہوش کرنے والی گیس کا بھی تجربہ کیا تھا مگر بچوں پر ان کے مہلک اثرات کے سبب ان پر بھی پابندی لگا دی گئی۔ بھارت میں پیلٹ گنوں کے بعد اب ان دونوں ہتھیاروں کے استعمال کی باتیں ہو رہی ہیں۔ اس اسرائیلی افسر نے بھارتی صحافیوں کو ششدر اور رنجیدہ کردیا جب اس نے کشمیر میں تعینات بھارتی فوج کے افسروں کے ’’کارنامے‘‘ سنانے شروع کیے۔ اس نے کہا، بھارتی افسر اس بات پر حیران ہو جاتے ہیں کہ شورش زدہ علاقوں میں مسلح اور غیر مسلح کی تفریق کیوں کی جائے؟ انہوں نے کہا کہ حال ہی میں اسرائیل کے دورے پر آئے ہوئے ایک بھارتی جنرل نے ان کو بتایا کہ کشمیر میں وہ پوری آبادی کوگھیرکرگھروں میں گھس کر تلاشیاں کرتے ہیں کیونکہ ان کے لیے کشمیرکا ہر دروازہ دہشت گردکی پناہ گاہ ہے۔ رائزنر نے کہا، ہم نے بھارتی جنرل کو جواب دیا کہ اسرائیل پوری دنیا میں بدنام سہی مگر اس طرح کے آپریشن اور وہ بھی بغیرکسی انٹیلی جنس کے، ان کی کارروائیوں میں شامل نہیں ہیں۔ رائزنر اسرائیلی وزیر اعظم یہود برک کے اس وفد کے بھی رکن تھے جس نے کیمپ ڈیوڈ میں فلسطینی رہنماؤں کے ساتھ جولائی ۲۰۰۰ء میں گفت و شنید کی تھی۔ اس واقعے کو بیان کرنے کا مقصد کسی بھی طور پر اسرائیلی جرائم کا دفاع کرنا نہیں بلکہ صرف یہ باورکرانا ہے کہ کشمیرکس حد تک عالمی ذرائع ابلاغ میں اور سفارتی سطح پر under reporting کا شکار رہا ہے اور مظالم کی تشہیرکس قدر کم ہوئی ہے۔ رائزنرنے جنرل کا نام تو نہیں لیا مگر کہا کہ ہم نے بھارتی فوجی وفد کو مشورہ دیا کہ عسکری اور غیر عسکری میں تفریق نہ کرکے وہ کشمیر میں صورت حال کو پیچیدہ بنا رہے ہیں۔
دنیا کے دیگر جنگ زدہ خطوں کے برعکس عالمی میڈیا نے بڑی حد تک کشمیرکو نظر اندازکیا ہے۔ اگر رپورٹنگ ہوئی تو بھی دور دراز علاقوں تک رسائی نہ ہوسکی، حتیٰ کہ سرینگر کا میڈیا بھی بیشتر علاقوں میں جانے سے قاصر ہے۔ چند برس قبل بھارت کے ایک معروف کالم نویس اور قانون دان اے جی نورانی کے ہمراہ میں نے جنوبی کشمیر میں لنگیٹ تحصیل کے ایک خوبصورت مقام ریشی واری کا دورہ کیا تھا۔ سرسبز جنگلوں اور پہاڑی نالوں سے پْر اس وادی میں داخل ہوتے ہی تقریباً ۳۰ کلومیٹر تک سڑک سے ملحق سبھی گھروں کی دوسری منزل پر ہمیں فوجی جوان نظر آئے۔ معلوم ہوا کہ گھروں کے مکین تو پہلی منزل پر رہتے ہیں اور دوسر ی منزل فوج کے لیے مخصوص ہے۔ یہاں گاؤں والوں نے پہلی بار میڈیا سے وابستہ افراد کو دیکھا تھا۔ اسی طرح اگر سرینگر کے شیرِکشمیر انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے آرکائیوز کو کھنگالا جائے تو ایسے ہوشربا واقعات کی تفصیلات ملیں گی، جو بقول کئی ڈاکٹروں کے میڈیکل کی تاریخ میں آخری بار صرف جنگ عظیم دوم کے دوران جرمن انٹیلی جنس کے ادارے گسٹاپو کے تفتیشی مراکز میں رپورٹ ہوئے ہیں۔ یہاں ایک فائل عربی کے استاد ۳۷ سالہ مظفر حسن مرزا کی ہے، جس کو اکتوبر ۱۹۹۱ء میں ترال سے گرفتار کیا گیا تھا۔ جب اس کو اسپتال لایا گیا تو اذیتوں کی وجہ سے وہ Rhabdomylosis نامی بیماری کی انتہائی پیچیدہ نوعیت کا شکار ہو چکا تھا۔ اس کے پٹھے مائع میں تحلیل ہوکر پیشاب کے راستے باہر آرہے تھے۔ دوران تفتیش پٹرول سے تر لوہے کی سلاخ اس کی مقعد میں داخل کی گئی تھی جس نے مرزا کی انتڑیوں، معدہ اور پردہ شکم کو چاک کرکے پھیپھڑوں کو بھی نشانہ بنایا تھا۔ اس کا اسپتال میں تین ہفتے بعد انتقال ہو گیا تھا۔کئی غیر ملکی ڈاکٹر جو ایسے کیسزکی اسٹڈی کرنے کئی برس قبل کشمیر وارد ہوئے تھے، ان کا کہنا تھا کہ ۱۹۸۳ء میں بیروت میں اور ۱۹۸۸ء میں آرمینیا میں زلزلوں کے بعد اس طرح کے واقعات محدود تعداد میں دیکھنے میں آئے تھے۔
اس خطے میں ایسی بہت سی کہانیاں منظر عام پر آنے کے لیے تفتیشی صحافیوں اور مصنفیں کی منتظر ہیں۔ ان داستانوں کی محض ایک جھلک بالی ووڈ کی فلم حیدر میں اور ایڈرین لیوی اورکیتھی اسکاٹ کی کتاب ’’دی میڈوز‘‘ میں ملے گی۔ اب وقت آ چکا ہے کہ دو دہائیوں کے دوران پیش آنے والے واقعات سے پردہ اٹھایا جائے۔ یہ بات اب عیاں ہے کہ کشمیر تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہا ہے۔ اس دوران جو نسل تیار ہوئی ہے اس کے زخموں پر مرہم لگانا جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔ میں نے چند سال قبل اپنے ایک کالم میں خبردار کیا تھا کہ کشمیر میں عسکریت دم توڑ رہی ہے مگر یہ خیال کرنا کہ وہاں امن و امان ہوگیا ہے خود کو دھوکہ دینے کے سوا کچھ نہیں۔ بندوقوں کی آوازیں خواہ تھم گئی ہوں مگر جو جنگ دماغوں میں جاری ہے، جو لاوا اندر ہی اندر پک رہا ہے اس کا سد باب کرنا ضروری ہے۔ کشمیر پر چار صدیوں سے طاقت اور خوف کے ذریعے حکومت کی جا رہی ہے۔ ۲۰۰۸ء، ۲۰۱۰ء اور اب ۲۰۱۶ء کے مظاہروں نے یہ باور کرادیا ہے کہ خوف کی نفسیات بڑی حد تک ختم ہوچکی ہے، تاہم طاقت کا زور اب بھی باقی ہے۔ اگر اب بھی حکومتیں اس تبدیلی کو سمجھنے سے قاصر رہیں گی تو یہ خطہ بد ترین عدم استحکام کا شکار ہو جائے گا۔ مسئلہ کشمیرکو حل کرنے کے لیے سنجیدہ ہونا پڑے گا۔ اس کے لیے جمہوریت، رحم دلی اور مفاہمت پر مبنی ایک ماحول تیار کرنا ہوگا۔ علاقے کے بجائے عوام کے بارے میں سوچنا ہوگا۔ اگر اس سمت میں کوئی پیش رفت ہوتی ہے تو خاندان کے اکلوتے کفیل فردوس احمد، جس نے راہول گاندھی کو لاجواب کردیا ہے کی بینائی کی قربانی رائیگاں نہیں ہوگی۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’دنیا‘‘ کراچی۔ ۲؍اگست ۲۰۱۶ء)
Leave a Reply