
ہر انتخاب کے اثرات ہوتے ہیں اور بائیڈن کے جیتنے کے اثرات سب سے زیادہ اسرائیل اور ریاض میں نظر آرہے ہیں، انتخاب جیتنے کے فورا ً بعدبائیڈن نے سعودی ولی عہدمحمد بن سلمان اوراسرائیلی وزیراعظم کو واضح طور پر یہ پیغام دیا کہ ’’ٹرمپ کے دور صدارت کی عیاشی اب ختم ہوچکی ہے‘‘۔
بائیڈن ان دونوں ممالک کے ساتھ تعلقات کو یکسر تبدیل کرنے کی خواہش نہیں رکھتے لیکن وہ ان ریاستوں کے ساتھ خارجہ تعلقات کو متوازن طریقے سے لے کر چلناچاہتے ہیں، ایسا طریقہ جس میں ان دونوں کو امریکی مفادات کو بھی سامنے رکھنا ہوگا۔ ٹرمپ دور کے برعکس اسرائیل اور سعودی عرب کو امریکا کے مفادات کو مد نظررکھتے ہوئے اپنی پالیسی بنانی ہوگی اور امریکی مفادات کا احترام بھی کرنا ہوگا۔ بائیڈن نے واضح طور پر نیتن یاہو اور محمد بن سلمان کو یہ اشارے دینے شروع کر دیے ہیں اوربدلتی صورتحال میں یہ دونوں اس بات پر تشویش کا شکار ہیں کہ بائیڈن کی پالیسی کی ترجیحات میں وہ دونوں کہاں پر کھڑے ہیں۔ وہ یہ بات واضح طور پر محسوس کر رہے ہیں کہ وہ دونوں اب امریکی دلچسپیوں کا مرکز نہیں رہے اور انہیں مستقبل کی پالیسی سازی میں پھونک پھونک کر قدم رکھنا ہوگا، امریکی مفادات سے روگردانی اب ان کے لیے ممکن نہیں ہے۔
بائیڈن جھگڑا نہیں چاہتا لیکن یہ اب سعودی عرب اور اسرائیل پر منحصر ہے کہ بائیڈن ان کے خلاف سخت اقدامات کرے یا نہیں کرے، سخت قدامات کا انحصار بھی ایم بی ایس اوربی بی کی امریکی مفادات کے حق میں پالیسی پر ہے کہ وہ خطے میں امن اور استحکام کے لیے امریکا کی حمایت کریں گے یا اس کے خلاف کھڑے ہوں گے۔
یہ ایک حیرت انگیز حقیقت ہے کہ ٹرمپ نے صدر بنتے ہی اپنا پہلا دورہ مئی ۲۰۱۷ء میں اسرائیل اور سعودی عرب کا کیا تھا۔ ٹرمپ کا دورِ صدارت ان دونوں ممالک کے لیے ’’مفت ہاتھ لگے خزانے‘‘ کی طرح تھا، امریکا کی سیاسی تاریخ میں آج تک ایسا نہیں ہوا کہ امریکا کو استعمال کیا گیا ہو اور بدلے میں اس نے کچھ نہ لیا ہو اور ساتھ ساتھ برے رویے کا بھی سامنا ہو۔
امریکا کے مفادات کا خیال رکھے بغیر اسرائیل کو ہر طرح کی رعایت دی گئی، ٹرمپ نے ایران کو دباؤ میں لینے کے لیے ایک منظم تحریک شروع کی یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرتے ہوئے وہاں امریکی سفارت خانہ کھول لیا، اسرائیل کے توسیعی منصوبے پر آنکھیں بند رکھیں، گولان ہائیٹس پر اسرائیل کے قبضے کو تسلیم کیا، فلسطین کے ساتھ بات چیت کے لیے امن منصوبہ جاری کیا گیالیکن اس سے پہلے ہی ۳۰ فیصد مغربی کنارے پر اسرائیل کے حق کو تسلیم کیاگیا اس وجہ سے امریکا اور فلسطین کے درمیان سفارتی تعلقات خراب ہوئے، فلسطینیوں کو دی جانے والی امریکی امداد میں کمی کی گئی سب سے زیادہ اہمیت اس بات کو دی گئی کہ کس طرح اسرائیل کے ساتھ تعلقات مضبوط بنائے جائیں، کس طرح خلیجی ممالک اور عرب ریاستوں کے ساتھ سفارتی تعلقات بڑھائے جائیں۔
سعودی ریاست بھی ٹرمپ انتظامیہ کی موجودگی میں بہت تیزی سے اپنے منصوبوں پر کام کر رہی تھی، ٹرمپ نے انہیں ہر طرح کی آزادی دے رکھی تھی انہیں یمن میں جنگی مہم جوئی اور تباہی کی مکمل آزادی تھی، اس کے علاوہ امریکی افواج یمن میں سعودی آپریشن کے دوران ہر طرح کی امداد اور تعاون میں پیش پیش رہتے تھے۔محمد بن سلمان نے سعودی عرب میں اپنے شہریوں پرجو ظلم کیااسے چھپانے میں امریکا نہ صرف پیش پیش رہا بلکہ امریکا نے محمد بن سلمان کی جمال خاشقجی کے قتل میں بھی پشت پناہی کی، ہتھیاروں کی خریدوفروخت کے معاملے میں کانگریس کے اعتراضات کا بھی بھرپور جواب دیا۔
اگرچہ ٹرمپ نے اپنی خارجہ پالیسی کی ترجیحات میں اسرائیل اور سعودی عرب کو سب سے اوپر رکھا ہواتھا لیکن بائیڈن نے انہیں اپنی ترجیحات میں نیچے رکھا ہوا ہے، بائیڈن نے نیتن یاہو کو کال کرنے میں بہت دیر کردی، اپنی صدارت سنبھالنے کے ایک مہینے بعد بائیڈن نے نیتن یاہو کو فون کیا جب کہ ٹرمپ نے تیسری کال ہی نیتن یاہو کوکی تھی اور سابق صدر اوباما پہلے دن ہی ایہود المرٹ سے ملے تھے۔ دیر سے فون کرناتعلقات میں دوری کا سبب نہیں بنتا لیکن بائیڈن نے ایسا کر کے بہرحال ایک پیغام دیاہے کہ میں امریکا کے اندرونی معاملات میں مصروف ہوں اور مشرق وسطیٰ میری ترجیحات میں شامل نہیں ہے، میں اسرائیل کا حامی ہوں لیکن ضروری نہیں کہ میں صدر نیتن یاہو کا بھی حامی ہوں !
جوبائیڈن امریکا اور سعودی عرب کے درمیان بھی فاصلہ چاہتا ہے، بائیڈن نے انتخابی مہم کے دوران سخت لفظوں میں سعودی ریاست کی سفاکانہ مہم جوئی کو واضح کیا تھا، سعودی ریاست کو اس نے ایک ناپسندیدہ قوم کہا جہاں انسانی حقوق پامال ہوتے ہیں اور یمن میں بمباری کر کے سعودی عرب نے امریکا سے کیا معاہدہ توڑا تو بائیڈن نے سعودی عرب کی امداد بھی بند کردی۔ بائیڈن کے حلف کے ایک دن بعد ہی امریکا یمن کے سلسلے میں سعودی عرب کو دی جانے والی امداد روک دی اور اس بات پر زور دیا کہ سعودی ریاست یمن کے معاملے میں نظرثانی کرے، محمد بن سلمان کی سخت گیر شخصیت سے امریکا نے مکمل ناراضی کا اظہار کیا ہے اور وائٹ ہاؤس کے ترجمان نے یہ کہا ہے کہ بائیڈن محمد بن سلمان سے بات کرنے کے بجائے اپنے ہم منصب شاہ سلمان سے بات کریں گے۔
بائیڈن نے ایک واضح پیغام بھیجا ہے کہ ہم دوست رہ سکتے ہیں لیکن ہمارے تعلقات کی بنیاد امریکا کے مفادات سے جڑی ہیں۔ ملکی مسائل اور دوسری خارجہ پالیسیاں اس وقت میری ترجیحات میں شامل ہیں، میرے پاس دوسرے ملکوں کے مسائل کے حل کے لیے وقت نہیں ہے۔ اگر خطہ میں امریکا کے لیے مشکلات کھڑی کی گئیں تو ہمارے درمیان معاملات پیچیدہ ہوجائیں گے۔
بائیڈن کے انتہائی اشاروں کا مطلب یہ نہیں کہ بائیڈن سنجیدگی سے سعودی عرب اور اسرائیل سے تعلقات کو مستقل بنیادوں پر تبدیل کردے گا بلکہ وہ اپنے سخت رویے کی وجہ سے یروشلم اور ریاض کو یہ پیغام دینا چاہ رہا ہے کہ ہمیں معاملات کو تبدیل کرنے کی نہیں بلکہ درست سمت میں لے جانے کی ضرورت ہے اور اپنی بات منوانے کے لیے بائیڈن کو مضبوط قوت ارادی اور خود اعتمادی کی ضرورت ہے۔
اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں اس بات پر خاص توجہ دی جائے گی کہ اسرائیل سے فلسطین کے معاملے میں اقدامات کا جواب مانگا جائے اور امریکا کے مفادات کا بھی حساب رکھا جائے کہ امریکا نے جو اس کی مدد کی تو اسرائیل کتنا امریکی امیدوں پر پورا اترا اور کتنا اس نے اسے نظر انداز کیا۔
جوبائیڈن اسرائیل فلسطین تنازع کے لیے ایک جامع معاہدہ چاہتا ہے، جس میں سرحدوں پر تعمیرات کو روکا جائے گا اور اسرائیل کو ۱۹۶۷ء کی سرحدوں تک لایا جائے گا، جس میں مشرقی یروشلم بھی شامل ہے جو بین الاقوامی نقطۂ نظر میں غیرقانونی ہے۔ امریکا اقوام متحدہ کے اندریا کسی بھی بین الاقوامی ادارے میں اسرائیل کی سرگرمیوں سے متعلق اب اسرائیل کا دفاع نہیں کرے گا۔ امریکا اس بات پر زور دے گا اور اسے یقینی بنائے گا کہ امریکی حکومت کے فنڈ کو آبادکاری یا اتحادیوں کی نگرانی کے مکینزم کے لیے استعمال نہیں کیا جائے گا۔ بائیڈن یہ بھی واضح کرچکا ہے کہ متنازع علاقے پر اسرائیل کی جانب سے کی جانے والی پیش بندی کے نتائج خطرناک ہوں گے، جس میں امریکا امداد سے ہاتھ روک لے گا اور اسرائیل کو تسلیم کیے جانے کے موقف پر بھی نظرثانی کی جائے گی۔
ایران اور امریکا کے درمیان نیوکلیئر معاہدے کو اگر سعودی عرب نے غیر مؤثر بنانے کی کوشش کی تو بائیڈن کے پاس سعودی عرب کو قابو میں کرنے کے بہت سے راستے موجود ہیں ان میں محمد بن سلمان پرپابندی لگانا بھی شامل ہے، اس کے کرائے کے قاتلوں اور خاشقجی کے قتل کے بارے میں چھپائے گئے حقائق کے انکشافات کی دھمکی کے ذریعے بھی محمد بن سلمان کو قابو میں رکھا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ مستقل بنیادوں پر محمد بن سلمان سے رابطہ ختم کرنا، یہ واضح کرتا ہے کہ امریکا بین الاقوامی عدالت میں یمن جنگ کے ذمہ دار سعودی عرب کو لانے والے دوسرے ممالک کی راہ میں کھڑا نہیں ہوگا، سعودی عرب میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے لیے مہم جوئی، اسلحے کی خریدو فروخت میں رکاوٹ، امریکی سفیر کو سعودی عرب سے واپس بلانا، سعودی عرب کو سفارتی سطح پر ناپسندیدہ بنانا، کاربن کے اخراج پر سعودی عوام کا حکومت پر دباؤ ڈالنا، علاقائی تحفظ کے لیے سعودی عرب پر دباؤ ڈال کر ایران کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بٹھانا بھی شامل ہیں۔
(ترجمہ: سمیہ اختر)
“How Biden will end the Trump sugar high for Israel and Saudi Arabia”.(“politico.com”. February 22, 2021)
Leave a Reply